غزوہ بنی قینقاع

ویکی شیعہ سے
غَزوہ بَنی قَینُقاع
قبیلہ بنی قینقاع کا محل وقوع
قبیلہ بنی قینقاع کا محل وقوع
تاریخ15 شوال 2ھ تا اول ذوالقعدہ
مقامحجاز ، مدینہ
علل و اسبابپیغمبر اکرمؐ سے عہد شکنی اور جنگ
قلمروحجاز
نتیجہمسلمانوں کی کامیابی اور بنی قینقاع کی شکست اور جلاوطنی
فریق 1مسلمان
فریق 2بنی قینقاع کے یہودی
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
سپہ سالار 2بنی قینقاع
فوج 1مسلمانان مدینہ کی بڑی تعداد
فوج 2پورا قبیلہ بنو قینقاع


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ بنی قَینُقاع، یہودیوں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کا پہلا غزوہ ہے۔ بنی قینقاع قبیلہ عرب کی ایک مشہور منڈی پر قابض تھا اور مدینہ کی معاشی طاقت ان کے اختیار میں تھی۔ مدینہ میں رسول اللہؐ کی گرفت مضبوط ہونے پر بنی قینقاع نے اپنی پوزیشن خطرے میں دیکھ کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مسلمان عورت پر حملہ کیا۔ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد، 15 شوال کو ان کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ پندرہ دن کے محاصرے کے بعد بنی قینقاع کے یہودیوں نے رسول اللہؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور آنحضرتؐ کے حکم سے شام کی طرف جلا وطن کر دئے گئے۔

بعض مورخین نے بنو قینقاع کی مہم کو خزرجیوں کے لیے ایک امتحان سمجھا ہے؛ کیونکہ اس جنگ میں کچھ خزرجی جیسے عبادہ بن صامت نے بنی قینقاع کے ساتھ اپنے معاہدے پر نبی اکرمؐ کے ساتھ ہونے والے اپنے معاہدے کو ترجیح دی؛ لیکن کچھ اور لوگ، جیسے عبداللہ بن اُبَی، نبی اکرمؐ کے جنگی احکامات کے خلاف کھڑے ہوئے۔

بنی قینقاع کی شکست کے ساتھ بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں پہلی بار خمس کا حکم نافذ ہوا۔ بنی قینقاع کی جلا وطنی کے بعد مدینہ میں سیاسی مذہبی اتحاد قائم ہوا اور مدینہ کی مطلق اکثریت مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔

تاریخ اسلامی میں غزوہ بنی قینقاع کی اہمیت

بنی قینقاع کی جنگ پیغمبر اکرمؐ کا ساتواں غزوہ[1] اور یہودیوں کے ساتھ لڑی جانے والی پہلی جنگ تھی۔.[2] بنی قینقاع جو مدینہ کے بہادر یہودیوں میں شمار ہوتے تھے ان کی شکست کے بعد دوسرے یہودی رسول اللہؐ کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے اور کچھ عرصے کے لیے مسلمانوں پر حملہ کرنے سے گریز کیا۔[3] اس طاقتور یہودی گروہ کی شکست سے مسلمانوں نے مزید خود اعتمادی حاصل کی اور خوف اور شک کو ایک طرف رکھ دیا۔[4]

بنی قینقاع کے یہودیوں کے مدینہ سے نکالے جانے سے مدینہ میں سیاسی مذہبی اتحاد قائم ہوا اور مدینہ کی مطلق اکثریت مسلمانوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔[5] بنی قینقاع سے جنگ کے ذریعے رسول اللہؐ نے اپنے آپ کو حکومت کے معاملے میں پرعزم ظاہر کیا اور ان یہودیوں کے خیال کو غلط ثابت کر دیا جو رسول اللہؐ کی برداشت کو آپ کے خوف کا نتیجہ سمجھتے تھے۔[6] بعض محققین کا خیال ہے کہ بنی قینقاع کی جنگ اہل مدینہ بالخصوص خزرج کے لیے ایک آزمائش تھی کہ ان کے قبیلے کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ اور اسلام کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں میں ان کی پابندی کو آزمایا گیا اور اس امتحان میں عبداللہ ابن ابی جیسے چند لوگوں کے علاوہ زیادہ تر لوگوں نے خود کو معاہدوں پر پابند ثابت کیا۔[7]

