مندرجات کا رخ کریں

مکی اور مدنی سورتیں

ویکی شیعہ سے
(مدنی سورتوں سے رجوع مکرر)

مکی اور مدنی سورتیں، قرآنی سورتوں کی زمان نزول کے اعتبار سے کی جانے والی تقسیم کو کہا جاتا ہے؛ یعنی یہ کہ کوئی سورت رسول اکرمؐ کی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں۔

سورتوں کے مکی اور مدنی ہونے کی پہچان تفسیر، فقہ اور علم کلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے ذریعے رسول اللہؐ کی دعوت کے مراحل اور اسلام کے ابتدائی دور کے سیاسی و سماجی حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح آیات ناسخ و منسوخ کی پہچان، تشریع اور اسلام میں قانون سازی کے ارتقائی مراحل سے آگاہی نیز اسباب نزول قرآن کی معرفت میں بھی قرآنی سورتوں کی مکی یا مدنی ہونے کی خصوصیت کو اہم مقام حاصل ہے۔

قرآنی محققین کے مطابق بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات اور بعض مدنی سورتوں میں مکی آیات پائی جاتی ہیں۔ ایسی آیات کو قرآنی علوم کی اصطلاح میں "استثنائی آیات" کہا جاتا ہے۔ محققین کے نزدیک قرآن کریم میں 20 سورتیں یقینی طور پر مدنی اور 82 سورتیں یقینی طور پر مکی ہیں، جبکہ باقی 12 سورتوں کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔

مکی اور مدنی سورتوں کا اسلوب اور انداز بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے اور مفسرین کے مطابق قرآنی سورتوں کی مکی یا مدنی ہونے کی پہچان کا سب سے معتبر طریقہ بھی اسی اسلوب کی معرفت ہے۔ مکی سورتوں کی بعض خصوصیات کچھ اس طرح ہیں؛ اصول عقاید یعنی توحید، نبوت اور معاد کی دعوت، آیات و سورتوں کا مختصر ہونا اور انداز بیان کا قدرے شدید اور پرجوش ہونا۔ جبکہ مدنی سورتوں کی بعض خصوصیات کچھ یہ ہیں؛ شرعی احکام کا بیان، منافقین کے بارے میں گفتگو اور جہاد اور اس کے احکام کا بیان۔

چونکہ سورتوں کے مکی اور مدنی ہونے کی شناخت نہایت اہم ہے، اس لیے یہ موضوع مستشرقین کی توجہ کا بھی مرکز رہا ہے، البتہ انہوں نے اس سلسلے میں جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مسلمان قرآنی محققین کے اسلوب تحقیق سے مختلف اور متفاوت ہے۔

مکی اور مدنی سورتوں کی پہنچان کی اہمیت

سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کی پہچان مقسرن کے لئے قرآن کی تفسیر میں، فقہاء کے لئے شرعی احکام کے استنباط میں[1] اور متکلمین کے لئے اعتقادی مباحث کے اثبات یا رد میں نہایت اہمیت رکھتی ہے؛[2] کیونکہ سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کی پہچان کے ذریعے مختلف واقعات کے رونما ہونے اور مختلف شرعی احکام کے صادر ہونے کی تاریخ اور وقت کے بارے میں آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے۔[3] علومِ قرآن کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ مکی اور مدنی سورتوں میں فرق نہیں جانتا، ان کے لیے قرآن کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے۔[4]

تفسیر المیزان کے مصنعلامہ سید محمد حسین طباطبائی کے مطابق مکی و مدنی سورتوں کی شناخت اور اسی ضمن میں سورتوں کے ترتیب نزول سے آگاہی کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی دعوت کے مراحل، آپؐ کی حیات مبارکہ کے روحانی، سیاسی اور اجتماعی حالات نیز سیرت نبوی کے تجزیہ و تحلیل میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔[5] اسی طرح مکی اور مدنی سورتوں کی پہچان کے دیگر فوائد میں ناسخ اور منسوخ ہونے کی پہچان،[6] اسباب نزول سے آگاہی،[7] نزول قرآن کی کیفیت[8] اور قرآنی سورتوں کے غرض و غایت کی معرفت کا نام لیا جا سکتا ہے۔[9]

تشخیص کے معیار اور اصول

قرآنی آیات کے مکی یا مدنی ہونے کے تعین میں تین بنیادی نظریے بیان کیے گئے ہیں:

