خلیل اللہ (لقب)

ویکی شیعہ سے

خَلیل اللہ (خدا کا دوست[1]) حضرت ابراہیم کا لقب ہے۔[2] مقام خلت پر پہنچنا جناب ابراہیمؑ کی تعریف و تمجید شمار ہوتا ہے[3] جو کہ مقام نبوت و رسالت سے اعلیٰ و ارفع مقام ہے۔[4] حضرت امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو سب سے پہلے عبدیت کا مقام عطا ہوا اس کے بعد مقام نبوت، پھر مقام رسالت اور آخر میں مقام خلت عطا ہوا۔[5]

سورہ نساء آیت نمبر 125 میں آیا ہے: و اتَّخَذَ اللَّہُ إِبْراہیمَ خَلیلاً[نساء–125؛] اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا۔ علما نے لفظ «اتَّخَذَ» کے معنی منتخب کرنا بیان کیے ہیں۔[6] اس آیت کی ابتدا میں تاکید کی گئی ہے کہ دین ابراہیمؑ کی پیروی کی جائے۔[7] پھر دوسروں کو ابراہیمؑ کی پیروی کی طرف ترغیب دلانے کی خاطر کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل اور دوست منتخب کیا ہے۔[8] اہل سنت مفسر اور عالم دین زمخشری کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے لیے لفظ خلیل یہاں بطور مجاز استعمال ہوا ہے، در حقیقت یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے نزدیک برگزیدہ بندہ ہے اور ان میں ایک ایسی خصوصیت ہے جو عام طور پر دو دوستوں کے درمیان ہوتی ہے۔[9]

روایات میں بھی حضرت ابراہیمؑ کے لیے خلیل اللہ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔[10] ابراہیمؑ نے بھی خود کو خلیل اللہ کہا ہے۔[11] مقبوضہ فلسطین میں حضرت ابراہیمؑ کی اقامت گاہ شہر الخلیل[12] کو سورہ نساء کی آیت 125 کی میں لفظ خلیل آنے کی وجہ سے "الخلیل" نام رکھا ہے۔[13] یہ لقب اگرچہ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ مختص ہے لیکن بعض احادیث اور دعاؤں میں حضرت محمدؐ،[14] امام علیؑ[15] اور امام حسینؑ[16] کے لیے استعمال ہوا ہے۔

فارسی ادبیات میں بھی حضرت ابراہیمؑ کے لیے خلیل کہا گیا ہے۔ ملا احمد نراقی نے مثنوی طاقدیس میں یوں شعر کہا ہے:

برگزید او را خداوند جلیلخواند او را از برای خود خلیل
خلعت خُلَّت رسید او را ز ربآمد او را ہم خلیل اللہ لقب[17]

کسی اور شاعر نے اسی متعلق یوں شعر کہا ہے:

بنای خانہ کعبہ خلیل اللہ نہاد اماعلی در کعبہ ظاہر گشت و صاحبخانہ پیدا شد[18]

احادیث میں حضرت ابراہیمؑ کو مقام خلت عطا ہونے کے مختلف عوامل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[19] کتاب علل الشرایع میں "ابرہیمؑ کو مقام خلت عطا ہونے کے عوامل" کے عنوان سے ایک حصہ موجود ہے۔[20] اس حصے میں متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔[21] ان مذکورہ احادیث کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کے مقام خلت پر فائز ہونے کی یہ وجوہات تھیں: درگاہ الہی میں کثرت سجدہ، نیازمندوں کو کھان کھلانا، نماز شب، غریبوں کو خالی ہاتھ نہ بھیجنا، مہمان‌ نوازی[22] اور غیر اللہ سے درخواست نہ کرنا[23] بعض مفسرین نے بتوں کو چھوڑ کر خدائے یکتا کی پرستش کرنے کو بھی مقام خلت ملنے کی وجوہات میں سے شمار کیا ہے۔[24]

خلیل کے معنی

معنی کے لحاظ سے لفظ خلیل میں دو احتمال دیے گئے ہیں۔

خلیل بمعنای دوست؛ لفظ خلیل "الخُلّۃ" سے ماخوذ ہے ؛ لہذا جس کے معنی دوست کے ہیں۔[25] چھٹی صدی ہجری کی شیعہ تفسیر تفسیر مجمع البیان میں یہ معنی ذکر ہوا ہے۔[26] شیعہ مفسر مکارم شیرازی نے بھی یہی معنی حضرت ابراہیمؑ کے لیے درست مانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو خلیل کے عنوان سے منتخب کیا تو اس سے مراد یہی ہے کہ اللہ انہیں اپنا دوست منتخب کیا ہے۔ کوئی اور معنی یہاں مناسب نہیں لگتا۔[27] دوسرے مفسرین نے بھی اسی دوست والے معنی کو درست مانا ہے۔[28]