قبیلہ بنی قَینُقاع کا تعارف

بنی قینقاع قبیلہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اسلام کے آغاز میں مدینہ میں رہتا تھا۔[8] بعض روایات میں بنی قینقاع کو مدینہ کے پہلے باشندوں کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[9] تاہم بعض مورخین عَمالَقہ کو مدینہ کے پہلے باشندے اور بنی قینقاع کو مدینہ میں آباد ہونے والا دوسرا قبیلہ مانتے ہیں۔[10]

بنی قینقاع کا قبیلہ خزرج کے ساتھ معاہدہ تھا۔[11] بنی قینقاع کا بازار عرب کے مشہور بازاروں میں سے ایک تھا[12] جو سال بھر میں کئی بار قائم ہوتا تھا اور لوگ اس پر فخر کرتے تھے۔[13] مدینہ میں ان کے پاس زرعی زمین یا باغات نہیں تھے اور وہ لوگ سنار[14] اور لوہار کا کام کرتے تھے۔[15] فُروغ اَبَدیّت کے مؤلف جعفر سبحانی کا خیال ہے کہ مدینہ کی معاشی طاقت قبیلہ بنی قینقاع کے ہاتھ میں تھی۔[16] کہا جاتا ہے کہ قبیلہ بنی قینقاع، مسلمانوں سے شکست کھانے کے بعد شام کی طرف جلاوطن ہوئے اور مختصر عرصے (ایک سال[17]) کے بعد قبیلہ ختم ہو گیا۔[18]

جنگ کے اسباب

جعفر سبحانی کے مطابق مدینہ میں رسول اللہؐ کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد بنو قینقاع نے اپنی حیثیت خطرے میں دیکھی اور اسی وجہ سے انہوں نے توہین آمیز اشعار شائع کر کے آنحضرتؐ اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔[19] تیسری صدی کے مورخ واقدی کے مطابق رسول اللہؐ نے میثاق مدینہ کے ذریعے یہودیوں سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہیں کریں گے۔[20] بنی قینقاع یہودیوں کا پہلا قبیلہ تھا جس نے اس معاہدے کو توڑا اور جنگ کا رخ کیا۔[21] بعض مورخین کا خیال ہے کہ قبیلہ بنی قینقاع کے بعض افراد نے مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی اور اوس و خزرج کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی۔[22]

جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد بنی قینقاع نے مسلمانوں کی کامیابی پر حسد کرنا شروع کیا اور نبی اکرمؐ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔[23] پیغمبر اکرمؐ ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بنی قینقاع کے بڑے بازار میں حاضر ہوئے[24] اور انہیں معاہدہ کی پاسداری سے خبردار کیا؛ لیکن انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی بات کو نظر انداز کیا اور آپ کو دھمکیاں دیں۔[25] آٹھویں صدی کے مورخ ابن خلدون کے مطابق، ان کے طرز عمل کے بعد، اللہ تعالی نے سورہ انفال کی آیت نمبر 58 کو نازل کر کے رسول اللہؐ کو جہاد کا حکم دیا۔[26] البتہ ایک اور تاریخ کے مطابق میں اس آیت کے نزول کا تعلق یہودیوں کے مسلمان خواتین کے ساتھ توہین آمیز رویے سے ہے۔[27] کہا جاتا ہے کہ ایک مسلمان عورت بنی قینقاع کے یہودی بازار میں سنار کی دکان پر گئی۔[28] یہودی سنار نے خاتون کے لباس کا کچھ حصہ اتار کر اس کی توہین کی۔[29] ایک مسلمان، اس عورت کی مدد کے لیے گیا اور یہودی کو مار ڈالا۔[30] دوسرے یہودیوں نے بھی اس مسلمان پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کشمکش بڑھ گئی۔[31]

