سارا

ویکی شیعہ سے
(سارہ سے رجوع مکرر)
سارا
کوائف
مکمل نامسارا
جائے پیدائشبابل (عراق) کا پہاڑی علاقہ کوثی
محل زندگیشام، مصر، فلسطین
اقاربحضرت ابراہیم(شریک حیات)، حضرت اسحاق(فرزند)، حضرت لوط(سوتیلے بھائی)
مدفنحبرون (الخلیل)، فلسطین
دینی معلومات
وجہ شہرتزوجہ پیغمبر، مادر نبی
نمایاں کارنامےحضرت اسحاق کی والدہ


سارا حضرت ابراہیم کی زوجہ اور حضرت اسحاق کی والدہ ہیں۔ قرآن کریم کے دو سورتوں میں ان کا ذکر ہوا ہے جس کے مطابق فرشتوں نے 90 برس کی عمر میں سارا کو ان کے بطن سے حضرت اسحاق کے متولد ہونے کی بشارت دی۔ فرشتوں سے آپ کی گفتگو کی وجہ سے آپ کو بھی حضرت مریم اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی طرح محدثہ کہلاتی ہیں۔

حضرت اسحاق کی ولادت سے بہت پہلے سارا نے اپنی کنیز ہاجرہ کو حضرت ابراہیم کے لئے بخش دی تھی تا کہ ان سے ان کے یہاں اولاد پیدا ہو۔ شیخ صدوق نے بعض احادیث نقل کی ہیں جن کے مطابق حضرت اسماعیل کی ولادت کے بعد سارا ہاجرہ سے حسد کرنے لگی۔ حالانکہ بعض معاصر محققین نے ان روایات کی دلالت اور سند میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔

سوانح حیات

اسلامی روایات کے مطابق سارا حضرت ابراہیم کے چچا اور خالہ کی بیٹی تھیں۔[1] سارہ اور حضرت ابراہیم دونوں کی والدہ لاحج پیغمبر کی بیٹیاں تھیں۔ ایک نے حضرت ابراہیم کے والد تارخ اور دوسری نے تارخ کے بھائی بتوائیل سے شادی کی۔[2] سارا حضرت لوط کی سوتیلی بہن بھی ہیں۔ [3] سارا کی ولادت بابل (عراق) کے ایک دیہات "کوثی" میں ہوئی ہے۔ [4]

جب حضرت ابراہیم نے توحید کی دعوت دی تو سارا اور ان کے بھائی حضرت لوط آپ پر ایمان لے آئے۔[5] اور سارا نے اپنے چچا کے بیٹے حضرت ابراہیم سے شادی کی۔[6] سارا اپنے زمانہ کی خوبصورت ترین خواتین میں سے تھیں۔[7] آپ کافی زمینوں اور چوپاؤں کی مالکہ تھیں اور جسے انہوں نے حضرت ابراہیم کے حوالے کر دیا۔[8]

مصر کی طرف ہجرت

حضرت ابراہیم کی توحیدی دعوت کے بعد بابل کے بہت کم لوگ آپ پر ایمان لائے۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم نے سارا اور حضرت لوط کے ہمراہ شام ہجرت کی لیکن قحطی اور بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے حضرت ابراہیم اور سارا نے مصر جانے کا ارادہ کیا۔[9] تاریخی روایات کے مطابق بادشاہ مصر سارہ کی خوبصورتی سے با خبر ہو گیا۔ [10] جب انہوں نے حضرت ابراہیم سے سارا کے ساتھ ان کی نسبت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابراہیم نے اسے اپنی بہن کے طور پر پیش کیا۔[11] ابن اثیر کے بقول جناب ابراہیم کو معلوم تھا کہ اگر وہ انہیں اپنی زوجہ بتاتے تو بادشاہ ان کے قتل کا حکم دے دیتے اور سارہ سے خود شادی کرتے لہذا انہوں نے حقیقت کو مخفی رکھا۔[12] باشاہ مصر نے سارہ کو حاضر کیا اور ان کی طرف دست درازی کا ارادہ کیا مگر اسی اثنا میں اس کا ہاتھ خشک ہو گیا۔[13] بادشاہ نے سارہ سے کہا کہ وہ دعا کریں تا کہ اس کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو وہ انہیں چھوڑ دے گا۔ ان کی دعا سے اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔ اس نے پھر غلط ارادہ کیا تو اس کا ہاتھ پھر خشک ہو گیا۔ تین بار ایسا ہی ہوا۔[14] آخر پشیمان ہو گیا اور اس نے انہیں ہاجرہ نامی اپنی کنیز اور دوسرے ہدایا کے ساتھ آزاد کر دیا۔[15]

علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ ابراہیم کی طرف سے سارا کو اپنی بہن کے نام سے معرف کرنا نبوت کے مقام کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور یہ بات تورات کی تناقض گوئی ہے جو وہاں سے اہل سنت کے حدیثی اور تاریخی مآخذ میں منتقل ہوئی ہیں۔[16] اسی طرح علامہ طباطبائی نے الکافی سے نقل کیا ہے کہ اس واقعے میں سارہ کو اپنی بیوی معرفی کیا ہے اور جب بھی بادشاہ کا ہاتھ خشک ہوتا تھا تو ابراہیم کی دعا سے ٹھیک ہوتا تھا۔[17]

