اصحاب رس

ویکی شیعہ سے

اَصحاب رَسّ، اس قوم کو کہا جاتا ہے جس نے اپنے پیغمبر کو کنوِیں میں پھینک دیا۔ اصحاب رس اس گروہ کو کہا گیا ہے جس نے اللہ کی پرستش سے انکار کیا اور ان کی خواتین چپٹی بازی (مساحقہ) کرتی تھی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ایک نبی بھیجا جسے ان لوگوں نے کنویں میں پھینک دیا۔ اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر عذاب نازل کیا۔ اس گروہ کے رہنے کے زمانہ اور جگہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

اصحاب رس قرآن میں

قرآن میں عاد، ثمود اور حضرت نوح کی قوم کے ساتھ اصحاب رس کا نام بھی ذکر ہوا ہے: كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّ‌سِّ وَثَمُودُ[ق؟] آیات قرآن کے مطابق اصحاب رس نے خدا کی پرستش سے انکار کیا اور یوں عذاب میں مبتلا ہوئے[1] بعض تفسیر کی کتابوں میں اصحاب رس کے واقعے کو سورہ حج کی پینتالیسویں آیت اور بئر معطلہ (ترک شدہ کنواں) سے مربوط جانا ہے۔ [2]

نام رکھنے کی وجہ

رس، سامی لفظ ہے جو آرامی اور عبرانی زبان میں دراڑ پڑنے اور ٹوٹنے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ [3] اور عربی زبان میں بھی پھٹ جانے اور کنواں کھودنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور قرآنی اصطلاح میں اس کا معنی کنواں ہے۔ [4]اور اصحاب رس وہ قوم ہے جس نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو کنویں میں پھینک دیا ہے۔

اسی طرح دیار، پہاڑ، نہر[5]، قبیلہ اور قوم کا نام بھی رس ذکر ہوا ہے۔[6]

اصحاب رس کا قصہ

اصحاب رس کون لوگ تھے اس بارے میں روایات اور احادیث مختلف ہیں:

پہلی روایت

حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ اصحاب رس حضرت سلیمان کے زمانے میں رہتے تھے اور صنوبر کے ایک درخت کی پوجا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس درخت کو یافث بن نوح نے روشاب نامی ایک دریا کے کنارے لگایا تھا اور کسی کو اس دریا سے پانی پینے کی اجازت نہیں تھی۔ ہر سال عید کے دنوں وہ قوم اس درخت کے گرد جمع ہوتی تھی اور اس کی شاخوں سے مختلف کپڑے باندھتی تھی پھر دعا، تضرع اور قربانی کرتی تھی۔ اس کے بعد شیطان آکر اس درخت کی شاخوں کو ہلاتا تھا اور ان کے کاموں سے اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا تھا۔ اصحاب رس اس کے بعد عیش و نوش بالخصوص چپٹی بازی (مساحقہ) میں مشغول ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے یعقوب کے بیٹے یہودا کے پوتے کو اس قوم کی ہدایت کے لیے نبی بنا کر بھیجا لیکن وہ لوگ ان پر ایمان نہیں لائے اور انہیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی۔ اور پھر پیغمبر کی دعا سے وہ درخت خشک ہوئی اور قوم رس نے پیغمبر کو گناہگار قرار دیتے ہوئے انہیں کنویں میں ڈال دیا جس کی وجہ سے اللہ کے غضب کو جلال آیا اور بادل اور ہوا بھیجا جس سے وہ زمین ان کے لیے گرم ہوگئی اور وہ لوگ پگھل گئے۔[7]

