حضرت ابراہیم کی بت شکنی

ویکی شیعہ سے
حضرت ابراہیم کے ہاتھوں بت شکنی، محمود فرشچیان کی فنکاری

حضرت ابراہیم کی بت شکنی سے مراد وہ واقعہ ہے جس میں حضرت ابراہیم نے اپنے زمانے کے مشرکوں کے بتوں کو توڑا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں سورہ انبیاء اور سورہ صافات میں آیا ہے جس کے مطابق جب لوگ شہر سے باہر چلے گئے تو حضرت ابراہیم نے بتخانے میں جا کر بڑے بت کے سوا تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ لوگ واپس آکر حضرت ابراہیم سے بتوں کے توڑنے کی وجہ دیافت کی تو اس موقع پر حضرت ابراہیم نے کنایہ کے طور پر اس کام کو بڑے بت کی طرف نسبت دی اور کہا کہ خود ان بتوں سے پوچھو! تاکہ لوگ ان بتوں کی ناتوانی کی طرف متوجہ ہوسکیں۔

مفسروں کے مطابق حضرت ابراہیم کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرایا جائے کہ یہ بت جو نہ بات کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ پرستش کے لائق نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا مقصد صرف چند بتوں کو توڑنا نہیں تھا تاکہ اسے لوگوں کے اعتقادات کی توہین شمار کیا جا سکے، بلکہ حضرت ابراہیم ایک نبی ہونے کی حیثیت سے اس کام کے ذریعے بت پرستی کا مقابلہ کرے۔

بتوں کو توڑنے کا واقعہ

مولوی کہتے ہیں
بت‌شکن بودست اصل اصل ما • چون خلیل حق و جملہ انبیا
بتوں کو توڑنا اصل میں ہمارا کام تھا • کیونکہ خلیل من جملہ انبیائے حقہ میں سے ہیں[1]

حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا قصہ سورۂ انبیاء (آیات 52 سے 70 تک) اور سورۂ صافات (آیات 89 سے 98 تک) میں ذکر ہوا ہے۔ سورہ انبیاء میں یہ واقعہ یوں ذکر ہوا ہے:

ایک دن جب لوگ شہر سے باہر چلے گئے تو حضرت ابراہیم نے بڑے بت کے علاوہ باقی تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب لوگ واپس آئے اور توڑے گئے بتوں سے روبرو ہوئے تو چونکہ حضرت ابراہیم اس سے پہلے بھی بتوں کے خلاف بولتا رہتا تھا، ان کو بلایا اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہمارے خداوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ حضرت ابراہیم نے کہا شاید اس بڑے بت نے یہ کام کیا ہوگا! خود ان بتوں سے پوچھو! اس سوال پر لوگ متوجہ‌ ہوگئے کہ انہوں نے بت پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حضرت ابراہیم کو سزا دینے کے لئے آگ جلا کر انہیں آگ میں پھینکا گیا؛ لیکن آگ خدا کے حکم سے ٹھنڈی ہو گئی۔[2]

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد بعض لوگوں نے حضرت ابراہیم پر ایمان لایا۔[3]

بتوں کو توڑنے کا اصل مقصد

کہا جاتا ہے کہ‌ بتوں کو توڑنا اور اس کام کو بڑے بت کی طرف نسبت دینے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم اس کام کے ذریعے بت پرستوں سے مناظرہ کرکے بتوں کی الوہیت کو باطل کرے تاکہ لوگ ان کے خداوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے غفلت کی نیند سے بیدار ہوں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ بت عبادت اور پرستش کے لائق نہیں ہیں۔[4]

