حمزہ بن عبد المطلب

ویکی شیعہ سے
(حمزة بن عبدالمطلب سے رجوع مکرر)
حمزہ سید الشہداء
سوانح حیات
مکمل نامحَمزةُ بن عَبدالمُطَّلِب
لقبسیدالشہداء
میلاد/مولددو یا چار سال قبل از عام الفیل؛ مکہ
مسکنمکہ اور مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسبقریشی
نامور اقرباءعبد المطلب، ابو طالب، پیغمبر اکرمؐ، امیرالمؤمنینؑ
وفات/شہادت15 شوال سنہ 3ه‍؛ منطقۂ احد
کیفیت وفات/شہادتجبیر بن مطعم کے غلام"وحشی" کے ہاتھوں
مدفنمنطقہ احد
دینی معلومات
قبول اسلام کا وقتسنہ 2 یا 6 بعد از بعثت
قبول اسلام کی کیفیتپوری آگہی کے ساتھ مسلمان ہوئے
جنگوں میں شرکتاحد میں وقت شہادت تک کی تمام جنگوں میں شریک ہوئے
ہجرت بسوئےمدینہ
کردار
شہید غزوہ احد

حَمزہ بن عَبد المُطَّلِب، اسد اللہ، اسد رسول اللهؐ اور سید الشہداء کے لقب سے مشہور، پیغمبر اکرمؐ کے چچا اور جنگ اُحُد کے شہداء میں سے ہیں۔ حمزہ رسول اکرمؐ کی دعوت رسالت کے اہم حامیوں میں سے تھے اور مروی ہے کہ آپ قبول اسلام سے پہلے بھی مشرکین کے مقابلے میں رسول خداؐ کی حمایت کرتے تھے۔ آپ قریش کے ز‏عماء میں سے تھے اسی وجہ سے آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد قریش کی طرف سے رسول اللہؐ پر ہونے والے آزار و اذيت میں کمی آگئی۔

حمزہ شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے جنگ بدر و جنگ احد میں شرکت کی اور جنگ احد سنہ 3 ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔

ولادت کا زمانہ

اس روایت کے مطابق جس میں ذکر ہوا ہے کہ کنیز ابو لہب ثوبیہ نے پیغمبر اکرم (ص) اور حمزہ کو دودھ پلایا ہے[1] اور آنحضرت کی طرف سے اس بات کی تاکید کہ حمزہ ان کے رضائی بھائی ہیں۔[2] حمزہ آنحضرت سے زیادہ سے زیادہ دو سال بڑے ہو سکتے ہیں۔ بعض نے عمر کے اس اختلاف کو چار سال تک بھی ذکر کیا ہے۔[3] البتہ اس بات کے پیش نظر کہ بعض محققین نے ثوبیہ کے آنحضرت کو دودھ پلانے کے بارے میں تردید کا اظہار کیا ہے،[4] عمر کی یہ مدت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ بطور کلی احتمالا ان کی ولادت (رسول خدا کی ولادت) سن عام الفیل سے دو یا چار سال قبل ہوئی ہے۔

نام، کنیت و لقب

حمزہ بن عبد المطلب، رسول خدا (ص) کے چچا اور شہدائے احد میں سے ہیں۔ آپ کی کنیت ابو عُمارہ و ابو یعْلی ہے۔[5] آپ کی والدہ ہالہ بنت اُہَیب (وُہَیب) بن عبد مَناف بن زُہرہ تھیں۔[6] حمزہ کے معنی شیر[7] یا تیز فہم[8] کے ہیں۔

انہیں "اسد اللہ" اور "اسدُ رسولِ اللہ" جیسے القاب دیئے گئے ہیں۔[9] ان کی شہادت کے بعد حضرت جبرئیل نے رسول خدا کے ذریعہ یہ لقب عطا کئے۔[10] ان کے مہم ترین القاب میں سے ایک سید الشہداء ہے۔[11] شہید مرتضی مطہری لقب سید الشہداء کو حضرت حمزہ کے لئے مقید اور امام حسین علیہ السلام کے لئے مطلق مانتے ہیں اور اس تاریخی نکتہ پر تاکید کرتے ہیں کہ یہ لقب عاشورا سے پہلے تک حمزہ کے لئے مخصوص تھا لیکن عاشورا کے بعد یہ امام حسین (ع) کا لقب بن گیا۔ حمزہ اپنے زمانہ کے سید الشہداء ہیں لیکن امام حسین (ع) ہر زمانے کے سید الشہداء ہیں۔ جس طرح سے حضرت مریم اپنے زمانے کی خواتین کی سردار ہیں لیکن حضرت فاطمہ زہرا (س) تمام زمانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔[12] ملا صالح مازندرانی نے اسی نظریہ کو مرتضی مطہری سے پہلے پیش کیا ہے۔[13]