90 برس کی عمر میں فرشتوں کی بشارت

تاریخی مصادر میں ذکر ہوا ہے کہ جب سارا کی عمر ٩٠ برس ہو گئی تو فرشتوں نے انہیں صاحب اولاد ہونے کی خوشخبری سنائی۔[18] سارا یہ خبر سن کر حیرانی سے ہنسیں اور انہوں نے کہا: کیسے ممکن ہے کہ ایک بانجھ اور عمر رسیدہ خاتون حاملہ ہو؟ [19] کچھ مدت کے بعد سارا حاملہ ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا کیا جس کا نام اسحاق رکھا گیا۔[20] قرآن کریم کے دو سورہ میں فرشتوں کی طرف سے انہیں بشارت دینے اور سارہ کے اس خبر پر رد عمل کا ذکر ہوا ہے۔[21]

فرشتوں کی طرف سے بشارت سے پہلے سارہ نے اپنے بانجھ پن کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ کو اپنی کنیز ہاجرہ بخش دی تھی تا کہ وہ ان سے صاحب فرزند ہو جائیں اور ہاجرہ سے ان کے یہاں حضرت اسماعیلؑ کی ولادت ہوئی۔[22]

وفات

سارا کی وفات 127 سال کی عمر میں حبران شہر میں ہوئی۔[23] وفات کے بعد حضرت ابراہیم نے حبران میں رہنے والوں سے ایک مقام خریدا جہاں پر سارا کو دفن کیا۔[24] بعد میں اسی مقام پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب بھی دفن ہوئے۔[25] عصر حاضر میں یہ جگہ "مسجد الابراہیمی" کے نام سے مشہور ہے اور قدس کے جنوب میں شہر "الخلیل" میں واقع ہے۔[26]

خصوصیات و امتیازات

امام علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت کے مطابق سارا کے ساتھ ملائکہ نے گفتگو کی ہے اور انہیں جناب اسحاق کی بشارت دی ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو محدثہ کہا گیا ہے۔[27] مذکورہ روایت کے مطابق حضرت مریم، حضرت زہرا اور مادر حضرت موسی محدثہ ہیں۔[28] شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ نے فقط اانبیا و مرسلین کے ساتھ ہی گفتگو نہیں کی ہے بلکہ ائمہ معصومین علیہم السلام، حضرت فاطمہ زہرا و دیگر حضرات کے ساتھ بھی گفتگو کی ہے۔[29] قرآن کریم کی بعض آیات جیسے سورہ آل عمران کی آیت 42 و 45 میں فرشتوں کا حضرت مریم کے ساتھ گفتگو کرنا اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[30]

سارا کے بارے میں شیخ صدوق و علی بن ابراہیم قمی سے منقول بعض روایات میں جناب اسماعیل کی ولادت کے بعد ان کی حسادت و بد خلقی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صبر کا ذکر ہوا ہے۔[31] بعض معاصر محققین کے مطابق یہ روایات سند اور دلالت کے لحاظ سے ضعیف اور قابل قبول نہیں ہیں۔[32] توریت کے نقل کے مطابق سارہ نے حضرت ابراہیم سے درخواست کی کہ وہ ہاجرہ اور اسماعیل کو گھر سے باہر نکال دیں۔ لیکن حضرت ابراہیم ان کی اس بات سے ناراض ہو گئے۔[33] لیکن بعد میں جب خداوند عالم نے انہیں اس کام کا حکم دیا تو وہ سارا کی بات پر عمل کرنے پر مجبور ہو گئے۔[34]

