حضرت یحیی

ویکی شیعہ سے
حضرت یحیی
مقام حضرت یحیی، مسجد اموی دمشق
مقام حضرت یحیی، مسجد اموی دمشق
قرآنی نام:یحیی
مدفن:مسجد جامع اموی
قبل از:عیسی
بعد از:موسی
کتاب کا نام:توریت
مشہوراقارب:حضرت زکریا، حضرت مریم
ہم عصر پیغمبر:حضرت زکریا، حضرت عیسی
پیروکار:بنی اسرائیل
قرآن میں نام کا تکرار:5 دفعہ
اہم واقعات:عیسی بن مریم کی ولادت، حضرت یحیی کی شہادت
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


یحیی بن زکریا، بنی ‌اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے جو بچپن میں نبوت پر فائز ہوئے۔ قرآن کریم میں حضرت زکریا کے بڑھاپے اور ان کی بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود آپ کی ولادت کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت یحیی زہد اور خوف خدا میں بہت زیادہ گریہ و زاری کرنے میں مشہور تھے۔

شیعہ احادیث میں امام حسینؑ کی شہادت کو آپ کی شہادت جبکہ بعض ائمہ معصومین کے بچپن میں امامت پر فائز ہونے کو آپ کے بچپن میں نبوت پر فائز ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام زمانہ کے بچپن میں امامت پر فائز ہونے پر حضرت یحیی کے بچپن میں نبوت پر فائز ہونے کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔

صابئین یا مندائیت خود کو آپ کا پیروکار مانتے ہیں۔ مسجد اموی دمشق میں آپ کی قبر کے عنوان سے ایک مقام منسوب و مشہور ہے۔

سوانح حیات

آپ حضرت زکریا فرزند تھے۔ زکریا بڑھاپے تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ ایک دن حضرت مریم اور بہشت سے ان کی خاطر بھیجے گئے نعمات [1] کو دیکھ کر خدا سے اولاد کی درخواست کرتے ہوئے کہا: خداوندا! مجھے اپنی طرف سے ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا فرما بتحقیق تو دعاوں کو سننے والا ہے۔[2]

حضرت زکریا نے اپنی دعا میں خاندان یعقوب کا کوئی وارث نہ ہونے[3] نیز اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خدا سے درخواست کی۔[4]

خدا نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں بڑھاپے اور ان کی بیوی کے بانجھ ہونے کی باوجود انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا۔ حضرت یحیی کی والدہ گرامی کا نام ایشاع،[5] الیصابات[6] یا الیزابت تھا جو حضرت مریم کی خالہ تھیں[7] حضرت مریم کے حاملہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بھی بطور معجزہ حاملہ ہو گئیں[8] اور خدا نے انہیں بیٹے کی نعمت سے مالا مال فرمایا جس کا نام یحیی رکھا گیا۔[9]

وجہ نام گذاری

حضرت یحیی کے وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف دلائل ذکر کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ خدا نے ان کی ولادت کے ذریعے ان کی والدہ کے بانجھ پن کو ختم کیا اور گویا انہیں دوبارہ احیا کیا اسی بنا پر آپ کو یحیی نام رکھا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ خدا نے انہیں ایمان کے ذریعے دوبارہ احیا فرمایا یا یہ کہ خدا نے ان کے قلب مطہر کو نبوّت کے ذریعے زندہ کیا اسی بنا پر انہیں یہ نام دیا گیا۔ یہ نام آپ سے پہلے کسی کیلئے نہیں رکھا گیا تھا۔ [10]

نبوت

حضرت یحیی بچپن میں ہی نبوت کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپ حضرت عیسی کی نبوت کے تصدیق کنندہ تھے جسے خدا نے آپ کی خصوصیات میں سے ایک قرار دیا ہے۔[11] آپ حضرت موسی کی شریعت کو زندہ کرنے والے تھے۔ اور حضرت عیسی کے مقام نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ ان پر ایمان لائے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ حضرت یحیی حضرت عیسی سے 6 ماہ بڑے تھے اور حضرت عیسی کی نبوت کو تسلیم اور تصدیق کرنے والی سب سے پہلی شخصیت آپ ہی کی ذات تھی۔ چونکہ آپ لوگوں کے درمیان زہد اور پاکدامنی میں شہرت رکھتے تھے اس بنا پر آپ لوگوں کو حضرت عیسی کی طرف دعوت دینے میں زیادہ مؤثر واقع ہوئے۔[12] علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ کتاب یحیی سے مراد وہی توریت ہے۔[13]

