مندرجات کا رخ کریں

اسرائیل (لقب)

ویکی شیعہ سے

اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ تفسیر مجمع البیان کے مطابق عبرانی زبان میں اسرائیل کا مطلب خدا کا چنا ہوا یا خدا کا بندہ ہے۔[1] شیخ طوسی نے اسرائیل کو "اسرا" یعنی بندہ اور "ئیل" یعنی خدا سے مرکب قرار دیا ہے اور انہوں نے لفظِ اسرائیل کو خدا کا بندہ سے تعبیر کیا ہے۔[2] شیعہ مفسرین کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر 93 اور سورہ مریم کی آیت نمبر 58 میں لفظ اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبؑ ہیں۔[3] اسی وجہ سے یعقوبؑ کی اولاد اور ان کی نسل کو قرآن میں بنی اسرائیل کہا گیا ہے۔[4] تورات میں یعقوبؑ کو اسرائیل کہنے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یعقوبؑ سے کُشتی لڑنے کے بعد خدا کے فرشتے نے یعقوب سے کہا: "صبح ہو گئی ہے اور مجھے جانا ہے" لیکن یعقوب نے کہا: "میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا جب تک کہ تم میرے لیے دعا نہ کرو۔" خدا کے فرشتے نے ان سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ یعقوبؑ نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔ اُس نے کہا: "چونکہ تو نے فرشتوں اور آدمیوں سے کشتی لڑی اور ان پر غالب آگئے ہو، اِس لیے اب تیرا نام یعقوب نہیں رہے گا، بلکہ اسرائیل ہو گا۔"[5]

حوالہ جات

  1. طبرسی، مجمع البیان، ج1، ص182۔
  2. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص180۔
  3. طبرسی، مجمع‌ البیان، 1415ھ، ج2، ص344؛ سبحانی، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق (عليہ السلام)ـ قم،ج11، ص325۔
  4. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، 1384شمسی، ص58.
  5. کتاب مقدس، کتاب پیدایش، سورہ 32، آیات 27- 29۔

مآخذ

  • روحی، ابوالفضل، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، در مجلہ معرفت، شمارہ 95، آبان 1384 ہجری شمسی
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • کتاب مقدس.