مندرجات کا رخ کریں

قوم لوط

ویکی شیعہ سے

قوم لُوط فلسیطن کے علاقے مُؤتَفِکات کی رہنے والی قوم تھی کہ جو لِواط جیسے گناہان کبیرہ کرنے کی وجہ سے عذاب الہی کا شکار ہوئی۔ اس قوم کے پیغمبر کا نام لوط تھا۔

قوم لوط جبرئیل، میکائیل اور اِسرافیل کے ہاتھوں عذاب سے دو چار ہوئی۔ فرشتے خوبصورت اجنبی مردوں کی صورت میں حضرت لوط کے گھر مہمان آئے۔ قوم نے نبی کے گھر جوان خوبصورت مردوں کی خبر کا سن کر نبی سے تقاضا کیا کہ وہ ان سے جنسی رابطہ برقرار کرنے کی اجازت دے۔ نبی کے انکار کے بعد قوم لوط نے لوط پیغمبر کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ لیکن ان کی یہ کوشش ناکام گئی اور وہ اس وقت فرشتوں کے ہاتھوں نابینا ہو گئے۔ فرشتوں کے حضرت لوط کے گھر آنے کے ایک دن بعد اس پر قوم پر عذاب نازل ہوا۔

ان پر عذاب آسمان سے پتھروں کی بارش اور اس علاقے کی سر زمین کے الٹے جانے کی صورت میں نازل ہوا۔جبکہ فرشتوں کے کہنے پر حضرت لوطؑ اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ عذاب سے رات کو مؤتکفات کی سر زمین سے چلے گئے۔

قرآن ، توریت اور دیگر تاریخی مصادر میں اس قوم کے منفور چہرے کی داستان ذکر ہوئی ہے۔ یہ قوم لواط،ڈاکہ زنی اور مسافروں کو آزار دینے جیسے گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوتے تھے۔ قرآن نے لواط کا گناہ کرنے والی پہلی قوم کے حوالے قوم لوط کا تذکرہ کیا ہے۔

فرشتوں نے مؤتکفات جانے سے پہلے ابراہیمؑ کے پاس جا کر اس عذاب سے باخبر کیا۔ حضرت ابراہیم لوط کی وجہ سے پریشان تھے لہذا انہوں نے فرشتوں سے درخواست کی کہ قوم لوط کو عذاب دینے سے پہلے خدا سے اجازت حاصل کریں۔ فرشتوں نے آپ کو اطمینان دلایا کہ لوط اور ان کی اولاد کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ فرشتوں نے اس عذاب کو خدا کا قطعی وعدہ کہا۔

تعارف

قوم لوط فلسطین کے علاقے مؤتفکات میں آباد تھی۔ فلسطین کے سَدوم، عَمورہ، صَوغَر و صَبُویِیم کو مؤتفکات کہا جاتا تھا۔[1] قرآن اور تاریخی متون میں اس قوم کا منفی چہرہ بیان ہوا ہے۔[2] وہ لواط، راہزنی، مہمانوں کو آزار و اذیت دینے جیسے گناہ کا ارتکاب کرتے تھے۔[3]

خصوصیات

آیات قرآن، کے مطابق قوم لوط لواط کی مرتکب ہوتی تھی۔[4] قرآن قوم لوط کو پہلا ایسا گروہ کہتا ہے جو لواط کا مرتکب ہوا۔[5] البتہ اسکے علاوہ دیگر ناپسندیدہ امور کی نسبت بھی ان کی طرف دی گئی ہے۔ جیسے مسافران اور رہگذروں کو پھل دار درختوں سے پھل وغیرہ کی اجازت نہ دینا، غذا نہ دینا، آزار و اذیت، کبوتر بازی، سرخ لباس پہننا، دف بجانا، تالیاں اور سیٹیاں بجانا، شراب پینا، ڈاڑھی کو کٹوانا اور بڑی مونچھیں رکھنا، راہزنی اور لوگوں کے اموال کو غارت کرنا۔[6]

حضرت لوط

لوطؑ ہاران پیغمبر کے بیٹے تھے کہ جنہیں مؤتکفات کی سر زمین پر بھیجا گیا تا کہ وہ دین ابراہیمؑ اور یکتاپرستی کی تبلیغ کریں۔ وہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے اور سارہ کے بھائی تھے۔