حضرت ابراہیم کے استدلال کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایسی چیز جو کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے وہ کیسے پرستش کے لائق ہو سکتی ہے؟![5] علامہ طباطبائی کے مطابق حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کے عمل کو بڑے بت کی طرف نسبت دی تاکہ لوگ یہ اعتراف کریں کہ یہ بت بات نہیں کرتے ہیں۔[6] علامہ لکھتے ہیں کہ بتوں کا بے زبان ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ بت نہ علم رکھتے ہیں اور نہ کوئی طاقت۔ اس بنا پر یہ فائدہ یا نقصان پہنچانے سے بھی عاجز ہیں۔ پس ان کی عبادت اور پرستش کرنا لغو اور بیہودہ ہے کیونکہ عبادت یا کسی خیر کی امید سے کی جاتی ہے یا کسی برائی کی خوف سے، جبکہ بتوں سے نہ کسی خیر کی امید ہے اور نہ کسی برائی کا خوف۔[7]تفسیر کاشف میں آیا ہے کہ جب یہ بت خود اپنا دفاع نہیں کر سکتے تو یہ کیسے کسی کے پر آنے والی مصیبتوں کو ٹال سکتے ہیں!۔[8]

شہید مطہری کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے بت‌ شکنی کے عمل کو بڑے بت کی طرف نسبت دی، تاکہ یہ کہا جا سکے کہ بت آپس میں ایک دوسرے سے لڑ پڑے ہیں۔ اس کام کے ذریعے حضرت ابراہیم نے لوگوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، کیونکہ لوگ فطری طور پر جانتے تھے کہ جمادات ایک دوسرے سے نزاع اور لڑنے جھگڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔[9]

کیا حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولا تھا؟

قرآن میں حضرت ابراہیم کی طرف سے بت شکنی کے واقعے میں آیا ہے کہ جب لوگ شہر سے باہر جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم کو بھی جانے کا کہا تو آپ نے بیماری کا بہانہ بنا کر جانے سے انکار کردیا۔[10] اسی طرح جب لوگوں نے بتوں کو توڑنے والے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بڑے بت نے توڑا ہے۔[11] ان دو باتوں کی وجہ سے مفسرین کے درمیان یہ بحث شروع ہوئی کہ جناب ابراہیم نے سچ کہا تھا یا مصلحتی جھوٹ بولا تھا یا توریہ سے کام لیا تھا:

مسلمان مفسرین کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم نے بیماری کے بابت کوئی جھوٹ نہیں بولا ہے؛[12] البتہ اس سلسلے میں مفسرین مختلف احتمالات اور توجیہیں پیش کرتے ہیں مثلا: طبرسی اور علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو پتا تھا کہ عنقریب وہ بیمار ہونگے لھذا ان کی بات اس حوالے سے سچ اور صداقت پر مبنی تھی۔[13] اہل سنت مفسر آلوسی کہتے ہیں: چونکہ ہر انسان کسی نہ کسی دن بیمار ہو جاتا ہے اور حضرت ابراہیم کی مراد بھی یہ تھی کہ آپ بیمار ہونگے۔ پس انہوں نے توریہ کرتے ہوئے اپنی بات کو یوں بیان کیا تھا کہ مشرکین یہ سمجھ بیٹھیں کہ آپ اسی وقت مریض ہیں۔[14] ایک اور احتمال یہ دیا جاتا ہے حضرت ابراہیم حقیقت میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان کا دل مشرکین کے کفر کی وجہ سے بیمار ہو گیا ہے، لیکن توریہ کر کے اس طرح سے بولے کہ مشرکین یہ گمان کریں کہ آپ کا جسم بیمار ہے۔[15]

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی طرف سے بتوں کو توڑنے کے عمل کو بڑے بت کی طرف نسبت دینا بھی جھوٹ پر مبنی نہیں تھا کیونکہ قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ بات جدی طور پر نہیں کی تھی بلکہ طنز کے طور پر آپ ان کو سمجھانا چاہتے تھے کہ بت پرستی کا عقیدہ خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے۔[16] مناظروں میں کنایوں میں بات کرنا رائج اور رائج ہے۔[17] بعض لوگ یہ احتمال بھی دیتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس بات کو جملہ شرطیہ میں ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ بت بات کر سکتا ہے تو یہ کام بھی اسی نے انجام دیا ہے۔[18] پس حقیقت میں حضرت ابراہیم نے اپنی بات کو ایک ناممکن شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے تاکہ بت پرستوں کا مدعا باطل ہونے کو ثابت کیا جا سکے۔[19]

