حضرت الیاس

ویکی شیعہ سے
حضرت الیاس
قرآنی نام:الیاس
کتاب مقدس میں نام:ایلیا
قوم کا نام:بنی‌ اسرائیل
قبل از:حضرت یسع
بعد از:حزقیل نبی
مشہوراقارب:حضرت ہارون
ہم عصر پیغمبر:حضرت یسع
دین:یکتا پرستی
قرآن میں نام کا تکرار:2 بار
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


الیاس بن یاسین، الیاس نبی سے معروف بنی‌ اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں جن کا نام قرآن میں آیا ہے۔

آپ بنی‌ اسرائیل کے بادشاہ آحاب کے زمانے میں نبوت پر فائز ہوئے اور لوگوں کو بت‌ پرستی سے نجات دینے کی ذمہ داری سوپنی گئی تھی۔ جب آپ اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تو خدا سے موت کی تمنا کی؛ لیکن خدا نے آپ کے لئے ایک سواری بھیجی جس کے ذریعے آپ آسمان پر عروج کر گئے اور حضرت یسع کو اپنا جانشین مقرر کیا۔

تعارف

الیاس بن یاسین بن فِنْحاص[1] حضرت ہارون کی نسل سے[2] بنی‌ اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔[3] ان کا نام " الیاس" قرآن میں دو بار[4]او "ال‌ یاسین" ایک بار آیا ہے۔[5][یادداشت 1] بعض اسلامی منابع میں حضرت الیاس کی شخصیت حضرت خضر کے ساتھ عجین ہوئی ہے اور بعض احادیث ان دونوں کو ایک ہی شخصیت قرار دیتی ہیں۔[6]

حضرت الیاس حضرت حزقیل کی وفات کے بعد نبوت پر فائز ہوئے۔[7] آپ اس بات پر مأمور تھے کہ اپنی قوم جو بعلبک میں رہتے تھے کو توحید اور خدا کی اطاعت نیز گناہوں سے اجتناب کرنے کی دعوت دیں۔[8] آپ کی اصلی ذمہ داری بت‌ پرستی سے مقابلہ تھا جسے اس وقت کے بنی اسرائیل کے پادشاہ آحاب اور ان کی زوجہ ترویج دے رہی تھی۔[9]

کتاب مقدس میں حضرت الیاس کے بار ے میں موجود اکثر داستانیں کچھ اختلافات کے ساتھ اسلامی روایات میں بھی آئی ہیں، جن میں حضرت الیاس کی طرف سے بنی‌ اسرائیل کو خشکسالی کی بدعا،[10] حضرت یسع کا شفا پانا[11] اور آحاب کے ساتھ مقابلہ کرنے کا نام لیا جا سکتا ہے۔[12]

اکثر اسلامی منابع اور اسی طرح عیسائیوں کی کتاب مقدس کے مطابق حضرت الیاس زندہ ہیں اور آسمان پر عروج کر گئے ہیں؛[13] تاہم ابن‌ کثیر ان روایات کو قبول نہیں کرتے اور انہیں اسرائیلیات میں سے قرار دیتا ہے۔[14] یاقوت حموی نے معجم البلدان میں بعلبک میں حضرت الیاس سے منسوب ایک مقبرہ نقل کیا ہے۔[15]

نبوت

حضرت الیاس بنی اسرائیل کے بادشاہ آحاب کے زمانے میں نبوت پر مبعوث ہوئے۔[16] آحاب اور ان کی زوجہ ایزابل لوگوں کو بت‌ پرستی کی طرف دعوت دیتی تھی۔[17] حضرت الیاس نے ان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بنی‌ اسرائیل کو بت‌ پرستی سے نہی کرنا شروع کیا۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو سالوں سال بت پرستی پر اصرار کرتے ہوئے دیکھا تو ان کے لئے خشک سالی کی بدعا کی جس کے بعد لوگ قحطی میں گرفتار ہو گئے۔[18]

