طوفان نوح وہ عذاب ہے جو قوم نوح پر ان کی بت‌ پرستی کی وجہ سے نازل ہوا۔ حضرت نوح نے 950 سال لوگوں کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دی، لیکن قلیل تعداد کے علاوہ کسی نے ایمان نہیں لایا۔ حضرت نوح نے تنگ آکر اپنی قوم پر نفرین کیا جس کی وجہ سے خدا نے ان پر طوفان کی شکل میں عذاب نازل کیا۔ اس طوفان نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا یا کسی خاص منطقے کو؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ طوفان کتنے عرصے میں ختم ہوا۔

حضرت نوح اور ان کی قوم - کتاب مرقع گلستان - گیارہویں صدی ہجری

طوفان نوح کی داستان من جملہ ان داستانوں میں سے ہے جو تقریبا دنیا کے تمام اقوام اور ملتوں میں مختصر اختلاف کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں۔ قصہ سومری اس داستان کے منابع میں کہن‌ترین منابع میں سے ہے جس میں اس داستان کی تفصیلات ذکر ہوئی ہیں۔

تفصیلات

قرآن کریم طوفان نوح کو قوم نوح پر خدا کا عذاب قرار دیتے ہیں۔[1] قرآن کریم کی رو سے قوم نوح "وُدّ"، "سواع"، "یغوثگ، "یعوق" اور "نسر" نامی بتوں کی پوجا کرتے تھے۔[2] قرآن کے مطابق حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہدایت کیلئے کافی تلاش کی لیکن آپ اس کام میں کامیاب نہیں ہوئے[3] اور ایک طولانی مدت تبلیغ کے بعد صرف معدود افراد آپ پر ایمان لے آئے۔[4] قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی قوم نے آپ پر جھوٹ کی تہمت لگاتے ہوئے آپ پر ایمان نہ لانے کیلئے مختلف دلائل پیش کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے: آپ ہماری طرح ایک بشر کے سوا کچھ نہیں ہو، جو آپ پر ایمان لا چکے ہیں ان کی تعداد ہم سے کم ہیں اور یہ کہ قرابت داری میں آپ ہم پر کوئی برتری نہیں رکھتے۔[5] قرآن کریم کے مطابق حضت نوحؑ نے 950 سال اپنی قوم کو یکتا پرستی کی دعوت دی۔[6]

جب خدا کی طرف سے حضرت نوح پر یہ وحی کی گئی کہ ان کی قوم ہرگز ان پر ایمان نہیں لائیں گے،[7] حضرت نوحؑ نے اپنی قوم پر نفرین کرتے ہوئے کہا: "خدایا کافروں میں سے حتی کوئی بھی جاندار زمین پر باقی نہ رکھ۔[8] مجمع البیان میں فضل بن حسن طبرسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت نوح کی اس نفرین کی وجہ سے ان کی قوم کے سارے مرد اور عورتیں عقیم ہو گئے یوں چالیس سال تک کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ہر جگہ قحطی نے گیر لیا اور جو کچھ ذخیرہ تھا سب ختم ہو کر بدبخت و بے چارہ ہو گئے۔[9] اس وقت حضرت نوح نے ان سے کہا: خدا طلب مغفرت کریں کیونکہ خدا نہایت بخشنے والا ہے۔[10] لیکن قوم نوح نے اس بار بھی ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور ایک دوسرے کو اپنے خداؤوں کو فراموش نہ کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ [11] اس کے بعد خدا نے حضرت نوح کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایک عظیم طوفان کے ذریعے تمام مشرکین کو نابود کر ڈالا۔[12]

قرآن کریم میں 12 دفعہ طوفان نوح کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم میں طوفان نوح کی داستان کو بھی دیگر قرآنی داستانوں کی طرح مختلف حوالوں سے مکرر بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود مکمل تفصیلات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[13] بعض محققین معتقد ہیں کہ تاریخی اور حدیثی منابع میں اس داستان کی تفصیلات میں مختلف اور متعدد چیزوں کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں سے بہت ساری چیزیں خرافات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔[14]

