انجیل
انجیل |
کتاب مقدس کی فارسی زبان کی سب سے قدیمی نسخوں میں سے ایک عنوان: مسلمانوں کے عقیدےکے مطابق حضرت عیسی کی آسمانی کتاب، عہد جدید (عیسائیوں کی مقدس مقدس کتاب کا پہلا حصہ)
|
اِنْجیل (انگریزی: Gospel) اسلامی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی کی آسمانی کتاب کا نام انجیل ہے جسے خدا نے ان پر نازل کیا۔ قرآن میں انجیل کے وحیانی اور آسمانی ہونے، انجیل میں پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کی بشارت اور حضرت عیسی کے نبی ہونے پر تاکید کرتے ہوئے عقیدہ تثلیث اور حضرت عیسی کی الوہیت کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق حضرت عیسی کی آسمانی کتاب اس کے کچھ حصوں کے علاوہ اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں اور اس میں خرافات شامل ہو گئے ہیں۔
بعض مسلمان محققین جیسے آیت اللہ معرفت انجیل کو تدوین شدہ آسمانی کتاب نہیں مانتے جو کتاب کی شکل میں حضرت عیسی پر نازل ہو گئی ہو بلکہ وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جو چیز حضرت عیسی پر نازل ہوئی تھی وہ کچھ زبانی تعلیمات اور بشارتیں تھیں جو حضرت عیسی کے حواریوں کے توسط سے بعد والی نسل تک منتقل گئی تھی جنہیں بعد میں موجودہ انجیل کی صورت میں تدوین کی گئی ہیں۔
عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسی کی انجیل نامی کوئی کتاب نہیں تھی۔ ان کے مطابق حضرت عیسی خود عین وحی اور پیام الہی ہے نہ کہ پیغام لانے والا۔ عیسائیوں کی تعلیمات میں انجیل کو عیسائیوں کی مقدس کتاب کا ایک حصہ قرار دیا جاتا ہے اور ان کی مقدس کتاب چار کتابوں پر مشتمل ہیں انجیل مَتّی، انجیل مَرْقُس، انجیل لُوقا اور انجیل یُوحَنّا۔ یہ اناجیل جو عہد جدید کی چار کتابیں ہیں، حضرت عیسی کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں نے حضرت عیسی کی حالات زندگی اور ان کے کلمات کے بارے میں تحریر کی ہیں۔
عیسائی متعدد اناجیل میں سے مذکورہ چار اناجیل کو رسمی اور قانونی مانتے ہیں۔ انجیل متّی، مَرقُس اور لوقا کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ شباہت رکھنے کی وجہ سے اناجیل نظیر یا ہم نوا کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسی کی الوہیت اور فرزند خدا ہونے کا عقیدہ صرف انجیل یوحنّا میں بیان ہوا ہے۔
انجیل بَرْنابا غیر رسمی اور غیر قانونی اناجیل میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز قرار پایا ہے؛ لیکن عیسائی اسے جعلی قرار دیتے ہیں۔ اس انجیل میں حضرت عیسی کی الوہیت اور فرزند خدا ہونے نیز انہیں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کرتے ہوئے حضرت محمدؐ کے مسیح ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
موجودہ اناجیل پر کچھ اعتراضات بھی کئے گئے ہیں من جملہ ان میں: ان کے مصنفین کا غلطی اور گناہ سے مبرا نہ ہونے کی بنا پر مورد اطمینان نہ ہونا، تناقض گوئی، اشتباہات اور خرافات پر مشتمل ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت عیسی کی آسمانی کتاب
قرآنی آیات[1] اور اسلامی احادیث[2] کے مطابق حضرت عیسی کی آسمانی کتاب کا نام انجیل ہے جو ان پر خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔[3] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سلسلے میں احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ انسان کو انجیل نامی آسمانی کتاب کے موجود ہونے پر یقین حاصل ہو جاتا ہے۔[4] شیعہ مفسر اور فقیہ آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق حضرت عیسی کی اصل آسمانی کتاب نابود ہو چکی ہے اور ان کے شاگردوں نے اس کے بعض حصے اپنی کتابوں میں خرافات کے ساتھ جمع کئے ہیں۔[5]
متن | ترجمه |
وَ قَفَّيْنا عَلى آثارِہِمْ بِعيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْراۃِ وَ آتَيْناہُ الْإِنْجيلَ فيہِ ہُدىً وَ نُورٌ وَ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْراۃِ وَ ہُدىً وَ مَوْعِظَۃً لِلْمُتَّقينَ | ہم نے ان (انبیاء) کے نقش قدم پر عیسیٰ کو بھیجا اپنے سے پہلے موجود کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت ہے اور نور بھی جو تصدیق کرنے والی تھی اپنے سے پہلے موجود کتاب یعنی تورات کی اور یہ (انجیل) صحیح رہنمائی اور نصیحت تھی پرہیزگاروں کے لیے۔(سورہ مائدہ، آیہ 46۔) |