اولاد

حمزہ کے تین بیٹے عمارہ، یعلی و عامر تھے۔[14] عمارہ (ان کے بڑے فرزند) فتح عراق میں شامل تھے۔[15] یعلی کے پانچ بیٹے تھے۔[16] منابع میں اس بات کی تاکید کہ ان کی نسل کا سلسلہ آگے نہیں بڑھا،[17] دسویں صدی ہجری میں بعض افراد کو ان کی نسل سے شمار کیا گیا ہے۔[18]

ان کی بیٹیوں کے مختلف نام منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ منابع کی صراحت کے مطابق وہ سب ایک ہی بیٹی کے نام ہیں۔ وہ نام مرجح یا امامہ ہے۔[19] امامہ کے نام کا تذکرہ حدیث غدیر خم کے رایوں میں بھی درج ہوا ہے۔[20]

قبل از اسلام

حمزہ جنگ فِجار اور حلف الفضول میں شریک تھے۔ وہ ابو طالب اور دیگر اعمام کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا رشتہ مانگنے کی رسم میں حاضر تھے؛ حتی کہ بعض مآخذ میں ہے کہ گو کہ حمزء رسول اللہؐ کے ساتھ عمر کے لحاظ سے تھوڑا سا فرق رکھتے تھے اور ابھی نوجوان تھے اور خطبۂ نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھا لیکن خدیجہ کبری کا رشتہ مانگنے کی رسم میں حمزہ کا نام بھی مذکور ہے۔[21]

ایک سال مکہ میں قحط پڑا اور لوگوں کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، تو رسول اللہؐ نے اپنے کثیر العیال چچا ابو طالبؑ کی مدد کی تجویز دی تو حمزہ نے جعفر کی سرپرستی قبول کی اور انہیں گھر لے گئے۔[22] (طبری کا کہنا ہے کہ جعفر کی سرپرستی عباس نے قبول کی تھی)۔[23]

حمزہ شکاری تھے اور شکار کیا کرتے تھے۔[24] دوران جاہلیت وہ عبد المطلب کے فرزندوں میں سے ایک تھے جنہوں نے قریش میں زعامت پائی اور اس قدر بلند مرتبہ تھے کہ بعض لوگ ان کے ساتھ معاہدے منعقد کرتے تھے۔[25]

بعد از اسلام

جس دن رسول اللہؐ نے اپنے اقرباء اور اہل خاندان کو دعوت اسلام کی غرض سے چچا ابو طالب کے گھر آنے کی دعوت دی، حمزہ بھی موجود تھے۔[26]

حمزہ حتی کہ اظہار اسلام سے قبل ابوطالب کی طرح مشرکین کے آزار و اذیت سے آپؐ کی حمایت کرتے تھے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق رسول اللہؐ کی شان میں ابو لہب اور دوسرے مشرکین کی توہین اور گستاخی کا جواب دیا کرتے تھے۔[27]۔[28]

قبول اسلام

گیارھویں صدی ہجری میں لکھی گئی کتاب سیرت النبی میں حمزہ کے ایمان لانے کی منظرکشی، یہ کتاب عثمانی حاکم سلطان مراد سوم کے حکم سے سید سلیمان کسیم پاشا نے تالیف کی۔

