قوم سبأ

ویکی شیعہ سے

قوم سَبَأْ سے مراد یمن میں رہنے والے عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا جو مفسرین کے مطابق اللہ کی نعمتوں کے سلسلے میں کفر اور انبیاء کی تکذیب و انکار کی وجہ سے عذاب الٰہی کا شکار ہوا۔ ان لوگوں کو زرخیز زرعی زمینیں، پھل دار باغات، محفوظ راستے اور موذی اور نقصان دہ کیڑوں مکوڑوں سے پاک و صاف ماحول جیسی نعمتیں میسر تھیں؛ لیکن ان نعمات کی ناشکری اور سد مَأِرب کے ٹوٹنے کی وجہ سے ان کی زرخیز زمینیں اور سبز باغات تباہ ہوگئے اور وہاں کے باسی جزیرۃ العرب کے مختلف خطوں میں تتر بتر ہوگئے۔

قرآن کے سورہ سبا میں قوم سبا کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ تفسیری اور تاریخی منابع نے قوم سبا کو عسکری طاقت، تعمیر و ترقی میں دلچسپی اور بتوں اور سورج کی پرستش جیسی خصوصیات کے حامل اقوام میں سے قرار دیا ہے۔ ان لوگوں نے علم ہندسہ اور فلکیات میں اپنی مہارت سے صِرواح نامی مندر، مارب اور سد مارب جیسے حیرت انگیز عمارتیں بنائیں۔

قوم سبأ اور ملکہ سبا کی داستان کا سورہ سبا کی آیت نمبر 15، 19 اور سورہ نمل کی آیت نمبر 22 اور 44 میں تذکرہ ملتا ہے۔

تعارف اور تاریخچہ

قوم سبا کے لوگ قدیم عرب قبائل اور سبأ بن یَشجُب یا یَسجُب کی نسل سے تھے۔ [یادداشت 1] جو کہ قبل از مسیح یمن میں رہتے تھے۔[1] محققین کے مطابق شروع میں وہ جزیرہ نما عرب کے شمال میں رہتے تھے پھر وہ جزیرہ نما عرب کے جنوب کی طرف ہجرت کر گئے اور مَأرِب جیسے علاقوں میں آباد ہوئے جو بعد میں سبا کی سرزمین کے نام سے مشہور ہوئے۔[2]

قرآن مجید میں سبأ کے نام سے ایک سورہ موجود ہے جس میں قوم سبا کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ اس سورے کی آیات 15 تا 19 میں آیا ہے کہ قوم سبا کو اپنی سرزمین اور سبزہ زاروں میں خدا کی طرف سے بے بہت نعمتیں میسر تھیں لیکن انہوں نے کفران نعمت کیا اور آخر کار "سیل عَرم" نامی بڑے سیلاب سے تباہ و برباد ہوگئے۔ نیز سورہ نمل کی آیات 22 تا 44 میں قوم سبا اور ملکہ سبا (بلقیس) کی مقتدر حکومت کے بارے میں ہد ہد کی خبر، ملکہ سبا کی حضرت سلیمان کے ساتھ ملاقات اور ان کے ایمان لانے کا بھی ذکر ملتا ہے۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ قوم سبا کی عظیم تہذیب کئی صدیوں سے غیر شناختہ تھی اور 19ویں صدی عیسوی میں اس کی دریافت ہوئی لہذا یہ قرآن کی غیبی خبروں اور قرآن کا علمی معجزہ شمار ہوتا ہے۔[3] بعض محققین کے مطابق قوم سبا کے بارے میں قرآن کی دو سورتوں نمل اور سبا میں آنے والا تذکرہ قوم سبا کی زندگی کے تقریباً دو تاریخی ادوار سے متعلق ہے،[4] لہٰذا قوم سبا کی معدومیت اور ان کا انقراض "عرم" نامی سیلاب کے بعد، حضرت سلیمان کے دور کے صدیوں بعد ہوا اور اس میں حضرت سلیمانؑ کے دور میں ملکہ سبا کے لوگ شامل نہیں ہیں۔[5]