علوم قرآن کے بعض محققین من جملہ آیت اللہ معرفت عام مسلمانوں کے عقیدے کے برخلاف انجیل کو کتاب کی شکل میں حضرت عیسی پر نازل ہونے کے قئل نہیں ہیں۔[6] آیت اللہ معرفت کے مطابق جو چیز حضرت عیسی پر نازل ہوئی تھی وہ کچھ زبانی تعلیمات اور بشارتیں تھیں جسے انہوں نے اپنی رسالت کے دوران اپنے حواریوں اور لوگوں کے لئے بیان کئے تھے۔ حواریوں نے ان تعلیمات کو محفوظ کر کے بعد والی نسل تک پہنچائے جنہیں بعد میں موجودہ اناجیل کی شکل میں تدوین کی گئی ہیں۔[7]
ان محققین کے مطابق قرآن میں حضرت عیسی پر نازل ہونے والی جس کتاب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے وہ درحقیقت وحی اور تشریعی احکام ہیں جنہیں خدا نے حضرت عیسی پر نازل کئے تھے[8] یہ محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کی کسی آیت میں انجیل کو حضرت عیسی کی کتاب کے طور پر پیش نہیں کی ہے؛ بلکہ انجیل کے وحی ہونے اور حضرت عیسی پر نازل ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔[9] اسی طرح یہ محققین کہتے ہیں کہ قرآن نے جدال احسن کے طور پر حضرت عیسی پر نازل ہونے والی شفاہی تعلیمات کا نام انجیل انتخاب کیا ہے۔[10]
قرآن اور احادیث میں انجیل کی خصوصیات
لفظ انجیل قرآن میں 12 مرتبہ[11] بطور مفرد استعمال ہوا ہے[12] اور کئی اناجیل کا تصور قرآن میں کہیں نظر نہیں آتا۔[13] ان آیات میں انجیل کے وحی ہونے، تورات کی حقانیت کے تقدیق کنندہ ہونے، حضرت محمدؐ کی بعثت کی بشارت دہندہ ہونے اور حضرت عیسی کی دعوت کے عمومی ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔[14] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 46 کے مطابق انجیل تقوا اختیار کرنے والوں کے لئے "ہدایت"، "نور" اور "موعظہ" ہے۔[15] اسی طرح بعض آیات من جملہ سورہ نساء کی آیت نمبر 171 میں حضرت عیسی کے انسان اور پیغمبر ہونے پر تأکید کرتے ہوئے تثلیث اور حضرت عیسی کی الوہیت کے تصور کو باطل قرار دیا گیا ہے۔[16]
امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق انجیل 12[17] یا 13 رمضان[18] کو حضرت عیسی پر نازل ہوا۔ کہا گیا ہے کہ انجیل ایک ساتھ دفعی طور پر نازل ہوا ہے۔ متعدد احادیث کے مطابق انجیل اور دیگر آسمانی کتابیں شیعہ ائمہؑ کے یہاں موجود ہیں۔[19]
مسلمان علماء کا نظریہ
مسلمان علماء موجودہ اناجیل کے بارے میں دو احتمال دیتے ہیں:
- پہلا احتمال: اصلی انجیل کا عمدہ حصہ بعد کے اناجیل کے مصنفین کے ذریعے حذف ہوا ہے اور ان کی جگہ مختلف خرافات کا اضافہ کیا گیا ہے؛
- دوسرا احتمال: اصلی انجیل مکمل طور پر متروک ہو چکا ہے اوراس کی جگہ دوسری کتابیں لکھی گئی ہیں۔[20]
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ شیعہ احادیث میں انجیل کے جن مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ اناجیل کے مضامین کے ساتھ بہت سارے مشترکات رکھتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے موجودہ اناجیل اور وہ انجیل جس کی طرف ائمہ معصومینؑ یا ان کے اصحاب اشارہ کرتے ہیں، میں بہت سارے اشتراکات موجود ہیں۔[21] ان مشترکات میں سے بعض یہ ہیں: عیب جوئی کی ممانعت، ریاکار کی مذمت، جھوٹ بولنے کی ممانعت، حقالناس کا حق اللہ پر مقدم ہونا، قیامت کے دن حساب کتاب لیا جانا اور رواداری کی سفارش۔[22]
عیسائیوں کے یہاں انجیل کی حقیقت
عیسائیوں کے یہاں انجیل عہد جدید کی چار کتابوں کو کہا جاتا ہے[یادداشت 1] جو یہ ہیں: مَتّی، مَرْقُس،[یادداشت 2] لوقا اور یوحَنّا۔[24] تاریخ ادیان کی کتابوں خاص کر عیسائی تاریخی کتابوں میں انجیل ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جنہیں پہلی صدی عیسوی میں حضرت عیسی کے گفتار اور کردار کو ثبت کرنے کے لئے لکھی گئی ہوں۔[25]
عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسی کی کوئی انجیل نامی کتاب نہیں تھی۔ جس طرح مسلمانوں عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن وحی کی صورت میں پیغمبر اسلامؐ پر نازل ہوئی ہے، عیسائی حضرت عیسی اور انجیل کے بارے میں ایسا کوئی عقیدہ نہیں رکھتے۔ عیسائی حضرت عیسی کو بذاتہ عین وحی اور پیام الہی مانتے ہیں نہ پیغام لانے والا پیغمبر۔[26] وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ موجودہ اناجیل فقط حضرت عیسی کا زندگینامہ اور کلمات ہیں اور تورات کے برخلاف کسی بھی تعلیمات کو بلاواسطہ وحی الہی قرار نہیں دیتے۔[27]
عیسائی صرف موجودہ چار اناجیل متّی، مرقس، لوقا اور یوحنّا پر اعتقاد رکھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں؛ کیونکہ شروع میں عیسائی انہیں خدا کی جانب سے آنے کا عقیدہ رکھتے تھے۔[28] عیسائی کشیش ارو متکلم توماس میشل(ولادت 1941ء) کے مطابق عیسائی موجودہ اناجیل میں کسی قسم کی کوئی تناقض کے قائل نہیں ہیں ان کی نظر میں یہ چاروں اناجیل اہمیت اور معتبر ہونے میں ایک جیسے ہیں۔[29] ان کے مطابق ان چاروں اناجیل میں سے کسی ایک کو نہ ماننا ایمان میں کمی کا باعث بنے گا۔[30] عہد جدید کے مقدمے میں آیا ہے کہ عیسائی تقریبا سنہ 150ء سے کلیسا میں اتوار کے دن ہونے والے اجتماعات میں چاروں اناجیل کا کچھ حصہ پڑھتے آئے ہیں اور انہیں رسولوں کی آثار قرار دیتے ہوئے ان کو مقدس کتابوں کا درجہ دیتے ہیں۔[31]
موجودہ اناجیل میں حضرت عیسی کی زندگی، معجزات، تعالیم، سیرت اور کلمات کو بیان کئے گئے ہیں۔[32]
مفہومشناسی
یہ نہ سوچیں کہ میں کسی انبیاء کی شریعت یا کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں؛ منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ انہیں کامل کرنے آیا ہوں۔
انجیل متّی، انجیل متّی، باب 5، آیہ 17۔
انجیل ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی خوشخبری اور بشارت کے ہیں؛[33] ملکوت آسمان یا پیمان جدید کے آنے کی خوشخبری۔[34] کیونکہ موجودہ اناجیل ملکوت خدا یا نئے پیمان کی بشارت پر مشتمل ہیں۔[35] کہا گیا ہے کہ یہ بشارت حضرت عیسی کے ظہور کے وقت بخشش اور ملکوت خدا کے ظہور کی بشارت ظہور ملکوت سمجھی جاتی تھی؛ لیکن حواریون کے دور میں جب اناجیل کی تدوین ہو چکی تھی اس سے مراد فرزند خدا کی آمد اور قیامت کی بشارت سمجھی جاتی ہے۔[36]
موجودہ اناجیل کی تدوین اور رائج ہونے کے مراحل
انجیل کی تدوین کا کام 60 عیسوی کی دہائی سے شروع ہوا۔ شروع میں انجیل مَرقُس، اس کے بعد متّی اور لوقا لکھے گئے اور پہلی صدی عیسوی کے آخر میں انجیل یوحنا کی تدوین ہوئی۔[37] عیسائیوں کے مطابق سنہ 30ء کو حضرت عیسی کے آسمان پر جانے کے بعد[38] ان کے احادیث اور ان سے مربوط واقعات زبانی طور پر نقل ہوتے تھے[39] یہاں تک کہ پہلی صدی عیسوی کی پہلی نصف سنچری سے عیسائیوں میں مذکورہ احادیث اور واقعات کو لکھنے کی فکر وجود میں آنے لگی اور ایک گروہ نے حضرت عیسی کی حالات زندگی اور ان کی احادیث کو لکھنا شروع کیا۔[40]
اناجیل کی تدوین کا کام پولُس کے توسط سے مسیحیت کی تبلیغ کے ساتھ متعدد کلیساؤں میں شروع ہوا۔ اس بنا پر مختلف افراد نے مخصوص انداز میں حضرت عیسی کی حالات زندگی اور ان سے مربوط واقعات کو قلم بند کرنا شروع کیا یوں مختلف اناجیل وجود میں آئے۔[41] توماس میشل کے مطابق عیسائیوں نے پہلی بار روح القدس کی مدد سے ان تدوین شدہ اناجیل میں سے چار انجیل اور 23 کتابوں کو کتاب مقدس اور الہام شدہ اوراق کے عنوان سے قبول کئے۔[42]
موجودہ اناجیل کے رائج اور قانونی ہونے کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں: ایک نظریہ یہ ہے کہ سنہ 397 عیسوی کو "کارتاژ" روحانی اجتماع میں سوائے چار مذکورہ اناجیل کے باقی تمام اناجیل کو رد کیا گیا اور پانچویں صدی عیسوی کو مذکورہ چار اناجیل کو رسمی اور قانونی انجیل کے طور پر عہد جدید میں تثبیت کئے گئے۔[43] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ چار اناجیل کو تقریبا سنہ 150 عیسوی تک رسولوں کے آثار شمار کئے جاتے تھے اور ان کو حجیت مانتے تھے اور تقریبا سنہ 170ء سے ان کو قانونی اور رسمی کتاب کے طور پر قبول کئے گئے تھے؛ لیکن اسے زبان پر نہیں لائے جاتے تھے۔[44] عہد جدید کے مقدمے کے پیروز سیار کے ترجمے میں آیا ہے کہ تیسری صدی عیسوی کی ابتداء میں چہار اناجیل کو قانونی شکل دی گئی تھی اس کے بعد ان پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کئے گئے۔[45]