ایک دن ابو جہل کوہ صفا کے قریب رسول اللہؐ کے سامنے آيا اور نازیبا الفاظ کہہ کر آپؐ کی شان میں گستاخی کی۔ رسول اللہؐ نے ابو جہل کو جواب نہیں دیا۔ ایک کنیز بھی اس واقعے کی گواہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد حمزہ شکار سے واپس مکہ آئے۔ حمزہ کا معمول یہ تھا کہ شکار سے واپسی پر کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اس کے بعد قریش کے اجتماعات میں جاتے اور ان سے بات چیت کرتے تھے۔ قریش حمزہ کی شجاعت کے باعث ان سے محبت کرتے تھے۔ حمزہ اپنے معمول کے مطابق جانے پہچانے افراد کے ساتھ دیدار میں مصروف تھے کہ وہ کنیز ان کے قریب آئی اور کہا: "آپ یہاں موجود نہ تھے کہ دیکھتے ابو جہل نے محمدؐ سے کیا کہا!" حمزہ فوری طور ابو جہل کے قریب پہنچے جو مسجد الحرام میں لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا اور اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری اور ابو جہل شدید زخمی ہوا۔ حمزہ نے کہا: "تو محمد کو گالیاں دیتا ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ میں نے آپؐ کا دین اختیار کیا ہے؛ وہ جو بھی کہیں میں بھی وہی کہتا ہوں"۔ بنو مخزوم نے ابو جہل کی مدد کا ارادہ کیا لیکن اس نے کہا: حمزہ کو جانے دو کیونکہ میں نے ان کے بھتیجے کو ناخوشایند گالی دی ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں حمزہ مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوئے۔ قریش نے دیکھا کہ محمدؐ کو حمزہ جیسے جوانمرد کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے اور کسی بھی منصوبے کے مقابلے میں آپؐ کی حفاظت کریں گا تو ان کی ریشہ دوانیوں میں کافی حد تک کمی آئی۔[29]

امام سجادؑ سے منقول حدیث کے مطابق مشرکین نے رسول اللہؐ کے سر پر اونٹنی کی بچہ دانی پھینکی تو اس واقعے میں حمزہ کی غیرت ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔[30] تاہم بعض محققین نے مستند اور مدلل انداز سے لکھا ہے کہ حمزہ کا اسلام ابتداء سے ہی آگہی اور شناخت پر استوار تھا۔[31]

حمزہ بن عبدالمطلب بعثت کے دوسرے یا چھٹے سال میں ابو ذر کے اسلام لانے سے قبل مسلمان ہوئے۔[32] حمزہ کا قبول اسلام ان کے اعزاء و اقارب کے قبول اسلام میں مؤثر تھا۔[33]

حمزہ کے قبول اسلام سے لے کر ہجرت تک کے حالات زندگی کے حوالے سے بہت کم معلومات تاریخ میں دستیاب ہیں؛ بس اتنا معلوم ہے کہ رسول اللہؐ نے اعلانیہ دعوت کا آغاز کیا تو حمزہ نے بھی اعلانیہ دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا۔[34] وہ رسول اللہؐ کے ساتھ رہے اور حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی۔[35] مشرکین نے شعب ابی طالب میں بنی ہاشم اور بنی المطلب کی ناکہ بندی کی تو مسلمین کے ساتھ شعب میں تھے۔[36] بعثت کے بارہویں سال دوسری بیعت عقبہ میں مدینہ کے بعض افراد نے رسول خداؐ کے ساتھ بیعت کی تو حمزہ اور علیؑ موجود تھے اور نگرانی کر رہے تھے کہ کہیں مشرکین قریب نہ آئیں۔[37]

ہجرت مدینہ

حمزہ مکہ میں مواخات کے دوران زید بن حارثہ کے بھائی بنے اور یوم احد بھی ان ہی کو اپنا وصی قرار دیا۔[38]۔[39] مدینہ میں مسلمانوں کے درمیان عہد اخوت کے دوران کلثوم بن ہدم کے بھائی بنے۔[40]

پیغمبر اکرمؐ نے سب سے رمضان سنہ 1 ہجری میں جنگ کا سب سے پہلا پرچم حمزہ کے لئے باندھا تاکہ وہ شام سے پلٹنے والے قریش کے کاروان تجارت کا راستہ روکنے کے لئے سریے کی قیادت کریں۔ حمزہ مہاجرین کے 30 سواروں کے ہمراہ ساحل سمندر پر واقع "عیص" نامی علاقے تک آگے بڑھے اور وہاں انہیں ابو جہل کی سرکردگی میں 300 سواروں کا سامنا کرنا پڑا۔ مجدی بن عمرو جہنی نامی شخص ـ جس نے دونوں فریقوں کے ساتھ امن کا معاہدہ منعقد کیا تھا ـ کی وساطت سے کوئی جھڑپ نہیں ہوئی اور فریقین لڑے بغیر واپس چلے گئے۔[41] حمزہ مختلف غزوات ـ جیسے غزوہ ابواء، غزوہ ذوالعشیرہ اور غزوہ بنی قینقاع میں رسول خداؐ کے لشکر کے علم بردار تھے۔[42]