دوسری روایت

بعض دوسری روایات میں اصحاب رس کے رہنے کی جگہ کو حضرموت یمن قرار دیا گیا ہے اور ان کا پیغمبر حنظلۃ بن صفوان ذکر ہوا ہے اور وہاں کے لوگ (چپٹی بازی) مساحقہ کرتے تھے۔ حنظلۃ نے انہیں اس کام سے روکنے کی کوشش کی لیکن ان لوگوں نے انہیں اذیت دی اور کنویں میں پھینک دیا جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے سیل عرم (عذاب) نازل کیا۔[8] کہا گیا ہے کہ حنظلہ کی قبر میں ایک تحریر ملی ہے جس میں حنظلہ کی زبانی لکھا ہوا ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور یمن کے حمیر، عریب اور عزیز كے لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے لیکن ان لوگوں نے انہیں قتل کیا۔ [9] بعض روایات کے مطابق دلہاث نامی ابلیس کی بیٹی اس قوم کی عورتوں کو مساحقہ سکھاتی تھی اور تشویق کرتی تھی۔[10]

تیسری روایت

محمد بن کعب بن قرظی کی پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک روایت کے مطابق، اللہ تعالی نے کسی قوم کے لیے ایک نبی بھیجا جسے ان لوگوں نے جھٹلایا اور نبی کو کنویں میں پھینک دیا اور کنویں کے دھانے پر ایک بڑا پتھر رکھا۔ اس نبی پر وہاں کا صرف ایک غلام ایمان لایا تھا جو لکڑیاں بیچ کر اپنے دن گزر بسر کرتا تھا اور وہ پیغمبر کے لیے کھانا اس کنویں میں دیتا تھا۔ ایک دن اس غلام کو نیند آئی اور اللہ کے حکم سے 14 سال تک سوتا رہا اور جب بیدار ہوا تو اسے ایسا لگا کہ چند لمحے سویا ہے اور پھر سے کھانا تیار کر کے کنویں پر لے گیا تو وہاں پر پیغمبر کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس روایت کے مطابق وہ جب سو رہا تھا تو اس وقت اس قوم پر اللہ نے عذاب نازل کیا اور ان لوگوں نے پشیمان ہو کر پیغمبر کو رہا کیا۔[11]

بعض مفسروں نے اصحاب رس کو اصحاب اخدود اور رس کو اُخدود قرار دیا ہے۔[12] کہا گیا ہے کہ کعب الاحبار اور مقاتل جیسے بعض گروہ نے رس کو انطاکیہ کے ایک کنویں کا نام قرار دیا ہے جس میں اصحاب مؤمن آل یاسین، حبیب نجار اور مؤمن آل یاسین کو قتل کر کے پھینکا گیا۔ [13]

اسی طرح سے اصحاب رس کو قوم ثمود کا ایک گروہ[14] اور حضورا قبیلہ کے بادیہ نشین اعراب قرار دیے گئے ہیں جن کے پیغمبر شعیب بن ذی مہرع تھے۔[15] بعض روایات میں اصحاب رس کو خانہ بدوش اور مال مویشی پالنے والوں کے نام سے اور شعیب کو ان کے پیغمبر کے عنوان سے معرفی کیا گیا ہے۔ [16]

رہائش کا زمان اور مکان

اصحاب رس کے رہنے کی جگہ کے بارے میں مختلف علاقوں کے نام ذکر ہوئے ہیں۔ جن میں دریائے ارس کا علاقہ [17]، حضرموت یمن[18] و یمامہ[19] قابل ذکر ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ذوالقرنین صرف وہ شخص تھے جنہوں نے ان کے شہر کا دورہ کیا۔[20]

اصحاب رس کے زمانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرت نوح اور سلیمان کے بعد یا حضرت عیسی اور حضرت محمدؐ کی نبوت کے درمیانی عرصے میں یہاں تک کہ خالد بن سنان کے زمانے کو بھی ذکر کیا ہے۔ [21] قرآن مجید کی آیہ شریفہ سانچہ:متن حدیث میں قرون کا لفظ اصحاب رس اور دوسری اقوام کے زمانے کے درمیانی فاصلے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مفسروں نے قرن کو 40، 70 یا 120 سال سے تفسیر کیا ہے۔ [22] علامہ مجلسی نے اصحاب رس کے زمانے کے بارے میں ان کے زمانے سے پہلے کے مختلف اقوال کی طبقہ بندی کے بارے میں تحقیق کیا ہے۔ [23]