موجودہ چار اناجیل کی خصوصیات
موجودہ چار اناجیل کے مصنفین کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اس بنا پر ان کو مذکورہ مصنفین کی طرف منسوب کرنا یقینی نہیں ہے۔[46] حسین توفیقی بڑے ادیان سے آشنائی نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ عیسائی اس بات کے معتقد ہیں کہ موجودہ چار اناجیل کو حضرت عیسی کے حواریوں یا ان حواریوں کے شاگردوں نے حضرت عیسی کے سالوں سال بعد تحریر کی ہیں۔[47] توماس میشل کے مطابق عیسائی عہد جدید کے مصنفین کو پیغمبر نہیں مانتے؛ بلکہ اس سلسلے میں وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ لوگ حضرت عیسی کے پیروکار تھے اور ان کتابوں کو خدا کی طرف سے الہامی طور پر تحریر کی ہیں۔[48] کہتے ہیں موجودہ چاروں اناجیل کو شروع میں یونانی زبان میں لکھے گئے تھے۔[49]
ہم نوا اناجیل
تین اناجیل مَتّی، مَرقُس اور لوقا کو زبان اور مضامین کے حوالے سے آپس میں شباہت اور سازگاری کی بنا ہم نوا یا ہم نظر یا نظیر اناجیل کا نام دیا جاتا ہے۔[50] انجیل یوحنا کو دوسرے اناجیل سے ممتاز کرنے کی خصوصیت کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے: انجیل یوحنا ایسے معجزات پر مشتمل ہے جو دوسرے اناجیل میں نہیں پائے جاتے؛ جیسے قانا میں پانی کا شراب میں تبدیل ہونا، لَعازَر نامی شخص کا زندہ ہونا؛ طولانی خطبوں پر مشتمل ہونا؛ حضرت عیسی کے بارے میں خاص معلومات جس میں حضرت عیسی کی الوہیت پر تأکید کی گئی ہے۔[51] ہم نوا اناجیل کو یہودی آداب و رسوم جبکہ انجیل یوحنّا کو فلسفہ یونان سے متأثر جانا جاتا ہے۔[52]
مَتّی
انجیل مَتّی عہد جدید کی پہلی کتاب ہے۔[53] توماس میشل کے مطابق کتاب مقدس کے ماہرین اس بات کے معتقد ہیں کہ انجیل متّی کو بعض یہودی علماء کے ساتھ بحث اور جدل کی خاطر تدوین کی گئی ہے۔[54] اس انجیل کے تدوین کی جگہ اور تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سنہ 38ء، سنہ 50 سے 60ء[55] اور سنہ 70ء[56] اس انجیل کی تدوین کی تاریخ کے طور پر معین کئے جاتے ہیں اور فلسطین اور انطاکیہ شام[57] اس کی تدوین کی جگہ کے طور پر نام لیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں حضرت عیسی کو دین یہود کا متمّم، معلم اعظم، موسائے جدید اور عہد جدید کے صاحب شریعت کے طور پر معرفی کی گئی ہے۔[58] اس انجیل کے مضامین کو یوں بیان کیا جاتا ہے: حضرت عیسی کا شجرہ نامہ، آپ کی ولادت کی نوعیت، شیطان کے ہاتھوں آپ کا امتحان، اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو اخلاقی نصایح، معجزات حضرت عیسی، 12 رسولوں کا انتخاب، حضرت موسی اور حضرت الیاس کا حضرت عیسی کے سامنے ظاہر ہونا، حضرت عیسی کے قتل کا منصوبہ اور ن کا قبر سے زندہ ہونا۔[59]
متی، اس انجیل کا مصنف حضرت عیسی کے حواریوں میں سے تھا جو حضرت عیسی پر ایمان لانے سے پہلے مالیت اور ٹیکس لینے والا تھا۔[60] پرانے زمانے میں انجیل متی پہلا اور قدیمیترین انجیل مانتے تھے؛ لیکن عصر حاضر کے محققین انجیل مرقس کو قدیمیترین انجیل قرار دیتے ہیں۔[61]
مَرقُس
انجیل مرقس سب سے مختصر اور قدیمیترین انجیل کے طور پر جانا جاتا ہے۔[62] اس انجیل کا مصنف مرقس حضرت عیسی کے حواریوں میں سے نہیں تھا؛ بلکہ ان کے پیروکاروں اور پِطْرُس رسول،[یادداشت 3] کے شاگردوں میں سے تھا[63] جس نے سنہ 60،[64] 61[65] یا 70 عیسوی[66] کو اٹلی یا روم[67] میں اپنے انجیل کی تألیف کی۔ اس انجیل میں حضرت عیسی کے بشر اور انسان ہونے نیز ان کے اوپر آنے والی مصیبتوں پر تأکید کی گئی ہے۔[68] انجیل مرقس دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے: پہلے حصے میں حضرت عیسی کی حقیقت اور ان کی پادشاہی جبکہ دوسرے حصے میں ان کی موت کے بارے میں تحریر کی ہیں۔[69] مرقس نے زیادہ تر حضرت عیسی کے نمایاں کارناموں کا تذکرہ کیا ہے جن میں جنوں کے ساتھ حضرت عیسی کا مقابلہ اور انہیں نفسیاتی بیماروں کے کے اذہان سے خارج کرنا، گناہ گاروں کی بخشش اور آپ کے معجزات شامل ہیں۔[70] اس انجیل میں حضرت یحیی کے ہاتھوں حضرت عیسی کی تعمید کے بعد سے رسالت کے آغاز تک حضرت عیسی کی حالات زندگی بیان کی ہے اور ان کا شجرہ نامہ اور ان کی ولادت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے۔[71] اس انجیل میں مرقس کا پہلا جملہ یہ ہے: "فرزند خدا عیسی مسیح کی بشارت"۔[72]
