حضرت ہود خدا کے ان انبیاء میں سے ہیں جن کا نام قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے۔ آپ قوم عاد کے نبی تھے اور ان کو اللہ کی عبادت کرنے اور بت پرستی سے روکنے کی دعوت دینے پر مامور تھے، لیکن آپ کی قوم نے آپ کو سفیہ کہا اور آپ کا مذاق اڑایا۔ اسی لئے اللہ نے ان کو ٹھندی ہوا کے عذاب میں مبتلا کردیا اور قوم عاد میں سے صرف حضرت ہود (ع) اور چند مومنین کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچا۔

حضرت ہود
وادی السلام، نجف میں حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کا روضہ
وادی السلام، نجف میں حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کا روضہ
قرآنی نام:ہود
جائے پیدائش:احقاف کی سرزمین
مدفن:وادی السلام، نجف
قوم کا نام:عاد
قبل از:حضرت صالح علیہ السلام
مشہوراقارب:حضرت نوح (جد)
قرآن میں نام کا تکرار:7
اہم واقعات:ٹھندی ہواؤں کے ذریعہ عذاب الٰہی
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی

کہتے ہیں کہ حضرت ہود اور ان کی قوم کی داستان قرآن کے علاوہ اور کسی آسمانی کتاب میں نہیں آئی ہے۔

حسب و نسب

حضرت ہود وہ پیغمبر ہیں جن کا نام قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے۔[1] قرآن میں سات بار آپ کا تذکرہ ہوا ہے۔[2] اسی طرح قرآن کا گیارہواں سورہ (سورہ ہود) آپ کے نام سے منسوب ہے۔

حضرت ہود حضرت نوح کی نسل سے تھے جن کے درمیان سات پشتوں کا فاصلہ تھا۔ آپ کے نسب کو یوں بیان کیا گیا ہے: ہود بن عبداللہ، بن رِیاح(رباح)، بن حَلوت (خلود)، بن عاد، بن عوص، بن آدم (أرم)، بن سام، بن نوح۔[3] قصص الانبیاء میں النجار کے بقول اس نسب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ہود علیہ السلام کی نسبت کے موازنہ کی وجہ سے یہ شجرہ نامہ دوسرے ان شجرہ ناموں سے بہتر ہے جنھیں کچھ اور لوگوں نے ذکر کیا ہے۔[4] ابن کثیر نے آپ کو شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح کا فرزند جانا ہے۔[5]

کچھ لوگوں نے جناب ہود کو عرب کا پہلا پیغمبر بیان کیا ہے۔[6] اسی طرح حضرت ہود کی زندگی میں توکل کو سب سے نمایاں صفت کہا ہے۔[7]

نبوت

کچھ روایات سے استناد کرتے ہوئے بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام چالیس سال کی عمر میں پیغمبر کے عنوان سے مبعوث ہوگئے تھے۔[8] آپ کو حکم دیا گیا کہ اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔[9] جناب ہود دوسرے نبی تھے جنھیں اپنی قوم کو ثنویت اور شرک سے مقابلہ کے لئے مبعوث کیا گیا۔[10] آپ کی قوم طوفان نوح کے بعد بت پرستی کرنے والی پہلی قوم تھی۔[11] وہ لوگ قوم نوح کے بتوں کے ہمنام بتوں کو پوجتے تھے۔[12]

قوم عاد حضرت ہود کو امین اور سچا سمجھتی تھی۔[13] لیکن جب آپ نے اللہ کی عبادت کرنے اور بتوں کی پرستش نہ کرنے کی بات کی تو قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اور آپ کو سفیہ کہا۔[14] آیات قرآن کی بنیاد پر، باوجود اس کے کہ حضرت ہود (ع) نے اپنی نبوت کی تصدیق میں معجزہ پیش کیا لیکن آپ کی قوم نے قبول نہیں کیا اور آپ سے نبوت کی تصدیق کے لئے دوسرے معجزوں کا مطالبہ کیا۔[15] قرآن کے مطابق جب آپ کی قوم نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہے تو آپ نے اپنے معجزے کو اس طرح پیش کیا کہ اللہ کے حکم سے تم لوگ اور تمہارے سارے خدا، میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو۔[16]