غزوہ بدر میں حمزہ سپاہ اسلام کی صف اول میں تعینات تھے[43] اور رسول خداؐ نے انہیں، علیؑ اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کو مشرکین کے چند سرغنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا۔ مختلف روایات کے مطابق عتبہ بن ربیعہ یا شیبہ حمزہ کے ساتھ دو بدو لڑائی میں مارے گئے۔[44]

سد ابواب کے واقعے میں حمزہ کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔ گویا حمزہ ان افراد میں سے تھے جن کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ رسول خداؐ نے حکم دیا کہ علیؑ کے گھر کے سوا دوسرے تمام گھروں کے دروازے بند کئے جائیں تو حمزہ نے بھی اس کا سبب پوچھا اور رسول خداؐ نے اس عمل کو اللہ کے ایک حکم کا نتیجہ قرار دیا۔[45] اگرچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا کہ گویا سد ابواب کا واقعہ فتح مکہ کے بعد رونما ہوا لیکن اول الذکر قول کو ترجیح حاصل ہے۔[46]

سنہ 3 ہجری میں غزوہ احد سے قبل، حمزہ ان لوگوں میں شامل تھے جو مدینہ سے باہر دشمن کا سامنا کرنے کے حق میں تھے؛ یہاں تک کہ انھوں نے قسم اٹھائی کہ جب تک مدینہ سے باہر دشمن کے ساتھ دو دو ہاتھ نہ کریں گے کچھ بھی نہیں کھائیں گے۔ وہ سپاہ اسلام کے قلب کے امیر تھے اور دو تلواروں سے لڑرہے تھے اور اس جنگ میں انھوں نے عدیم المثال شجاعت کے جوہر دکھائے۔[47]

شہادت

غزوہ احد 15 شوال سنہ 3 ہجری (بمطابق 23 مارچ سنہ 625 ء) میں واقع ہوا اور اس جنگ میں حمزہ حارث بن عامر بن نوفل کی بیٹی کے غلام یا جبیر بن مطعم کے غلام "وحشی بن حرب" کے ہاتھوں شہید ہوئے۔[48]

ایک روایت کے مطابق حارث کی بیٹی نے وحشی کو آزادی کا وعدہ دیا اور اس کے عوض اس کو حکم دیا کہ اس کے باپ کے بدلے کے طور پر جو جنگ بدر میں مارا گیا تھا، محمدؐ، یا حمزہ یا علیؑ کو قتل کرے۔[49] ایک روایت یہ بھی کہ جبیر بن مطعم نے اس کو آزادی کا وعدہ دیا اور کہا کہ اس کے چچا طعیمہ بن عدی کا انتقام لے جو جنگ بدر میں مارا گیا تھا؛[50] تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہند بن عتبہ جو ابو سفیان کی بیوی تھی کا باپ، بھائی اور چچا غزوہ بدر میں مارے گئے تھے اور بدلہ لینے کے محرکات بنت حارث اور جیبر کی نسبت اس کے ہاں کچھ زيادہ ہی تھے۔ بعض روایات میں منقول ہے کہ ہند نے ابتداء ہی سے وحشی کو مال و دولت کا وعدہ دے کر اس کو اس جرم کے ارتکاب پر اکسایا تھا۔[51]

بدن کا مثلہ ہونا

حمزہ اور شہدائے احد کی موجودہ قبریں
حمزہ اور شہدائے احد کا مزار، وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہونے سے پہلے

مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ نے نذر مانی تھی کہ حمزہ کا کلیجہ چبائے گی![52] وحشی نے ابتداء میں علیؑ کے قتل کا وعدہ دیا لیکن میدان میں جاکر اس نے حمزہ کو شہید کر دیا اور ان کا کلیجہ نکال کر ہند بنت عتبہ کے حوالے کیا۔ ہند نے اپنا لباس اور زیور وحشی کو دیا اور وعدہ دیا کہ مکہ پہنچ کر 10 دینار بطور انعام اس کو ادا کرے گی۔ بعد از اں حمزہ کے جسم بے جان کے قریب آئی اور بدن کا مثلہ[53] کر دیا اور ان کے اعضاء جسمانی سے ہار، کنگن، بالیاں اور پازیب بنالی اور انہیں حمزہ کے کلیجے کے ہمراہ مکہ لے گئی۔[54] مروی ہے کہ معاویہ بن مُغیرہ اور ابو سفیان بن حرب نے بھی حمزہ کے بدن کا مثلہ کیا یا اس پر چوٹیں لگائیں۔[55]