لوقا
عیسی نے ان سے کہا: میں قیامت ہوں۔ جس نے مجھ پر ایمان لے آیا، اگر مر بھی جائے تو وہ زندہ ہوگا اور جو بھی اس دنیا میں آئے اور مجھ پر ایمان لے آئے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ آیا اس پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں اے خدائے متعال میں اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ آپ مسیح اور خدا کے فرزند ہیں؛ وہی جو اس دنیا میں آئے گا۔
انجیل لوقا کو سب سے طولانی انجیل شمار کیا جاتا ہے،[73] سنہ 70 سے 90 عیسوی کے درمیان مشرکین[74] سے روم[75] میں مخاطب ہو کر لکھی گئی۔ حضرت عیسی کی ولادت اور آپ کے بچپن کے دور کے واقعات کی تفصیل اس انجیل کی خاص خصوصیت میں شمار کئے جاتے ہیں۔[76] حضرت یحیی کی ولادت، حضرت عیسی کی معدد معجزات، حواریوں کو خارق العاده قدرت عطا کرنا، تبلیغ کے لئے حواریوں کے علاوہ 70 افراد کا انتخاب، صلیب پر چڑیا جانا اور قبر سے دوبارہ زندہ ہونا اس انجیل کے دوسرے مضامین میں سے ہیں۔[77] اس انجیل میں حواریون نے حضرت عیسی کو خدا خطاب دیا ہے۔[78] اسی طرح کہا گیا ہے کہ اس انجیل میں حضرت عیسی کو انسان کامل کے عنوان سے معرفی کی گئی ہے۔[79]
لوقا پولُس رسول کے غیر یہودی الاصل شاگرد تھا۔ اس بنا پر حضرت عیسی کے حواریوں میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔[80] لوقا کو عہد جدید کا واحد غیر یہود مصنف جانا جاتا ہے۔[81]
یوحنّا
انجیل یوحنا سب سے آخر میں لکھی گئی کتاب ہے جو حضرت عیسی کی سیرت اور ان کی احادیث پر مشتمل ہے اور اس میں حضرت عیسی کے ما فوق بشر ہونے پر تأکید کی گئی ہے۔[82] یوحنّا حضرت عیسی کے 12 حواریوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔[83] اس انجیل کی تاریخ تصنیف میں اختلاف پایا جاتا ہے[84] اس سلسلے میں دو نظریے مشہور ہیں: ایک سنتی نظریہ جس کے مطابق اس کی تاریخ تدوین پہلی صدی عیسوی کے اواخر سنہ 85ء کے بعد جبکہ دوسرے نظریے کے مطابق اس کی تاریخ تدوین 50 اور 70 عیسوی تک قرار دی گئی ہے۔[85] بعض سنہ 65ء کو اس سلسلے میں ترجیح دیتے ہیں۔[86] اس انجیل میں حضرت عیسی کی حالات زندگی سے زیادہ ان کے کلام پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس انجیل میں حضرت عیسی کے کلام کو طولانی خطبوں کی شکل میں پیچیدہ اور مرموز نظریات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔[87] اس انجیل میں مصنف اس کی تدوین کا ہدف یوں ذکر کرتا ہے: "یہ چیزیں تحریر کی گئی تاکہ تم ایمان لے آئے کہ عیسی مسیح اور خدا کا بیٹا ہے اور ان پر ایمان لانے کے ذریعے ان کے نام کے ساتھ جاودانی حیات پائیں"۔[88]
انجیل یوحنّا میں حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا،[89] کلمہ[90] اور ازلی کے طور پر معرفی کئے گئے ہیں۔[91]بعض موارد میں[92] حضرت عیسی کو خدا کا لقب بھی دیا گیا ہے۔[93] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ صرف اس انجیل میں فاراقْلیط موعود (تسلّی دہندہ کے معنی میں) کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسی کے بعد آئے گا اور ہر چیز کی تعلیم دے گا اور دنیا میں فیصلے کرے گا۔[94]
کتاب عہد جدید کے انجیل یوحنّا کے مقدمے کے ترجمے میں پیروز سیار نے لکھا ہے کہ اس انجیل کے مصنف کے بارے میں اس میں موجود تناقضات اور ابہامات کی وجہ سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ احتمال دیا گیا ہے کہ اس انجیل کے بعض مطالب یوحنّا کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے اضافہ کیا ہے۔ اس طرح یہ بھی احتمال دیا جاتا ہے یہ انجیل مختلف مراحل میں وجود میں آئا ہے۔ مقدمہ میں مصنف کے مطابق اس کتاب کی آخری اور فائنل تدوین کرنے والے مصنف کے بارے میں کوئی معلومات میسر نہیں ہے۔[95]
غیر قانونی اناجیل
مذکورہ چار اناجیل کے علاوہ دوسرے اناجیل بھی موجود ہیں جو بعض غیر رسمی کتابوں کے ساتھ "آپُوکْریفا" یا "عہد جدید کے جعلی کتب" کے نام سے مشہور ہیں اور کلیسا ان کو قانونی نہیں مانتے۔[96] عبرانی انجیل، مصری انجیل، انجیل پطرس، انجیل توما، انجیل فیلپُّس (یا فیلیپوس) اور بچپنے کی انجیل من جملہ ان غیر قانونی اناجیل میں شمار ہوتے ہیں۔[97]