بعض محققین کے مطابق، "سبأ" کا نام ایک تاریخی قوم کے طور پر تورات میں بھی کئی بار ذکر آیا ہے۔[6]

خصوصیات

تاریخی اور تفسیری منابع میں قوم سبأ کی متعدد خصوصیات بیان کی ہوئی ہیں جن میں ان کی فوجی طاقت، اپنی سرزمین کی تعمیر و ترقی اور ان کی بت پرستی شامل ہے۔

توحید پرستوں اور غیر توحید پرستوں پر مشتمل معاشرہ

قرآن نے قوم سبا کے ایک ایسے گروہ کا تعارف کرایا ہے جو قیامت اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ[7] خدا کی ربوبیت پر بھی یقین رکھتا تھا۔[8] تاریخی اور تفسیری منابع کے مطابق، قوم سبا میں کچھ ایسے افراد بھی تھے جو یا تو خدا کے وجود کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے تھے یا بڑے بڑے مندر بنا کر سورج، چاند، ستاروں یہاں تک کہ ہرن اور بچھڑے جیسے جانوروں کی پوجا کرتے تھے[9] نیز "یَغوت" نامی بت کی بھی پوجا کرتے تھے۔[10] اسلامی علوم کے محقق بی آزار شیرازی کے مطابق، قوم سبا کا عقیدہ تھا کہ گائے کے دو سینگ، جو ہلالی شکل کے بنے ہوتے ہیں، زہرہ نامی ستارے کی علامت ہیں۔[11] بعض محققین کا کہنا ہے کہ قوم سبا میں یہودیت بھی رائج تھی۔[12]

عسکری برتری کا حامل ہونا

بہت سے تاریخی ذرائع کے مطابق سلطنت سبا یمن کی سب سے بڑی اور طاقتور حکومتوں میں سے شامل تھی جو عربوں، رومیوں اور یونانیوں میں مشہور تھی اور عسکری اور دفاع کے لحاظ سے ان کے پاس ایک بڑی اور مکمل طور پر تابعدار فوج تھی۔[13]

تعمیر و ترقی اور تعلیم پر توجہ

قوم سبا کے لوگوں نے تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی،[14] یہ مسئلہ حکومت سبا کی باقیات تحریروں میں ملتا ہے، جنہیں مختلف عبارتوں مثلا تعمیر نو، تعمیر اور اصلاح جیسے الفاظ کے ساتھ لکھے گئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ ترقی اور پیشرفت پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔[15] بعض محققین نے کی نظر میں شہر صِرواح اور مأرب نامی مشہور مندر(بت‌ پرستی کی علامت) سد مارب کی تعمیر قوم سبا کے تہذیبی آثار میں سے ہیں جن سے یہاں کے لوگوں کی علم ہندسہ، نجوم اور تعمیرات میں مہارت کی نشاندہی ہوتی ہے۔[16]

کفران نعمت اور نزول عذاب

کہتے ہیں کہ سبا کی سرزمین مادی اور روحانی نعمتوں سے مالا مال تھی[17] جگہ جگہ بند کی تعمیر سے زراعت میں بھر پور رونق ہوا کرتی تھی اور بہت سے پھل دار باغات بھی تھے۔[18] اس سرزمین کے اوصاف میں لکھا ہے کہ لوگوں کے دو بڑے باغ ایسے آپس میں جڑے ہوئے تھے جن کی لمبائی کو عبور کرنے کے لیے دس دن کی مسافت درکار تھی۔[19]