وقت گزرنے کے ساتھ خشک سالی پھیلتی گئی اور بہت زیادہ لوگوں کی جان لے لی۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا دیکھا تو پشیمان ہو کر حضرت الیاس کے پاس آگئے اور ان کی دعوت کو قبول کرنے لگے۔[19] اس کے بعد حضرت الیاس کی دعا سے شدید بارش برسی اور سب کے سب سیراب ہو گئے؛ لیکن کچھ مدت بعد لوگوں نے خدا کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کو بھول گئے اور دوبارہ بت‌ پرستی کی طرف لوٹ گئے۔ جب حضرت الیاس نے یہ حالت دیکھی تو خدا سے موت کی تمنا کی؛ لیکن خدا نے ان کے لئے ایک آتشین مرکب بھیجی اور حضرت الیاس اس کے ذریعے آسمان پر عروج کر گئے اور حضرت یسع کو جو کہ آپ کا شاگرد بھی تھا، اپنا جانشین مقرر کیا۔[20]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1408ھ، ج1، ص273۔
  2. صدیق حسن خان، فتح البیان، 1420ھ، ج5، ص594۔
  3. اشعری، المقالات و الفرق، 1360ہجری شمسی، ص173۔
  4. سورہ انعام، آیہ 85؛ سورہ صافات، آیہ 123۔
  5. سورہ صافات، آیہ 130۔
  6. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ، ج1، ص261۔
  7. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1408ھ، ج1، ص273۔
  8. اشعری، المقالات و الفرق، 1360ہجری شمسی، ص173۔
  9. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج3، ص99؛ طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج8، ص713۔
  10. کتاب مقدس، کتاب اول پادشاہان، باب 17۔
  11. کتاب مقدس، کتاب دوم پادشاہان، باب 2۔
  12. کتاب مقدس، کتاب اول پادشاہان، باب 18۔
  13. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1408ھ، ج1، ص274؛ قطب الراوندی، قصص الانبیاء، 1430ھ، ج2، ص119؛ نہاوندی، العبقری الحسان، 1386ہجری شمسی، ج4، ص563؛ کتاب مقدس، کتاب دوم پادشاہان، باب 2۔
  14. ابن‌کثیر، قصص الانبیاء، 1388ھ، ج2، ص243۔
  15. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج1، ص454۔
  16. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1408ھ، ج1، ص273۔
  17. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج3، ص99۔
  18. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج23، ص59-60؛ ثعلبی، قصص الانبیاء، المکتبۃ‌الثقافیّۃ، ص223۔
  19. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج23، ص59-60؛ ثعلبی، قصص الانبیاء، المکتبۃ‌الثقافیّۃ، ص223۔
  20. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج23، ص59-60؛ ثعلبی، قصص الانبیاء، المکتبۃ‌الثقافیّۃ، ص223۔

نوٹ

  1. اکثر مفسرین آیات کے سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے لفظ «ال یاسین» کو حضرت الیاس کے نام کی دوسری صورت قرار دیتے ہیں۔ (ملاحظہ کریں: ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1965ھ، ص148-149؛ شیخ طوسی، التبیان، 1409ھ، ج8، ص523-534۔

مآخذ

  • قرآن۔
  • کتاب مقدس۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ على أہل الرفض والضلال والزندقۃ، تحقیق عبدالوہاب عبداللطیف، قاہرہ، بی‌نا، 1965ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، قصص الانبیاء، تحقیق مصطفی عبد الواحد، قاہرہ، مطبعۃ دار التألیف، چاپ اول، 1388ھ۔
  • اشعری، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تحقیق محمد جواد مشکور، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ دوم، 1360ہجری شمسی۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء، بور سعید، المکتبۃ‌الثقافیّۃ، بی‌تا۔
  • صدیق حسن خان، فتح البیان فی مقاصد القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1406ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، قم، مکتب الاعلام الاسلامی،‌ چاپ اول، 1409ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الانبیاء، قم، مکتبۃ العلامۃ المجلسی، چاپ اول، 1430ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، المکتبۃ الثقافۃ الدینۃ، بی‌تا۔
  • نہاوندی، علی اکبر، العبقری الحسان فی احوال مولانا صاحب الزمان، قم، انتشارات مسجد جمکران، 1386ہجری شمسی۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، 1995م۔