وقت جنگ

اکثر مورخین کے مطابق جنگ بنی قینقاع، غزوہ بدر کے بعد[32]15 شوال کو شروع ہوئی اور یکم ذی القعدہ کو ختم ہوئی۔[33] ایک اور روایت میں کے مطابق یہ واقعہ تیسرے ہجری کے ماہ صفر میں پیش آیا ہے۔[34] ایک اور روایت میں ہے کہ جب رسول اللہؐ بنی قینقاع کو شکست دے کر مدینہ واپس آئے تو یہ عید الاضحی (10 ذی الحجہ) کی تاریخ تھی اور آپ نے پہلی مرتبہ لوگوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔[35] یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ایک ہی وقت میں جلاوطن کیا گیا ہے۔[36] بعض مورخین کے مطابق اس واقعہ کے وقت کے تعین میں اختلافات نے اس کی صحیح تاریخ کا تعین مشکل بنا دیا ہے۔[37]

مسلمانوں کی کامیابی

جنگ بنی قینقاع کے آغاز کے ساتھ ہی یہودی اپنے قلعوں میں چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں میں پندرہ دن تک محاصرہ کیا۔[38] چوتھی صدی کے مورخ مسعودی نے محصور یہودیوں کی تعداد 400 بتائی ہے۔[39] پیغمبر اکرمؐ نے ابولُبابة بن عَبدالمُنذِر کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔[40] کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں رسول اللہؐ کے لشکر کا جھنڈا سفید تھا اور رسول اللہؐ کے چچا حَمزَة بن عَبدالمُطَّلِب کے ہاتھ میں تھا۔[41] البتہ کتاب کتاب الصَحیح مِنْ سیرَةِ النّبیِّ الْاَعْظَم کے مؤلف سید جعفر عاملی کے مطابق اس جنگ میں نبی اکرمؐ کا جھنڈا کالا تھا اور اس جنگ سمیت تمام جنگوں میں نبی اکرمؐ کا علمبردار امام علیؑ تھے۔[42] پندرہ دن کے بعد بنی قینقاع کے یہودیوں نے رسول اللہؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔[43] بنی قینقاع کو بھی شام میں جلاوطن کر دیا گیا اور اِذرَعات کے علاقے میں آباد ہوئے۔[44]

بنو قینقاع کے حلیفوں کا کردار

چوتھی صدی کے مورخ طبری کے مطابق رسول اللہؐ نے بنی قینقاع کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن عبداللہ بن اُبَی (بنی قینقاع کے حلیف اور مدینہ کے منافقوں میں سے ایک) نے آپ کو اس کام سے روک دیا۔[45] پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے عبداللہ بن ابی کی درخواست سے انکار کر دیا؛ لیکن جب اس کے بڑے اصرار کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے اس کی درخواست قبول کر لی۔ لیکن آپ نے اس پر اور یہودیوں پر لعنت بھیجی اور حکم دیا کہ بنی قینقاع کے یہودیوں کو جلاوطن کر دیا جائے۔[46] سید جعفر مرتضیٰ کا خیال ہے کہ رسول اللہؐ کی طرف سے عبد اللہ بن ابی کی اس درخواست کو قبول کرنا اس لیے تھا کہ ایک طرف عبداللہ بن ابی کے پیروکاروں کے دل رسول اللہؐ کے لئے نرم ہوجائیں اور مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی بنیاد بنیں اور دوسری طرف اسلامی طاقت صرف اصلی دشمنوں کے خلاف استعمال کی جائے۔[47] پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے بنی قینقاع کو مدینہ چھوڑنے کا حکم آنے کے بعد عبداللہ بن ابی نے ایک بار پھر نبی اکرمؐ کو اس حکم کو واپس لینے پر مجبور کرنا چاہا۔ لیکن اس بار مسلمانوں نے اسے رسول اللہؐ کے پاس جانے کی اجازت نہ دی۔[48]

