ذبیح اللہ حضرت ابراہیم (ع) کے فرزند کا لقب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (ع) کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ قرآن نے ذبح کے قصے کو بیان کیا ہے لیکن ذبیح کے نام کو ذکر نہیں کیا ہے۔ شیعہ ذبیح اللہ کو حضرت اسماعیل (ع) کا لقب اور یہودی اسحاق (ع) کا لقب کہتے ہیں۔ اہل سنت کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

ذبیح کا معنی اور ذبح کا واقعہ

ذبح کا معنی سر کاٹنا ہے [1] اور ذبیح اللہ کا معنی، خدا کے لئے سر کاٹنا یا قربانی کرنا ہے۔ ذبیح اللہ حضرت ابراہیم (ع) کے ایک فرزند کا لقب ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ اپنے اس فرزند کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کریں۔[2] ابراہیم (ع) اور آپ کے فرزند نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان لیا، لیکن جبرئیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھری کو کاٹنے سے روک لیا اور ابراہیم (ع) کے ہاتھوں بیٹے کی جگہ ایک جنتی بھیڑ ذبح ہوئی۔[3] عید قربان کے دن، قربانی کی سنت، اسی واقعہ کی وجہ سے ادا کی جاتی ہے۔[4]

ذبیح کس کا لقب ہے؟

قرآن میں ذبح کا واقعہ بیان ہوا ہے[5] لیکن ذبیح کے نام ذکر نہیں ہوا ہے۔ ذبیح اللہ حضرت ابراہیم (ع) کے کون سے فرزند کا لقب ہے، اس بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں، بعض اسے اسماعیل (ع) کا لقب اور بعض اسحاق (ع) کا لقب کہتے ہیں۔

شیعہ نظریہ

شیعہ مفسرین سورہ صافات کی آیات ١٠١-١١٣ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق (ع) کے پیدا ہونے کی بشارت[6]اسماعیل (ع) کی ولادت اور ذبح کے واقعے کے [7] کے بعد ابراہیم (ع) کو سنائی ہے۔[8] آیت اللہ مکارم شیرازی کے بقول جو اسحاق (ع) کو ذبیح کہتے ہیں، وہ اسحاق کی دو خوش خبریوں کو مدنظر رکھتے ہیں، پہلی خوش خبری آپ کی ولادت اور دوسری خوش خبری آپ کو نبوت عطا ہونا۔[9] علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح سے مراد اسماعیل (ع)ہیں۔[10]

اور اسی طرح اسحاق (ع) کو نبوت کی بشارت دینا، اس کے بچپن میں قربانی والے مسئلے سے مطابقت نہیں رکھتی"فَبَشَّرْناها بِإِسْحاقَ وَ مِنْ وَراءِ إِسْحاقَ یَعْقُوبَ" ترجمہ: ہم نے اسے اسحاق اور اس کے بعد یعقوب (ع) کی بشارت سنائی ہے۔[11] اگر اس آیت کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے ابراہیم (ع) کو اطمینان تھا کہ اسحاق زندہ رہے گا اور اس کی نسل سے یعقوب دنیا میں آئے گا۔[12]

بعض روایات میں بھی اسماعیل (ع) کو ذبیح اللہ کا عنوان دیا گیا ہے۔ من جملہ پیغمبر اکرم (ص) نے روایات میں اپنے آپ کو ابن ذبیحین کہا ہے۔[13] اسی طرح دعائے مشلول میں جو کہ امام علی (ع) سے منسوب ہے [14] اور امام صادق (ع) کی روایات، [15] اور امام رضا (ع)[16] کے قول کے مطابق اسماعیل (ع) کو ذبیح اللہ کا لقب دیا گیا ہے۔

بعض مؤلفین حاجر کی ہجرت اور اسماعیل (ع) کی پیدائش کو ذبح کے واقعہ سے مرتبط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسماعیل کے ذبح والے واقعہ سے ہی مکمل ہوتا ہے۔[17]

اہل سنت کی نگاہ

ذبیح کے بارے میں اہل سنت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[18] ان میں سے بعض ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو شیعہ مآخذ میں بھی ذکر ہوئی ہیں[19] ذبیح اللہ کو اسحاق (ع) کا لقب سمجھتے ہیں۔ اس قول کے قائل افراد درج ذیل ہیں: عمر بن خطاب، سعید بن زبیر، کعب الاحبار، قتادہ، زہری، طبری اور مالک بن انس [20] بعض شیعہ مؤلفین کے مطابق یہ روایات جن میں اسحاق (ع) کو ذبیح اللہ کہا گیا ہے، یہ اسرائیلیوں کے زیر نظر ہیں اور احتمال دیا ہے کہ یہ روایات یہود کی طرف سے نقل ہوئی ہیں۔[21]