  1. زمان کے اعتبار سے: جو آیتیں ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں وہ مکی اور جو آیتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی ہیں۔ اس بنا پر اگر کوئی سورہ یا آیت ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہو تو وہ مدنی کہلائے گی، چاہے وہ مکہ یا کسی سفر میں نازل کیوں نہ ہوئی ہو، جیسے فتح مکہ یا حجۃ الوداع کے دوران نازل ہونے والی آیات۔[10]
  2. مکان کے اعتبار سے: جو آیات مکہ اور اس کے اطراف جیسے منیٰ، عرفات، حدیبیہ وغیرہ میں نازل ہوئیں، وہ مکی ہیں، اگرچہ ہجرت کے بعد ناز ہوئی ہوں؛ اور جو آیات مدینہ اور اس کے اطراف جیسے بدر اور اُحد وغرہ میں نازل ہوئیں، وہ مدنی کہلاتی ہیں، اگرچہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہوں۔[11]
  3. مخاطَب کے اعتبار سے: بعض علماء کے مطابق جن آیات کا خطاب اہل مکہ سے ہو وہ مکی، اور جس کا خطاب اہل مدینہ سے ہو وہ مدنی ہے۔[12] اس کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جن آیات میں لفظ «یَا أَیُّہَا النَّاسُ (ترجمہ: اے لوگو!)» آیا ہو، وہ مکی، اور جن آیات میں «یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا (ترجمہ: اے ایمان والو!)» آیا ہو، وہ مدنی کہلاتی ہیں۔[13] یہ قول صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود سے منقول ہے۔[14]

کہا گیا ہے کہ اگر کسی سورہ کی بعض آیات مکی اور بعض مدنی ہوں تو اس سورہ کو اکثریت کی بنیاد پر مکی یا مدنی کہا جاتا ہے۔ مثلاً سورہ انعام کی چند آیات مدنی بتائی گئی ہیں، لیکن چونکہ زیادہ تر آیات مکہ میں نازل ہوئیں، اس لیے اسے مکی شمار کیا گیا ہے۔[15] بعض کے نزدیک، ایسی سورتوں کے نام کا تعین ابتدائی آیات کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔[16]

مشہور نظریہ

ان تینوں میں سے زمان کے اعتبار سے سورتوں کی تقسیم کا نظریہ سب سے زیادہ مشہور اور اکثر قرآنی محققین کے نزدیک مقبول ہے؛[17] کیونکہ یہ معیار دوسرے دو معیارات کے مقابلے میں قرآن کی تمام آیات کو شامل کرتا ہے۔[18] جبکہ مکانی معیار جامع نہیں ہے ارو تمام قرآنی آیات کو شامل نہیں کرتا مثلاً بعض آیات نہ مکہ میں نازل ہوئی ہیں نہ مدینہ میں، بلکہ دیگر مقامات جیسے تبوک یا بیت‌المقدس میں نازل ہوئیں ہیں۔[19] اسی طرح مخاطب کے اعتبار سے تقسیم بھی جامع نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور اشکال کا بھی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض آیات یقینی طور پر مدنی ہیں جبکہ ان کی ابتداء «یَا أَیُّہَا النَّاسُ» سے ہو رہی ہے اسی طرح بعض آیات یقینی طور پر مکی ہیں جبکہ ان کی ابتداء «یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا» کے الفاظ سے ہو رہی ہیں۔[20]

آیاتِ استثنائی

بعض مکی سورتوں کی کچھ آیات مدینے میں نازل ہوئی ہیں اور بعض مدنی سورتوں کی کچھ آیات مکے میں نازل ہوئی ہیں۔ ایسی آیات کو «آیاتِ استثنائی» کہا جاتا ہے۔[21] البتہ علوم قرآن کے بعض ماہرین اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کسی سورہ میں "استثنائی آیات" موجود نہیں ہیں یعنی ہر ایک سورت کی تمام آیات یا مکی ہیں یا مدنی۔[22]

مکی اور مدنی سورتوں کی تعداد

عام طور پر مدنی سورتوں کی تعداد 20 اور مکی سورتوں کی تعداد 82 بیان کی گئی ہیں اور 12 سورتوں کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔[23] وہ سورتیں جن کا مدنی ہونا سب کے یہاں قابل قبول ہیں ان میں: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، توبہ، نور، احزاب، محمد، فتح، حجرات، حدید، مجادلہ، حشر، ممتحنہ جمعہ، منافقون، طلاق، تحریم اور نصر شامل ہیں۔[24] جن سورتوں کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ان میں: فاتحہ، رعد، الرحمن، صف، تغابن، مطففین، قدر، بینہ، زلزلہ، اخلاص، فلق اور ناس شامل ہیں۔[25] ان کے علاوہ باقی سورتیں مکی‌ ہیں۔[26]