عبد اللہ بن ابی کے برعکس عبادہ بن صامت جو بنی قینقاع کے حلیفوں میں سے تھے، بنی قینقاع کو ناپسند کرتے تھے اور اسی لئے ان سے لڑنے لگے۔ نبی اکرمؐ نے اسے قبیلہ والوں کو شہر سے باہر نکالنے پر مامور کیا۔[49]

مال غنیمت اور خمس کا حکم

پیغمبر خداؐ نے غنائم کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم کیا اور پہلی بار مال غنیمت میں سے خمس اٹھایا۔[50] نیز مال غنیمت میں سے "صَفْوُ الغنائم" کے طور پر تین کمانوں، دو زرہوں، تین تلواروں اور تین نیزوں کو منتخب کیا اور محمد بن مسلمہ اور سعد بن معاذ کو دو زرہیں عطا کیں۔[51]

بنی قینقاع کے قلعوں سے بہت سے ہتھیار اور سنار کے اوزار مسلمانوں کو مل گئے۔[52] چوتھی صدی کے مورخ طبری اور مسعودی کے مطابق رسول اللہؐ نے بنی قینقاع کی جنگ میں حاصل ہونے والی غنیمت کو صحابہ کرام میں تقسیم کیا اور پہلی بار اس کا پانچواں حصہ خمس کے نام پر لیا۔[53] سید جعفر مرتضیٰ نے اسی جنگ میں پہلی بار خمس کا حکم آنے کے بارے میں شک و تردید سے کام لیا ہے۔[54] نیز، اس کا خیال ہے کہ اس جنگ میں حاصل ہونے والی جائیداد فیء تھی اور سب رسول اللہؐ کی تھی؛ لیکن رسول خداؐ ایثار کرتے ہوئے اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔[55] رسول اللہؐ نے صَفْوُ الغنائم (یعنی مال غنیمت کا ایک حصہ جسے کمانڈر اپنے لئے لے لیتا ہے[56]) کے طور پر تین کمانیں، دو زرہیں، تین تلواریں اور تین نیزے منتخب کیے (یعنی غنیمت کا ایک حصہ جو کمانڈر اپنے لیے لے لیتا ہے) اور دو زرہیں محمد بن مسلمہ اور سعد بن معاذ کو دیں۔[57] کہا جاتا ہے کہ ان دو زرہوں میں سے ایک وہ زرہ تھی جسے حضرت داؤد نے جالوت کو قتل کرتے وقت پہنا تھا۔[58]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. نویری، نہایة الأرب، 1374ق، ج17، ص1۔
  2. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص177۔
  3. صلابی، غزوات الرسول(ص)، 1428ق، ص91۔
  4. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، 1426ق، ج7، ص40۔
  5. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ج1، ص516۔
  6. حسنی، سیرة المصطفی، 1416ق، ص375۔
  7. سلہب، غزوات الرسول(ص) و سرایاہ، 1426ق، ص124۔
  8. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1416ق، ج4، ص424۔
  9. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج1، ص126۔
  10. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج1، ص126۔
  11. ابن ہشام، السیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج1، ص540۔
  12. جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، 1422ق، ج14، ص59۔
  13. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج1، ص95۔
  14. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481۔
  15. بلعمی، تاریخنامہ طبری، 1373ش، ج3، ص151۔
  16. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ج1، ص512۔
  17. حلبی، السیرة الحلبیہ، 1427ق، ج2، ص487۔
  18. بلاذری، أنساب الأشراف، 1959م، ج1، ص309؛ ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج2، ص138۔
  19. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ج1، ص512۔
  20. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص176۔
  21. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص177۔
  22. یاقوت، غزوات الرسول(ص)، 1428ق، ص85-86۔
  23. ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج2، ص137۔
  24. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ج1، ص513۔
  25. ابن اثیر، الکامل، 1385ق، ج2، ص137۔
  26. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ق، ج2، ص432۔
  27. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ق، ج2، ص432۔
  28. ابن ہشام، السیرة النبویة، دار المعرفہ، ج2، ص48۔
  29. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص176۔
  30. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص177۔
  31. ابن ہشام، السیرة النبویة، دار المعرفہ، ج2، ص48۔
  32. صلابی، غزوات الرسول(ص)، 1428ق، ص88۔
  33. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص176؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص206۔
  34. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ق، ج8، ص347۔
