قوم عاد

ویکی شیعہ سے

قوم عاد ایک عرب قوم، جو جزیرۃ العرب کے جنوب میں زندگی گزارتی تھی۔ یہ "عاد بن عوص" کی اولاد تھے اور اپنے قبیلے کا نام اپنے اجداد کے نام پر رکھا ہے۔ اس قوم والوں کے جسم صحت مند تھے اور ان کے پاس بہت زیادہ نعمتیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں توحید کی دعوت دینے کے لئے ان کے پاس حضرت ہود(ع) کو بھیجا۔ اس قوم کے اکثر لوگوں نے حضرت ہود(ع) کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور عذاب الہٰی میں گرفتار ہوئے۔

قرآن میں

قرآن کریم نے قوم عاد کو مختلف آیات میں یاد کیا ہے جو درج ذیل ہیں: سورہ احقاف کی ٢١ سے ٢٦ آیت، سورہ اعراف کی ٦٩ سے ٧٤ آیت، سورہ ذاریات کی آیت ٤٦، سورہ ہود کی آیت ٥٠، سورہ مومنون کی آیت ٣١، سورہ فصلت کی آیت ١٣ سے ١٥، سورہ قمر کی آیت ٢٠، سورہ الحاقۃ کی آیت ٧، سورہ فجر کی آیت ٨، سورہ سجدہ کی آیت ١٥ اور سورہ شعراء کی آیت ١٣٠ ہے۔

نام اور زمان

قوم عاد، عرب قوم، [1] عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح کے فرزند جنہوں نے اپنے قبیلے کا نام اپنے اجداد کے نام پر رکھا تھا۔ [2] قرآن کریم کے مطابق قوم عاد، قوم نوح کے بعد تھی۔[3] قرآن کریم میں اس کے لئے "عاد اولیٰ" کی تعبیر بھی استعمال ہوئی ہے: "وَ أَنَّهُ أَهْلَكَ عاداً الْأُولى‏" ترجمہ: اور وہی ہے جس نے پہلی قوم عاد کو ہلاک کیا۔ [4] "عاد اولیٰ" وہی حضرت ہود(ع) کی قوم تھی۔ [5] جو حضرت نوح کی قوم سے پہلے اور حضرت ثمود کی قوم کے بعد تھی۔ [6] اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسری عاد بھی تھی، اور بعض مفسرین نے قوم ثمود کو دوسری عاد کہا ہے۔ [7]

محل زندگی

قرآن کریم نے اس قوم کے رہنے کی جگہ "احقاف" کہی ہے: "وَ اذْكُرْ أَخا عادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقاف" ترجمہ: قوم عاد کے بھائی کو یاد کر، جب اس نے اپنی قوم کو (وادی) اعراف میں ڈرایا۔ [8] احقاف کے معنی وہ چھوٹے چھوٹے پتھر جو صحرا و ریگستان میں ہوا کی وجہ سے اڑتے ہیں، اور قوم عاد کی سرزمین کو اس لئے "احقاف" کہتے تھے کیونکہ وہ اس طرح کی ریگستانی زمین تھی۔ [9] مفسرین نے جزیرۃ العرب کے جنوب میں واقع زمین کو احقاف کہا ہے۔ [10] البتہ اس کے اصلی جگہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. [11] علامہ طباطبائی اور طبرسی معتقد ہیں کہ یمن اور عمان کے درمیان والی سرزمین، احقاف ہے۔ [12] جو عصر حاضر میں ایک ریگستان ہے۔[13] سورہ احقاف کہ جس کا مقصد مشرکین کو عذاب علیم سے آگاہ کرنا ہے، [14] اس لئے اس سورہ میں قوم عاد کی کہانی کے ساتھ ہی مشرکین جو عذاب میں گرفتار ہوئے ان کا ذکر کیا ہے اور آغا مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں بیان کیا ہے کہ سورہ احقاف کا نام، قوم عاد کی کہانی اور ان کے محل زندگی سے ہی لیا گیا ہے۔ [15]