عذاب قوم لوط

تاریخی مصادر کے مطابق لواط جیسے گناہ کبیرہ کو نہ چھوڑنے کی وجہ سے عذاب الہی کا شکار ہوئی۔[7] لوط ؑ قوم کو خدا کی عبادت اور لواط سمیت گناہان کبیرہ کے چھوڑے کی دعوت دیتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے اصرار گناہ اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں وعدہ عذاب دیا تھا۔ پس لوط کی بارہا نصیحتوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس قوم نے اپنے گناہوں کو ترک نہ کیا تو نبی نے خدا سے اپنے کئے ہوئے وعدہ کے مطابق عذاب کی درخواست کی۔ [8]

فرشتوں کا مہمان ہونا

حکم خدا پر جبرئیل اور دو فرشتے یعنی میکائیل اور اسرافیل اس عذاب کیلئے مقرر ہوئے۔ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی صورت میں قوم لوط کی زمین میں داخل ہوئے اور حضرت لوط سے کہا کہ آج کی رات ہم آپ کے مہمان ہیں۔[9]

لوط انہیں اپنے گھر لے آئے۔ نبی نے اپنی قوم کی طرف سے مہمانوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ان نوجوان مہمانوں سے کہا: تم اس علاقے کے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتے کہ یہ کتنی بری عادت رکھتے ہیں؟ یہ تو روی زمین کے بدکار ترین لوگ ہیں۔[10] سورہ ہُود کی 77ویں آیہ میں حضرت لوط کی اس پریشانی کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[11] ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ لوط کی بیوی نے مہمانوں کو دیکھ کر قوم تک یہ خبر پہنچا دی کہ لوط کے یہاں خوبصورت نوجوان آج رات مہمان ہیں۔[12]

قوم لوط کی طرف سے برائی کا قصد

قوم لوط کے افراد لوط کے گھر میں مہمانوں کی خبر سن کر ہمیشہ کی طرح مہمانوں کے ساتھ لواط کے قصد سے حضرت لوط کے گھر گئے۔[13] قوم کو اپنے گھر دیکھ کر نبی ان کے برے عزائم سے آگاہ ہو گئے۔ حضرت لوط نے ان سے کہا: وہ اپنے اس عمل کے ساتھ انہیں مہمانوں کے سامنے شرمندہ نہ کریں، انہیں مہمانوں کے ساتھ اس عمل سے ڈرایا اور انہیں تجویز دی کہ وہ اس کی بجائے ان کی بیٹیوں سے شادی کریں۔[14] قوم لوط کے افراد نے پہلے سے کہا ہوا تھا کہ جو بھی مہمان اس سرزمین پر آئے گا وہ ان کیلئے ہے اور تمہیں ان مہمانوں کو اپنے گھر نہیں لے کر جانا چاہئے تھا۔ یوں انہوں نے حضرت لوط کو مہمان گھر لانے پر سرزنش کی اور نبی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔[15]

لوط نے مدد کی آرزو کی تا کہ وہ اپنی قوم کے اس ناپسندیدہ عمل کو انجام نہ دے سکیں۔ لوط نے خدا سے دعا کی کہ وہ اسے اور اہل خانہ کو اس قوم سے نجات دے۔ سورہ شُعرا میں اس دعا اور اس کی قبولیت کی طرف اشارہ موجود ہے۔[16] فرشتوں نے ابھی تک اپنی حقیقت سے لوط کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ پس انہوں نے اپنی قوت اور طاقت کا اظہار کرتے ہوئے نبی کو اپنے بارے میں بتایا کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔[17] اجازت کے بغیر لوط کے گھر داخل ہونے کے بعد وہ سب حکم خدا سے نابینا ہو گئے۔[18] کُلَینی کی روایت کے مطابق جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ سب اندھے ہو گئے۔[19] فرشتوں نے صبح کے بعد وقوع عذاب کی خبر لوط کو دی اور ان سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ہمراہ رات کی تاریکی میں اس شہر سے باہر چلے جائیں۔[20] لوط کے گھر میں عذاب کے فرشتوں کا آنا اور اس کے بعد کے واقعات کا بیان سورہ ہُود اور حِجر میں آیا ہے۔[21]