شہادت

امام سجادؑ اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں کہ بنی‌ اسرائیل کا بادشاہ اپنے محارم میں سے کسی ایک کا عاشق ہوا اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ حضرت یحیی نے اس کام کی مخالفت کی۔ اس معشوقہ نے اپنی والدہ کے ورغلانے پر یہ شرط رکھ دی کہ اگر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو یحیی کا سر کاٹ کر میرے سامنے رکھا جائے اور بنی‌ اسرائیل کے بادشاہ نے حضرت یحیی کا سر کاٹ کر ایک سونے کے طشت میں رکھ کر اس کے پاس بھیجا۔[14]

احادیث میں آیا ہے کہ جب حضرت یحیی کا سر قلم کیا گیا تو ان کے خون نے زمین پر گرتے ہی جوش مارنا شروع کر دیا۔ بنی‌ اسرائیل کی قوم نے اس خون پر مٹی ڈال کر چھپانے کی لاکھ کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے اور یہ خون اسی طرح جوش مارتا رہا یہاں تک کہ بخت ‌النصر بنی ‌اسرائیل کا حاکم بنا اور اس نے بنی‌ اسرائیل کے ہزاروں افراد کو حضرت یحیی کے خون کے انتقام میں قتل کیا۔ اس کے بعد خون نے جوش مارنا بند کر دیا۔[15]

مسجد اموی دمشق میں حضرت یحیی کا مرقد

امام حسین اور حضرت یحیی میں مشابہت

احادیث کے مطابق آسمان و زمین نے امام حسینؑ اور یحیی‌ دونوں پر گریہ کیا ہے۔[16] امام حسینؑ کربلا کے راستے میں حضرت یحیی اور ان کی شہادت کو یاد کرتے تھے۔[17] البتہ بعض احادیث میں آسمان و زمین کے گریہ کرنے کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں شخصیات کی شہادت پر آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور سورج کا رنگ سرخ ہوگیا۔[18] حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ آسمان و زمین نے فقط دو شخصیات کیلئے گریہ کیا ہے اور وہ یحیی بن زکرّیا اور حسین بن علیؑ ہیں۔[19]

اخلاقی خصوصیات

منابع میں آپ کے پانچ اوصاف کا تذکرہ ملتا ہے؛

  1. حضرت مسیح پر ایمان
  2. علم و عمل میں سیادت و رہبری کا مقام
  3. صالح پیغمبر
  4. زہد و پارسایی
  5. عظمت و بزرگی[20]

خوف خدا میں بہت زیادہ گریہ کرنا نیز کھردرا لباس پہننا آپ کا معمول تھا۔[21] پیغمبر اسلامؐ اس حوالے سے فرماتے تھے: "یحیی بن زکریا اس قدر زاہدانہ زندگی گزارتے تھے کہ آپ بچپن میں ہی بیت المقدس جایا کرتے تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ احبار اور راہب کھردرے لباس پہن کر عبادت میں مشغول ہیں تو آپ بھی ان کی طرح کھردرے لباس میں عبادت میں مشغول ہوتے تھے۔[22] کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا جب لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگتے اور اگر حضرت یحیی بھی لوگوں کے درمیان ہوتے تو آپ بہشت و جہنم کا تذکرہ نہیں کرتے تھے کیوںکہ جب بھی بہشت اور جہنم کا تذکرہ کرتے تو حضرت یحیی بہت زیادہ گریہ کرتے تھے۔[23] اصول کافی میں حضرت علیؑ سے منقول ہے: حضرت یحیی بہت زیادہ گریہ کیا کرتے تھے اور کبھی بھی ہنستے نہیں تھے لیکن عیسی بن مریم ہنستے بھی تھے اور گریہ بھی کیا کرتے تھے اور عیسی کا یہ عمل یحیی سے بہتر تھا۔[24]

ایک اور حدیث میں حضرت یحیی کی افضلیت کے بارے میں آیا ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں یحیی سے افضل ہوں کیوںکہ انہوں نے کبھی کوئی گناہ انجام نہیں دیا اور کسی عورت میں دلچسپی نہیں لی۔ بعض اس حدیث کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے قبول نہیں کرتے ہیں۔[25]