البتہ جن قرآنی نسخوں میں سورتوں کی ابتدء میں ان کے مکی یا مدنی ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ان کے مطابق 28 سورتیں مدنی اور 86 سورتیں مکی بتائی گئی ہیں۔[27]

پہچان کے ذرائع

قرآنی سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے تعین کے تین ذرایع بیان کیے گئے ہیں: 1- روایات، 2- ظاہری شواہد، 3- روحانی اور محتوائی علامتیں۔[28]

روایات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات ان میں مختلف اشکلات پائے جاتے ہیں ان میں سند کی کمزوری، چودہ معصومینؑ سے نقل نہ ہونا یا آپس میں تضاد پایا جانا شامل ہیں؛ لہٰذا اس سلسلے میں صرف وہ روایات معتبر مانی جاتی ہیں جن کی صحت کے شواہد موجود ہوں۔[29] بعض قرآنی محققین کے مطابق آیات کا سیاق و سباھ، سورتوں کے مضامین اور خارجی قرائن و شواہد ہی سورتوں کے مکی اور مدنی ہونے کی پہچان کے واحد اور اصل[30] یا یعض کے نزدیک بہترین ذریعہ ہے۔[31]

مکہ اور مدینہ کے حالات ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے مثلا مکہ میں کفار و مشرکین کی کثرت تھی، جبکہ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی۔[32] اسی لیے دونوں مقامات پر نازل ہونے والی آیات میں مخاطَب، اسلوب اور مضامین میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔[33] البتہ یہ خصوصیات قطعی معیار نہیں بلکہ صرف اندازے اور غالب احتمال کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔[34] اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ بعض سورتیں مکی ہوں لیکن ان کی بعض آیات مدنی اور بالکعس اور یہ خصوصیات صرف استثنائی آیات میں پائی جاتی ہیں۔[35]

مکی سورتوں اور آیات کی خصوصیات

مکی سورتوں یا آیات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں:

مدنی سورتوں اور آیات کی خصوصیات

مدنی سورتوں اور آیات کے لئے بھی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں:

  • شرعی احکام اور دینی حدود و قیود کا بیان۔[44]
  • آیات اور سورتوں کا نسبتا طویل ہونا۔[45]
  • سیاسی اور اقتصادی قوانین کی وضاحت۔[46]
  • مؤمنین کے ساتھ نرم و شفقت آمیز خطاب۔[47]
  • نفاق اور منافقین کے حالات پر گفتگو۔[48]
  • منافقوں کے اقدامات اور ان کے خلاف پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کا موقف؛[49]
  • اہلِ کتاب کے ساتھ مجادلہ و مناظرہ۔[50]
  • جہاد اور اس کے احکام کا بیان۔[51]

مستشرقین کے نظریات

انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں تھیوڈور نولدکے اور رزی بلاشر جیسے مستشرقین نے قرآن کی تاریخ نزول پر تحقیق کی ہیں۔[52] بعض مستشرقین نے قرآنی سورتوں کو زمان نزول کے اعتبار سے مکی اور مدنی دو قسموں کی بجائے تین، چار یا پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے،[53] اگرچہ ان سب نے مدنی سورتوں کو ایک ہی گروہ میں رکھا ہے۔[54]

بعض مستشرقین[55] اور مسلمان روشنفکروں جیسے طٰہ حسین نے مکی اور مدنی سورتوں کے ظاہری اور محتوائی تفاوت کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا کہ قرآن کسی انسان کلام ہے اور یہ خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا ہے، کیونکہ (ان کے خیال میں) مکی اور مدنی سورتیں زمان و مکان سے متاثر ہوا ہے۔ حالانکہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اسے ماحول سے متأثر نہیں ہونا چاہئے تھا۔[56]

کتاب التمہید کے مصنف آیت اللہ معرفت نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ماحول سے مطابقت اور ماحول متأثر ہونے میں فرق ہے۔ مذکورہ اعتراض اس وقت صحیح تھا جب مکی اور مدنی سورتوں میں موجود اختلاف اور تفاوت ماحول کی پیروی اور اس سے مأثر ہو کر پیدا ہوئے ہوں جبکہ قرآن اپنے زمانے اور ماحول یعنی مکہ اور مدینہ کے معروضی حالات کے تقاضوں کے مطابق نازل ہوا ہے تاکہ اس زمانے اور اس ماحول میں میں موجود انسانوں پر زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہو سکے۔[57]

