مادر موسی
مادر موسی یا یُوکابَد وہ خاتون ہیں جن پر اللہ تعالی نے وحی یا الہام کیا ہے۔ مادر موسی کا تذکرہ قرآن کریم میں حضرت موسی کی ولادت کے قصے میں ہوتا ہے۔ حضرت موسی کی ماں نے اپنے بچے کی جان کی حفاظت کے لئے حکم خدا سے ان کو ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالہ کر دیا۔ جناب موسی کیسے اپنی ماں کے پاس دوبارہ واپس آئے یہ داستان قرآن کی مشہور داستانوں میں سے ایک ہے۔
کوائف | |
---|---|
نام | یوکابد |
شہرت | حضرت موسی کی والدہ |
مشہور اقارب | حضرت موسیؑ |
سکونت | مصر |
علمی معلومات | |
دیگر معلومات |
تعارف
مادر موسی کا نام قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن بعض تفاسیر اور قرآنی قصّوں میں یوکابَد [1] کے عنوان سے کہ جس کا معنی ’با عظمت خدا‘ ہے۔ [2] یوخاند[3] یوخابید، نخیب و افاحیہ [4] بتایا گیا ہے۔ توریت کے مطابق یوکابد، حضرت یعقوب کے بیٹے لاوی کی نسل سے ہیں۔ توریت ہی کے مطابق یوکابد نے اپنے بھتیجے عمران (یا عمرام) سے شادی کی اور حضرت موسی و حضرت ہارون انہیں دونوں کے فرزند ہیں۔[5]
لوگوں کے درمیان مادر موسی کے سلسلے میں افسانہ بھی گڑھا گیا ہے۔ التفسیر الکاشف میں محمد جواد مغنیہ نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے اس داستان سے استفادہ کرتے ہوئے جو مادر موسی نے صندوق میں تالا لگایا تھا، ایک داستان گڑھی کہ اگر مادر موسی کا نام کسی بھی تالے پر پڑھا جائے تو وہ کھُل جائے گا اور بہت سے سادہ لوح لوگوں نے اس پر یقین بھی کر لیا۔[6]
جناب موسی کی ولادت
تفسیر قمی میں آیا ہے کہ جب مادر موسی حاملہ ہوئیں تو کسی کو بھی ان کے اس حمل کی اطلاع نہ ہوئی۔ اور یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب فرعون، اسرائیل کے ایک ایسے شخص کی موجودگی کے خوف سے جو اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے گا تو اس نے بنی اسرائیل کی خواتین پر پہرےداروں کو معین کر دیا کہ اگر کوئی لڑکا پیدا ہو تو فوراً اس کی خبر دیں اور اس بچے کو قتل کر دیا جائے۔ جب جناب موسی کی ولادت ہوئی تو مادر موسی نے اس حال پر بہت گریہ کیا لیکن موسی کی محبت اس پہرے دار عورت کے دل میں بیٹھ گئی اور جناب موسی کی ولادت کی خبر کو فرعون سے چھپا لیا۔[7]
اس کے باوجود کہ جناب موسی کی ولادت مخفی تھی لیکن مادر موسی کو ابھی بھی ڈر و خوف لگا ہوا تھا اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان پر وحی (الہام) [8]) کیا کہ اپنے شیرخوار بیٹے کو دریائے نیل کے حوالے کر دیں اور پھر ان سے وعدہ کیا کہ اس بچے کو واپس پلٹایا جائے گا اور موسی کو رسولوں میں قرار دیا جائے گا۔[9]
سورہ قصص کی ساتویں آیت میں مادر موسی کی طرف وحی آنے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس وحی کی کیفیت کو الہام یا کسی کے دل میں کوئی مطلب ڈال دینے کے برابر سمجھا ہے۔[10]
مادر موسی نے جناب موسی کو فرمان الہی کے مطابق ایک تابوت میں رکھ دیا[11] پھر اسے دریائے نیل کے حوالے کر کے ان کی بہن کو اس صندوق کے پیچھے روانہ کر دیا۔ تابوت دریائے نیل میں تیرتے ہوتے ہوئے فرعون کے محل تک جا پہونچا اور فرعون کے ملازمین نے اسے دریا سے نکال لیا۔ جیسے ہی آسیہ نے جو زوجہ فرعون تھی، تابوت میں ایک بچے کو دیکھا تو اس کی محبت اس کے دل میں سما گئی اور فرعون سے کہا کہ اسے اپنا بیٹا بنا لے۔ [12]