کچھ لوگوں نے روایات کی بنیاد پر یہ نقل کیا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو سمجھایا اور ڈرایا کہ قوم نوح کی طرح اپنے کفر پر اصرار نہ کرو ورنہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے عذاب کی درخواست کی تھی میں بھی اللہ سے تمہارے اوپر عذاب کا تقاضا کردوں گا۔ قوم ہود نے آپ سے کہا کہ قوم نوح کے خدا کمزور تھے لیکن ہمارے خدا ہماری طرح مضبوط اور طاقتور ہیں اور آپ کا خدا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔[17]

قوم

حضرت نوح علیہ السلام، قوم عاد کے نبی تھے۔ قوم عاد، در حقیقت عاد بن عوص کی اولادیں تھیں اور ان کو عرب کی پہلی نسل شمار کیا جاتا ہے۔[18] کہا گیا ہے کہ حضرت ہود اور قوم عاد کا قصہ کسی اور آسمانی کتاب میں نہیں آیا ہے اور صرف قرآن کریم نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔[19] قرآن کریم کی آیات کی بنیاد پر قوم عاد لمبے تڑنگے، موٹے تازہ، طاقتور اور چوڑے چکلے تھے۔[20] روایات کے حساب سے ان میں سب سے لمبے شخص کا قد 100 ذراع اور سب سے چھوٹے کا قد 70 ذراع تھا۔[21] حضرت ہود (ع) اور ان کی قوم احقاف کی سرزمین پر رہتے تھے۔[22] احقاف کے علاقہ کا صحیح طور سے تعین کرنے میں ذرا اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے شبہ جزیرہ عربستان اور یمن و عمان کے درمیان کا علاقہ مانا ہے۔[23] بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ قوم عاد کی زندگی اور تمدن کے بارے میں قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تمدن بڑا ترقی یافتہ اور ان کے شہر آباد تھے۔[24]

عذاب الہی

کہتے ہیں کہ حضرت ہود نے 760 سال تک اپنی قوم کی ہدایت کی؛ لیکن انھوں نے مسلسل آپ کو جھٹلایا اور آپ کا مذاق اڑایا۔[25] قوم عاد کی نافرمانی اور عذاب الہی کے تقاضے کے بعد،[26] حضرت ہود نے عذاب الہی کی خبر دی۔[27] اللہ کے حکم سے سرزمین احقاف پر جو کہ ایک سرسبز و شاداب سرزمین تھی، سات سال تک پانی نہیں برسا اور وہ لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔[28] اس کے بعد اللہ نے قوم عاد کے عذاب کے لئے ایک سیاہ بادل بھیجا۔ انھوں نے سمجھا کہ یہ بادل بارش لیکر آیا ہے اور ان کے خداؤں نے اسے بھیجا ہے؛ لیکن حضرت ہود نے کہا کہ یہ وہ عذاب ہے جسے خداوند عالم نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے۔[29] اس کے بعد ایک بہت تیز ٹھنڈی آندھی چلی۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ وہ کافروں کو کھجور کے درختوں کی طرح زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیتی تھی۔[30] قرآن کریم کی آیات کے لحاظ سے یہ آندھی سات دن اور سات رات تک چلتی رہی۔[31] اس آندھی نے قوم عاد کو نیست و نابود کر دیا۔ ان میں صرف حضرت ہود اور ان کے اصحاب نے اس عذاب سے نجات پائی۔[32] وہ لوگ اللہ کے حکم سے ایک گڑھے میں چھپ گئے تھے۔[33] جزائری نے وہب سے نقل کیا ہے کہ عرب کی تاریخ میں کچھ ایام (بَرْدُ اْلعَجوز) یعنی (بُڑھیا کا ٹھنڈا موسم) کے نام سے مشہور ہیں جن کو کچھ لوگوں نے وہی قوم عاد کا عذاب بتایا ہے۔[34] ابن قتیبہ کے بقول حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کے اصحاب مکہ چلے گئے تھے اور وہیں قیام کیا تھا اور پھر ہمیشہ وہیں رہے۔[35]

