حضرت آدم کی توبہ

ویکی شیعہ سے

حضرت آدم کی توبہ کا مطلب خدا سے حضرت آدم کی مغفرت کی درخواست ہے جو انہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے شجرہ ممنوعہ سے پھل کھانے کے بعد طلب کی۔

شیعہ فقیہ اور مفسر قرآن آیت الله مکارم شیرازی حضرت آدمؑ کی خدا کے حکم سے نافرمانی کو گناہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے ترک اولی قرار دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اس کو عصمت انبیا سے ناسازگار نہیں سمجھتے ہیں۔

بعض آیات کی بنیاد پر خدا نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کرنے کے لیے ان کو کچھ کلمات سکھائے اور انہوں نے ان کے ذریعے توبہ کی۔ ان کلمات کی تفسیر سے متعلق مختلف احتمالات پیش کئے گئے ہیں جیسے یہ وہی کلمات ہیں جو سورہ اعراف کی آیت ۲۳ میں آئے ہیں۔

حضرت آدمؑ کی خطا

قرآنی آیات کے مطابق خدا نے حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کو شجرہ ممنوعہ کے پھل کھانے سے منع کیا تھا لیکن شیطان نے حضرت آدم کو وسوسہ کیا اور انھوں نے اس درخت سے پھل کھایا[1] اس نافرمانی کے بعد آدمؑ جنت سے نکالے گئے[2] انہوں نے توبہ کی [3] اور ان کی توبہ قبول کی گئی۔[4] حضرت آدم ؑ کی خطا اور ان کی توبہ کا مسئلہ چند کلامی کتابوں میں عصمت انبیا کے ذیل میں بیان ہواہے جیسے تنزیہ الانبیاء مصنف سید مرتضی [5] ، آموزش عقائد مصنف محمد تقی مصباح یزدی [6] اور عصمۃ الانبیا مصنف فخر رازی[7]) اور تفسیری کتابوں میں سورہ بقرہ کی آیات ۳۵ سے ۳۷، سورہ اعراف کی ۱۹ سے ۲۳ اور سورہ طہ کی ۱۲۱ اور ۱۲۲ آیات میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی توبہ عہدین میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔[8]

حضرت آدم کی خطا کی نوعیت

شیعہ مفسرین کا ماننا ہے کہ حضرت آدم کی خطا فعل حرام نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق انبیاء شرک اور کفر، دریافت وحی اور اسکی تبلیغ نیز گناہ کبیرہ اور گناه صغیره کے مرتکب ہونے میں عصمت رکھتے ہیں؛[9] اس لحاظ سے شیعہ مفسرین حضرت آدم کی خطا کو گناہ کا ارتکاب نہیں سمجھتے[10]۔ اسی لیے حضرت آدم ؑ کی نافرمانی کی حقیقت میں مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں:

حضرت آدم کی داستان کا تمثیلی ہونا

امام خمینی حضرت آدم کی داستان میں بیان ہوئی باتوں کو اسرار آمیز حکایت سمجھتے ہیں جس کی بنیاد پر آدم ایک معین فرد نہیں ہے بلکہ انسان کا سمبل ہے۔[11]

ترک اولی

شیعہ فقیہ اور مفسر آیت اللہ مکارم شیرازی کا ماننا ہے اگرچہ انبیا «مطلق گناہوں» کے مرتکب ہونے میں معصوم ہوتے ہیں لیکن « نسبی خطا» ان سے سرزد ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ مطلق گناہ ایسی معصیت کو کہا جاتا ہے جس پر ثواب و عذاب ہے لیکن «نسبی گناہ» یا (ترک اولی) ایسے مباح اعمال کو انجام دینا ہے کہ جن کا کسی بزرگ شیخصیت سے سرزد ہونا مناسب نہیں ہے اس لحاظ سے یہ حرام نہیں ہے اور اس پر عذاب نہیں ہے‏۔[12]

تنزیہی نہی

مجمع البیان میں فضل بن حسن طبرسی نے اور ملا صدرا نے تفسیر ملا صدرا میں لکھا ہے کہ شجرہ ممنوعہ کا پھل نہ کھانا آدمؑ پر مستحب تھا لیکن وہ اس مستحب عمل کے ترک کرنے کی وجہ سے زیادہ ثواب سے محروم ہو گئے۔[13]

ارشادی نہی

شیعہ مفسرین سید محمد حسین طباطبائی اور سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ خدا کا اس خاص درخت کے پھل سے منع کرنا صرف اس لیے تھا کہ حضرت آدم اس عمل سے اس کے طبعی اثرات سے آگاہ ہو جائیں؛ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر کی طرف سے مریض کو ہدایات دی جائیں اور ان ہدایات کی مخالفت کرنے سے اس کا اخروی عذاب تو نہیں ہے لیکن بیماری کے بدتر ہونے کا موجب بنے گا۔‏[14]

دور حاضر کے فقیہ اور مفسر جعفر سبحانی کے مطابق آیات میں توبہ کی تعبیر حضرت آدم ؑکے گناہ کی دلیل نہیں ہے کیونکہ توبہ صرف گناہ کی صورت میں ہی نہیں کی جاتی۔ بلکہ انبیا اور وہ انسان جو خدا کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص مقام کے حامل ہیں ہمیشہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنے آپ کو پروردگار کے سامنے مقصر سمجھتے ہیں اس لیے ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں۔[15] آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ سبحانی کا ماننا ہے اگرچہ حضرت آدمؑ سے سرزد ہونے والا عمل حرام نہیں تھا لیکن ان کے اعلیٰ مقام کے پیش نظر ان سے ایسے عمل کی توقع نہیں تھی اس لیے انہوں نے توبہ کی۔[16]