بعض روایات کے مطابق عالم برزخ میں مومنین اور شیعہ بچوں کی تربیت سارا اور حضرت ابراہیم کے ذمہ ہے تا کہ ان کی تربیت کریں اور پھر ان کے والدین کو واپس کریں۔[35]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. حسنی عاملی، الأنبیاء حیاتہم-قصصہم، ۲۰۰۲ ع، ص۱۱۵۔
  2. حسنی عاملی، الأنبیاء حیاتہم-قصصہم، ۲۰۰۲ ع، ص۱۱۵۔
  3. حسنی عاملی، الأنبیاء حیاتہم-قصصہم، ۲۰۰۲ ع، ص۱۱۵۔
  4. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۶۹ش، ج۵، ۱۱۶ و ۱۱۷۔
  5. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۸۲و ۱۸۳۔
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۴۵۔
  7. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۳، ص۵۱۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۷۰۔
  9. دقس، آشنایی با زنان قرآنی، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۰ و ۱۱۱۔
  10. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م، ج۱، ص۱۵۰؛ فعال عراقی، داستان‌ ہای قرآن و تاریخ انبیاء در المیزان، ۱۳۷۸ش، ص۳۶۸
  11. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  12. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  13. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  14. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  15. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۳، ص۵۲۔
  16. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۲۶-۲۲۹.
  17. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۳۱-۲۳۲.
  18. دقس، آشنایی با زنان قرآنی، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۶-۱۱۹
  19. دقس، آشنایی با زنان قرآنی، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۶-۱۱۹۔
  20. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۸۷۔
  21. نگاہ کریں: سورہ ہود، آیہ ۷۱-۷۳؛ سورہ ذاریات، آیہ ۲۹ و ۳۰۔
  22. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۳، ص۵۳۔
  23. ابن خلدون، ديوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۳۔
  24. ابن خلدون، ديوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۳۔
  25. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۳، ص۵۲-۵۳۔
  26. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۴۔
  27. عاشور، موسوعۃ اہل البیت، ۱۴۲۷ق، ج۷، ص۲۴۔
  28. عاشور، موسوعۃ اہل البیت، ۱۴۲۷ق، ج۷، ص۲۴۔
  29. امینی، مصحف فاطمی، ۱۳۸۲ش، ص۶۰۔
  30. امینی، مصحف فاطمی، ۱۳۸۲ش، ص60۔61
  31. صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق۔ ص۳۰۷؛ صدوق، معانی الأخبار، ۱۳۶۱ش، ص۱۲۸؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ق، ج۱، ص۶۰۔
  32. تہامی/ فرجامی، سارہ ابراہیمؑ کی زوجہ قرآن و روایات میں، ۱۳۸۷ش، ش۴۳، ص۹۶-۱۲۰۔
  33. کتاب مقدس، سفر پیدایش، باب ۲۱، آیہ ۹-۱۵۔
  34. کتاب مقدس، سفر پیدایش، باب ۲۱، آیہ ۹-۱۵۔
  35. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق،‏ ج۳، ص۴۹۰؛ مجلسی، ۱۴۰۳ق‏،‏ ج۵، ص۲۹۳۔

مآخذ

  • ابن‌ اثیر، عز الدین علی، الكامل فی التاریخ، ترجمہ ابو القاسم حالت و عباس خلیلی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، ۱۳۷۱ش۔
  • ابن‌ اثیر، علی‌ بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن‌ خلدون، عبد الرحمن‌ بن محمد، العبر: تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبد المحمد آیتی، مؤسسہ (پژوہشگاہ) مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۶۳ش۔
  • ابن‌ كثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفكر، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶م۔
  • ابن‌ ہشام، عبد الملک بن ہشام، سیرہ النبویہ، تصحیح: مصطفی سقا، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • بورونی، علی، زنان ابراہیم در روایات و تواریخ یہودی، مسیحی و اسلامی، مشہد، دانشگاہ فردوسی، تاریخ‌پژوہی، پاییز و زمستان ۱۳۸۷ش، ش۳۶ و ۳۷، ص۱۲۱۔
  • ترجمہ تفسیری کتاب مقدس، تہران، اساطیر، ۱۳۷۷ش۔
  • تہامی، فاطمہ‌ سادات/ فرجامی، اعظم، سارا ابراہیمؑکی زوجہ، قرآن و روایات میں، صحیفہ مبین، تہران، پژوہشکدہ قرآن و عترت-معاونت فرہنگی دانشگاہ آزاد، پاییز۱۳۸۷ش، ش۴۳، ص۹۶-۱۲۰۔
  • حسنی عاملی، عبدالصاحب، الأنبیاء حیاتہم-قصصہم، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۲۰۰۲م۔
  • دقس، فؤاد حمدو، آشنایی با زنان قرآنی، ترجمہ فاطمہ حیدری، تہران، مشعر، ۱۳۸۹ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی‌اکبر غفاری، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۶۱ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح:علی‌اکبر غفاری، قم‏، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‏، چاپ دوم‏، ۱۴۱۳ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۵ش۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبۃ النشر الإسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • قمی، علی‌ بن ابراہیم، تفسیر القمی، سیدطیب موسوی جزائری کی کوشش، قم، دارالکتاب، ۱۳۶۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق‏۔
  • مقدسی، محمد بن‌ طاہر، البدء و التاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔
  • محدثہ ہونا فضیلت ہے یا خاص خصوصیت؟، گروہ تاریخ و سیرہ معصومین پایگاہ اینترنتی موسسہ فرہنگی و اطلاع رسانی تبیان، تاریخ انتشار: ۱۲-۱۱-۱۳۹۵ش، تاریخ بازدید: ۰۳-۰۲-۱۳۹۶ش۔
  • محلاتی، ذبیح‌اللہ، ریاحین الشریعہ در ترجمہ بانوان مسلمان شیعہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۹ش۔
  • مرتضوی، سید ضیاء، سارہ ہمسر قہرمان توحید؛ حاجر، محاجر سرزمین توحید، قم، مجلہ پیام زن - پرتال نشریات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، فروردین ۱۳۷۸ش، ش۸۵، تاریخ بازدید: ۰۳-۰۲-۱۳۹۶ش۔