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ موسم گرما اور سرما میں گرمی اور سردی تکلیف دہ نہیں ہوتی تھی[20] یہاں کے لوگوں کا سفر پر امن ہوا کرتا تھا، دوران سفر چوروں اور درندوں سے محفوظ رہتے تھے[21] اور نعمتوں کی فراوانی کی بدولت انہیں دوران سفر زاد راہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔[22] مفسرین کے مطابق، قوم سبا نے خدا کی عطا کردہ تمام نعمتوں کی ناشکری کی اور خدا فرامشی میں مبتلا ہوگئے۔[23] انہوں نے پیغمبران الہی کی تکذیب کی اور خدا کا شکر ادا نہیں کیا۔[24] آپس میں تفاخر کا اظہار کرتے تھے نیز طبقاتی اختلافات کو ہوا دیتے تھے۔[25] اس طرح کی ناشکریوں کی وجہ سے ان پر "سیل عَرِم" جیسے عذاب الہی نازل ہوئے۔[26]

سیل عَرِم اور پوری قوم کی تباہی

مفسرین کے مطابق عذاب الٰہی کے نزول کے وقت چوہوں نے مآرب نامی بند کی بنیادوں کو کمزور کردیا اس سے بند ٹوٹ گیا۔ بند ٹوٹنے کے نتیجے میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا جس سے مال مویشی مارے گئے اور سرسبز باغات تباہ ہوگئے پھل دار درختوں کے میوے ناقابل استعمال ہوگئے۔[27] اس واقعے کے بعد اہالیان سبا اپنی سرزمین سے منتشر ہوگئے اور جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔[28] قبیلہ غَسّان شام کی جانب، قبیلہ قُضاعَہ مکہ، قبیلہ اَسَد بحرین کی طرف، قبیلہ اَنمار یثرب، قبیلہ خُزاعَہ (جُذام) مکہ میں تِہامہ نامی علاقے میں اور قبیلہ اَزْد نے عمان کی طرف ہجرت کی۔[29]

قوم سبا کا تتر بتر ہونا اتنا وسیع تھا کہ عربوں کے ہاں باقاعدہ ایک محاورہ بن گیا: "تفرقوا ایادی سبا"۔ یعنی سبا کے ہاتھ بکھر گئے۔[30]

حوالہ جات

  1. یوسفی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج1، ص99؛ قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص89 و 84؛ عودی، «قوم سبأ»، ص684۔
  2. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص89؛ عودی، «قوم سبأ»، ص684۔
  3. رضایی، تفسير قرآن مہر، 1387شمسی، ج17، ص46؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج18، ص69۔
  4. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص88۔
  5. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص87۔
  6. کریمیان و ہوشنگی، «بلقیس»، ص73 و 74۔
  7. سورہ سبأ، آیہ 21۔
  8. ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، 1383شمسی، ج15، ص521۔
  9. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص90؛ بلاغی، قصص قرآن، 1381شمسی، ص379؛ قرطبی، الجامع لأحكام القرآن، 1364شمسی، ج13، ص184۔
  10. طبری، جامع البيان فى تفسير القرآن، 1412ھ، ج29، ص 62۔
  11. بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، 1382شمسی، ص325؛ بلاغی، قصص قرآن، 1381شمسی، ص379۔
  12. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص90۔
  13. ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، 1383شمسی، ج15، ص513؛ دستوری، اقوام ہلاک شدہ، 1381شمسی، ص137؛ قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص85 و 86 و 88؛ بلاغی، قصص قرآن، 1381شمسی، ص377؛ بی‌آزار شیرازی، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، 1382شمسی، ص316۔
  14. قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص85۔
  15. دستوری، اقوام ہلاک شدہ، 1381شمسی، ص137؛ قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص85۔
  16. عودی، «قوم سبأ»، ص686؛ بلاغی، قصص قرآن، 1381شمسی، ص379۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج18، ص58۔
  18. طبرسی، مجمع البیان، 1431ھ، ج8، ص604؛ رضایی، تفسير قرآن مہر، 1387شمسی، ج17، ص41؛ مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1386شمسی، ص507۔
  19. طبرسی، تفسير جوامع الجامع، 1412ھ، ج3، ص346؛ شاہ‌ عبد العظیمی، تفسیر اثنی عشری، 1363شمسی، ج10، ص522۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، 1431ھ، ج8، ص605۔
  21. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1386شمسی، ص509۔
  22. طبرسی، تفسير جوامع الجامع، 1412ھ، ج3، ص348؛ طبرسی، مجمع البیان، 1431ھ، ج8، ص605۔
  23. منہج الصادقين فى إلزام المخالفين، تہران، ج7، ص361؛ قصہ‌ہای قرآن، 1386شمسی، ص509۔
  24. منہج الصادقين فى إلزام المخالفين، تہران، ج7، ص361۔
  25. دستوری، اقوام ہلاک شدہ، 1381شمسی، ص141؛ خسروانى، تفسير خسروى، 1390ق‏، ج7، ص80؛ مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1386شمسی، ص509۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج18، ص59؛ قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص91؛ المیزان في تفسیر القرآن، ج‏16، ص364۔
  27. طبرسی، مجمع البيان في تفسير القرآن ج 8 ص605؛ شاہ‌ عبد العظیمی، تفسیر اثنی عشری، 1363شمسی، ج10، ص523؛ ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، 1383شمسی، ج15، ص511 و 512؛ قانعی و اسدی، «قوم سبأ» ص91؛ مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1386شمسی، ص508۔
  28. الحموی، معجم البلدان، بیروت، ج3، ص181۔
  29. طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج8، ص389؛ کاشانی، تفسير منہج الصادقين فى الزام المخالفين، ج7، دست‌ہای سبأ پراکندہ شد۔
  30. الحموی، معجم البلدان، بیروت، ج3، ص181؛ کاشانی، تفسير منہج الصادقين فى الزام المخالفين، تہران، ج7، ص364۔