طوفان کی وسعت

بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ قرآن میں اس بات کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ یہ طوفان پوری دنیا میں آیا تھا یا کسی خاص منطقے میں، لیکن بہت ساری آیات کے ظاہر سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ طوفان کسی خاص منطقے میں نہیں بلکہ یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔[15] کیونکہ اس داستان سے مربوط آیات میں لفظ ارض(زمین) بطور مطلق استعمال ہوا ہے اور اس سے کسی خاص منطقے کی طرف اشارہ نہیں ہے۔[16] اس کے علاوہ اس داستان سے مربوط آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت نوح نے روی زمین پر موجود تمام حیوانات کا ایک ایک نمونہ انتخاب کیا تھا جو خود اس مطلب پر گواہ ہے کہ یہ طوفان ایک عالمگیر حادیثہ تھا نہ یہ کہ کسی خاص منطقے سے متعلق ہو۔[17]

علامہ طباطبایی اس طوفان کی عالمگیریت کو ثابت کرنے کیلئے سورہ ہود کی آیت نمبر 43، سورہ نوح کی آیت نمبر 26 اور سورہ صافات کی آیت نمبر 77 سے استناد کرتے ہیں۔[18] علامہ طباطبائی کے بقول ماہرین ارضیات(geologist) کی تحقیق بھی اس طوفان کے عالمگیر ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔[19] آیت اللہ مکارم شیرازی بھی اس بارے میں کہتے ہیں کہ زمین شناسی کی تاریخ میں بعض ادوار کو سیلابی بارشوں سے نام سے یاد کرتے ہیں اگر ان ادوار کو زمین پر جانداروں کی پیدائش سے پهلے کا حساب نہ کریں تو یہ ادوار طوفان نوح پر قابل انطباق ہیں۔[20] اس کے مقابلے میں بعض لوگوں اس طوفان کے عالمگیر ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: آثار قدیمہ کے کتیبوں من جملہ سومری، بابلی اور یہودی آثار کے مطالعے سے اس طوفان کے عالمگیر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔[21]

کعبہ اور طوفان نوح

بعض روایات میں آیا ہے کہ اس طوفان کے وقت خانہ کعبہ کی زمین واحد جگہ تھی جو اس طوفان سے محفوط رہ گئی تھی۔[22] کہا جاتا ہے کہ کعبہ کو اس طوفان سے محفوظ رہنے کی وجہ سے بیت العتیق کا نام دیا گیا تھا۔[23] بعض منابع میں یہ بھی آیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کے حکم سے خانہ کعبہ کو اس طوفان سے محفوظ رکھنے کیلئے چوتھے آسمان پر لے گیا تھا۔[24]

پرانے منابع میں طوفان نوح کا تذکرہ

جیمز فریزر کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کی داستان من جملہ ان داستانوں میں سے ہے جو دنیا کے مختلف اقوام و ملل جیسے مشرق وسطی، بر صغیر، برمہ، چین، مالدیو، استرالیا، جزایر اقیانوس آرام اور بہارتی کمیونٹی میں رائج تھی البتہ ہر منطقے میں اس کی روایات مختلف تھیں۔[25]

اس طوفان سے متعلق قرآن اور دیگر منابع میں اختلاف

  1. طوفان سے مربوط منابع میں قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں حضرت نوح کو خدا کے پیغمبر کے عنوان سے معرفی کرتا ہے۔
  2. قرآن کریم کے مطابق حضرت نوح پر ایمان لانے والے اس طوفان سے محفوظ رہ گئے تھے جبکہ دیگر منابع میں صرف خاندان نوح کو اس طوفان سے محفوظ رہنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔
  3. قرآن کریم کی رو سے حضرت نوح کا بیٹا اور آپ کی بیوی نجات پانے والوں میں سے نہیں ہیں جبکہ دیگر منابع انہیں بھی نجات پانے والوں میں شمار کرتے ہیں۔
  4. اس حوالے سے قرآن کریم میں دوسرے منابع کے بر خلاف کسی قسم کی دوگانہ گی نہیں پایا جاتا۔
  5. دیگر منابع کے برخلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں یہ واقعے مادیت سے پاک و منزہ ہے۔
  6. دوسرے منابع کے بر خلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں خدا اس طوفان کے نزول سے متعلق اظہار پشیمانی نہیں کرتا۔[26]