تحقق عذاب الہی

رات کو حضرت لوطؑ اور اس کی بیٹیوں کے شہر سے چلے جانے کے بعد خدا کا قوم لوط پر عذاب نازل ہوا۔ آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی جس نے ان کے شہروں کو ویران کر دیا۔[22] قوم لوط پر عذاب کا ماجرا قرآن کی چند سورتوں میں آیا ہے۔[23] توریت میں بھی فرشتوں کے لوط کے رہائشی شہر سدوم میں آنے، عذاب قوم لوط اور نبی کی اپنی بیٹیوں کے ہمراہ نجات پانے کا واقعہ ذکر ہوا ہے۔[24]

عذاب قوم لوط کے متعلق حضرت ابراہیم کی فرشتوں سے گفتگو

فرشتے سرزمین مؤتکفات جانے سے پہلے ابراہیم اور سارہ کو صاحب اولاد ہونے کی بشارت دینے کیلئے حضرت ابراہیم کے گھر آئے۔ نیز انہوں نے ابراہیم کو عذاب قوم لوط کی اپنی دوسری ذمہ داری کی خبر سے بھی آگاہ کیا۔حضرت ابراہیم جو قوم لوط کے سلجھنے کے امیدوار تھے، نے فرشتوں سے ان میں صاحبان ایمان بندوں کے بارے میں استفسار کیا۔ فرشتوں نے مومنین کی موجودگی میں عذاب کے نہ ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ اس قوم میں لوط اور اسکی بیٹیوں کے علاوہ کوئی مؤمن نہیں ہے۔[25] فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو لوط اور انکی بیٹیوں کے عذاب سے نجات پانے کی یقین دہانی کروائی۔[26] ابراہیم کی فرشتوں کے ساتھ گفتگو سورہ ہود اور عنکبوت میں ذکر ہوئی ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374ش، ج1، ص444.
  2. سورہ شعراء، آیہ 160-175؛ سورہ عنکبوت، آیہ 28-30.
  3. مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374ش، ج‏1، ص444.
  4. سورہ عنکبوت، آیہ 28.
  5. سورہ عنکبوت، آیہ 28.
  6. مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374ش، ج‏1، ص444.
  7. ابن ‌خلدون، دیوان المبتدا و الخبر، 1408ق، ج2، ص41.
  8. طبری، تاریخ طبری، ترجمہ، 1375ش، ج1، ص223.
  9. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ق، ج1، ص179؛ طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص225.
  10. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص225.
  11. سورہ ہود، آیہ 77.
  12. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ق، ج1، ص180؛ طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص226.
  13. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص226.
  14. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص226.
  15. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص226.
  16. سورہ شعرا، آیہ 169 و 170.
  17. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص227.
  18. سورہ قمر، آیہ 37.
  19. یعقوبی، تاریخ بعقوبی، بیروت، ج1، ص36؛ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1370ش، ج19، ص161.
  20. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص227.
  21. سورہ ہود، آیہ 79- 83؛ سورہ حجر، آیہ 76 و 66.
  22. سراج، طبقات ناصری، 1363ش، ج1، ص31؛ طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص227.
  23. سورہ ذاریات، آیہ 33؛ سورہ ہود، آیہ 81؛ سورہ حجر، آیہ 76 و 66.
  24. کتاب مقدس، کتاب تکوین، باب 18، آیہ16-23؛ باب 19، آیہ1-29.
  25. طبری، تاریخ طبری، 1375ش، ج1، ص224.
  26. سورہ عنکبوت، آیہ 32.
  27. سورہ ہود، آیہ 73-76؛ سورہ عنکبوت، آیہ 32.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • کتاب مقدس.
  • ابن ‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ق.
  • ابن کثیر، أبوالفداء اسماعیل بن عمر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • سراج جوزجانی، منہاج الدین، طبقات ناصری تاریخ ایران و اسلام، تحقیق عبد الحی حبیبی، تہران، دنیای کتاب، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، تفسیر المیزان، ترجمہ سیدمحمدباقر موسوی ہمدانی، تہران، مرکز نشر فرہنگی رجا، چاپ چہارم، 1370ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، 1375ہجری شمسی۔
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ پنجم، 1374ہجری شمسی۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمدرضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح، تاریخ بعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.