حمزہ کے پیکر بے جان کی حالت دیکھ کر بعض اصحاب[56] قسم اٹھائی کہ وہ قریش کے 30 یا اس بھی زیادہ افراد کا مثلہ کریں گے لیکن سورہ نحل کی آیت 126 نازل ہوئی جو اگرچہ مسلمانوں کو ہوبہو کاروائی کی اجازت دی گئی مگر صبر کو بہتر چارہ کار قرار دیا گیا؛ ارشاد ہوا:"اور اگر تم لوگ سزا دو تو ویسی ہی جیسی تمہیں سزا دی گئی تھی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے"۔[57]

ستر بار نماز جنازہ

حمزہ احد کے پہلے شہید تھے جن کی نماز جنازہ رسول اللہؐ نے پڑھائی اور بعد از اں شہداء کو باری باری لایا گیا اور حمزہ کے قریب رکھا گیا اور آپؐ نے ان شہداء اور حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یوں 70 مرتبہ حمزہ کی مستقل طور پر اور دیگر شہداء کے ہمراہ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔[58] حمزہ کو بہن صفیہ کے لائے ہوئے کپڑے کا کفن دیا گیا کیونکہ مشرکین نے ان کے بدن کو برہنہ کردیا تھا۔[59]

عبد اللہ بن جحش کو جو ان کے ماموں تھے، ان کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔[60]

حمزہ پر گریہ و بکاء

رسول اللہؐ نے حمزہ کی وہ حالت دیکھی تو روئے[61] اور پھر انصار کے اہل خانہ کو دیکھا جو اپنے شہداء کے لئے گریہ و بکاء کر رہے تھے تو فرمایا: "لیکن حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں ہے"۔ سعد بن معاذ نے آپؐ کی بات سن لی اور انصاری خواتین کو رسول خداؐ کے گھر کے دروازے پر لائے اور وہ انھوں نے حمزہ کے لئے گریہ کیا؛ اس دن کے بعد جب بھی کوئی انصاری خاتون اپنے کسی مرحوم کے لئے رونا چاہتی پہلے حمزہ کے لئے گریہ و بکاء کرتی تھی۔[62] مروی ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے حمزہ کے سوگ میں تین دن تک لباس عزا پہنے رکھا۔[63]

حمزہ کا مقبرہ

مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ زہراءؑ قبر حمزہ کی زیارت پر جاتی تھیں اور آپؑ نے قبر کے گرد پتھر رکھ کر نشان لگایا تھا۔[64] اسی طرح سے شیخ طبرسی کی گزارش کے مطابق، انہوں نے ان کی خاک قبر سے ایک تسبیح بنائی تھی جس وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔[65]

امویوں نے خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی کے باعث، حضرت حمزہ اور غزوہ احد کے دوسرے شہداء کی قبروں کے ساتھ غیر شائستہ رویہ روا رکھا۔ مروی ہے کہ ابو سفیان نے عثمان بن عفان کے دور حکومت میں قبر حمزہ پر لات ماری اور کہا " اے ابا عمارہ! جس چیز کے لئے تو نے کل ہمارے خلاف تلوار سونت لی تھی آج ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہے جس کے ساتھ وہ کھیل رہے ہیں!"۔[66] معاویہ نے غزوہ احد کے 40 سال بعد احد میں ایک چشمے یا نہر کا پانی جاری کرنے کی غرض سے ـ گویا خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی کی بنا پر ـ حکم دیا کہ حضرت حمزہ سید الشہداء سمیت شہدائے احد کی قبریں کھول دی جائیں اور ان کو دوسرے مقام پر دفن کیا جائے۔ اس اقدام کے بعد بعض شہداء منجملہ احتمالا حمزہ کی قبروں کے مقامات تبدیل ہوگئے۔[67]