طوفان کا نطقہ آغاز

قرآن کریم میں اس طوفان کے نقطہ آغاز کو "فارَ التَّنُّورُ" کا نام دیتے ہیں۔[27]بعض مفسرین "فارَ التَّنُّورُ" کو زمین میں کھدے ہوئے مختلف کنویں مراد لیتے ہیں جبکہ بعض اسے حضرت حوا کا تنور قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض مفسرین اس تنور کی جگہ کو موجودہ مسجد کوفہ کی جگہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اسے فجر کی سفیدی سے تعبیر کرتے ہیں۔[28] بیومی قول اخیر جسے امام علیؑ سے منسوب کیا جاتا ہے، کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر چہ ابن کثیر اس روایت کو غیر مانوس قرار دیتے ہیں لیکن اس واقعے سے مربوط اقوال اور نظریات میں یہ قول سب سے زیادہ مناسب اور قابل قبول نظر آنے کے ساتھ ساتھ پرانے نصوص کے ساتھ بھی زیادہ سازگار ہے۔[29]

علامہ طباطبایی اس تنور سے مراد کنواں یا طلوع فجر یا زمین کا سب سے بلند ترین مقام قرار دینے والے تمام اقولا کو قابل فہم نہیں سمجھتے۔[30]

طوفان کا آغاز اور اس کی مدت

قرآن کریم میں اس طوفان کے آغاز اور اس کی مدت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا لیکن بعض احادیث میں آیا ہے کہ یہ طوفان حضرت نوح کی 1900 سالگی[31]،600 سالگی[32] یا 1200 سالگی[33] میں آیا ہے۔[34] تورات میں آیا ہے کہ طوفان نوح حضرت نوح کی 600 سالگی کے دوسرے مہنے کے ساتویں تاریخ کو آیا تھا اور اس کی مدت 40 دن تھی اور پانی سطح زمین سے تقریبا 15 فٹ اوپر آیا تھا جس کے خشک ہونے کیلیئے 150 دن لگے تھے۔[35]

بعض مورخین کے مطابق طوفان نوح 10 رجب کو[36] جبکہ بعض کے نزدیک 2 رجب[37] کو شروع ہوا تھا۔ اکثر مورخین نقل کرتے ہیں کہ اس طوفان کے موقع پر 40 دن مسلسل آسمان سے بارش برستی تھی اور زمین سے بھی پانی پھوٹ پڑتا تھا۔[38] اس کی مدت کو بعض مرخین 6 ماہ[39]، بعض 150 دن بعض 5 ماہ بعض 13 ماہ جبکہ بعض 27 دن ذکر کرتے ہیں۔[40] علامہ مجلسی اپنی کتاب "حیات القلوب (کتاب)" میں معتبر احادیث کی روشنی میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت نوح اپنی قوم کے ساتھ سات دن اور 7 راتیں کشتی میں رہے۔[41]

سطح زمین سے کتنی بلندی تک پانی آیا اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ قرآن کریم اس حوالے سے یوں گویا ہے کہ اس دن کافروں کیلئے کہیں پر کوئی جائے امن حتی پہاڑ کی چوٹیوں میں بھی نہیں ملے گی،[42] اس سے یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ اس دن پانی کی سطح اتنی بلند ہوئی تھی کہ پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ گئی تھی۔ بعض کے بقول اس دن پانی سطح زمین سے 15 یا 80 فٹ اوپر آیا تھا۔[43]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. رک: سورہ اعراف، آیہ ۶۴؛ سورہ ہود، آیہ ۴۰-۴۱؛ سورہ انبیاء، آیہ ۷۱؛ سورہ نوح، آیہ ۲۵۔
  2. سورہ نوح، آیہ ۲۳۔
  3. سورہ نوح، آیہ ۵۔
  4. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۱۶۔
  5. سورہ ہود، آیہ ۲۷۔
  6. سورہ عنکبوت، آیہ ۱۴۔
  7. سورہ ہود، آیہ ۳۶۔
  8. سورہ نوح، آیہ ۲۶۔
  9. طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج‌۹، ص۱۴۴-۱۴۵۔
  10. سورہ نوح، آیہ ۱۰۔
  11. طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج‌۹، ص۱۴۴-۱۴۵۔
  12. رک: سورہ ہود، آیہ ۲۵-۴۹؛ سورہ نوح، آیہ ۱-۲۵۔
  13. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔
  14. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳؛ بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۸؛ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۶۔
  16. آیہ ۴۴ سورہ ہود؛ آیہ ۲۶ سورہ نوح۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳
  18. طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۲۹۳۔
  19. طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۲۹۶۔ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۶۔
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳۔
  21. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۸-۹۱۔
  22. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔
  23. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج،۲ ص۵۶۔
  24. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔
  25. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔
  26. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔
  27. سورہ ہود، آیہ ۴۰۔
  28. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان،۱۳۵۲ش، ج‌۱۲، ص۵۸؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔
  29. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲۔
  30. طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔
  31. جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۷۔
  32. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵۔
  33. مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴۔
  34. حضرت نوح
  35. بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۵-۴۶۔
  36. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔
  37. كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶۔
  38. یعقوبی، ترجمہ تاریخ‌یعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج‌۱،ص:۱۳۔
  39. كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲۔
  40. ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۱-۱۱۲؛ ندایی، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، ۱۳۸۹ش، ص۴۴-۴۶۔
  41. مجلسی، تاریخ پیامبران، ۱۳۸۰، ج۱،‌ص ۲۷۳۔
  42. سورہ ہود، آیہ ۴۳۔
  43. ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۰۔

