اسرائیل (لقب)
اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ تفسیر مجمع البیان کے مطابق عبرانی زبان میں اسرائیل کا مطلب خدا کا چنا ہوا یا خدا کا بندہ ہے۔[1] شیخ طوسی نے اسرائیل کو "اسرا" یعنی بندہ اور "ئیل" یعنی خدا سے مرکب قرار دیا ہے اور انہوں نے لفظِ اسرائیل کو خدا کا بندہ سے تعبیر کیا ہے۔[2] شیعہ مفسرین کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر 93 اور سورہ مریم کی آیت نمبر 58 میں لفظ اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبؑ ہیں۔[3] اسی وجہ سے یعقوبؑ کی اولاد اور ان کی نسل کو قرآن میں بنی اسرائیل کہا گیا ہے۔[4] تورات میں یعقوبؑ کو اسرائیل کہنے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یعقوبؑ سے کُشتی لڑنے کے بعد خدا کے فرشتے نے یعقوب سے کہا: "صبح ہو گئی ہے اور مجھے جانا ہے" لیکن یعقوب نے کہا: "میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا جب تک کہ تم میرے لیے دعا نہ کرو۔" خدا کے فرشتے نے ان سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ یعقوبؑ نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔ اُس نے کہا: "چونکہ تو نے فرشتوں اور آدمیوں سے کشتی لڑی اور ان پر غالب آگئے ہو، اِس لیے اب تیرا نام یعقوب نہیں رہے گا، بلکہ اسرائیل ہو گا۔"[5]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج1، ص182۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص180۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج2، ص344؛ سبحانی، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق (عليہ السلام)ـ قم،ج11، ص325۔
- ↑ روحی، «سیمای بنیاسرائیل در قرآن و عہدین»، 1384شمسی، ص58.
- ↑ کتاب مقدس، کتاب پیدایش، سورہ 32، آیات 27- 29۔
مآخذ
- روحی، ابوالفضل، «سیمای بنیاسرائیل در قرآن و عہدین»، در مجلہ معرفت، شمارہ 95، آبان 1384 ہجری شمسی
- سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
- کتاب مقدس.