حمزہ کے مزار کے اوپر قدیم الایام سے ایک مسجد اور بارگاہ تعمیر کی گئی تھی لیکن حجاز پر وہابیوں کے تسلط اور آل سعود کے بر سر اقتدار آنے کے بعد حضرت حمزہ کے مزار پر تعمیر شدہ گنبد و بارگاہ کو سنہ 1344 ہجری میں منہدم کیا گیا۔[68] نیز مسجد حمزہ کو گرا دیا گیا اور مزار شہدائے احد کے مغرب میں ایک مسجد تعمیر کی گئی جو مسجد احد، مسجد علی اور مسجد حمزہ کے نام سے مشہور ہے۔[69] حمزہ سید الشہداء کا مزار قدیم الایام سے مدینہ کی زيارت کا شرف حاصل کرنے والے زائرین اور حجاج ـ بالخصوص شیعہ اور ایرانیوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔

حمزہ کی منزلت

حمزہ کی شخصیت کی گہری تاثیر اور مقبولیت و ہر دل عزیزی کا ایک نمونہ یہ تھا کہ ان کی شہادت کے بعد بعض صحابیوں نے اپنے بچوں کو ان کے نام سے موسوم کیا۔[70] حضرت حمزہ اور جعفر طیار کی شہادت کو قریشیوں کے مقابلے میں بنی ہاشم کی طاقت میں کمی آنے اور رسول خداؐ کی طرف سے جانشینی کے واضح اعلان کے باوجود علی بن ابی طالبؑ کی خلافت سے محروم ہونے کا سبب گردانا گیا ہے۔[71]

حمزہ کے فضائل احادیث کی روشنی میں

امیرالمؤمنینؑ اور دوسرے ائمہؑ نے مخالفین کے ساتھ بحث کے دوران حمزہ اور جعفر کے ساتھ اپنی قرابت پر فخر کا اظہار کیا ہے۔[72]

حمزہ کے فضائل اور کرامات کے سلسلے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔[73] رسول اللہؐ نے حمزہ، جعفر بن ابی طالب اور علیؑ کو لوگوں میں سب سے بہتر[74] اور بنو ہاشم کی نسل سے آنے والے 7 بہترین افراد کے زمرے میں شمار کیا[75] نیز علیؑ جعفر اور حمزہ کو بہترین شہداء قرار دیا۔[76] رسول اکرمؐ فرمایا کرتے تھے کہ "حمزہ نے قرابت کا حق ادا کیا اور نیک اعمال بجا لانے والے تھے"۔[77]