مفسرین کا خیال ہے کہ یہ وہی تابوت ہے جس میں جناب موسی نے وقت وفات اپنی تختیاں و زرہ کو رکھ کر اپنے وصی یوشع بن نون کے حوالے کیا تھا۔ بنی اسرائیل کے لئے یہ مقدس تابوت تھا اور وہ اسے متبرک سمجھتے تھے لیکن چونکہ وہ اس کی اہمیت و عظمت کو گھٹانے لگے تو خداوند نے اسے واپس لے لیا اور انہیں عذاب و مصیبت میں گرفتار کر دیا اور جالوت کو ان پر مسلط کیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے درخواست کی کہ وہ خدا سے کہیں کہ ان کے لئے کوئی حاکم مقرر کرے اور اپنی کھوئی ہوئی عزت و وقار کو پھر سے حاصل کر لیں۔[13]
موسی کی ماں کے پاس واپسی
جس وقت خداوند نے مادر موسی کو وحی کی کہ موسی کو دریا کے حوالے کر دیں اسی وقت یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ ان کے بیٹے کو واپس پلٹایا جائے گا اور رسولوں میں قرار دیا جائے گا اسی وجہ سے مادر موسی نے موسی کو سکون و اطمینان کے ساتھ پانی کے سپرد کیا تھا۔
جب فرعون نے موسی کو اپنا بیٹا بنا لیا تو ان کے لئے دایہ کا انتظام کیا کہ وہ اسے دودھ پلائے لیکن موسی نے کسی بھی دایہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خواہر موسی نے جب یہ واقعہ دیکھا تو ان کے قریب جاکر اجنبی کی طرح ایک خاتون کا مشورہ دیا کہ دودھ پلانے کا کام اس کے ذمہ کیا جائے اس طرح موسی اپنی ماں کی آغوش میں دوبارہ واپس آ گئے۔[14]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مغنیہ، التفسیر المبین، بنیاد بعثت، ص۵۰۷۔
- ↑ بلاغی، حجۃ التفاسیر، ۱۳۸۶ھ، جلد اول مقدمہ، ص۲۵۵۔
- ↑ بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۴۲۳ھ، ج۳، ص۲۷۔
- ↑ جزائری، قصص الأنبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۰۔
- ↑ سفر خروج ۶: ۲۰۔
- ↑ مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۳، ص۳۷۲۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۱۳۵۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۱، ص۲۹۷۔
- ↑ سورہ قصص، آیہ ۷ و ۱۰ - ۱۳؛ سورہ طہ، آیہ ۳۸ - ۴۰۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱۶، ص۱۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۱۰۵؛ قرشی بنایی، تفسیر احسن الحدیث، ۱۳۷۵ش، ج۸، ص۱۰۔
- ↑ سورہ طہ، آیہ۳۹۔
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۱۲۶۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۲، ص۲۹۷۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۱۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۶، ص۳۲-۳۷۔
مآخذ
- بلاغی، سید عبد الحجت، حجۃ التفاسیر و بلاغ الإکسیر، قم، انتشارات حکمت، ۱۳۸۶ھ۔
- بلخی، مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق عبداللہ محمود شحاتہ، بیروت، دار إحیاء التراث، ۱۴۲۳ھ۔
- جزائری، نعمت اللہ بن عبد اللہ، قصص الأنبیاء، ترجمہ فاطمہ مشایخ، تہران، انتشارات فرحان، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
- قرشی بنایی، علی اکبر، تفسير احسن الحديث، تہران، بنیاد بعثت، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
- قمى، على بن ابراہيم، تفسی القمی، محقق طيب موسوى جزايرى، قم، دار الکتاب، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