بعض دیگر اہل سنت وہ افراد ہیں جو کہتے ہیں کہ روایات میں موجود ذبیح سے مراد اسماعیل (ع) ہے اس قول کو ابو ہریرہ، عامر بن واثلہ، عبداللہ بن عمر، ابن عباس، سعید بن مسیب، یوسف بن مہران، ربیع بن انس و ... سے نسبت دی ہے[22] اسی طرح فخر رازی اور ابن عاشور نے احتمال دیا ہے کہ ذبیح اسماعیل (ع) ہے۔[23] شیخ صدوق روایات میں موجود اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اسماعیل (ع) کو ذبیح سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: اسحاق (ع) ذبح والے واقعے کے بعد پیدا ہوئے اور آرزو کی کہ اے کاش ان کے لئے ذبح کا حکم آتا اور اسماعیل (ع) کی طرح خدا کے حکم پر وہ تسلیم ہوتے اور صبر کرتے۔ وہ ثواب میں اسماعیل (ع) کے درجے تک پہنچ گئے۔[24]

توریت کی نگاہ میں

عہد عتیق کے مطابق اسحاق (ع) ذبیح تھے۔[25] البتہ توریت میں کہا گیا ہے کہ ابراہیم (ع) کا صرف ایک ہی فرزند تھا جسے ذبیح کا لقب ملا ہے۔[26]

ابن ذبیحین

بعض روایات کے مطابق عبدالمطلب کے واقعے میں، جہاں عبد المطلب نے نذر کی ایک فرزند کو خدا کی راہ میں قربانی کریں، عبداللہ بن عبدالمطلب کو ذبیح اور پیغمبر(ص) ابن ذبیحین کہا گیا ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. فرہنگ لغت دہخدا، ذیل واژه ذبح.
  2. سوره صافات، آیہ ۱۰۲.
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۴، ص۲۰۸
  4. صادقی تہرانی، البلاغ فی تفسیر القرآن بالقرآن، ۱۴۱۹ق، ص۴۵۰؛ سید قطب، فی ظلال القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۲۹۹
  5. سوره صافات، آیہ ۱۰۲.
  6. سوره صافات، آیہ ۱۱۲.
  7. سوره صافات، آیہ۱۰۱-۱۰۷.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۲۹.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۲۹.
  10. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۵۵.
  11. سوره ہود، آیہ ۷۱.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۱۹-۱۲۰.
  13. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۱۰؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۵۶-۵۸.
  14. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۲۶۳.
  15. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴، ج۲، ص۲۲۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضر الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۳۰.
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۱۰.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۲۰.
  18. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۱۰۰.
  19. برای نمونہ، کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۵۱؛ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۴۵.
  20. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۱۰۰.
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۱۹-۱۲۰.
  22. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۱۰۰.
  23. فخررازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۶، ص۳۵۱؛ ابن عاشور، التحریر و التنویر، بی‌تا، ج۲۳، ص۷۰-۶۹.
  24. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۵۷-۵۸.
  25. تورات، سِفر پیدائش، ۲۲: ۱- ۱۴.
  26. تورات، سفر تکوین،‌۲۲: ۲.
  27. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۱۰.

مآخذ

  • ابن عاشور، محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، بی‌ جا، بی‌ نا، بی ‌تا.
  • ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ترجمہ: سید ہاشم رسولی‏، تہران، انتشارات کتابچی، چ پنجم، ۱۳۷۵ش.
  • دہخدا، علی اکبر، فرہنگ لغت، تہران، مؤسسہ لغت نامہ دہخدا، ۱۳۴۱ش.
  • شاذلی، سید بن قطب بن ابراہیم، فی ظلال القرآن، دار الشروق، بیروت، قاہره، ۱۴۱۲ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش.
  • شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (ع)، محقق و مصحح: لاجوردی، مہدی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق.
  • صادقی تہرانی، محمد، البلاغ فی تفسیر القرآن بالقرآن، مؤلف، قم، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،‌ دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب،‌ دار الکتاب، قم، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق.
  • کفعمی، المصباح، ابراہیم بن علی، قم، دار الرضی (زاہدی)، ۱۴۰۵ق.
  • کلینی، الکافی، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.‏
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.