احادیث میں حمزہ کے گھوڑے "وَرد" اور ان کی تلوار "لیاح"[78] اور دیگر ذاتی وسائل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۹
  2. رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۰۸ـ۱۱۰.
  3. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۰.
  4. رجوع کریں: عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج۲، ص۷۱ـ۷۸
  5. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص8؛ البلاذري، انساب الاشراف، ج3، ص282۔
  6. ابن کلبی، جمہرة النسب، ج1، ص28؛ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 1، ص109۔
  7. الزبیدی، تاج العروس، ج8، ص53۔
  8. ابن درید، الاشتقاق، ج1، ص45ـ46۔
  9. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج1، ص68؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص8۔
  10. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹۰.
  11. نهج البلاغة، نامہ ۲۸
  12. مطہری، مجموعہ آثار استاد شهید مطهری، ج۲۴، ص۴۶۵-۴۶۶.
  13. مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۳۶۸.
  14. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۸
  15. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۸ـ۲۸۹
  16. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۹
  17. رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۹.
  18. رجوع کریں: آقا بزرگ طهرانی، الذریعة، ج۲۶، ص۹۶
  19. برای نمونہ رجوع کریں: بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۳؛ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۱، ۱۴۷، ۱۹۹، ۲۱۹، ۳۷۸
  20. امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۳۹
  21. رجوع کریں: البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص98، 100، 103؛ البلاذری، وہی ماخذ، ج2، 15؛ الیعقوبی، تاریخ الیغقوبی، ج2، ص20؛ ابن اسحاق، کتاب السیر والمغازی، ص82؛ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم1، ص189ـ190۔
  22. رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص26۔
  23. الطبري، تاريخ الامم والملوک، ج2، ص313۔
  24. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق، ص243۔
  25. رجوع کریں: وہی مؤلف، کتاب المُحَبَّر، ص164ـ 165؛ وہی مؤلف، کتاب المُنَمَّق، ص243؛ الواقدی، المغازی، ج1، ص153۔
  26. ابن اسحاق، کتاب السیر والمغازی، ص145ـ146؛ الطبري، تاريخ الامم والملوک، ج2، ص319ـ320۔
  27. رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص131۔
  28. الکلینی، الکافی، ج1، ص449۔
  29. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص171-172؛ ابن ہشام، السیرت النبویہ، قسم1، ص291ـ292۔
  30. الکلینی، الکافی، ج1، ص449، ج2، ص308۔
  31. العاملي، الصحیح من سیرة النبی، ج3، ص153ـ154۔
  32. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج1، ص369؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص9؛ الکلینی، الکافی، ج8، ص298۔
  33. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص123۔
  34. البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص123۔
  35. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 1، ص343ـ344۔
  36. ابن اسحاق، کتاب السیر والمغازی، ص160-161۔
  37. القمی، تفسیر القمی، ذیل انفال: 30۔
  38. ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، ص70۔
  39. ابن ہشام، السیرة النبویہ، قسم 1، ص505۔
  40. البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص270۔
  41. الواقدی، المغازی، ج1، ص9؛ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 1، ص595ـ596؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص6۔
  42. ابن سعد، الطبقات، ج2، ص8ـ9 و ج3، ص10۔
  43. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص12۔
  44. الواقدی، المغازی، ج1، ص68ـ69؛ الطبري، تاريخ الامم والملوک، ج2، ص445۔
  45. السمہودی، وفاءالوفا، ج2، ص477-479۔
  46. العاملي، الصحیح من سیرة النبی، ج5، ص342 به بعد۔
  47. الواقدی، المغازی، ج1، ص211؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص12؛ الواقدی، المغازی، ج1، ص226۔؛ الواقدی، المغازی، ج1، ص76، 83، 259، 290۔
  48. ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص323؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص10؛ الواقدی، المغازی، ج1، ص285۔
  49. الواقدی، المغازی، ج1، ص285۔
  50. ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص323، 329؛ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، قسم 2، ص70ـ72۔
  51. البلاذري، انساب الاشراف، ج3، ص286ـ287؛ القمي، تفسیر القمی، ج1، ص116۔
  52. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص12۔
  53. مثلہ کرنا: یعنی کان اور ناک یا اطراف جسم سے کوئی عضو کاٹنا، کسی کے اعضاء جسمانی میں سے کوئی عضو کاٹنا (یادداشت به خط مرحوم دهخدا)؛ فرهنگ لغت عمید۔
  54. الواقدی، المغازی، ج1، ص285ـ286۔
  55. البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص338؛ ابن هشام، السیرة النبویة، قسم 2، ص93۔
  56. القمي، تفسیر القمی، ذیل آیت 126 سورہ نحل؛ الطوسی، التبیان، ذیل آیت 126 سورہ نحل۔
  57. ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص335۔
  58. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص11، مقایسہ کنید با ج3، ص16؛ نہج البلاغۃ، مکتوب شماره 28؛ الکلینی، الکافی، ج3، ص186، 70 تکبیریں۔
