بنی اسرائیل کا سمندر پار کرنا

ویکی شیعہ سے

بنی اسرائیل کا سمندر پار کرنا، بنی اسرائیل کی نجات کے لئے ایک معجزہ تھا جو اس وقت واقع ہوا جب بنی اسرائیل کے لئے سمندر کے درمیان سے راستہ بن گیا اور وہ پانی میں سے گزرے جبکہ فرعون اور اس کی فوجیں غرق ہو گئیں۔ حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے باہر لے گئے۔ فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ جب فرعون کی فوجیں بنی اسرائیل کے پاس پہنچیں تو بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو سمندر اور فرعون کی فوج میں گھرا ہوا پایا۔

اللہ تعالی نے حضرت موسیٰؑ کو وحی کے ذریعے اپنی عصا سمندر کے پانی پر مارے کا حکم دیا، جب حضرت موسیٰؑ نے عصا کو پانی پر مارا تو سمندر کا پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور وہاں سے راستہ بن گیا اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل مذکورہ راستے سے سمندر میں داخل ہوگئے جبکہ زمین خشک تھی اور پانی نے انہیں دو طرف سے گھیر لیا۔ آخر کار موسیٰ اور ان کے ساتھی پانی کو پار کر گئے۔ فرعون اور اس کے سپاہی بھی بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لیے سمندر میں داخل ہوئے، وہ سب ڈوب گئے اور ان کی لاشیں پانی کی سطح پر آگئیں۔

بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ جس سمندر میں فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے تھے اسے آجکل بحیرہ احمر کہا جاتا ہے۔ جبکہ طبرسی نے مجمع البیان اسے دریائے نیل قرار دیا ہے۔

بنی اسرائیل کا مصر سے فرار اور سمندر پر پہنچنا

اللہ تعالی نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا کہ وہ رات کو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل جائیں۔[1] بنی اسرائیل کی روانگی کا علم ہونے کے بعد فرعون نے فوجیں جمع کرنے کے لیے شہروں میں بعض لوگوں کو بھیجا۔[2] فرعون نے رائے عامہ فراہم کرنے اور لوگوں کو نفسیاتی طور پر تیار کرنے کے لئے[3] اپنی فوجوں کو ایک تیار گروہ کہا اور بنی اسرائیل کو ایک ایسا چھوٹا گروہ قرار دیا جو ان کے غصے کا باعث بنا ہے۔[4] آخر کار فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ بنی اسرائیل کو واپس لانے کے لیے ان کا پیچھا کیا۔[5] وہ طلوع آفتاب کے وقت بنی اسرائیل کے پاس پہنچے۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو محاصرے میں پایا۔ ان کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف فرعون کا لشکر تھا اس لیے وہ ڈر گئے اور اپنے آپ کو پھنسا ہوا کہا۔[6] حضرت موسیٰؑ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے کیونکہ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ عنقریب میری رہنمائی کرے گا۔[7] اس تعبیر کا مفہوم یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے فتح و سلامتی کا وعدہ کیا ہے۔[8]

سمندر اور فرعون کی فوج کے درمیان محاصرہ کے بعد بنی اسرائیل کی باتیں

قرآن: «پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں (آمنے سامنے ہوئیں) تو موسیٰ کے ساتھیوں نے (گھبرا کر) کہا کہ بس ہم تو پکڑے گئے۔(سورہ شعراء، آیہ 61)
تورات: « انہوں نے مُشہ (موسیؑ) سے کہا: کیا مصر میں کوئی قبر نہیں ہے کہ تم ہمیں اس صحرا میں مرنے کے لیے لائے ہو؟ یہ تو نے ہم سے کیا کیا کہ ہمیں مصر سے نکال لایا؟ کیا یہ وہی بات نہیں جو ہم نے مصر میں تم سے کہی تھی؟ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو تاکہ ہم مصریوں کی غلامی کریں۔ کیونکہ مصریوں کی غلامی ہمارے لیے صحرا میں مرنے سے بہتر ہے۔(تورات، خروج، 14: 11-12)

دریا پھٹ جانے کا معجزہ

سورہ شعراء کی آیت نمبر 63 کے مطابق اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر وحی کی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر مارے[9] تاکہ سمندر کے بیچ میں ایک خشک راستہ کھل جائے جہاں سے غرق ہونے یا فرعون کے لشکر کے خوف کے بغیر گزر جائیں۔[10] حضرت موسیٰؑ نے جب عصا پانی پر مارا تو سمندر کے کچھ حصے الگ ہوگئے۔[11]اس سمندر سے جدا ہونے والا ہر حصہ پہاڑ کے بڑے ٹکڑے کی طرح تھا۔[12] موسیٰ اور بنی اسرائیل سمندر میں داخل ہوئے[13] جب کہ زمین خشک تھی اور پانی نے انہیں دو طرف سے گھیر لیا تھا[14] آخر کار موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں نے پانی عبور کیا۔[15] لیکن فرعون اور اس کے سپاہی جو بنی اسرائیل کے تعاقب میں سمندر میں گئے تھے،[16] وہ سب ڈوب گئے۔[17]

بنی اسرائیل کی نجات اور فرعونوں کے سمندر میں غرق ہونے کا قصہ قرآن کی متعدد سورتوں میں مذکور ہے جن میں سورہ اعراف آیت نمبر 136، سورہ انفال آیت نمبر 54، سورہ اسراء آیت نمبر 103، سورہ شعرا آیت نمبر 63-66 اور سورہ زخرف آیت نمبر 55 شامل ہیں۔،[18] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر فضل بن حسن طَبْرسی جیسے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ سمندر پر لاٹھی مارنے کے بعد پانی کے درمیان سے بارہ راستے کھل گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک الگ راستہ بن گیا۔[19]