ظاہری نشانیاں

قرآن کریم نے قوم عاد کی ظاہری نشانیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے قد کجھور کے درخت کی طرح لمبے، [16] اور بہت صحت مند اور بھاری جسم کے مالک تھے۔[17] امام باقر(ع) نے اپنی حدیث میں قوم عاد کے بارے میں فرمایا ہے: "وہ کجھور کے درخت کی طرح اونچے قد کے مالک اور پہاڑیوں کو توڑ سکتے تھے" [18] امام صادق(ع) نے بھی ان کے قد کو کجھور کے درخت سے شباہت دی ہے۔ ایک اور مآخذ میں بھی کہا گیا ہے کہ ان کے قد بہت اونچے تھے۔ شیخ طوسی نے کتاب التبیان میں، ان اقوال کے بارے میں خبر دی ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ ان میں سے سب سے اونچے قد والے آدمی کی قامت ١٠٠ ذراع(گز)اور سب سے چھوٹے کی ٧٠ ذراع(گز) تھی۔ [19] ان مطالب میں بھی بہت اختلاف پایا جاتا ہے مثال کے طور پر ایک قول کے مطابق یہ ١٢ ذراع(گز) یعنی تقریباً ٦ میٹر قد کے مالک تھے۔

تہذیب اور زندگی

بعض مفسرین کے عقیدے کے مطابق، قوم عاد کے متعلق قرآن کی آیات کے ظاہر سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس قوم کی اپنی ایک تہذیب تھی اور ترقی یافتہ افراد تھے، اور اسی طرح ان کے شہر آباد اور ان کی زمینیں کجھور کے درختوں، باغوں سے بھری ہوئی ہوتیں۔ سورہ فجر کی آیت ٨ میں ان کے ایک شہر کے بارے میں آیا ہے:"الَّتِی لَمْ یخْلَقْ مِثْلُها فِی الْبِلادِ" ترجمہ: کسی سرزمین میں، اس جیسا شہر نہیں بنایا گیا۔[20] قوم عاد کجھور کے درختوں کے مالک، اور کھیتی باڑی کرنے والے تھے اور انہوں نے اپنے لئے پتھروں سے مضبوط بڑے گھر بنائے ہوئے تھے۔ [21]

عقیدے اور عمل

قوم عاد متعدد خداؤں کی پرستش کرتے تھے، [22] وہ اپنی مشغولیت کے لئے ہر جگہ پر اپنے الگ بت بنا لیتے تھے اور زمین کے نیچے پانی ذخیرہ کرنے لئے سرداب بناتے اس امید پر کہ ہمیشہ اسں دنیا میں رہنا ہے۔ [23] حضرت ہود(ع) ان کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے۔ [24] قرآن نے ہود(ع) کے لئے قوم عاد کے بھائی کی تعبیر استعمال کی ہے۔ [25] اس تعبیر کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ہود(ع) قوم عاد سے تھے۔ [26] علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ ممکن ہے قوم عاد کے لئے حضرت ہود(ع) کے علاوہ دوسرے پیغمبر بھی آئے جو حضرت ہود(ع) سے پہلے اور حضرت نوح(ع) کے بعد مبعوث ہوئے ہوں لیکن قرآن کریم نے ان کے نام ذکر نہ کئے ہوں لیکن آیات کی ترتیب اس امکان کے ساتھ مساعد نہیں ہے۔[27]

مفسرین معتقد ہیں کہ اس آیت "وَ اتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ" [28] سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قوم عاد تین ناپسند خصوصیات کی حامل تھی، آیات الہی کا انکار، پیغمبروں کی نافرمانی اور جابر حکمران کی اطاعت کرنا۔ فی الواقع وہ ہر جابر اور سخت گیر حکمران کی پیروی کرتے تھے اور ان کے فرمان پر عمل کرتے تھے اور اسی چیز نے ان کو حضرت ہود(ع) کی پیروی اور اطاعت سے روک لیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ احقاف میں قوم عاد کی توصیف اس طرح سے کی ہے: "وَ أُتْبِعُوا فِی هذِهِ الدُّنْیا لَعْنَةً وَ یوْمَ الْقِیامَةِ" یعنی ان تین بری خصلتوں کی وجہ سے، اس دنیا اور قیامت میں لعنت ان کے شامل حال ہوئی اور خدا کی رحمت سے دور ہوئے، اس لعنت کے معنی، وہی عذاب تھا جس نے ان کا اسقدر پیچھا کیا کہ آخر میں ان کو ہلاک کر دیا۔ [29]

عذاب الہیٰ

قرآن کریم نے متعدد آیات کے ذیل میں حضرت ہود(ع) اور قوم عاد کے درمیان کی گئی گفتگو کو نقل کیا ہے۔ [30] قوم عاد کو خشک سالی کا سامنا ہوا اور کافی مدت تک بارش نہ آئی۔ [31] حضرت ہود(ع) نے ان کو وعدہ دیا کہ اگر توبہ کریں گے تو خشک سالی ختم ہو جائے گی اور حتی کہ انکی نعمات میں بھی اضافہ ہو گا۔ [32] اس کے باوجود قوم عاد نے حضرت ہود(ع) کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ [33]

