آیات الاحکام

ویکی شیعہ سے
(آیات احکام سے رجوع مکرر)

آیات احکام قرآن کی وہ آیات ہیں جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں یا ان آیات سے حکم شرعی استنباط کیا جاتا ہے۔ احکام شرعی سے اعتقادی اور اخلاقی احکام مراد نہیں ہیں بلکہ عملی احکام جیسے نماز، زکات و جہاد وغیرہ کے احکام مراد ہیں۔ مشہور ہے کہ قرآن میں پانچ سو آیات شریعت کے مختلف احکام کے متعلق ہیں۔

فقہ اسلامی کیلئے اساسی ترین اور بنیادی ترین منبع قرآن کریم ہے۔ روایات کے مطابق پیغمبر خداؐ کے زمانے سے ہی قرآن کے ذریعے احکام اسلامی حاصل کرنے کی روش اصحاب رسول اللہ میں رائج تھی۔ نیز آئمہ طاہرین بھی بعض مقامات پر حکم شرعی کے استناد میں قرآن کی آیات بیان کرتے تھے۔ قرآن کی آیات احکام کے متعلق سب سے پہلی تصنیف محمد بن سائب کلبی (متوفا ۱۴۶ھ) کی شمار ہوتی ہے جو امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھا۔

آیات احکام کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں سے کئی کتابوں کے نام آیات الاحکام سے موسوم ہیں۔ مؤلفین نے ان آثار میں آیات احکام کی خصوصیات کے پیش نظر انہیں چند حصوں میں تقسیم کیا ہے؛ مثال کے طور پر چند احکام پر مشتمل آیات، ایک حکم پر مشتمل آیات وغیرہ۔ کہا گیا ہے کہ قرآن کی بعض آیات الاحکام منسوخ ہوئی ہیں اور ان کی جگہ ایک نیا حکم آیا ہے مثلا آیت نجوا۔

تعریف

قرآن کی ایسی آیات جن میں واضح طور پر حکم شرعی بیان ہو یا اس سے شرعی حکم اخذ اور استنباط کیا جا سکے انہیں آیات احکام[1] یا فقہ القرآن[2] کہا جاتا ہے۔ حکم شرعی سے مراد نماز، روزه، جہاد، زکات) جیسے اعمال کے احکام ہیں، اخلاقی اور اعتقادی حکم مراد نہیں۔[3] بہت سی کتب آیات الاحکام کے نام سے موسوم ہیں کہ جن میں آیات احکام کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔[4]

آیات احکام کی مشہور مثال آیت وضو ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے: یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَیدِیكُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَی الْكَعْبَین... (ترجمہ: اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔)[5]

قرآن مآخذ اول

قرآن فقہ اسلامی کا پہلا اور اساسی ترین منبع ہے۔[6] آیات اور بہت سی روایات میں شناخت دین کیلئے قرآن کو بیان کیا گیا نیز حلال و حرام کے احکام پر مشتمل کتاب قرآن کو کہا گیا ہے۔[7] جبکہ شیعہ مکتب کے اخباری حضرات معتقد ہیں کہ احکام شرعی کے حاصل کرنے کا واحد منبع اور مصدر حدیث ہے اور قرآن کو روایات کے ذریعے پہچانا جائے نیز روایات اہل بیت کے بغیر مستقیم قرآن سے استفادہ کرنا ممنوع ہے۔[8]

قرآن میں احکام شرعی کے تمام جزئیات مذکور نہیں ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں شریعت کے کلی احکام اور قوانیں بیان ہوئے ہیں کہ جن کی جزئیات کو معصومین کی روایات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے؛[9] مثال کے طور پر نماز کے وجوب کا حکم آیات قرآن سے حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اس کی کتنی رکعات ہیں اور کتنے ارکان وغیرہ کا ذکر روایات میں مذکور ہے۔

تاریخچہ

روایات [10] میں آیا ہے کہ رسول خدا کے زمانے میں ہی احکام شرعی حاصل کرنے کیلئے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا سلسلہ نزول قرآن کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا بلکہ اصحاب پیامبر اور ائمہ معصومین کے اصحاب میں یہ معمول اور رائج تھا۔ بہت سے مقامات پر ائمہ نے احکام شرعی بیان کرتے ہوئے آیات قرآن بیان کرتے تھے؛ مثال کے طور پر منقول ہے کہ عبدالاعلی نے امام صادق(ع) سے عرض کی: زمین پر گرنے کی وجہ سے میرے پاؤں کا ناخن اکھڑ گیا لہذا میں نے مجبور ہو کر اس پر پٹی باندھی ہے۔ اب وضو کیلئے مجھے کیا کرنا ہے؟ اس کا حکم اور اس جیسی چیز کا حکم اس آیت سے سمجھا جاتا ہے: [خدا] نے دین میں تم پر سختی قرار نہیں دی ہے؛[11] پس اس بندھی ہوئی پٹی پر مسح کرو۔ [12]