اہل بیت کی روایات کی روشنی میں

اہل بیتؑ کی بعض روایات میں اصحاب رس اور ان کی کارکردگی کے بارے میں ذکر ہوا ہے؛ امام صادقؑ کی ایک روایت میں اصحاب رس کی بدکار عورتوں کو جہنمی قرار دیا ہے اور ان کے برے کاموں کو زنا کے برابر قرار دیا ہے۔ [24] نہج البلاغہ کا خطبہ 182 بھی ان کے بارے میں ہے جس میں انہیں اصحاب مداین رس کے نام سے یاد کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے پیغمبر کو قتل کیا ہے۔[25]

کتاب عیون اخبار الرضا (کتاب) کا سولہواں حصہ [26] اور اسی طرح حیات القلوب کی دوسری جلد کا بعض حصہ اصحاب رس کے واقعے کے بارے میں مختص ہوا ہے۔ [حوالہ درکار]


کتابیں

حبیب اللہ فضائلی نے اپنی کتاب ابرقو کو اصحاب رس کے واقعے اور ان کے زمان اور مکان کے بارے میں لکھا ہے۔[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. سورہ فرقان، آیہ۱۲.
  2. ثعلبی، عرائس المجالس، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۱۱۹؛ قرطبی، الجامع الاحکام، ۱۴۰۰ق، ج۱۳، ص۳۳.
  3. گزنیوس، ۱۹۰۶م، ص۹۴۴.
  4. ابوطیب، الاضداد ، ۱۳۸۲ق، ج۱، ص۳۱۹.
  5. ثعلبی، عرائس المجالس، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۱۵۰؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۹۶۱م، ج۱۰، ص۹۵.
  6. ازہری، تہذیب اللغہ، ۱۳۸۰ق، ج۱۲، ص۲۹۰؛ جوہری، الصحاح، ۱۹۶۰م، ج۲، ص۹۳۴؛ راغب، مفردات، ۱۴۰۳ق، ص۲۰۰؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۶۱ش، ج۷، ص۳۲.
  7. ابن بابویہ، معانی، ۱۳۸۵ق، ص۴۸-۴۹؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۰۵-۲۰۹؛ ثعلبی، عرائس المجالس، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۱۵۱-۱۵۳؛‌ میبدی، کشف الاسرار،، ۱۳۶۱ش، ج۷، صص۳۳-۳۵؛‌فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۲-۸۳.
  8. ہمدانی، الاکلیل، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۲۳-۱۲۴؛‌ نویری، نہایہ الارب، ۱۳۸۰ق، ج۱۳، ص۸۸.
  9. ہمدانی، الاکلیل، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۲۰؛‌ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۲ق، ج۱۴، ص۱۶۰.
  10. ثعلبی، عرائس المجالس، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۱۵۱؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۶۱ش، ج۷، ص۳۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۲ق، ج۱۴، ص۱۵۴.
  11. طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۱۹، ص۱۱-۱۰.
  12. زمخشری، الکشاف، ۱۳۶۶ق، ج۳، ص۲۸۰؛ ابو الفتوح رازی، تفسیر، ۱۳۸۵ق، ج۸، ص۲۷۲.
  13. طوسی، التبیان، بیروت، ج۷، ۴۹۱، ج۹، ص۳۶۱؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۶۱ش، ج۷، ص۳۲؛ قرطبی، الجامع الحکام، ۱۴۰۰ق، ج۱۳، ص۳۲.
  14. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۲؛ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۱۹، ص۱۰؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۶۱ش، ج۷، ص۳۲.
  15. ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۳.
  16. زمخشری، الکشاف، ۱۳۶۶ق، ج۳، ص۲۸۰؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۴؛ ابو الفتوح رازی، تفسیر، ۱۳۸۵ق، ج۸، ص۲۷۱-۲۷۲.
  17. ثعلبی، عرائس المجالس، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۱۵۰؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۹۶۱م، ج۱۰، ص۹۵.