بتحقیق کہ انبیاء تمام آگئے ہیں، سوائے رسول خدا کے جو میرے بعد آئے گا؛ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ میں ان کے آنے کی راہ ہموار کروں۔
انجیل بَرنابا، باب 36، آیہ 6۔
انجیل بَرنابا
انجیل بَرْنابا غیر قانونی اناجیل میں سے ہے جو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز قرار پایا ہے؛ لیکن عیسائی اسے جعلی قرار دیتے ہیں۔[98] کہا جاتا ہے کہ یہ انجیل مزید 300 اناجیل کے ساتھ شورای نیقیہ (بین الاقوانی پہلا کلیسائی شورای) سنہ 325ء،[99] کو غیر قانونی قرار دے کر اسے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد بھی پاپ اس کو ممنوعہ کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔[100] اس انجیل کی ممنوعیت اور غیر قانونی قرار دینے کی علیت اس کے مضامین کا موجودہ کلیسا کے اعتقادات سے متضاد ہونا قرار دی گئی ہے۔ اس طرح یہ کتاب پولُس رسول اور اس کے اعتقادات کے بھی مخالف ہے۔[101]
انجیل برنابا کئی حوالے سے موجودہ چار اناجیل کے ساتھ متفاوت ہے:
- اس میں حضرت عیسی کی الوہیت اور ان کا فرزند خدا ہونے کو رد کیا گیا ہے۔[102]
- انجیل برنابا میں حضرت عیسی کی زبانی کئی مرتبہ حضرت محمدؐ کے مسیح ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔[103]
- اس انجیل کے مطابق حضرت عیسی کی جگہ ان کا ایک حواری جو یہودا اسخریوطی کے نام سے حضرت عیسی کا شبیہ تھا کو صلیب پر چڑایا گیا تھا۔[104]
انجیل برنابا قرآن اور مسلمانوں کے بعض اعتقادات کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔ من جملہ یہ کہ اس انجیل کے مطابق انسان خدا کا بیٹا اور ذاتاً گناہ گار ہیں، انبیاء سوائے حضرت عیسی کے جیسے حضرت ابراہیم، حضرت ہارون اور حضرت ایوب وغیرہ بھی گناہ اور شرک آمیز محبت کے مرتکب ہوئے تھے۔[105]
عیسائی محققین اس بات کے قائل ہیں کہ یہ انجیل حضرت عیسی کی غیر موجودگی میں فلسطین کے علاوہ کسی اور جگہ لکھی گئی ہے؛[106] توماس میشل کہتے ہیں محققین تاریخی اور لفظی قرائن و شواہد کی بنا پر اس انجیل کی تاریخ تدوین کو سولہویں صدی عیسوی کے اواخر قرار دیتے ہیں۔[107] اس کے مقابلے میں مسلمان محققین اس انجیل کو اصلی انجیل قرار دیتے ہیں۔[108]
اس انجیل کے مصنف کے باری میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے بَرنابا کا لقب دیتے ہیں جو ایک عیسائی مبلغ تھا جس کا نام یوسف اور قبرس کا رہنے والا یہودی خاندان اور حضرت یعقوب کے بیٹے لاوی کی نسل سے ہے[109] جو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے زیادہ کوشش کرنے کی وجہ سے اسے برنابا یعنی مبلغ توانا کے لقب سے مشہور ہوا ہے۔[110] وہ حواریوں کا مورد اعتماد[111] اور عہد جدید کے مطابق ایک صالح ار با ایمان شخص تھا۔[112] اس کے مقابلے میں بعض عیسائی متکلمین اس انجیل کے مصنف کو سولہویں صدی عیسوی کا ایک عیسائی اسپانیولی قرار دیتے ہیں جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔[113]
موجودہ اناجیل پر اعتراضات
موجودہ اناجیل یا عمومی طور پر عہد جدید پر مختلف اعتراضات کئے گئے ہیں من جملہ یہ کہ:
- مصنفین کا مورد اطمینان نہ ہونا: کہا گیا ہے کہ تمام عیسائیوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ موجودہ اناجیل کے مصنفین پیغمبر نہیں تھے اس بنا پر غلطی اور گناہ سے مصون نہیں تھے؛ بلکہ یہ لوگ عام انسان تھے جو حضرت عیسی پر ایمان رکھتے تھے۔ مختلف اناجیل میں صراحت کے ساتھ بعض حواریوں اور حضرت عیسی کے شاگردوں پر بے ایمانی، مسیح نہ ہونا اور ان کی باتوں کا آپس میں متضاد ہونے کی نسبت دی گئی ہے۔ اس بنا پر ان کتابوں پر حضرت عیسی کی تعلیمات کے اصلی منابع کی حیثیت سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔[114] توماس میشل جو خود عیسائی متکلمین میں سے ہے تصریح کرتے ہیں کہ بہت سارے عیسائی کتاب مقدس کی عصمت لفظی کے قائل نہیں ہیں۔ تمام عیسائی اس بات کے معتقد ہیں کہ اصل پیغام خدا کی طرف سے ہے؛ لیکن اس کی شکل اور بناوٹ انسان کی طرف سے ہے اس بنا پر دوسرے لوگوں کی طرح خطا اور غلطی کا امکان پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ممکن ہے ان کتابوں کے بشری مصنفین نے اپنے غلط نظریات کو بھی ان کتابوں میں شامل کیا ہو۔[115]
