مندرجات کا رخ کریں

قوم ثمود

ویکی شیعہ سے
(ثمود سے رجوع مکرر)
قوم ثمود
کوائف
قرآنی ناماصحاب‌ الحِجر
مربوطہ آیاتقرآن کی 26 آیات
نسبسبأ بن یَشجُب
زبانعربی
عصرقوم عاد کے جانیشن
نبیحضرت صالح
دینبت‌ پرستی
محل زندگیحجاز سے شام کے راستے میں حِجر نامی علاقے میں
اہم خصوصیاتپتھروں اور پہاڑوں کو تراش کر گھر اور ریگستانوں میں قلعے بنانا
اہم واقعاتناقہ صالح کو مار ڈالنا
سرانجامعذاب الہی

قوم ثَمود، ایک عرب قوم تھی جو حضرت صالح پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے عذاب الہی میں مبتلا ہوگئے۔ قرآن میں ان کو ایک مشرک قوم کے طور پر متعارف کیا گیا ہے جو پتھروں سے گھر بنانے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ خدا نے حضرت صالحؑ کو ان کی ہدایت کیلئے بھیجا۔ لیکن انہوں نے اپنے نبی کے معجزے یعنی ناقہ صالح(ایک اونٹنی) کو مار ڈالا جس کے نتیجے میں وہ لوگ عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے۔ قوم ثمود کی داستان تورات میں نہیں آئی لیکن آثار قدیمہ کی دریافتیں سعودی عربیہ کے شمالی حصے میں اس نام کے ایک قوم کی موجودگی کی تأئید کرتی ہے۔

قرآن میں قوم ثمود کا تذکرہ

"ثمود" ایک قبیلہ[1] یا اس قبیلے کے سردار[2] کا نام تھا۔ یہ لفظ قرآن میں 26 مرتبہ آیا ہے۔[3]بعض مفسرین کے مطابق سورہ حجر آیت نمبر 80 اصحاب الحِجر سے مراد قوم ثمود ہے۔ ان کے مطابق حجر اس سرزمین کا نام ہے جس میں یہ قوم بستی تھی۔[4]

خصوصیات

قرآن میں پتھروں اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بنانا[5]، ریگستانوں میں قلعوں کی تعمیر[6] کو قوم ثمود کی خصوصیات قرار دیتے ہو ئے ان کی زمینوں کی ذرخیزی اور آبادانی کا تذکرہ کرتے ہیں[7] اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ پتھروں سے اپنے لئے گھر بناتے تھے۔[8]

زمان و مکان

دور

قرآن میں قوم ثمود کو قوم عاد کا جانشنین قرار دیتے ہیں،[9] اور گذشتہ اقوام اور پیغمبروں کی داستان بیان کرتے ہوئے ان کا تذکرہ قوم عاد کے بعد کیا ہے۔[10] بعض منابع میں قوم ثمود کو "عاد الآخرہ" کہا گیا ہے۔[11] بعض محققین اس ترتیب کو تاریخی تقدم و تأخر کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔[12] آذرنوش، مقالہ "نگاہی بہ تاریخ قوم ثمود"(قوم ثمود کی تاریخ پر ایک نگاہ) کے مصنف، کے مطابق قوم ثمود کا تذکرہ باستانی منابع میں عمدتا آٹھ صدی قبل از میلاد سے دوسری صدی عیسوی کے درمیان میں ہوا ہے۔[13] لیکن اسلامی تاریخ میں حضرت صالح کی نبوت کو حضرت ابراہیم کی نبوت و رسالت سے پہلے ذکر ہوا ہے۔[14] اور قوم عاد اور قوم ثمود کے درمیان تقریبا 500 سال کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے۔[15] بعض منابع میں قوم ثمود کو سام بن نوح کی نسل سے قرار دی گئی ہے۔[16]

محل زندگی

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود وادی القری کے نزدیک دریائے سرخ کے کنارے حِجر نامی مقام پر آباد تھے[17] جو حجاز اور شام[18] راستے میں واقع ہے۔ ایک حدیث کے مطابق لشکر اسلام جب مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے حجر کے مقام سے پہنچے تو پیغمبر اسلامؐ نے قوم ثمود کے عذاب میں مبتلاء ہونے کے خوف سے اپنے ساتھیوں کو یہاں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور گریہ کنان وہاں سے گزرنے کا حکم دیا۔[19] بعض محققین موجودہ حجاز اور اردن کے بالائی علاقوں کو قوم ثمود کا مسکن قرار دیتے ہیں۔[20]

دین اور پیغمبر

قرآنی آیات کی رو سے قوم ثمود مشرک تھے اور خدا نے حضرت صالح کو ان کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا تاکہ وہ ان کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دیں۔[21] امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قوم ثمود کے 70 بت تھے۔[22] اسی طرح امام صادقؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ قوم ایک بڑے چٹان کی پوجا کرتے تھے اور سال میں ایک دفعہ اس چٹان کے اردگرد جمع ہو کر اس کے لئے قربانی پیش کرتے تھے۔[23] قوم ثمود سے منسوب ایک کتبے پر جس کا تعلق سن 476ء سے تھا، حضرت عیسی کی تصویر کی نقاشی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایک زمانے میں قوم ثمود عیسائی مذہب کے پیروکار رہے ہیں۔[24]