یحیی کتب مقدس میں

قرآن

قرآن میں حضرت یحیی کا نام چار سورتوں میں پانچ دفعہ آیا ہے۔[26] حضرت یحیی کی ولادت اور آپ کی زندگی کا مختصر خاکہ نیز بعض صفات سمیت آپ کا نام قرآن میں آیا ہے۔ قرآن میں آپ کا تذکرہ اکثر اوقات آپ کے والد جناب زکریا کے داستانوں میں آیا ہے،[27] البتہ سورہ مریم میں جداگانہ طور پر آپ کی بعض فضیلتوں، نعمتوں اور آپ پر خدا کے لطف و کرم کا خصوصی تذکرہ ہوا ہے۔[28] خداوند عالم نے قرآن میں آپ کے مقام و منزلت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے: وَ سَلامٌ عَلَیهِ یوْمَ وُلِدَ وَ یوْمَ یمُوتُ وَ یوْمَ یبْعَثُ حَیا (ترجمہ: ان پر ہمارا سلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے)[؟–۱۵] امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث میں آپؑ نے اسی آیت سے استناد کرتے ہوئے فرمایا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ حضرت یحیی تین مواقع یعنی ولادت، موت اور قیامت کے دن امن و امان میں ہوں گے جبکہ دوسرے لوگ ان تین مواقع پر وحشت زدہ ہونگے۔[29]

انجیل

انجیل میں حضرت یحیی سے متعلق مختلف داستانیں اور حکایات نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بہت زیادہ مطالب قرآن کے ساتھ مشترک ہیں۔ حضرت زکریا کو آپ کی ولادت کی خوش خبری کا واقعہ انجیل لوقا میں مفصل ذکر ہوا ہے۔[30] بعد میں حضرت یحیی تعمید دینے والے کے عنوان سے مشہور ہوئے اور آپ لوگوں کو موعظہ کیا کرتے تھے۔ لوگ دور دراز سے ان کے موعظوں کو سننے آتے تھے۔[31] آپ علماء نماؤوں اور اپنی قوم کے بزرگان کے خلاف بھی بولتے تھے۔[32] لیکن اناجیل میں آپ کے خطابات کا اہم حصہ حضرت عیسیؑ کی تائید، ان کی حقانیت کی تبلیغ اور حضرت عیسی کو تعمید دینے پر مشتمل ہے۔[33] ایک دفعہ حضرت عیسی اور حضرت یحیی کے حواریوں کے درمیان آپ دونوں کی افضلیت پر بحث چھڑ گئی۔ اس موقع پر حضرت یحیی کے حواری ان کے یہاں گئے تو آپ ان سے یوں مخاطب ہوئے: "ہر ایک کا کام خدا آسمان سے تعیین فرماتا ہے۔ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں عیسی مسیح کیلئے راہ ہموار کروں تاکہ لوگ ان کی طرف آجائے۔ آپ لوگ خود اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ میں مسیح نہیں ہوں بلکہ ان کیلئے راہ ہموار کرنے آیا ہوں۔ شادی کی تقریب میں دلہن داماد کے پاس چلی جاتی ہے اور داماد کے دوست ان کی شادی میں شریک ہوتے ہیں، میں بھی داماد کے دوستوں میں سے ہوں اور اس کی خوشی میں شریک ہوں۔"[34]

شیعہ احادیث میں

بچپن میں امامت

شیعہ احادیث میں علی بْن أَسْبَاط سے منقول ہے: ایک دن میں امام محمد تقی کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت امام کم سنی کے عالم میں تھے۔ میں نے آپ کے قد و قامت پر اچھی طرح نگاہ کی تاکہ اسے ذہن میں محفوظ کر سکوں اور جب مصر پہنچوں تو اپنے دوستوں سے اس حوالے سے بتا سکوں۔ اس موقع پر امام نے فرمایا: خدا نے جو کام امامت کے مسئلے میں انجام دیا ہے وہ ہوبہو وہی ہے جو آپ نے نبوت کے مسئلے میں انجام دیا تھا: وَ آتَیناهُ الْحُکمَ صَبِیا (ترجمہ: اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی)[؟–۱۲] ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: حَتَّی إِذا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِینَ سَنَةً (ترجمہ: یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا)[؟–۱۵] پس جس طرح خدا کسی کو چالیس سال کی عمر میں حکمت اور دانائی عطا کر سکتا ہے اسے بچپن میں بھی عطا کر سکتا ہے۔[35]