شیعہ فقہا ہمیشہ احکام شرعی کے استنباط کیلئے قرآن اور آیات فقہی کی طرف مراجعہ کرتے ہیں؛ لیکن آیات احکام کے عنوان سے مستقل طور پر تحقیق و تالیف کا کام دوسری صدی کے طرف لوٹتا ہے۔ اس موضوع میں سب سے پہلی تالیف امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے صحابی محمد بن سائب کلبی (متوفی ۱۴۶ ق) نے لکھی۔ [13]

تعداد اور موضوعات

آیات احکام کی تعداد میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ قرآن کی ایک چہارم آیات احکام سے متعلق ہیں[14] aاور بعض میں ایک تہائی حصہ کہا گیا ہے۔ [15] شیعہ فقہا کے درمیان پانچ سو آیات احکام ہونے کا قول مشہور ہے (یہ تقریبا قرآن کا تیرہواں حصہ بنتا ہے) ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ دقیق عدد بیان کرنا ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک فقیہ ایک آیت سے حکم اخذ کرے جبکہ دوسرا اس سے حکم اخذ نہ کرے۔ [16] احتمالی طور پر کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے آیات احکام کے پانچ سو ہونے کی تعداد مقاتل بن سلیمان (متوفی ۱۵۰ ق) نے بیان کی۔[17] آیات احکام میں طویل ترین آیت قرآن ہے۔ وہ سورہ بقرہ کی ۲۸۲ ویں آیت ہے جو آیت دَین کے نام سے مشہور ہے۔

آیات احکام کے موضوعات کے متعلق کہا گیا ہے کہ آیات احکام اور فقہ قرآن کی کتب میں بیان ہونے والی ابحاث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ان کے موضوعات وہی موضوعات ہیں جو علم فقہ اور فقہی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں، جیسے طہارت، نماز، روزه، خمس، زکات، ازدواج اور ارث۔ (رک: ابواب فقہ).[18]

واضح مثالیں

قرآن پاک کی چند آیات جن میں واضح طور پر حکم شرعی بیان ہوا ہے:

  • آیت وضو: اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔ (سوره مائده، آیت ۶)۔
  • آیت تیمم: اور پھر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو (مَل لو) اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی سختی کرے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف رکھے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ (سوره مائده، آیت ۶)۔
  • آیت خمس: اور جان لو کہ جو چیز بھی تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے، (اور رسول کے) قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (یہ واجب ہے)... (سوره انفال، آیت ۴۱)۔
  • آیت روزه: اے ایمان والو! روزہ اس طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کر دیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (سوره بقره، آیت ۱۸۳)۔

تقسیم آیات

شیعہ فقہا نے آیات احکام کی خصوصیات کے پیش نظر انہیں چند حصوں میں تقسیم کیا ہے، مثال کے طور پر حکم کی نوعیت کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں:

  • ایک خاص حکم بیان کرنے والی آیات۔ مثلا اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے اس گھر کا حج کریں جو اس کی استطاعت (قدرت) رکھتے ہیں۔ سورہ حج93۔یہ صرف حج کے وجوب اور استطاعت کو بیان کرتی ہے۔
  • عام حکم بیان کرنے والی آیات۔ نیکی اور تقوے میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (سوره مائده، آیت 2) گمشدہ اشیا کو ان کے صاحبان تک پہنچانے کے ساتھ ایک عام بیان کر رہی ہے۔
  • قاعدہ کلیہ بیان کرنے والی آیات۔ اللہ تمہاری سختی اور تنگی کا خواہاں نہیں بلکہ وہ تمہاری آسانی کا خواہاں ہے(سورہ بقرہ 183)۔ نفئ عسر و حرج کا قاعدہ بیان کرتی ہے جو فقہ کے تمام ابواب میں جاری ہوتا ہے۔
  • اصولی قاعدہ و قانون بیان کرنے والی آیات۔[19] مؤمنین! جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو۔ (سوره حجرات، آیت ۶) یا مثلا آیت نفر۔

بیان حکم کی اساس پر کی گئی تقسیم:

  • واضح اور صریح حکم بیان کرنے والی آیات۔ مثلا اے ایمان والو! اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ کو کھلی ہوئی دلیل مہیا کر دو۔ (سورہ النسا 144)
  • مذمت، تہدید یا وعدہ کے ساتھ مخاطب کو حکم بیان کرنے والی آیات۔ منافقوں کو سنا دیجیے! کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (138) وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں۔ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے (اس کے اختیار میں ہے)۔ سورہ نساء 138و139۔
  • امر و نہی پر مشتمل آیات۔ اور یتیموں کے مال ان کے سپرد کرو۔ اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال حاصل نہ کرو۔ اور ان کے مالوں کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔سورہ نساء2۔
  • خبر کی صورت میں لیکن حکم بیان کرنے والی آیات۔ بے شک جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے. (واصل جہنم ہوں گے) نساء10[20]

منسوخ‌ آیات

شیعہ علما قرآن کی بعض آیات کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں۔ البتہ منسوخ ہونے والی آیات میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ نسخ سے مراد ایک دوسرے حکم آنے کی وجہ سے کسی آیت کے حکم کو اٹھایا جانا ہے، اس طرح سے کہ اگر یہ دوسرا حکم نہ آتا تو پہلا حکم قیامت تک باقی رہتا۔ قرآن پاک میں خود بقره کی 106ویں اور سوره نحل) کی 101ویں آیت میں نسخ کا تذکرہ آیا ہے۔[21] شیعہ علما قرآن کی ایک آیت کے دوسری آیت کے آنے سے منسوخ ہونے کے قبول کرتے ہیں لیکن کسی حدیث کے ذریعے آیت کے منسوخ ہونے کے شاید ہی قائل ہوں۔[22] ناسخ و مسوخ کے چند نمونے:

  • سورہ انفال کی 65ویں آیت میں ہر مجاہد کو دس کفار کے سامنے مقاومت کا حکم دیا[23]پھر 66ویں آیت میں ہر مجاہد کو دو کفار کے سامنے مقاومت کا حکم دیا۔
  • تغییر قبلہ سے متعلق سورہ بقرہ کی 144ویں آیت۔
  • آیت نجوا میں صدقہ واجب قرار دیا گیا پھر بعد میں یہ حکم اٹھا لیا گیا۔[24]

کتاب ‎‌شناسی

آیات الاحکام یا احکام القرآن کے نام سے کئی کتابیں لکھی گئیں۔ دانش نامہ قرآن و قرآن‌ پژوہی میں اہل سنت اور اہل شیعہ حضرات کی ۱۰۸ کتابوں کے نام مذکور ہیں۔[25] کہا جاتا ہے کہ اس موضوع میں سب سے پہلی کتاب دوسری صدی ہجری قمری میں محمد بن سائب کلبی (متوفی ۱۴۶ ق) نے لکھی جو امام باقر اور [[امام صادق علیہ السلام|امام صادق(ع)] کے اصحاب میں سے تھا۔[26] اسی طرح تفسیر خمس مأه آیة فی الاحکام کے نام سے کتاب مقاتل بن سلیمان (متوفی ۱۵۰ ق) کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ بھی اسی زمانے کا ہے۔ [27]، «فقہ القرآن» اثر قطب‌الدین راوندی (متوفا ۵۷۳ ق)، کنز العرفان فی فقہ القران اثر فاضل مقداد (متوفا ۸۲۶ق) اور زبدة البیان اثر مقدس اردبیلی (متوفا ۹۹۳ ق) کو اس موضوع میں معروف مقام حاصل ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. معینی، «آیات الاحکام»، ص۱.
  2. فاکر ميبدی، «درآمدی بر آیات الاحکام»، ص۴۱.
  3. فخلعی، «جستاری در تاریخ تفسیر آیات الاحکام»، ص۳۴۸.
  4. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج۱، ص۴۴-۴۲.
  5. » (سوره مائده، آیت ۶)۔
  6. اسلامی، مدخل علم فقہ، ص۸۱.
  7. صادقی فدکی، پنج دیدگاه مطرح درباره تعداد آیات الاحکام قرآن کریم، ص۳۷.
  8. اسلامی، مدخل علم فقہ، ص۸۹.
  9. ر ک : طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص۱۰۸.
  10. متقی ہندی، کنزل العمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۶، ص۵۳۷، ح۴۵۷۹۶؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۲ق، باب ۲۳ از ابواب وضو، ح۱ و باب ۳۹، ح۵.
  11. مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ (سوره حج، آیت ۷۸).
  12. اسلامی، مدخل علم فقہ، ص۹۲.
  13. آقابزرگ تہرانی، الذريعہ، دار الاضواء، ج‌۱، ص‌۴۱.
  14. «نَزَلَ الْقُرْآنُ أَرْبَعَةَ أَرْبَاعٍ رُبُعٌ فِينَا وَ رُبُعٌ فِي عَدُوِّنَا وَ رُبُعٌ سُنَنٌ وَ أَمْثَالٌ وَ رُبُعٌ فَرَائِضُ وَ أَحْكَام‏ (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۲۸.
  15. نَزَلَ الْقُرْآنُ أَثْلَاثاً ثُلُثٌ فِينَا وَ فِي عَدُوِّنَا وَ ثُلُثٌ سُنَنٌ وَ أَمْثَالٌ وَ ثُلُثٌ فَرَائِضُ وَ أَحْكَام (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۲۸).
  16. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی تفسیر آیات الاحکام، ج۱، ص۱۹.
  17. صادقی فدکی، «پنج دیدگاه مطرح درباره تعداد آیات الاحکام قرآن کریم، ص۴۰.
  18. فاکر میبدی، «درآمدی بر آیات الاحکام»، ص۴۹.
  19. فاکر میبدی، «درآمدی بر آیات الاحکام»، ص۴۲-۴۳.
  20. معینی، «آیات الاحکام»، ص۲-۳.
  21. اسلامی، مدخل علم فقہ، ص۹۷-۹۸.
  22. فاکر میبدی، «بررسی نسخ و اقسام آن در آیات قرآن، ص۴۹.
  23. اے نبی(ص)! اہلِ ایمان کو جنگ پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس صابر (ثابت قدم) آدمی ہوئے تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو ہوئے تو کافروں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے، اس کے بعد والی آیت: اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کر دیا اور اسے معلوم ہوگیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ تو اب اگر تم میں سے ایک سو صابر (ثابت قدم) ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے۔ اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
  24. ر ک: قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژه نامہ از خرمشاہی، ص۱۷.
  25. ر ک: دانشنامہ قرآن و قرآن‌ پژوہی، ج۲، ص۱۷۹۵-۱۸۰۱.
  26. آقابزرگ تہرانی، الذريعہ، دار الاضواء، ج‌۱، ص‌۴۱.
  27. ر ک: فاضل، مسالک الأفہام الی آیات الاحکام، ج۱، ص۸، مقدمہ.
  28. رک: اسلامی، مدخل علم فقہ، ص۱۰۱.