عاد کے لوگوں نے دور سے آسمان پر ایک بڑا بادل دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ بارش آنے والی ہے حالانکہ یہ عذاب والا بادل تھا۔[34]آخر سات دن اور سات رات مسلسل قوم عاد پر عذاب نازل ہوا۔ [35]

قوم عاد کی ہلاکت کے بعد، حضرت ہود(ع) دوسرے مومنوں کے ہمراہ اپنی سرزمین کو ترک کر کے مکہ چلے گئے۔ [36]

حوالہ جات

  1. البدايۃ و النہايۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲،‌ص۱۵۶.
  2. فخر رازی، مفاتيح الغيب، ۱۴۲۰ق، ج۳۱، ص۱۵۲.
  3. سوره اعراف، آیہ ۶۹ ؛ سوره ذاریات، آیہ ۴۶.
  4. سوره نجم، آیہ ۵۰.
  5. طباطبائی، الميزان في تفسير القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۵۰.
  6. میبدی، كشف الأسرار و عدة الأبرار، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۵۳۲.
  7. میبدی، كشف الأسرار و عدة الأبرار، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۴۳۵.
  8. سوره احقاف، آیہ۲۱.
  9. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱، ج۲۱، ص۲۹۲.
  10. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۶۵.
  11. طباطبائی، الميزان في تفسير القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۱۸، ص۲۱۰.
  12. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص ۴۵۶؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ج ۱۸، ص۲۱۸.
  13. ندایی، تاریخ انبیاء، ۱۳۸۹، ص۵۵.
  14. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۸، ص۲۸۳.
  15. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴، ج۲۱، ۲۹۵.
  16. سوره قمر، آیہ ۲۰؛ سوره الحاقہ، آیہ ۷.
  17. سوره اعراف، آیہ ۶۹.
  18. شیخ طوسی، التبيان في تفسير القرآن، ج۴، ص۴۴۵.
  19. جزایری، النور المبين،۱۳۸۱ق، ص۱۳۵.
  20. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۴۵۶؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۴۵۲.
  21. قمی، ۱۴۰۴ق، تفسیر القمی، ج۱، ص۳۲۹.
  22. سوره ہود، آیہ ۵۳.
  23. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۴۵۷؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج۲۳، ص: ۱۵: مکارم، تفسیر نمونہ، ج۶، ۲۲۶-۲۳۲.
  24. سوره ہود، آیہ ۵۰.
  25. سوره ہود، آیہ ۵۰.
  26. طباطبائی، الميزان في تفسير القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۲۹۸.
  27. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۴۵۳.
  28. سوره ہود، آیہ ۵۹.
  29. طباطبائی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۴۵۳؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۴۳-۱۴۴.
  30. سوره ہود، آیات ۵۰- ۵۷.
  31. قمی، تفسير القمي، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۲۹.
  32. سوره ہود،‌آیہ ۵۲.
  33. سوره ہود، آیہ ۵۳.
  34. سوره احقاف، آیہ ۲۴.
  35. سوره حاقہ، آیہ ۷.
  36. عوتبى صحارى‏، الأنساب، ۱۴۲۷، ج۱، ص۷۱.

مآخذ

  • ابن کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • جزایری، نعمت‌ الله بن عبدالله، النور المبين فی قصص الأنبياء و المرسلين (قصص قرآن)؛ چودہ معصومین(ع) کی زندگی، مصحح:سیاح، احمد، مترجم:مشایخ، فاطمہ، تہران، ١٣٨١ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ، شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق، قصیرعاملی، احمد، داراحیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا.
  • طباطبائی، سید محمد حسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی‏، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
  • طباطبائی، محمدحسين، ترجمہ تفسير الميزان‏، مترجم: موسوى، محمد باقر، قم، جامعہ مدرسين حوزه علميہ قم،نوبت چاپ: ۵، ۱۳۷۴ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ: حسین نوری و محمد مفتح، تہران، نشر فراہانی، ۱۳۵۲ش.
  • عوتبى صحارى‏، الأنساب‏، مصحح: نص، محمد احسان‏، سلطنۃ عمان (وزارة التراث القومي و الثقافۃ)، مسقط، ۱۴۲۷ق.
  • فخرالدین رازی، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ش.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب،‏ دار الکتاب، قم، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۴ش.
  • میبدی، احمد بن ابی سعد، کشف الأسرار و عدة الأبرار، تحقیق: حکمت‏، علی اصغر، انتشارات امیر کبیر، تہران، چاپ پنجم، ۱۳۷۱ش.
  • ندایی، فرامرز، تاریخ انبیاء آدم سے خاتم تک، تہران، انتشارات اروند و سما، ۱۳۸۹ش.