توبہ کی کیفیت

• تفسیر کی کتابوں میں حضرت آدم کی توبہ کو مختلف شکلوں میں بیان کیا گیا ہے۔ شیخ طوسی اور آیت اللہ مکارم شیرازی کا خیال ہے کہ یہ تمام احتمالات صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔[17] آیہ ’’ «فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ[؟؟] ‘‘[18] کے ظاہری معنی کے مطابق حضرت آدم ؑ نے ان کلمات سے جو خدا نے انہیں الہام کئے ان کے ذریعہ توبہ کی۔ تفسیر میں ان «کلمات» سے متعلق مختلف احتمالات بیان ہوئے ہیں: • جیسا کہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں بیان کیا ہے، یہ «کلمات» وہی تعبیر ہے جو سورہ اعراف کی آیت ۲۳ ’’ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ[؟؟] ‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔[19]امام محمد باقر کی ایک حدیث میں « کلمات » کی تفسیر میں ایک دعا بیان ہوئی ہے جو اس جملے سے شروع ہوتی ہے: «اللهم لا اله الا انت، سبحانک و بحمدک ربّ إنّی ظلمت نفسی ۔۔۔ِ»[20] بہت سی روایات میں «کلمات» کی تفسیر میں ملتا ہے کہ حضرت آدم کو پنجتن کے اسماحضرت محمد امام علیؑ، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن مجتبیؑ، امام حسینؑ کی تعلیم دی گئی۔ حضرت آدمؑ نے ان ناموں کے توسل سے خدا سے بخشش طلب کی۔[21] اہل سنت کے مفسر سیوطی نے پیغمبر اسلام سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے [22] موجودہ دور کے شیعہ مفسر اور فقیہ جعفر سبحانی نے اس روایت کی بناپر توسل کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔[23] علامہ طباطبائی کا ماننا ہے کہ حضرت آدم ؑ اس شجرہ ممنوعہ کے کھانے سے دنیا کی سخت زندگی کہ جس میں خدا سے فراموشی تھی میں مبتلا ہوئے اور خدا سے توبہ کرکے اس نقصان کی تلافی کی درخواست کی[24]‏ اور خدا نے اس کی تلافی میں دین کی تشریع فرمائی۔[25]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سوره بقره، آیات ۳۵ و ۳۶؛ سوره اعراف،‌ آیات۱۹-۲۲۔
  2. سوره بقره، آیت ۳۶۔
  3. سوره بقره، آیت۳۷؛ سوره اعراف، آیت ۲۳۔
  4. سوره بقره، آیت ۳۷؛ سوره طہ، آیت ۱۲۲۔
  5. شریف مرتضی، تنزیہ الانبیاء، الشریف الرضی، ص۹۔
  6. مصباح یزدی، آموزش عقائد،۱۳۸۴ش، ص۲۱۱۔
  7. فخر رازی، عصمةالانبیاء، ۱۴۰۹ھ، ص۳۶۔
  8. ‏ اشرفی، مقائسہ قصص در قرآن و عہدین، ۱۳۹۹ش، ص۲۰۵۔
  9. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔
  10. مغنیہ، ‏تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۸۶۔
  11. خمینی، تفسیر القرآن الکریم، ۱۴۱۸ھ، ج‏۵، ص۴۵۷۔
  12. ‏ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۸۷ و ۱۸۸۔
  13. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۹۵؛ ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج‏۳، ص۹۰۔
  14. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج‏۱، ص۱۳۰؛ فضل‎‌الله، ‏تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱، ص۲۶۳ و ۲۶۴۔‏
  15. ‏ سبحانی، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج۴، ص۱۲۶۔
  16. مکارم شیرازی، ‏تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۹۶ و ۱۹۷؛ سبحانی، ‏منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج۴، ص۱۲۶۔
  17. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج‏۱، ص۱۶۹؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‏۱، ص۱۹۸ و ۱۹۹۔
  18. سوره توبہ، آیہ ۳۷۔
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۹۷۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۲۰۰۔
  21. تفسیر الإمام حسن العسکری(ع)، ۱۴۰۹ھ، ص۲۱۹ - ۲۲۱؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۵۷ و ۵۸؛ صدوق، امالی، ۱۳۷۶ش، ص۲۱۸۔
  22. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۶۰ و ۶۱۔
  23. سبحانی، «توسّل»، ص۵۴۰۔
  24. ‏ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۱۳۰۔
  25. ‏طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۱۳۴۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند۔
  • اشرفی، عباس، مقایسہ قصص در قرآن و عہدین، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۹۹ش۔
  • تفسیر الإمام حسن العسکری(ع)، قم، مدرسۃ الامام المہدی(عج)، ۱۴۰۹ھ۔
  • خمینی، سید مصطفی، تفسیر القرآن الکریم، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ۱۴۱۸ھ۔
  • سبحانی، جعفر، «توسّل»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۸، تہران، ‏بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ۱۳۸۳ش۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق علیہ السلام، بے‌تا۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیت‌الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • شریف مرتضی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیاء، قم، الشریف الرضی، بے‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بے‌تا۔
  • صدر المتألہین، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶ش۔
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مؤسسہ امام صادق علیہ السلام، ۱۳۸۲ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر،‌ عصمۃ الانبیاء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۹ھ۔
  • فضل‌ الله، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، ۱۴۱۹ھ۔
  • فیض کاشانی، محسن، تفسیر الصافی، تہران، انتشارات الصدر، ۱۴۱۵ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تہران، موسسۃ الطبع و النشر فی وزارة الارشاد الاسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقاید، تہران، شركت چاپ و نشر بين الملل سازمان تبليغات اسلامى، ۱۳۸۴ش۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