حضرت اسحاق
حضرت اِسْحاق خدا کے انبیاء میں سے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے فرزند اور حضرت اسماعیل کے بھائی تھے۔ آپ بنی سرائیل کے جد امجد تھے اور حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داوود، حضرت سلیمان و حضرت موسی جیسے متعدد انبیاء آپ کی نسل سے تھے۔ قرآن کریم میں حضرت اسحاق اور آپ کی نبوت کا تذکرہ ہوا ہے۔ توریت اور بعض اہل سنت منابع میں حضرت اسحاق کو ذبیح اللہ کہا گیا ہے لیکن شیعہ عقائد کے مطابق حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ ہیں۔
قرآنی نام: | اسحاق |
---|---|
جائے پیدائش: | فلسطین |
مدفن: | بیت المقدس |
قوم کا نام: | بنی اسرائیل |
قبل از: | حضرت یعقوب |
بعد از: | حضرت اسماعیل |
مشہوراقارب: | حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت یعقوب |
دین: | یکتاپرستی |
عمر: | 180 سال |
قرآن میں نام کا تکرار: | 17 بار |
اولوالعزم انبیاء | |
حضرت محمدؐ • حضرت نوح • حضرت ابراہیم • حضرت موسی • حضرت عیسی |
جب حضرت اسحاق کی ولادت ہوئی تو ان کے والد 100 سال اور والدہ 90 سال کی تھیں، آپ کے والدین کو آپ کی ولادت کی بشارت دینے کا تذکرہ قرآن میں بھی آیا ہے۔ حضرت اسحاق اپنے بھائی حضرت اسماعیل کی وفات کے بعد نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔
تعارف
حضرت اسحاق حضرت ابراہیم اور سارہ کی اولاد اور خدا کے انبیاء میں سے ہیں۔[1] آپ فلسطین میں پیدا ہوئے اور وہیں پر زندگی گزاری۔[2] اسحاق عبرانی لفظ ہے حس کے معنی خنداں اور شگفتہ کے ہیں۔[3] جبکہ بعض اسے عریی زبان کا لفظ قرار دیتے ہیں۔[4] آپ کی ولادت حضرت اسماعیل کی ولادت کے 5 یا 13 سال بعد ہوئی۔[5] آپ کی ولادت کے وقت آپ کے والد حضرت ابراہیم کی عمر 100 سال جبکہ آپ کی والدہ سارہ کی عمر 90 سال تھی۔[6] حضرت اسحاق نے 20 سال کی عمر میں رفقہ سے شادی کی جس سے آپ کے دو بیٹے عیص اور حضرت یعقوب پیدا ہوئے۔[7]
آپ بنی اسرائیل کے جد ہیں اور جبرئیل کے ذریعے دی گئی بشارت کے مطابق آپ کی نسل سے حضرت یعقوب، حضرت داوود، حضرت یوسف، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسی، حضرت ہارون اور بنی اسرائیل کے کئی دوسرے انبیاء گزرے ہیں۔[8]تاریخی مآخذ کے مطابق حضرت ابراہیم حضرت لوط کے چچا اور حضرت اسحاق آپ کے چچا زاد تھے۔[9]
یہودیوں کی مقدس کتاب میں ذبح اسماعیل کے واقعے کو حضرت اسحاق سے منسوب کیا گیا ہے اور اسی کو وہ حضرت اسماعیل پر حضرت اسحاق کی افضلیت کی علامت سمجھتے ہیں۔[10] بعض اہل سنت بھی اس حوالے سے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔[11] لیکن شیعیان علی ابن ابی طالب سورہ صافات کی آیت نمبر 112[12] سے استناد کرتے ہوئے حصرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کو رد کرتے ہیں۔[13]
حضرت اسحاق نے اپنی رحلت سے پہلے خدا کے حکم کے مطابق منصب نبوت کو اپنے بیٹے حضرت یعقوب کے سپرد کیا۔[14] توریت کے مطاق حضرت اسحاق نے اپنے بعد اپنے بیٹے عیص یا عیسو کو اپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حضرت یعقوب نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر حضرت اسحاق کو دھوکہ دیا یوں حضرت یعقوب نبوت پر فائز ہو گئے۔[15] حضرت اسحاق نے 180 سال کی عمر میں وفات پائی اور بیت المقدس فلسطین میں آپ کو دفن کیا گیا۔[16]
ولادت کی بشارت
قرآن کی آیات کے مطابق خدا نے حضرت اسحاق کی ولادت سے پہلے ان کے والدین کو اس واقعے سے با خبر فرمایا اور انہیں بشارت دی کہ ان کے یہاں ایک فرزند ہونے والا ہے۔[17] یہ بشارت سورہ ہود کی آیت نمبر 71 میں آئی ہے۔ حضرت اسحاق کی ولادت کی داستان ان کا نام لئے بغیر سورہ حجر کی آیت نمبر 53 اور سورہ ذاریات کی آیت نمبر 29 میں بھی آئی ہے۔ حضرت اسحاق کا نام قرآن کی 12 سورتوں میں 71 مرتبہ آیا ہے۔[18]