حضرت صالح کی دعوت کا رد عمل

قوم ثمود نے حضرت صالح سے ان کی نبوت کے اثبات کیلئے معجزہ کا تقاضا کیا۔[25] احادیث کے مطابق انہوں نے حضرت صالح سے درخواست کیا تھا کہ وہ پہاڑ کے اندر سے ایک اونٹنی نکال لائیں۔[26] خدا نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور ایک اونٹنی پہاڑ کے اندر سے باہر آگئی۔ حضرت صالح نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اس اونٹنی کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے۔[27] لیکن قوم ثمود نے اسے مار ڈالا۔[28]اسلامی منابع میں یہ اونٹنی ناقہ صالح کے نام سے مشہور ہے۔ بعض شیعہ مفسرین پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے ناقہ صالح کو مارنے والے(اشقی الاولین) اور امام علیؑ کے قاتل(اشقی الآخرین) کے درمیان شباہت کے قائل ہیں۔[29]

قرآن کی رو سے قوم ثمود کے 9 گروہ نے حضرت صالحؑ اور آپ کے خاندان کو قتل کرنے کی قسم کھائی تھی۔[30] البتہ بعض دیگر اقوال کے مطابق یہ لوگ 9 گروہ نہیں بلکہ 9 افراد تھے اور ایک غار میں چھپ گئے تھے کہ اسی غار میں سب کے سب دب کر ہلاک ہوگئے۔[31]

حضرت صالح کی دعوت کے مقابلے میں قوم ثمود دو یا تین گروہ[32] میں تقسیم ہوگئے اور ان کی اکثریت نے حضرت صالحؑ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا[33] ایک قلیل تعداد نے اس دعوت کو قبول کر کے حضرت صالح پر ایمان لے آئے۔

عذاب الہی کا نزول

قوم ثمود کی طرف سے ناقہ صالح کو مار ڈالنے کے بعد حضرت صالح نے انہیں خبردار کیا کہ تین دن بعد وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔[34] بعض اقوال کی بنا پر پہلے دن ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن کالا ہوگیا پھر عذاب الہی میں مبتلا ہو کر سب ہلاک ہوگئے۔[35] قرآن میں قوم ثمود کے عذاب کو صاعِقَہ، [36]صَیحہ[37] اور رَجفہ[38] کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض مصنفین ان عناوین کو ان پر نازل ہونے والے عذاب کے مراحل قرار دیتے ہیں۔[39]

عذاب سے محفوظ رہنے والے

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود میں سے وہ لوگ جو عذاب خداوندی سے محفوظ رہ گئے تھے مکہ[40] یا فلسطین کے شہر رملہ[41] ہجرت کر گئے۔ بعض محققین فلسطین میں حضرت صالح سے منسوب بعض اماکن کی موجودگی کو اس بات کی نشانی قرار دیتے ہیں کہ قوم ثمود کے بازماندگان میں سے بعض یہاں سکونت اختیار کئے تھے۔[42] ابوالفرج اصفہانی قبیلہ ثقیف کو قوم ثمود کی نسل سے قرار دیتے ہیں۔[43] لیکن ابن خلدون اس نسبت کے صحیح ہونے میں تردید کا مظاہرہ کرتے ہیں۔[44]بعض محققین بنی‌ہلال کو قوم ثمود کی اولاد قرار دیتے ہیں۔[45]

باقی ماندہ آثار

کوہ اثالث اور سعودی عرب کے دیگر مناطق میں کچھ پتھر، پتھروں پر لکھے ہوئے عبارات اور بعض عمارتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں قوم ثمود کے باقی ماندہ آثار میں سے ہیں۔[46] ان سے منسوب کتیبوں پر ان کے مشہور بتوں کا نام جیسے رضو یا رضی یا صلم وغیرہ لکھے ہوئے پائے گئے ہیں۔[47]