شیعہ بچپن میں امام کی امامت کو ثابت کرنے کیلئے حضرت یحیی کی نبوت سے استناد کرتے ہیں چونکہ آپ کو بچپن میں نبوت ملی تھی۔[36]

شیطان سے گفتگو

بعض احادیث میں حضرت یحیی کی شیطان سے ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے؛ ان احادیث کے مطابق ایک دن حضرت یحیی نے شیطان کو ایک وحشتناک شکل و صورت میں دیکھا جو کچھ عجیب و غریب ابزار اٹھائے ہوئے تھا اس موقع پر آپ نے شیطان سے ان ابزار سے متعلق پوچھا۔ شیطان نے کہا ان میں سے ایک مختلف انسانوں کو پھنسانے کیلئے ہے۔ حضرت یحیی نے شیطان سے پوچھا آیا تم کبھی مجھے بھی فریب دے چکے ہو؟ شیطان نے کہا: نہیں، لیکن آپ میں ایک خاصیت ہے جو مجھ بہت پسند ہے اور وہ پرخوری ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات صحیح طور پر نماز پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ حضرت یحیی نے اسی وقت فرمایا: اس کے بعد خدا سے عہد کرتا ہوں کہ ہرگز سیر ہو کر کھانا نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ خدا سے ملاقات ہو۔ ابلیس نے کہا: اس کے بعد میں بھی خدا سے عهد کرنا ہوں کہ کسی مؤمن کو نصیحت نہیں کرونگا یہاں تک کہ خدا سے ملاقات کروں، اس کے بعد وہ حضرت یحیی کے یہاں سے چلا گیا اور پھر کبھی بھی آپ کے نزدیک نہیں آیا۔[37]

صابئین

صابئین یا مندائیت ایک مذہبی گروہ کا نام ہے جو آج سے تقریبا 2000 سال پہلے حضرت یحیی کے تحت تعلیم اور ان کے پیرکار محسوب ہوتے تھے۔[38] ان کا عقیدہ ہے کہ ان کی مقدس کتاب حضرت یحیی لے آئے تھے۔[39] ایران میں اشکانیوں کی حکومت کے دوران اس مذہب کے پیروکار یہاں داخل ہوئے اور یہودیوں کے بعد یہ لوگ سب سے قدیم مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے فلسطین سے ایران ہجرت کی۔

صابئین الہی ادیان میں سے ہیں جن کی اپنی کتاب، پیغمبر، خط اور زبان ہیں،[40] قرآن کریم میں بعض آیات میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔[41]

مسجد اموی دمشق میں حضرت یحیی کا مقام

محل دفن

حضرت یحیی سے منسوب سب سے مشہور مزار مسجد جامع اموی دمشق میں ہے۔ اس بنا پر آپ کا بدن اس مسجد میں سپرد خاک کیا گیا لیکن آپ کا سر دمشق کے زَبدانی نامی محلے میں ایک مسجد میں دفن ہیں۔[42] ایک اور نقل کے مطابق بعض مسلمان اور مسیحی اس بات کے معتقد ہیں کہ آپ کا سر "سَباستِیہ" نامی مقام پر ایک مسجد میں دفن ہے جو بیت المقدس کے شمال میں واقع ہے جسے یہودی شومِرون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مسیحیوں نے بھی آپ کے احترام میں اس مسجد کے ساتھ ایک کلیسا تعمیر کی ہے جس کا نام "یحیی تعمید دہندہ" رکھا گیا ہے۔[43]