- اناجیل کا ایک دوسرے کے ساتھ متضاد ہونا: بعض اناجیل میں موجود تناقضات اور ناسازگاریوں کو ان کتابوں کے معتبر نہ ہونے کی دلیل قرار دئے گئے ہیں۔[116] مثال کے طور پر انجیل متی، لوقا اور مرقس میں حضرت عیسی کے شجرہ نسب کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ انجیل متی[117] اور لوقا[118] میں حضرت عیسی کو حضرت داوود کی نسل سے قرار دی گئی ہے؛ جبکہ مرقس[119] میں کہا گیا ہے کہ حضرت داوود حضرت عیس کو اپنا خدا جانتا تھا۔ پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عیسی اس کا بیٹا ہو؟ اسی طرح دوسرے تناقضات میں حضرت عیسی کی گرفتاری کی کیفیت، حضرت عیسی کے خیانتکار شاگرد کی علامات (یہودا اسخریوطی)، حضرت عیسی کا زندہ ہونا اور قبر سے دوبارہ واپس آنا وغیره شامل ہیں۔[120]
- خرافات اور غلطیاں: تثلیث کا عقیدہ، حضرت عیسی کے فدا ہونے کا عقیدہ(حضرت عیسی اپنی قربانی کے ذریعے انسانوں کی نجات اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنا ہے)، کلیسا کے روحانیوں کے ذریعے گناہوں کی بخشش من جملہ ان خرافات میں سے ہیں جو مختلف اناجیل میں موجود ہیں۔[121] اس کے علاوہ مختلف غلطیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہیں۔[122]
کتابیات
انجیل کے بارے میں متعدد کتابیں مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- التَّوضیح فی بیانِ ما ہو الانجیل و مَن ہو المسیح، مصنف: نجف کے شیعہ مرجع تقلید محمد حسین کاشف الغطاء (1256 ـ 1333ہجری شمسی)، مؤلف نے اس کتاب میں کتاب مقدس سے استناد کرتے ہوئے انجیل کے مبانی اور عیسائیوں کے اعتقادات کی تشریح کی ہیں۔ اس کتاب کا سید ہادی خسروشاہی نے «پژوہشی دربارہ انجیل و مسیح»، کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے جسے انتشارات بوستان کتاب نے شایع کی ہے۔
- انجیل یوحنا فی المیزان، عربی زبان میں محمد علی زہران کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں انجیل کے مضامین، تاریخ اور مصنف کی شخصیت پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو انتشارات دارالاَرقم نے منتشر کیا ہے۔
- سیر تاریخی انجیل برنابا، مصنف حسین توفیقی۔ یہ مختصر کتاب انجیل برنابا کے تاریخی مراحل اور اس کے بعض مضامین اور اس پر ہونے والی بعض اعتراضات کا جواب ہے۔اس کتاب کو مؤسسہ در راہ حق نے سنہ 1361ہجری شمسی کو منتشر کیا ہے۔[123]
- تَطَوُّرُ الاِنجیل؛ المسیحُ ابنُ اللہ اَم مَلِکٌ مِن نَسلِ داود؟ دِراسۃٌ نقدیۃٌ و ترجمۃٌ جدیدۃٌ لِاَقدَمِ الاَناجیل تَکشِفُ مفاہیمَ مُثیرہ، یہ کتاب اصل میں انگریزی میں لکھی گئی ہے جس کے مصنف اینوک پاول ہے جس کا احمد ایبش نے عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کو پہلی بار انتشارات دار قتیبۃ نے بیروت میں منتشر کیا ہے۔
متعلقہ مضامین
نوٹ
- ↑ عہد جدید 27 کتابوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو تمام عیسائیوں کے یہاں مورد قبول ہیں اور موضوع کے اعتبار سے یہ کتابیں چار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں: اناجیل، رسولوں کے اعمال، خطوط اور مکاشفات۔ عہد جدید عہد عتیق کے مقابلے میں ہے۔ عہد عتیق یہودیوں کی مقدس کتابوں کو کہا جاتا ہے جہیں عیسائی بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں (توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص168-170)۔
- ↑ مرقس، میم کے اوپر فتحۂ (مَرقُس) یا ضمہ (مُرقُس) دونوں صورتوں میں تلفظ کی جاتی ہے۔
- ↑ پطرس کو حضرت عیسی کا سب بڑا رسول اور حواری مانتے ہیں جس کا نا شمعون تھا اور حضرت عیسی نے ان کو پطرس (پتھر) کا نام دیا اور اسے کلیسا اور عیسائی جماعت کا بنیاد گزار قرار دیا گیا۔ (توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص148۔)
حوالہ جات