حضرت ابراہیم کی بت‌ شکنی اور آزادی عقیدہ

بعض محققین کے مطابق بعض لوگ یہ ادعا کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی طرف سے بتوں کو توڑنا در حقیقت دوسروں کے مقدسات کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پس مسلمان حضرت ابراہیم کے اس کام سے تمسک کرتے ہوئے مشرکین کے قدیمی آثار کو نابود کر سکتے ہیں۔[20] اس ادعا کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ تمام انسانوں کی جان اور مال محترم ہے اور بت بھی بت پرستوں کے اموال میں شامل ہوتا ہے اس بنا پر اسے نابود نہیں کر سکتے۔ حضرت ابراہیم نے نبوت اور رسالت کے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ایسا قدم اٹھایا ہے، پس عام لوگ دوسروں کے اموال کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔[21] بعض کہتے ہیں کہ عقیدہ اور دین میں آزادی اس دور کے جدید اصطلاحات ہیں اس بنا پر جدید دور کے معیارات کے ذریعے پرانے زمانے کے واقعات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتے۔[22]

مفسرین کے مطابق حضرت ابراہیم کی بت‌ شکنی بتوں کی الوہیت کے باطل ہونے کی بنا پر تھی اور اس کام سے ان کا مقصد بت پرستی کی ثقافت کا مقابلہ تھا نہ یہ کہ صرف چند بتوں کو توڑنے پر اکتفا کی ہو۔[23]

حوالہ جات

  1. مولوی، مثنوی معنوی، 1376ہجری شمسی، ج2، ص579۔
  2. سورۂ ابراہیم، آیۂ 58-69۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج13، ص442۔
  4. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص299۔
  5. سبحانی، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج11، ص250۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص300 و 301۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص302۔
  8. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج5، ص284۔
  9. مطہری، مجموعہ آثار، 1389ہجری شمسی، ج3، ص319۔
  10. سورۂ صافات، آیۂ 89۔
  11. سورۂ انبیاء، آیۂ 63۔
  12. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص148؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 13872ہجری شمسی، ج8، ص702؛ آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج12، ص98؛ فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج26، ص341؛ قرشی بنابی، تفسیر احسن الحدیث، 1375ہجری شمسی، ج9، ص159۔
  13. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص148؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص702۔
  14. آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج12، ص98۔
  15. فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج26، ص342؛ آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج12، ص98۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج13، ص438؛ مکارم شیرازی، قہرمان توحید، 1388ہجری شمسی، ص87۔
  17. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص301۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج13، ص439۔
  19. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج13، ص241؛ کاشانی، منہج الصادقین، کتابفروشی اسلامیہ، ج6، ص74؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص85۔
  20. «آیا بت‌شکنی ابراہیم توہین بہ مقدسات نبودہ است؟»، نشر آثار و افکار استاد احمد عابدینی۔
  21. «آیا بت‌شکنی ابراہیم توہین بہ مقدسات نبودہ است؟»، نشر آثار و افکار استاد احمد عابدینی۔
  22. «بت‌شکنی و آزادی عقیدہ»، سایت محسن کدیور۔
  23. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص303؛ مکارم شیرازی، قہرمان توحید، 1388ہجری شمسی، ص89۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، گردآوری ابراہیم شمس‌الدین و سناء بزیع شمس‌الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • «آیا بت‌شکنی ابراہیم توہین بہ مقدسات نبودہ است؟»، نشر آثار و افکار استاد احمد عابدینی، اخذ: 20 آذر 1402۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1408ھ۔
  • «بت‌شکنی و آزادی عقیدہ»، سایت محسن کدیور، انتشار: 24 شہریور 1392، تاریخ اخذ: 20 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق (علیہ‌السلام)، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • فخرالدین رازی، محمد بن عمر، اَلتَّفسیرُ الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قرشی بنابی، علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، 1375ہجری شمسی۔
  • کاشانی، فتح‌اللہ بن شکراللہ، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، بی‌تا۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم،‌دار الکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، قہرمان توحید، شرح و تفسیر آیات مربوط بہ حضرت ابراہیم(ع)، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، 1388ہجری شمسی۔
  • مولوی، جلال‌الدین محمد، مثنوی معنوی، تہران، علمی فرہنگی، 1376ہجری شمسی۔