کلیم اللہ (لقب)

ویکی شیعہ سے

کَلیم‌ُ اللہ (وہ شخص جس کے ساتھ خدا نے کلام کیا) حضرت موسیؑ کا مخصوص لقب ہے[1] اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی واسطے کے حضرت موسیؑ کے ساتھ کلام کیا اس لیے آپؑ کو کلیم‌ اللہ کہتے ہیں۔[2] علما نے حضرت موسیؑ کو یہ لقب ملنا آپؑ کی فضیلت میں سے شمار کیا ہے۔[3]

سورہ نساء کی آیت نمبر 164 کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کے ساتھ کلام کیا: «کَلَّمَ اللہ مُوسی تَکْلیماً؛ اللہ نے موسیٰ سے اس طرح کلام کیا جیسا کہ کلام کرنے کا حق ہے».[4] سورہ اعراف آیت نمبر 144 میں بھی اللہ کا موسی کے ساتھ کلام کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔[5] بعض علمائے اسلام[6] اور یہودیوں نے[7] اللہ کی جانب سے اس نوعیت کے کلام کرنے کو حضرت موسیؑ کے ساتھ مختص جانا ہے۔[8] حضرت موسی کو کلیم اللہ کی صفت ملنے کے بموجب یہودیوں کو «کلیمی» کہتے ہیں۔[9]

بعض مسلم علما کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معراج پر حضرت محمدؐ کے ساتھ بھی کلام کیا ہے، احادیث اس مدعا پر دلالت کرتی ہیں۔[10] ان کے عقیدے کے مطابق اللہ کا کسی کے ساتھ بغیر کسی واسطے کے کلام کرنا صرف حضرت محمدؐ اور حضرت موسیؑ کا خاصہ ہے۔[11] کہتے ہیں کہ اللہ نے ان دو پیغمبروں سے بغیر زبان کے کلام کیا ہے کیونکہ زبان کے ذریعے کلام کرنے کا لازمہ جسمانیت کا حامل ہونا ہے حالانکہ خداوند جسم و جسمانیت سے پاک و منزہ ہے۔[12]

بارہویں صدی ہجری کے مفسر قرآن "بروسوی" کے مطابق اللہ تعالیٰ نے موسی کے ساتھ ان کے بچپنے میں کلام کیا ہے کیونکہ اس دوران موسی کی زبان جل گئی تھی لہذا اللہ نے اس کے بدلے میں خود ان سے کلام کیا اور کلیم اللہ کے لقب سے نوازا۔[13] اس مفسر نے ایک شعر سے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:

ہر محنتی مقدمہ راحتی بودشد ہمزبان حق چو زبان کلیم سوخت[14]

بعض مفسرین نے حضرت موسی کو کلیم اللہ لقب ملنے کی کچھ اور وجوہات بیان کی ہیں، ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پہلی بار «إِنِّی أَنَا رَبُّک؛ میں ہوں تیرا پروردگار» کہہ کر حضرت موسی پر تجلی کی، اس طرح آپؑ کی نبوت کا آغاز کلام خدا سے ہوا، اس لیے آپؑ کو «کلیم‌ اللَّہ» کہتے ہیں۔[15]

حوالہ جات

  1. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج20، ص202
  2. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج3، ص3۔
  3. زحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج6، ص35۔
  4. سورہ نساء، آیہ 164۔
  5. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج5، ص453۔
  6. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص394؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص267۔
  7. «لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران۔
  8. قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1377شمسی، ج1، ص470؛ رشید رضا، المنار، 1990ء، ج3، ص4۔
  9. «لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران۔
  10. بانو امین، مخزن العرفان، 1361شمسی، ج2، ص379۔
  11. بروجردی، تفسیر جامع، 1366شمسی، ج2، ص462۔
  12. مکارم شیرازی، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، 1386شمسی، ص75۔
  13. بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص372۔
  14. بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص372۔
  15. قرائتی، تفسیر نور، 1383شمسی، ج7، ص328۔

مآخذ

  • بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1361ہجری شمسی۔
  • بروجردی، سید محمدابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، 1366ہجری شمسی۔
  • بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، دارالفکر، بیروت، بی‌تا.
  • رشیدرضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • زحیلی، وہبۃ بن مصطفی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ و الشریعۃ و المنہج،‌دار الفکر المعاصر، بیروت، دمشق، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیر عاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، تہران، چاپ یازدہم، 1383ہجری شمسی۔
  • لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، وبگاہ انجمن کلیمیان تہران، تاریخ بازدید: 1 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