نوٹ

  1. بعض محققین "سبا" کو یمنی اعراب کے باپ کا نام سمجھتے ہیں اور بعض اسے یمن کی ایک سرزمین کا نام گردانتے ہیں۔ مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ یہ نام پہلے کسی شخص کا تھا اور بعد میں اس کا اطلاق اس کی قوم اور زمین پر ہوا۔(طبرسی، مجمع البیان، 1431ھ، ج8، ص604؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج18، ص56 و 57).

مآخذ

  • بلاغی، صدرالدین، قصص قرآن، تہران، امیرکبیر، 1381ہجری شمسی۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • جعفری، یعقوب، «قوم سبا، سد مارب و سیل عرم» در مجلہ درس‌ہایی از مکتب اسلام، شمارہ 695، فروردین 1398ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن‏، تحقیھ، محمدباقر بہبودی، تہران، لطفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • الحموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • خسروانی، علیرضا، تفسیر خسروی، تحقیھ، محمدباقر بہبودی، تہران، كتابفروشی اسلامیہ، چاپ اول، 1390ق‏۔
  • دستوری، مژگان، ترجمہ اقوام ہلاک شدہ، تہران، انتشارات کیہان، 1381ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن‏، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • شاہ‏‌عبدالعظیمی، حسین، تفسیر اثنی عشری، تہران، نشر میقات، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن‏، تفسیر جوامع الجامع‏، تصحیح: ابوالقاسم‏ گرجی، قم، مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن‏، مجمع البیان فی تفسیر القرآن‏، تصحیح: فضل‌اللہ یزدی طباطبایی، ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ش‏۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن‏، التبیان فی تفسیر القرآن‏، تصحیح، احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا۔
  • عودی، ستار، «قوم سبأ» در دانشنامہ جہان اسلام، ج22، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1375ہجری شمسی۔
  • قانعی، علی و علی اسدی، «قوم سبأ» در دانشنامہ دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج15، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحكام القرآن‏، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • كاشانی، فتح‏‌اللہ، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران‏، كتابفروشی اسلامیہ‏، چاپ اول، بی‌تا۔
  • کریمیان، محمدباقر و لیلا ہوشنگی، «بلقیس»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج4، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران‏، دار الكتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، قصہ‌ہای قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔
  • یوسفی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکرالاسلامی، بی‌تا۔