حوالہ جات

  1. سورہ آل‌ عمران، آیہ ۳۷
  2. سورہ آل‌ عمران، آیہ ۳۸
  3. سورہ مریم، آیہ ۶
  4. سورہ مریم، آیہ ۵
  5. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۶۸
  6. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۱۴، ص۲۹
  7. مسعودی،‌ مروج الذہب، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۷۰
  8. شبستری، اعلام القرآن، ۱۳۷۹ش، ص۳۹۷
  9. سورہ مریم، آیہ ۷
  10. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۱.
  11. سورہ آل عمران، آیہ ۳۹.
  12. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۱۶۹؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ج۲، ص۵۳۵.
  13. طباطبایی، ترجمہ المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۴، ص۲۲.
  14. ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۸۵
  15. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۶
  16. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۹۱؛ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۷۹.
  17. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۲
  18. ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۵۴
  19. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۱.
  20. سورہ آل عمران، آیہ۳۹؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ج۲، ص۵۳۵.
  21. ابن فہد حلّی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۱۱۹.
  22. شیخ صدوق، الأمالی، ۱۴۰۰ق، ص۲۷.
  23. جزایری، داستان پیامبران، ۱۳۸۰ش، ص۵۶۲.
  24. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۷
  25. راد، روایات تفاضل یونس علیہ السلام و یحیی علیہ السلام؛ تعارض و راہکارہا، ص۸.
  26. شوقی ابوخلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۰
  27. سورہ مریم‌آیہ ۷ تا ۱۶؛سورہ آل عمران، آیہ ۳۹؛ سورہ انعام، آیہ ۸۵؛ سورہ انبیاء، آیہ ۹۰.
  28. سورہ مریم‌، آیہ ۷ تا ۱۶
  29. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۲.
  30. انجیل لوقا، ۱: ۵- ۲۵.
  31. انجیل متی، ۳: ۱-۶؛ انجیل مرقس، ۱: ۴-۷.
  32. انجیل متی، ۳: ۷.
  33. انجیل متی، ۳: ۱۱- ۱۷.
  34. انجیل یوحنا، ۳: ۲۷-۳۰
  35. کلینی، الکافی،۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۴؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۳۸؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۳ش، ج۱۳، ص۲۸
  36. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۶۹.
  37. جزایری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۵۶۳
  38. کریمی شرودانی، ہمہ چیز دربارہ صابئین (مندائیت) (۱)
  39. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۳۵۸.
  40. کریمی شرودانی، ہمہ چیز دربارہ صابئین (مندائیت) (۱)
  41. سورہ بقرہ، آیہ ۶۲؛ سورہ مائده، آیہ ۶۹؛ سورہ حج، آیہ ۱۷.
  42. رامین ‌نژاد، مزار حضرت یحیی (علیہ السلام)
  43. رامین‌ نژاد، مزار حضرت یحیی (علیہ السلام)

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب علیہم السلام، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔
  • ابن فہد حلّی، جمال الدین احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ‌بی‌جا،‌ دار الکتب الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۷ق۔
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تحقیق و تصحیح عبدالحسین امینی، نجف،‌ دار المرتضویۃ، ۱۳۵۶ش۔
  • حسینی شیرازی، محمد، تبیین القران، دمشق،‌دار العلوم، ۱۴۲۳ق۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب إلی الصواب، قم، الشریف الرضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
  • شیخ صدوق (ابن بابویہ القمی)، محمد بن علی، الأمالی، بیروت، اعلمی، چاپ پنجم، ۱۴۰۰ق۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
  • طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمہ محمد باقر موسوی ہمدانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • قطب‌ الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الأنبیاء علیہم السلام، تحقیق و تصحیح غلام رضا عرفانیان یزدی، مرکز پژوہش‌ہای اسلامی، مشہد، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب،‌ دار الکتاب، قم، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق۔
  • مجلسی، محمد تقی، بحار الانوار، تہران، مطبعہ الاسلامیہ، ۱۳۸۹ق۔
  • ورام بن أبی فراس، مسعود بن عیسی، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر المعروف بمجموعۃ ورام، مکتبۃ الفقیہ، قم، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
  • جزائری، نعمت اللہ بن عبد اللہ، داستان پیامبران، ترجمہ قصص الأنبیاء جزائری، ۱ جلد، تہران، انتشارات ہاد، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔
  • راد، علی،‌ روایات تفاضل یونس علیہ‌السلام و یحیی علیہ‌السلام؛ تعارض و راہکارہا، سایت حدیث شیعہ، تاریخ درج مطلب: ۲۹ اسفند ۹۵ش، تاریخ بازدید: ۲۹ اسفند ۹۵ش۔
  • رامین ‌نژاد، رامین، «مزار حضرت یحیی (علیہ‌السلام)»، در سایت راسخون، تاریخ درج مطلب: ۱۲ دی ۹۱ش، تاریخ بازدید: ۱ فروردین ۹۶ش۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی اللہ علیہم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • کریمی شرودانی، محمود، «ہمہ چیز دربارہ صابئین (مندائیان) (۱)»، تاریخ درج مطلب: ۱۸ مرداد ۸۹ش، تاریخ بازدید: ۱ فروردین ۹۶ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، ۸ جلد، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ ق۔