اصحاب سبت
اصحاب سبت بنی اسرائیل کا ایک گروہ تھا، قرآن کی آیات کے مطابق خدا کی نافرمانی اور ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار کرنے کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ اصحاب سبت خدا کے حکم سے بندر کی شکل اختیار کر گئے اور بعض احادیث کے مطابق یہ مسخ شدہ گروہ 3 دن کے بعد ہلاک ہو گئے۔ اکثر روایات کے مطابق اصحاب سبت کا واقعہ حضرت داود کے زمانے میں اور شہر ایلہ میں پیش آیا جو آج کل مقبوضہ فلسطین میں ہے اور اس وقت اسے ایلات کہا جاتا ہے۔
علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں کہتے ہیں کہ اصحاب سبت میں سے صرف وہ لوگ نجات پائے تھے جنہوں نے نہی عن المنکر کئے تھے جبکہ گناہگار اور وہ لوگ جو ان کے مقابلے میں خاموش بیٹھے تھے سب عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے تھے۔
مفہوم شناسی
اصحاب سبت قوم بنیاسرائیل کا ایک گروہ تھا جو خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے ہتفہ کے دن حرام ہونے کے باوجود مچھلی شکار کرنے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہو گئے۔[1] اسحاب سبت حضرت داوود کے زمانے میں زندگی بسر کرتے تھے اور 12 ہزار یا 70 ہزار نفوس پر مشتمل تھے۔[2] "اصحاب سبت" کا لفظ صرف ایک بار قرآن میں سورہ نساء کی آیت نمیر 47 میں آیا ہے لیکن بعض دوسری آیات میں مذکورہ قوم کی داستان اور ان کے انجام کا تذکرہ آیا ہے۔[3]
سَبت لغت میں کسی عمل سے ہاتھ کھینچنا کے معنی میں ہے،[4] عبری زبان میں اسے شبات کہتے ہیں،[5] یہودیوں کے نزدیک ہفتے کے دن کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا[6] عبرانی لغت میں اس کے معنی آرام کرنے کے ہیں۔[7] یہودیوں کی تعلیمات کے مطابق قوم یہود کو سبت یعنی ہفتے کے دن تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ کر آرام کرنا چاہئیے۔[8] ہفتے کے دن کا احترام اور اس دن کام نہ کرنا حضرت موسی کو دی گئی دس احکامات میں سے ایک تھا۔[9]
داستان
قرآن کریم کے مطابق اصحاب سبت ہفتے کے دن خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑنے کی بنا پر[10] مسخ ہوگئے تاکہ اپنے اعمال کی سزا دیکھ لیں اور دوسروے پرہزگاروں کے لئے عبرت بن جائیں۔[11]
امام سجادؑ ی ایک حدیث کے مطابق اصحاب سبت ایک گروہ تھا جو دریا کے کنارے زندگی بسر کرتے تھے اور خدا نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے انہیں نہی کی تھی۔[12] چونکہ ہفتے کے دن بہت ساری مچھلیاں ساحل کی طرف آتی تھیں، انہوں نے اس دن مچھلی شکار کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرنا شروع کیا مثلا ساحل کے کنارے ایسے حوض اور گڑے بناتے تھے جس میں مچھلیاں داخل تو ہو سکتی تھی لیکن وہاں سے نکل نہیں سکتی تھیں۔[13] اصحاب سبت اگرچہ ہفتے کے دن مچھلی شکار نہیں کرتے تھے لیکن اتوار کے دن ان مچھلیوں کا شکار کرتے تھے جو ہفتے کے دن ان کے حوض اور گڑوں میں پھنس گئی تھیں۔[14] اصحاب سبت اس طرح کے حربوں کے ذریعے بہت ساری دولت کے مالک ہو گئے تھے۔[15] مذکورہ حدیث کے مطابق ان کی تعداد 80 ہزار تھی ان میں سے 70 ہزار لوگوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں نہ پکڑنے سے متعلق خدا کے کی نافرمانی کرتے تھے۔[16]
مسخ ہونا
آخر کار اصحاب سبت عذاب الہیٰ میں مبتلا ہو کر مسخ ہو گئے۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ خدا کے حکم سے یہ گروه بندر کی شکل اختیار کر گئے۔ [17] بعض روایات کے مطابق یہ مسخ شدہ گروہ تین دن کے بعد ہلاک ہو گئے۔ [18]
سید محمد حسین طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: سورہ اعراف کی آیت نمبر 165 کے مطابق ان میں سے جو نہی عن المنکر کرتے تھے وہ نجات پائے باقی سب لوگ یعنی گناہگار اور ان کی مقابلے میں خاموش رہنے والے عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے۔[19]
بعض مفسرین من جملہ شیعہ مفسر مجاہد بن جبر(متوفی 104ھ) اور اہل سنت مسفسر محمد عبدہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ گروہ جسمانی طور پر مسخ نہیں ہوئے تھے بلکہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 165 حقیقت میں ان کی باطن کی حکایت ہے یعنی باطن اور دل سے یہ لوگ مسخ ہو گئے تھے نہ کہ جسمانی طور پر۔[20]
مکان اور زمان
قرآن کی آیات کے مطابق اصحاب سبت دریا کے کنارے زندگی بسر کرتے تھے۔[21] امام سجادؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق ان کی محل زندگی کو "ایلہ" کہا تھا۔ [22] فخر رازی بھی ان کے محل زندگی کو شہر ایلہ قرار دیتے ہیں۔[23] شہر ایلہ اس وقت مقبوضہ فلسطین میں دریائے احمر کے کنارے موجود ہے جسے ایلات کہا جاتا ہے۔[24]علامہ طباطبائی کے مطابق مدین اور طبریہ کو بھی محل زندگی اصحاب سبت قرار دیا گیا ہے۔[25]
اکثر روایات کے مطابق، اصحاب سبت کا قصہ حضرت داود(ع) کے زمانے میں پیش آیا ہے۔ [26]
حوالہ جات
- ↑ روحی، «اصحاب سبت»، ص۲۳۲۔
- ↑ روحی، «اصحاب سبت»، ص۲۳۲۔
- ↑ روحی، «اصحاب سبت»، ص۲۳۲۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۰۷۔
- ↑ روحی، «اصحاب سبت»، ص۲۳۲۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۰۷۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۰۷۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۰۷۔
- ↑ قرشی بنابی، قاموس قرآن، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۰۷۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۶۵؛ اسی طرح رجوع کریں: مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۷۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۶۶؛ اسی طرح رجوع کریں: مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ مجلسی، حیوۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۹۴۸۔
- ↑ سوره بقره، آیہ۶۵.
- ↑ تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۲۷۹.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۲۶۸-۲۶۹۔
- ↑ مغنيہ، تفسير الكاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۲۱۔
- ↑ سوره اعراف، آیہ ۱۶۳۔
- ↑ فخررازی، مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۴۱۲.
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۴۱۲۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۶، ص۴۱۸۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۳۰۳۔
- ↑ فخررازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۲، ص۴۱۲.
مآخذ
- قرآن کریم۔
- تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، قم، مدرسۃ الامام المہدی عج، ۱۴۰۹ھ۔
- روحی، ابوالفضل، «اصحاب سبت»، در اعلام قرآن: از دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج۲، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
- قرشی بنابی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
- مجلسی، محمدباقر، حیوۃ القلوب، قم، سرور، ۱۳۸۴ش۔
- مغنيہ، محمدجواد، تفسير الكاشف، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، و ہمکاران، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۸۰ش۔