حوالہ جات

  1. النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹۔
  2. سورہ اعراف، آیہ ۶۵؛ سورہ ہود، آیات ۵۰، ۵۳، ۵۸، ۶۰، ۸۹؛ سورہ شعراء، آیہ ۱۲۴؛ النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹۔
  3. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵؛ النجار، قصص ‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹۔
  4. النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۰
  5. ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔
  6. النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹۔
  7. جوادی آملی، تفسیر موضوعی، ۱۳۹۱ش، ج۶، ص۳۰۳۔
  8. قطب راوندی، قصص ‌الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۳
  9. قطب راوندی، قصص ‌الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۳؛ النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۰-۵۱؛ ابن کثیر، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳
  10. طباطبایی، تاریخ الانبیاء، ۱۴۲۳ق،ص۸۷-۸۸؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی، ۱۳۹۱ش، ج۶، ص۲۹۰-۲۹۱
  11. ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔
  12. النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۱
  13. قطب راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۳۔
  14. سورہ اعراف، آیہ ۶۶-۶۷۔
  15. سورہ ہود، آیہ ۵۳
  16. جوادی آملی، تفسیر موضوعی، ۱۳۹۱ش، ج۶، ص۲۹۰-۲۹۱
  17. قطب راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۴
  18. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۱، ص۱۵۲؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔
  19. النجار، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹۔
  20. سورہ قمر، آیہ ۲۰؛ سورہ الحاقہ، آیہ ۷؛ سورہ اعراف، آیہ ۶۹
  21. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵۔
  22. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵؛ النجار، قصص‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۰-۵۱؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳۔
  23. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۶۵۔ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۲۱۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۱۳۵-۱۳۶۔
  24. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۴۵۶؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶ص۴۵۲۔
  25. قطب راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۴۔
  26. سورہ اعراف، آیہ ۷۰۔
  27. سورہ اعراف، آیہ ۷۱۔
  28. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶۔
  29. سورہ احقاف، آیہ ۲۴
  30. سورہ قمر، آیہ ۱۸-۲۱۔
  31. سورہ الحاقہ، آیہ ۶-۸
  32. سوہ ہود، آیہ ۵۸؛ سورہ اعراف، آیہ ۷۲؛ سورہ الحاقہ، آیہ ۶-۸۔
  33. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶۔
  34. جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶۔
  35. ابن قتيبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۸۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن کثیر، اسماعیل، قصص الانبیاء، تحقیق؛ الدکتور مصطفی عبد الواحدی، بیروت، مؤسسہ علوم القرآن، چاپ چہارم، ‌۱۴۱۱ھ۔
  • ابن قتيبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، قاہرہ، الہيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب، دوم، ۱۹۹۲ء۔
  • النجار، عبد الوہاب، قصص الانبیاء، بیروت، احیاء التراث العربی، چاپ نہم، ۱۴۰۶ھ۔
  • جزایری، نعمت ‌اللہ بن عبد اللہ، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین (قصص قرآن)؛ بہ ضمیمہ زندگانی چہاردہ معصوم(ع)، مصحح: سیاح، احمد، مترجم: مشایخ، فاطمہ، تہران، ۱۳۸۱ھ۔
  • جوادی آملی، عبد اللہ، تفسیر موضوعی قرآن کریم، قم، نشر اسراء، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد حسین، تاریخ‌ الانبیاء، گردآورندہ قاسم ہاشمی، بیروت، موسسہ اعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۳ھ۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • فخر الدین رازی، ابو عبد اللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبہ ‌اللہ، قصص الانبیاء (ع)، محقق عبد الحلیم حلی،‌ قم، مکتبہ العلامہ المجلسی، ۱۴۳۰ھ۔
  • قرشی، سید علی‌ اکبر، قاموس قرآن، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