بعض علما نے سمندر کے پانی کے کھلنے کے لئے قدرتی امکانات کا ذکر کیا ہے۔ شیعہ مفسر مکارم شیرازی کا خیال ہے کہ معجزے کو قبول کرنے کے بعد اس جیسے فطری جواز کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ خدا کے حکم سے پانی ایک خاص کشش کی وجہ سے گاڑھا ہو جائے اور کچھ عرصے بعد یہ کشش بے اثر ہو جائے۔[20]

موسیؑ اور بنی اسرائیل کا سمندر عبور کرنے کی تصویر

فرعون اور فرعونیوں کا غرق ہونا

جب سمندر شکافتہ ہوگیا اور بنی اسرائیل اس میں سے گزرے تو فرعون اور اس کا لشکر بھی ان کا پیچھا کرنے کے لیے سمندر میں داخل ہوئے۔ لیکن سمندر اپنی معمول پر آگیا اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔[21] فرعون کے سپاہیوں کی لاشیں پانی پر آگئیں اور بنی اسرائیل نے انہیں دیکھا۔[22] قرآن نے یہ واقعہ سورہ بقرہ میں کچھ یوں بیان کیا ہے: "اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو شگافتہ کیا (اسے پھاڑ کر تمہارے لئے راستہ بنایا) اور تمہیں نجات دی اور تمہارے دیکھتے دیکھتے فرعونیوں کو غرق کر دیا"۔[23]

سورہ یونس کی آیت نمبر 92 میں فرعون کے لئے "نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ؛ ہم تیرے جسم کو نجات دیں گے" کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔[24] مشہور مفسرین نے اس تعبیر کا مطلب فرعون کا بے جان جسم لیا ہے۔[25] خدا کے حکم سے فرعون کا جنازہ پانی سے باہر نکلا[26] تاکہ دوسرے لوگ اس کا جسم دیکھ سکیں۔[27] بعض نے اس بدن سے مراد زرہ سمجھا ہے کہ اللہ تعالی نے فرعون کو اس کی مخصوص زرہ سمیت پانی سے باہر نکالا تاکہ وہ پہچانا جاسکے۔[28] قرآن نے فرعون کے بے جان جسم کو دوسروں کے لئے عبرت اور سبق قرار دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کو بنی اسرائیل کے لیے عبرت سمجھا ہے کیونکہ وہ لوگ فرعون کی موت کی خبر کو قبول نہیں کر رہے تھے۔[29]

دریائے نیل یا بحیرہ احمر

شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ کے مطابق بہت سے مفسرین اس پر یقین رکھتے ہیں کہ جس سمندر کو بنی اسرائیل کے لیے کھولا گیا اور فرعونی اس میں غرق ہو گئے اس سمندر کو آج کل بحیرہ احمر کہا جاتا ہے۔[30] طبرسی جیسے بعض مفسرین مجمع‌البیان میں اس سے مراد دریائے نیل لیتے ہیں۔[31]

جو پانی بنی اسرائیل کے لئے کھل گیا اس کو قرآن مجید نے «یَم»[32] یعنی سمندر[33] اور «بحر»[34] یعنی سمندر اور وسیع پانی[35] سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن میں «یم» کا لفظ اس پانی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس پر حضرت موسی کو بچپنے میں رکھا گیا تھا اور اسے دریائے نیل قرار دیا گیا ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج5، ص498۔
  2. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج5، ص498۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص237۔
  4. سورہ شعراء، آیہ 54- 56۔
  5. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج5، ص498۔
  6. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص277۔
  7. سورہ شعراء، آیہ 62۔
  8. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص277۔
  9. سورہ شعراء، آیہ 63۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج13، ص257۔
  11. طباطبائی، المیزان، ج‏15، ص277-278۔
  12. فضل اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج17، ص119۔
  13. طباطبائی، المیزان، ج‏15، ص278۔
  14. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج17، ص119۔
  15. تفسیر الصافی، ج‏4، ص37۔
  16. سورہ اسراء، آیہ 103۔
  17. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج8، ص293۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج1، ص250۔
  19. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج1، ص229۔
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص250۔
  21. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج8، ص293۔
  22. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج1، ص252۔
  23. سورہ بقرہ، آیہ 50۔
  24. سورہ یونس، آیہ 92۔
  25. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج8، ص377۔
  26. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ج1، ص231۔
  27. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص417۔
  28. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج8، ص377۔
  29. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص316۔
  30. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص100۔
  31. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج4، ص726۔
  32. سورہ اعراف، آیہ 136۔
  33. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج12، ص647؛ فیومی، المصباح المنیر، قم، ج2، ص681۔
  34. سورہ اعراف، آیہ 138؛ سورہ شعراء، آیہ 63۔
  35. قرشی، قاموس قرآن، 1371ہجری شمسی، ج1، ص162۔
  36. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص131۔

مآخذ

  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • حسینی ہمدانی، سید محمدحسین، انوار درخشان، تحقیق: محمدباقر بہبودی‏، تہران، کتابفروشی لطفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق: حسین اعلمی، تہران، صدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، قم، منشورات دار الرضی، چاپ اول، بی‌تا.
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1371ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح: سید طیب موسوی جزائری،‏ قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