نبوت
حضرت اسحاق اپنے بھائی حضرت اسماعیل کی وفات کے بعد نبوت پر فائز ہوئے[19] اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء آپ کی نسل سے ہیں سوائے حضرت محمدؐ کے کہ آپ حضرت اسماعیل کی نسل سے تھے۔[20]
قرآن کی آٹھ آیتوں میں براہ راست یا غیر مستقیم طور پر حضرت اسحاق کی نبوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ مثلا آپ کی نبوت کے بارے میں،[21] آپ کی اولاد پر آسمانی کتاب کے نازل ہونے کے بارے میں،[22] آپ کو شریعت عطا ہونے کے بارے میں،[23] آپ پر وحی نازل ہونے کے بارے میں،[24] آپ کی اطاعت کرنے کے حکم کے بارے میں،[25] اور آپ کی امامت کے بارے میں۔[26] ان آیتوں میں آپ شریعت کو حضرت ابراہیم کی شریعت یعنی دین حنیف قرار دیا گیا ہے جس کی بنیاد توحید پر رکھی گئی ہے۔[27]
متعقلہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۷۱۔
- ↑ شوقی ابو خلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۵۳۔
- ↑ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۰۲ق، ج۵، ص۷۰۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۲۴۰۔
- ↑ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۱-۴۲؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۵، ص۳۱۳۔
- ↑ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۶۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۳۲۴۔
- ↑ سورہ انعام، آیہ ۸۴۔
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دار الفکر، ج۱، ص۱۷۶۔
- ↑ مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۱۸۶۔
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۱۹؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۱۰۰۔
- ↑ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ (ترجمہ: بس ہم نے انہیں اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب(ع) کی۔)
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۱۱۸-۱۲۰۔
- ↑ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۶۔
- ↑ معرفت، نقد شبہات پیرامون قرآن کریم، ۱۳۸۵ش، ص۸۴۔
- ↑ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۶۔
- ↑ سورہ ہود، آیہ ۷۱۔
- ↑ شوقی ابو خلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص۵۴۔
- ↑ مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۶۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۱۶۔
- ↑ سورہ مریم، آیہ ۴۹۔
- ↑ سورہ عنکبوت، آیہ ۲۷۔
- ↑ سورہ انعام، آیہ ۸۹۔
- ↑ سورہ نساء، آیہ ۱۶۳۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۱۳۵-۱۳۶۔
- ↑ سورہ انبیاء، آیہ ۷۳۔
- ↑ سورہ یوسف، آیہ ۳۸۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، بہ کوشش خلیل شحادہ، بیروت، دار الفکر، بیتا۔
- شوقی ابو خلیل، اطلس قرآن، ترجمہ محمد کرمانی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۸۹ش۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، تحقیق ہشام عبد الکریم البدرانی الموصلی، اردن، دار الکتاب الثقافی، ۲۰۰۸م۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق۔
- علامہ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبۃ النشر الإسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
- قرشی بنابی، علیاکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۱۲ق۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش۔
- مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
- مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، ۱۳۸۴ش۔
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، مرکز الکتاب للترجمۃ و النشر، ۱۴۰۲ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