  59. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص15ـ16؛ البلاذري، انساب الاشراف، ج3، ص288ـ289؛ الکلینی، الکافی، ج3، ص211۔
  60. ابن‌ جوزی، صفة الصفوة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۰۳.
  61. ابن عبد البرّ، الاستیعاب، ج1، ص374۔
  62. الواقدی، المغازی، ج1، ص315ـ317؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص11، قس ج3، ص17۔
  63. ابن اثیر، النہایة، ج5، ص68۔
  64. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص19؛ ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ المدینۃ المنورہ، ج1، ص132۔
  65. طبرسی، مکارم الاخلاق،۱۳۹۲ق، ج۱، ص۲۸۱.
  66. ابن ابی الحدید، ج16، ص136۔
  67. الواقدی، المغازی، ج1، ص267ـ268؛ ابن سعد، الطبقات، ج3، ص11؛ ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ المدینۃ المنورة، ج1، ص133؛ محمد باقر نجفی، مدینہ شناسی، ج2، ص257۔
  68. جعفر خیاط، المدینۃ المنورة فی المراجع الغربیۃ، ص254؛ نجمی، حمزه سیدالشہداء، ص191، 212۔
  69. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منوره، ص332۔
  70. ابن سعد، الطبقات، ج5، ص186؛ الکلینی، الکافی، ج6، ص19؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص196۔
  71. الکلینی، الکافی، ج8، ص189ـ190؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج11، ص111، 115ـ 116۔
  72. نہج البلاغۃ، نامہ 28؛ الطبري، تاريخ الامم والملوک، ج5، ص424؛ نجمی، حمزه سیدالشہداء، ص37ـ50۔
  73. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص12؛ نجمی، حمزه سید الشہداء، ص21ـ 35۔
  74. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص17۔
  75. الکلینی، الکافی، ج8، ص50۔
  76. الکلینی، الکافی، ج1، ص450۔
  77. ابن سعد، الطبقات، ج3، ص13ـ14۔
  78. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق، ص407 و411۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ.
  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ الله المعتزلی، شرح نہج البلاغۃ، عيسى البابي، دار احياء الكتب العربيۃ مصر، الطبعۃ الثانيۃ 1387 ه‍/1967ء/ منشورات مكتبۃ آيۃ الله العظمى المرعشي النجفي قم، ايران 1404 ه‍
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہره 1970ـ1973ء
  • ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، چاپ طاہر احمد زاوی و محمود محمد طناحی، قاہره، 1383ـ1385ه‍/ 1963ـ1965ء چاپ افست بیروت، [بی تا]
  • ابن اسحاق، السیر والمغازی، چاپ سہیل زکار، [بی جا]: دارالفکر، 1398ه‍/1978ء چاپ افست قم، 1368 ه‍ ش
  • ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، چاپ ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن، 1361ه‍ /1942ء، چاپ افست بیروت، [بی تا]
  • ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، چاپ خورشید احمد فارق، بیروت، 1405ه‍ /1985 ع‍
  • ابن درید، الاشتقاق، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، بغداد، 1399ه‍ /1979 ع‍
  • ابن سعد، الطبقات (بیروت)
  • النميري البصري، أبو زيد عمر بن شبہ، تاريخ المدينۃ المنورة (أخبار المدينۃ النبويۃ)، المحقق: فهيم محمد شلتوت، دار الفكر قم، ايران 1410 ه‍ ق/ 1386 ه‍ ش
  • ابن عبد البرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت، 1412ه‍ /1992ء
  • ابن قدامہ، التبیین فی انساب القرشیین، چاپ محمد نایف دلیمی، بیروت، 1408ه‍ /1988ء
  • ابن کلبی، جمہرة النسب، ج1، چاپ ناجی حسن، بیروت، 1407ه‍ /1986ء
  • ابن ہشام، السیرة النبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، [بیروت]: دار ابن کثیر، [بی تا]
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ احمد صقر، قاہره، 1368ه‍ /1949ء
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، 1416ـ1422ه‍ / 1995ـ2002ء
  • البلاذري، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج1، چاپ محمد حمیداللّه، مصر 1959، ج2، چاپ محمد باقر محمودی، بیروت، 1394ه‍ /1974، ج3، چاپ عبدالعزیز دوری، بیروت، 1398ه‍ /1978ء
  • جعفر خیاط، «‌المدینۃ المنورة فی المراجع الغربیۃ »، در موسوعۃالعتبات المقدسۃ، تألیف جعفر خلیلی، ج3، بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1407ه‍ /1987ء
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللّه، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت، 1406ء
  • زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، چاپ علی شیری، بیروت، 1414ه‍ /1994ء
  • سمہودی، علی بن عبداللّه، وفاءالوفا باخبار دار المصطفی، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت، 1404ه‍ /1984ء
  • شہیدی، جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان امویان، تہران: نشر مرکز دانشگاہی، 1369ء
  • الطبري، تاريخ الامم والملوک (بیروت)
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر العاملي، بیروت، [بی تا].
  • العاملي، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظمؑ، بیروت، 1415ه‍ /1995ء
  • القمي، علی بن ابراہیم تفسیر القمی، چاپ طیب موسوی جزائری، قم، 1404 ھ
  • قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منوره، [تہران]، 1384 ه‍ ش
  • الکلینی، الکافی
  • محمد باقر نجفی، مدینہ شناسی، ج2، بن، 1375 ه‍ ش
  • محمدصادق نجمی، حمزه سیدالشہداء علیہ السلام، تہران، 1383 ه‍ ش
  • نہج البلاغۃ [امام علی بن ابی طالبؑ ]، چاپ صبحی صالح، قاہره، 1411ه‍ /1991ء
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، 1966 ء
  • یعقوبی، تاریخ

بیرونی روابط