ہبوط
ہبوط سے مراد حضرت آدم اور حوا کو بہشت سے نکال کر زمین میں سکونت دینے کے ہیں۔ لیکن بعض مفسرین ہبوط سے مراد تنزل معنوی لیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ خداوند متعال نے ترک اولی کی وجہ سے حضرت آدم اور حوا کے مقام کو تنزل دیا تھا جسے ہبوط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح بعض مفسرین کے مطابق یہ تنزل حضرت آدم اور حوا کو عقاب کے طور پر نہیں تھا بلکہ مصلحت اسی میں تھی کہ یہ دونوں شخصیات بہشت سے زمین پر آئیں اور تکلیف اور مشقت میں مبتلا ہوں تاکہ اس کے نتیجے میں اخروی سعادت سے ہمکنار ہو سکیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
ہبوط لغت میں کسی کو زبردستی اوپر سے نیچے اتارنے کے معنی میں ہیں۔[1] ہبوط کبھی طرف مقابل کو نیچا دکھانے کیلئے ہوتا ہے جیسے شیطان کا ہبوط۔[2] کبھی مخاطب کی تعظیم اور اس کی تجلیل کیلئے ہوا کرتا ہے۔[3] چنانچہ طوفان کے خاتمے کے بعد حضرت نوحؑ کا کشتی سے نیچے اترنے کیلئے بھی ہبوط کا استعمال ہوا ہے۔[4] اسی طرح یہ لفظ کبھی کبھار مذکورہ معانی کے علاوہ دوسرے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔[5]
ہبوط آدم و حوا
اصطلاح میں ہبوط کا لفظ حضرت آدم اور حوا کے بہشت نکالے جانے اور انہیں زمین پر بھجنے کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم اور حوا کو بہشت سے نکالے جانے کی طرف یوں اشارہ ہوا ہے: قالَ اهبِطا مِنْها جَميعا؛ [خدا] نے کہا: دونوں ایک ساتھ بہشت سے نیچے اتر آئیں؛[6] حضرت آدم اور حوا بہشت سے ہبوط کے بعد زمین پر ساکن ہوئے۔
بعض مفسرین معتقد ہیں کہ احکام الہی کا وجوب اور امر و نہی کا اجراء ہبوط کے بعد سے شروع ہوا اور اس سے قبل کسی قسم کے احکام وغیرہ نہیں تھے۔[7]
ہبوط ابلیس
حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کے بعد خدا کی طرف سے ابلیس کو بہشت سے خارج ہونے کا حکم ملا۔[8] جبکہ ابلیس سے متعلق ایک حکم ہبوط کا بھی ہے جو اس کی طرف سے حضرت آدم اور حوا کو دھوکا دے کر میوہ ممنوعہ کھلانے کے بعد ابلاغ ہوا: "قال فَاہْبِطْ مِنْہا؛ (ترجمہ: خدا نے فرمایا: اس مقام و مرتبے سے نیچے چلے جاؤ)۔[9] مفسرین ان دو حکموں(خروج اور ہبوط) کو جمع کرنے اور سجدے سے انکار کے نتیجے میں بہشت سے نکالے جانے کے بعد دوبارہ کیسے بہشت میں پہنچا اور آدم و حوا کو میوہ ممنوعہ کھلایا؟، مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں۔[10]
بہشت آدم و حوا اور شجرہ ممنوعہ
قرآن کریم میں حضرت آدم و حوا کی خلقت کے بارے میں گفتگو کے بعد بہشت کو ان دونوں کا پہلا محل سکونت قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہشت کہاں پر تھا؟ اس بارے میں کئی اقوالی موجود ہیں۔ فخر رازی نے تین نظریوں کو ان کے دلائل سمیت لایا ہے جو کچھ یوں ہیں: "روی زمین پر ایک باغی تھا"، "بہشت موعود کے علاوہ ایک آسمانی بہشت تھا" اور "بہشت موعود"۔[11]
جس وقت حضرت آدم و حوا بہشت میں ساکن تھے انہیں خدا کی طرف سے شجرہ ممنوعہ کے پھل سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن شیطان کے وسوسے میں آکر انہوں نے اسے کھا لیا۔ میوہ ممنوعہ کی کہانی قرآن میں تین جگہوں پر آیا ہے۔ اس میوہ ممنوعہ کی ماہیت اور حقیقت سے متعلق نظریات مختلف ہیں۔
ہبوط اور حکمت الہی کا تقاضا
بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت آدم و حوا کو سزائے کے طور پر بہشت سے نہیں نکالے گئے تھے۔ صدرالمتألہین اور طبرسی معتقد ہیں کہ حضرت آدم و حوا کو بہشت سے نکال کر زمین پر اتارا جانا انہیں سزائے کے عنوان سے نہیں تھا۔ کیونکہ بعض دلائل موجود ہیں کہ انبیاء ایسا کوئی کام انجام نہیں دیتا جو سزا یا عقوبت کا موجب بن سکے۔ خدا کی طرف سے آدم و حوا کو بہشت سے نکالا جانا حکمت کے مطابق تھا۔ خدا نے انہیں بہشت سے نکال کر زمین پر لے آیا کیوںکہ حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ یہ دونوں میاں بیوی زمین پر اتریں تاکہ ان کے گردن پر تکالیف اور مشقتیں ڈال دیا جائے جس کے نتیجے میں وہ سعادت اخروی سے ہمکنار ہو۔[12] اس بنا پر حضرت آدم و حوا کے اوپر تکالیف کا آنا حقیقت میں انہیں ثواب کا مستحق قرار دینے کیلئے تھا اور یہ سزا اور عقوبت کے ساتھ کوئی سازگاری نہیں رکھتا۔[13]
ہبوط مقامی
بعض مفسرین معتقد ہیں کہ حضرت آدم کا ہبوط اور نزول، ہبوط و نزول مکانی نہیں تھا ارو انہیں کسی مکان سے دوسرے مکان کی طرف منتقل نہیں کیا گیا بلکہ یہاں پر ہبوط اور نزول سے مراد مقام و منزلت سے ہبوط اور نزول ہے۔ خداا نے آدم و حوا کے مقام و مرتبے کو ان کے ترک اولى کی وجہ سے تنزل دیا اور ان دونوں کو بہشت کے نعمات سے محروم کر دیا اور دنیا کی مصیبتوں اور گرفتاریوں میں مبتلا کر دیا۔[14]
حوالہ جات
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ۱۴۱۲ق، ص۸۳۲.
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۳.
- ↑ قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ق، ج۷، ص۱۳۶.
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۴۸.
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ۶۱
- ↑ سورہ طہ، آیہ ۱۲۳.
- ↑ حقى بروسوی، تفسير روح البيان، ج۱، ص۱۱۰.
- ↑ سورہ حجر، آیہ ۳۴.
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۳.
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج ۳، ص ۴۶۳؛ قرطبی، الجامع لأحكام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۱، ص۲۵۸.
- ↑ فخر رازی، مفاتيح الغيب، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۴۵۲.
- ↑ صدرالمتألہین، تفسير القرآن الكريم، ۱۳۶۶ش، ج۳، ص۱۱۰؛ طبرسی، مجمع البيان في تفسير القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۹۷.
- ↑ فخر رازی، مفاتيح الغيب، ۱۴۲۰، ج۳، ص۴۶۴.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۳۳۲؛ نجفی خمینی، تفسير آسان، ۱۳۹۸ق، ج۱۲، ص۱۳۹.
مآخذ
- حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، دارالفکر، بیروت، بیتا.
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت، دار القلم، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
- صدرالمتألہین، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، تحقیق: خواجوی، محمد، انتشارات بیدار، قم، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
- فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
- قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ش.
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، انتشارات ناصر خسرو، تہران، چاپ اول، ۱۳۶۴ش.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
- نجفی خمینی، محمد جواد، تفسیر آسان، انتشارات اسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۳۹۸ق.