  35. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص482؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ق، ج8، ص347۔
  36. عسقلانی، فتح الباری، 1379ق، ج7، ص332۔
  37. فرہانی منفرد، «بنی قینقاع»، ص471۔
  38. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص177۔
  39. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص206۔
  40. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481۔
  41. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481۔
  42. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، 1426ق، ج7، ص37-38۔
  43. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص480۔
  44. بلاذری، انساب الأشراف، 1959م، ج1، ص309۔
  45. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص480۔
  46. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481۔
  47. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، 1426ق، ج7، ص42۔
  48. حسنی، سیرة المصطفی، 1416ق، ص376۔
  49. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص179۔
  50. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج3، ص1362؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص207۔
  51. واقدی، المغازی، ج1، ص129۔
  52. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص179۔
  53. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج2، ص481؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص207۔
  54. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، 1426ق، ج7، ص39۔
  55. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، 1426ق، ج7، ص38۔
  56. عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیہ، دار الفضیلہ، ج2، ص374۔
  57. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص178-179۔
  58. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج1، ص215۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن خلدون، عبدالرحمان بن محمد، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، بی تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، قاہرہ، دار المعارف، 1959م.
  • بلعمی، محمد بن محمد، تاریخنامہ طبری، تہران، انتشارات البرز، 1373ہجری شمسی۔
  • جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دار الساقی، 1422ھ۔
  • حسنی، ہاشم معروف، سیرة المصطفی، بیروت، دار التعارف، 1416ھ۔
  • حلبی، علی بن ابراہیم، السیرة الحلبیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1427ھ۔
  • سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
  • سلہب، حسن، غزوات الرسول(ص) و سرایاہ، بیروت، دار الہادی، 1426ھ۔
  • سمہودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1419ھ۔
  • صلابی، علی محمد، غزوات الرسول(ص)، قاہرہ، مؤسسہ إقراء، 1428ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دار الحدیث، 1426ھ۔
  • عبدالمنعم، محمود عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیہ، قاہرہ، دار الفضیلہ، بی تا.
  • عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، بیروت، دار المعرفة، 1379ھ۔
  • فرہانی منفرد، مہدی، «بنی قینقاع»، در جلد 4 دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1375ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، دار الصاوی، بی تا، چاپ افست قم، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیہ.
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1420ھ۔
  • نویری، احمد بن عبدالوہاب، نہایة الأرب فی فنون العرب، قاہرہ، دار الکتب المصریہ، 1374ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، مؤسسة الأعلمی، 1409ھ۔
  • یاقوت حموی، ابن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، 1416ھ۔
  • یاقوت، محمد مسعد، غزوات الرسول(ص)، قاہرہ، دار النشر للجامعات، 1428ھ۔
  • EI 1 , s.v. "K ¤ ainuk ¤ a ¦ Ü " (by A. J . Wensinck).
  • EI 2 , s.v. " ـ Abd Allah bin Salam" (by J. Horovitz).
  • Encyclopaedia Judaica , Jerusalem 1978-1982.
  • s.v. "Qaynuqa ¦ Ü " (by Eli Davis).
  • W. M. Watt, Muhammad at Medina , Oxford 1968.
پچھلا غزوہ:
بدر کبری
رسول اللہؐ کے غزوات
غزوہ بنی قینقاع
اگلا غزوہ:
سویق