خلیل بمعنای فقر؛ یہ لفظ "الخَلّۃ" سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں فقر و ناداری۔[29] بعض علما کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ درگاہ الہی میں فقیر و محتاج ہونے کی وجہ سے اس لقب سے ملقب ہوئے ہیں۔[30] علامہ طباطبایی نے حضرت ابراہیمؑ کو غیر اللہ کے ہاں دست سوال دراز نہ کرنے کی وجہ سے خلیل اللہ کا لقب ملنے کی طرف اشارہ کرنے والی حدیث کو مد نظ ررکھتے ہوئے کہا ہے کہ خلیل کے معنی فقر و ناداری کے ہیں لہذا خلیل سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنی حاجتوں کو صرف اور صرف خدائے منان کی درگاہ میں پیش کرتا ہے اور صرف اسی سے اپنی حاجتیں پوری کرنے کا طلبگار ہوتا ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص145۔
  2. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص448۔
  3. ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، 1408ھ، ج6، ص129۔
  4. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص448۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص175۔
  6. کاشانی، زبدة التفاسیر، 1423ھ، ج2، ص160۔
  7. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص109۔
  8. ابن‌کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج2، ص374۔
  9. زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1407ھ، ج1، ص569۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص473۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص205۔
  12. لاہوتی، «الخلیل»، ص91۔
  13. لاہوتی، «الخلیل»، ص92۔
  14. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص573۔
  15. ابن‌قولویہ، کامل الزیارات، 1356شمسی، النص، ص44۔
  16. شیخ طوسی، تہذیب الأحکام‏، 1407ھ، ج6، ص113۔
  17. نراقی، مثنوی طاقدیس، بخش 135، «سبوح قدوس رب الملائکة والروح» گفتن جبرئیل و بیہوش شدن ابراہیم خلیل، سایت گنجور۔
  18. صغیر اصفہانی، دیوان اشعار، قصاید، شمارۂ 17 «در تہنیت عید مولود مسعود امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام»
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص146۔
  20. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385شمسی، ج1، ص34۔
  21. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385شمسی، ج1، ص34-37۔
  22. قرائتی، تفسیر نور، 1383شمسی، ج2، ص395۔
  23. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج5، ص96۔
  24. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج2، ص201۔
  25. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج3، ص340۔
  26. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372شمسی، ج3، ص178۔
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص145۔
  28. طالقانی، پرتوی از قرآن، 1362شمسی، ج6، ص195؛ طیب، أطیب البیان فی تفسیر القرآن، 1378شمسی، ج4، ص221۔
  29. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج3، ص340۔
  30. نجفی خمینی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج6، ص253۔
  31. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج5، ص96۔

مآخذ

  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، محقق و مصحح عبد الحسین امینی، نجف، دارالمرتضویۃ، چاپ اول، 1356ہجری شمسی۔
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس‌الدین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، محمدعلی بیضون، چاپ اول، 1419ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق محمدجعفر یاحقی، محمدمہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دار العلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • شیخ صدوق، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام‏، محقق و مصحح حسن الموسوی خرسان، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • صغیر اصفہانی، محمدحسین، دیوان اشعار، قصاید، شمارۂ 17 «در تہنیت عید مولود مسعود امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 13 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، تہران، شرکت سہامی انتشار، چاپ چہارم، 1362ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، چاپ یازدہم، 1383ہجری شمسی۔
  • کاشانی، ملا فتح‌اللہ، زبدۃ التفاسیر، قم، بنیاد معارف اسلامی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح علی‌اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • لاہوتی، بہزاد، «الخلیل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج16، تہران، بنیاد دائرہ المعارف اسلامی، 1390ہجری شمسی۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دارمحبی الحسین، چاپ اول، 1419ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • نجفی خمینی، محمدجواد، تفسیر آسان، تہران، انتشارات اسلامیۃ، چاپ اول، 1398ھ۔
  • نراقی، ملا احمد، مثنوی طاقدیس، بخش 135، «سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح» گفتن جبرئیل و بیہوش شدن ابراہیم خلیل، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 13 اسفند 1402ہجری شمسی۔