حوالہ جات

  1. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص111۔
  2. دولتی، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، 1384شمسی، ص65۔
  3. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص110۔
  4. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص54۔
  5. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج13، ص235۔
  6. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص54۔
  7. معرفت، تاریخ قرآن، 1382شمسی، ص47۔
  8. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص602۔
  9. خامہ‌گر، ساختار ہندسی سورہ‌ہای قرآن، 1386ھ، ص152۔
  10. معرفت، التمہید، 1386شمسی، ج1، ص130۔
  11. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص55۔
  12. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص56۔
  13. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص81۔
  14. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص56۔
  15. دولتی، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، 1384شمسی، ص72۔
  16. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص613۔
  17. معرفت، التمہید، 1386شمسی، ج1، ص131۔
  18. دولتی، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، 1384شمسی، ص71۔
  19. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص602۔
  20. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص602۔
  21. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص612-613۔
  22. معرفت، تاریخ قرآن، 1382شمسی، ص62؛ میرمحمدی، تاریخ و علوم قرآن، 1377شمسی، ص311۔
  23. سیوطی، الاتقان، 1421ھ، ج1، ص60۔
  24. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص610۔
  25. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص610۔
  26. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص610۔
  27. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص111۔
  28. معرفت، تاریخ قرآن، 1382شمسی، ص51۔
  29. دولتی، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، 1384شمسی، ص73۔
  30. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج13، ص235۔
  31. دولتی، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، 1384شمسی، ص74۔
  32. احمدی، پژوہشی در علوم قرآن، 1381شمسی، ص52-55۔
  33. احمدی، پژوہشی در علوم قرآن، 1381شمسی، ص62۔
  34. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص170۔
  35. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص172۔
  36. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص171۔
  37. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص171۔
  38. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص171۔
  39. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص111۔
  40. مظلومی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، 1403ھ، ج1، ص188۔
  41. مظلومی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، 1403ھ، ج1، ص188۔
  42. مظلومی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، 1403ھ، ج1، ص188۔
  43. مظلومی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، 1403ھ، ج1، ص188۔
  44. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص172۔
  45. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص172۔
  46. رادمنش، آشنایی با علوم قرآنی، 1374شمسی، ص172۔
  47. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص111۔
  48. مظلومی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، 1403ھ، ج1، ص189۔
  49. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص607۔
  50. جوان آراستہ، درسنامہ علوم قرآنی، 1380شمسی، ص132۔
  51. جوان آراستہ، درسنامہ علوم قرآنی، 1380شمسی، ص132۔
  52. نکونام، درآمدی بر تاریخ‌گذاری قرآن، 1380شمسی، ص11۔
  53. نکونام، درآمدی بر تاریخ‌گذاری قرآن، 1380شمسی، ص12-21۔
  54. دہقانی، و مہدوی‌راد، «سیر تاریخی شناخت سور و آیات مکی و مدنی»، ص69۔
  55. معرفت، تاریخ قرآن، 1382شمسی، ص52۔
  56. ابوالشبہہ، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، 1407ھ، ص233-234۔
  57. معرفت، تاریخ قرآن، 1382شمسی، ص52۔

مآخذ

  • ابوالشبہہ،‌ محمد محمد، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، ریاض، دار اللواء، 1407ھ۔
  • احمدی، حبیب‌اللہ، پژوہشی در علوم قرآن، قم، فاطیما، 1381ہجری شمسی۔
  • جوان آراستہ، حسین، درسنامہ علوم قرآنی، قم، بوستان کتاب، 1380ہجری شمسی۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار ہندسی سورہ‌ہای قرآن، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، 1386ھ۔
  • دولتی، کریم، تقسیمات قرآنی و سور مکی و مدنی، تہران، وزارت ارشاد، 1384ہجری شمسی۔
  • دہقانی، و مہدوی‌راد، «سیر تاریخی شناخت سور و آیات مکی و مدنی»، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 10، 1387ہجری شمسی۔
  • رادمنش، سید محمد، آشنایی با علوم قرآنی، تہران، جامی، 1374ہجری شمسی۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
  • رکنی، محمدمہدی، آشنایی با علوم قرآنی، تہران، سمت، 1379ہجری شمسی۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، بیروت، دار الکتاب العربی، 1421ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • مظلومی، رجبعلی، پژوہشی پیرامون آخرین کتاب الہی، تہران، نشر آفاھ، 1403ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، تاریخ قرآن، تہران، سمت، 1382ہجری شمسی۔
  • میرمحمدی، ابوالفضل، تاریخ و علوم قرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • نکونام، جعفر، درآمدی بر تاریخ‌گذاری قرآن، تہران، نشر ہستی نما، 1380ہجری شمسی۔