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، گردآورنده: احمد بن محمد حسینی، دار الاضواء، بیروت، لبنان، بی‌تا.
  • اسلامی، رضا، مدخل علم فقہ، قم، مرکز مدیریت حوزه علمیہ قم، ۱۳۸۴ش.
  • ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی تفسیر آیات الاحکام، قم، دار الفقہ، ۱۴۲۳ق.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، محقق: مرعشلی، یوسف عبدالرحمن. ذہبی، جمال حمدی. کردی، ابراہیم عبد اللہ،دار المعرفہ، بیروت، لبنان.
  • صادقی فدکی، سید جعفر، «پنج دیدگاه مطرح درباره تعداد آیات الاحکام قرآن کریم»، مجلہ پژوہش‌ ہای فقہی، سال ہفتم، شماره ۴، بہار و تابستان ۱۳۹۰ش.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، شیعہ در اسلام، نشر کتابخانہ بزرگ اسلامی، چاپ ششم، ۱۳۵۴ش.
  • فاضل، جواد بن سعید، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، تصحیح محمد تقی کشفی و محمد باقر شریف‌زاده، تہران، نشر مرتضوی، ۱۳۶۵ش.
  • فاکر میبدی، محمد، «بررسی نسخ و اقسام آن در آیات قرآن»، مجلہ مطالعات تفسیری، سال دوم، شماره ۷، پاییز ۱۳۹۰ش.
  • فاکر میبدی، محمد، «درآمدی بر آیات الاحکام»، پیام جاویدان، شماره ۳، سازمان اوقاف و امور خیریہ، تہران، ، تابستان ۱۳۸۳.
  • فخلعی، «جستاری در تاریخ تفسیر آیات الاحکام»، مطالعات اسلامی، شماره ۴۹ و ۵۰، دانشگاه فردوسی مشہد ، پاییز و زمستان ۱۳۷۹ - .
  • قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژه نامہ از بہاءالدین خرمشاهی، تہران، جامی، نیلوفر، ۱۳۷۶ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، به تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • متقی ہندی، علی، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۹ق.
  • معینی، محسن، «آیات الاحکام»، تحقیقات اسلامی، سال دوازدہم، شماره ۱ و ۲، تہران، بہار و تابستان ۱۳۷۶.