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود کا تذکرہ تورات میں نہیں آیا ہے۔ اسی بنا پر آثار قدیمہ کے بعض ماہرین قوم ثمود کے وجود کو ہی تردید کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔[48] لیکن 19ویں صدی عیسوی میں دریافت ہونے والے بعض آثار قدیمہ کے مطالعے کے بعد ماہرین نے قوم ثمود کے وجود کی تأیید کی ہیں۔[49]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات، 1412ھ، ص175۔
  2. ابن‌کثیر، قصص الانبیاء، 1410ھ، ص112۔
  3. عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ذیل واژہ، دانشنامہ جہان اسلام، ج9، ص125۔
  4. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج12، ص185-186؛ طبرسی، مجمع البیان،1372ش، ج6، ص529۔
  5. سورہ شعرا، 149۔
  6. سورہ اعراف، 84۔
  7. شعرا 147-148
  8. سورہ فجر، 9۔
  9. اعراف، 74۔
  10. سورہ اعراف، 65-73؛ سورہ ہود، 59-61؛ سورہ شعرا، 123-141؛ سورہ ذاریات، 41-43؛ سورہ قمر، 18-23؛ سورہ فجر، 6-9۔
  11. میبدی، کشف الاسرار و عدہ الابرار، 1371ش، ج6، ص435.
  12. خالدی، القصص القرآنی، 1419ھ، ج1، ص270-271۔
  13. آذرنوش، نگاہی بہ تاریخ قوم ثمود، ص36-34۔
  14. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، 1387ھ، ج1، ص216؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، بی‌تا، ص70؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، 1412ھ، ج1، ص256۔
  15. سعد زغلول، فی التاریخ العرب قبل الاسلام، 1976م، ص113۔
  16. مقدسی، البدء و التاریخ، 1899-1919م، ج3، ص37۔
  17. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، 1387ھ، ج1، ص226-227؛ جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص323۔
  18. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، 1387ھ، ج1، ص226-227؛‌ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص14۔
  19. ثعلبی، ص62؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1365-1376ش، ج8، ص281-282۔
  20. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص328۔
  21. سورہ اعراف، 73؛ سورہ ہود، 63؛ سورہ شعراء، 141-142؛ سورہ نمل، 45۔
  22. کلینی، 1407ھ، ج8، ص185۔
  23. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص187۔
  24. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص328۔
  25. سورہ شعرا، 154۔
  26. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص187۔
  27. سورہ اعراف، 73؛ سورہ ہود، 64؛ سورہ شعراء، 156۔
  28. سورہ شعراء، 157۔
  29. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص301۔
  30. سورہ نمل، 48-49۔
  31. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1365-1376ش، ج8، ص276۔
  32. سورہ نمل، 45؛ سورہ اعراف، 75۔
  33. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج8، ص183۔
  34. سورہ ہود، 65
  35. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج6، ص21؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1365-1376ش، ج8، ص280-281۔
  36. سورہ فصلت، 13،17؛ سورہ ذاریات، 44۔
  37. سورہ ہود، 65۔
  38. سورہ اعراف،78۔
  39. خالدی، القصص القرآنی، 1419ھ، ج1، ص293۔
  40. مقدسی، البدء و التاریخ، 1899-1919م، ج3، ص41۔
  41. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص17۔
  42. دباغ، القبائل العربیہ و سلائلہا فی بلادنا فلسطین، 1986م، ص21-22۔
  43. ابوالفرج، ج4، ص302-307: بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج9، ص125۔
  44. ابن خلدون، ج2، ص26: بہ‌نقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج9، ص125۔
  45. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص328۔
  46. موسی، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، 1980م، ص56-57۔
  47. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص328-331۔
  48. موسی، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، 1980م، ص58۔
  49. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1976-1978م، ج1، ص324۔

مآخذ

  • منبع اصلی مقالہ؛ دانشنامہ جہان اسلام، ج9، مقالات ثمود در منابع تاریخی و ثمود در قرآن۔
  • ابن جوزی المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، 1412ق-1992ء۔
  • ابن کثیر، قصص الانبیاء، چاپ سید جمیلی، بیروت، 1410ھ-1990ء۔
  • ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، چاپ: محمدجعفر یاحقی، و محمدمہدی ناصحی، مشہد، 1365-1376ہجری شمسی۔
  • آذرنوش، آذرتاش، نگاہی بہ تاریخ قوم ثمود، مقالات و بررسی‌ہا، دفتر 9-12، بہار و تابستان، 1351ہجری شمسی۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء المسمی عرائس المجالس، المکتبۃ الثقافیہ، بیروت، بی‌تا۔
  • جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، 1976-1978ء۔
  • دباغ، مصطفی‌مراد، القبائل العربیہ و سلائلہا فی بلادنا فلسطین، بیروت، 1986ء۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، تصحیح: صفوان عدنان داودی، -دارالعلم- الدارالشامیہ، لبنان- سوریہ،1412ھ۔
  • سعد زعلول، عبدالحمید، فی التاریخ العرب قبل الاسلام بیروت، 1976ء۔
  • صلاح خالدی، القصص القرآنی عرض وقایع و تحلیل احداث، دمشق 1419ق-1998ء۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، ناصر خسرو، تہران، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم ، دارالتراث، بیروت، 1967ء-1387ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح: مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، نشر ہجرت، قم، 1410ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل صاوی، قاہرہ، دارالصاوی بی‌تا: افست قم، مؤسسہ نشر المنابع الثقافہ الاسلامیہ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، دارالہجرہ، قم، 1409ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، کتاب البدء و التاریخ، چاپ: کلمان ہوار، پاریس، 1899-1919م، افست تہران، 1962ء۔
  • موسی، محمد عزب، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، بیروت، 1980ء۔

بیرونی روابط