مآخذ

  • قرآن کریم ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • کتاب مقدس۔
  • ابن کثیر، اسماعیل ، قصص الانبیاء، تحقیق؛ الدکتور مصطفی عبد الواحدی، بیروت، موسسہ علوم القرآن، چاپ چہارم،‌۱۴۱۱ق۔
  • النجار، عبدالوہاب، قصص الانبیاء، بیروت، احیاء التراث العربی، چاپ نہم، ۱۴۰۶ق۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • بیومی مہران، محمد، بررسی تاریخی قصص قرآن، ترجمہ مسعود انصاری، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۸۳ش۔
  • جزایری، نعمت‌اللہ بن عبداللہ، النور المبين فی قصص الأنبياء و المرسلين (قصص قرآن)؛ بہ ضمیمہ زندگانی چہاردہ معصوم (ع)، مصحح:سیاح، احمد، مترجم:مشایخ، فاطمہ، تہران، ١٣٨١ق۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسير قرآن‏، محقق: محمد باقر بہبودی، تہران،‌ لطفی، ۱۴۰۴ق۔
  • رہبر، حمید، «بررسی تطبیقی روایت وحیانی قرآن و روایت اسطورہ ای سومری - بابلی از طوفان نوح»، پژوہش‌ہای فلسفی و کلامی، شمارہ ۴۳، ۱۳۸۹ش۔
  • زحيلى، وہبہ، التفسير المنير في العقيدۃ و الشريعۃ و المنہج‏، دمشق، دارالفکر، ۱۴۱۱ق۔
  • طباطبايى، محمدحسين، ترجمہ تفسير الميزان‏، مترجم: موسوى، محمد باقر، قم، جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم،نوبت چاپ: ۵، ۱۳۷۴ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ترجمہ: حسین نوری و محمد مفتح، تہران، نشر فراہانی، ۱۳۵۲ش۔
  • طبرى، محمد بن جرير، تاریخ طبری، ترجمہ م۔ ابو القاسم پايندہ‏، تہران، اساطير، چ ۵، ۱۳۷۵ش۔
  • كاتب واقدى، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوى دامغانى، تہران، انتشارات فرہنگ و انديشہ، ۱۳۷۴ش۔
  • ماتريدى، محمد بن محمد، تأويلات أہل السنۃ( تفسير الماتريدى)، محقق: باسلوم، مجدى‏، بیروت، دار الكتب العلميۃ، منشورات محمد علي بيضون‏، ۱۴۲۶ق‏۔
  • مجلسی، محمدباقر، تاریخ پیامبران، تحقیق سید علی امامیان، تہران، انتشارات سرور، ۱۳۸۰ش۔
  • مستوفى قزوينى، حمد اللہ بن ابى بكر بن احمد، تاريخ گزيدہ، تحقيق عبد الحسين نوايى، تہران، امير كبير، چ ۳، ۱۳۶۴ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۱ش۔
  • ندایی، فرامرز، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، تہران، انتشارات اروند و سما، ۱۳۸۹ش۔
  • نوری موسوی، محسن، قصص الانبياء و المرسلين عليہم السلام الميسرہ، بیروت، دار الکاتب العربي، ١۴٢٩ق۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، بیروت، دارصادر، ۱۳۷۹ق۔