  18. ہمدانی، الاکلیل، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۲۰؛‌مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۲ق، ج۱۴، ص۱۶۰.
  19. فخررازی،التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۲.
  20. نویری، نہایہ الارب، ۱۳۸۰ق، ج۱۳، ص۸۸.
  21. مراجعہ کریں: ابن حجر، ج۱، الاصابہ، ص۴۶۸؛ ابن بابویہ، معانی، ۱۳۸۵ق، ص۴۹-۴۸؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۲؛ دمیری، حیاۃ الحیوان الکبری، ۱۳۵۴ق، ج۲، ص۸۷.
  22. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۷، ص۲۶۷؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۱۳ق، ج۲۴، ص۸۳.
  23. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۲ق، ج۱۴، ص۱۵۹.
  24. قمی، تفسیر، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۱۱۳-۱۱۴؛‌ابن بابویہ، ثواب الاعمال، ۱۳۹۲ق، ص۶۲۸.
  25. سید رضی، نہج البلاغہ، ۱۴۱۴ق، خطبہ ۱۸۲، ص۲۶۲.
  26. صدوق، عیون اخبارالرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۰۵-۲۰۹.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۹۶۱م.
  • ابن بابویہ، معانی الاخبار، بہ کوشش محمدصادق بحرالعلوم، نجف، ۱۳۸۵ق-۱۹۶۶م.
  • ابن حجر، الاصابہ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق.
  • ابن بابویہ، محمد، ثواب الاعمال، بہ کوشش، محمدمہدی حسن خرسان، نجف، ۱۳۹۲ق-۱۹۷۲م.
  • ابن خلدون، عبدالرحمان بن محمد، دیوان المبتدا و الخبر فی تاریخ العرب و البریر، تحقیق:‌خلیل شحادہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۸ق-۱۹۸۸م.
  • ابوطیب لغوی، الاضداد فی کلام العرب، بہ کوشش عزت حسن، دمشق، ۱۳۸۲ق-۱۹۶۳م.
  • ابوالفتوح رازی، تفسیر، بہ کوشش ابوالحسن شعرانی، تہران، ۱۳۸۵ق.
  • ازہری، محمد، تہذیب اللغہ، بہ کوشش احمد عبدالعلیم برودنی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق.
  • ثعلبی، احمد، عرائس المجالس، بیروت، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • جوہری، اسماعیل، الصحاح، بہ کوشش احمد عبدالغفور عطار، بیروت، ۱۹۶۰م.
  • دمیری، محمد، حیاۃ الحیوان الکبری، قاہرہ، ۱۳۵۴ق.
  • راغب اصفہانی، حسین، مفردات الفاظ القرآن، بہ کوشش تدیم مرعشلی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • زمخشری، محمود، الکشاف، ۱۳۶۶ق-۱۹۷۴م.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبایی، بیروت، ۱۴۰۸ق-۱۹۸۸م.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۱۲ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان، بہ کوشش، احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، داراحیا التراث العربی.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
  • قرطبی، محمد، الجامع الاحکام القرآن، بیروت، ۱۴۰۰ق.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر، بہ کوشش موسوی جزایری، نجف، ۱۳۸۷ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۲ق-۱۹۸۰م.
  • میبدی، رشیدالدین، کشف الاسرار، بہ کوشش علی اصغر حکمت، تہران، ۱۳۶۱ش.
  • نویری، احمد، نہایہ الارب، قاہرہ، ۱۳۸۰ق.
  • ہمدانی، حسن، الاکلیل، بہ کوشش محمد بن علی اکوع جوالی، قاہرہ، ۱۳۸۳ق-۱۹۶۳م.
  • سید رضی، نہج البلاغہ، ہجرت، قم، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ صدوق،عیون اخبار الرضا علیہ السلام، نشر جہان، تہران، ۱۳۷۸ق.
  • Gesenius, W., A Hebrew and English Lexicon of the Old Testament, ed. F. Brown, Cambridge, 1906.

بیرونی روابط