- ↑ سورہ آل عمران، ایہ 3 و 4؛ سورہ مائدہ، آیہ 46و 47؛ سورہ مریم، آیہ 30؛ سورہ حدید، آیہ 27۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص157؛ شیخ صدوھ، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص159۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج2، ص423؛ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص155 و 156؛ رضوی، «انجیل»، ص77 و83۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص156 و 157۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،1371ہجری شمسی، ج2، ص425۔
- ↑ ملاحظہ کریں: معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، 1428ھ، ص129؛ نقوی، «تدوین تورات و انجیل از دیدگاہ آیات قرآن»، ص19-23؛ مؤدب و خبازیان، «بررسی فرہنگی تاریخی کاربرد انجیل در قرآن»، ص110۔
- ↑ معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، 1428ھ، ص129۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نقوی، «تدوین تورات و انجیل از دیدگاہ آیات قرآن»، ص21؛ مؤدب و خبازیان، «بررسی فرہنگی تاریخی کاربرد انجیل در قرآن»، ص110۔
- ↑ مؤدب و خبازیان، «بررسی فرہنگی تاریخی کاربرد انجیل در قرآن»، ص112۔
- ↑ مؤدب و خبازیان، «بررسی فرہنگی تاریخی کاربرد انجیل در قرآن»، ص110۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: سورہ آل عمران، آیہ 3، 48 و 65؛ سورہ مائدہ، آیہ 46 و 47، 66، 68و 110؛ سورہ اعراف، آیہ 157۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج23، ص391۔
- ↑ اسدی، «انجیلِ قرآن»، ص31۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص83؛ اسدی، «انجیلِ قرآن»، ص31ـ37۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص396۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص221-224۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص157؛ شیخ صدوھ، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص159۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص629۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص225، 227؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص132-141۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص84 و 85۔
- ↑ حیدری و خسروی، «درونمایہ انجیل در روایات شیعی»، ص 122۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حیدری و خسروی، «درونمایہ انجیل در روایات شیعی»، ص108-116۔
- ↑ «قدیمیترین انجیل جہان در تبریز»، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص77۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص49 و 50۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص174۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص176۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص44۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص176۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، درآمدی بر عہد جدید، ص58۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43؛ اسدی، «انجیلِ قرآن»، ص27۔
- ↑ رک: عہد جدید، 1394ہجری شمسی، ص85؛ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص169۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص139۔
- ↑ لاجوردی، «انجیل»، ص318۔
- ↑ سلیمانی اردستانی، سیری در ادیان زندہ جہان، 1387ہجری شمسی، ص217۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43و44 و 50۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص78۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص78۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص 51۔
- ↑ رضوی، «انجیل»، ص79و80۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، درآمدی بر عہد جدید، ص59۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، درآمدی بر عہد جدید، ص60۔
- ↑ سلیمانی اردستانی، سیری در ادیان زندہ جہان، 1387ہجری شمسی، ص218 و 219۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص174۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص43۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، درآمدی بر عہد جدید، ص64؛ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص42۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیلہای نظیر، ص85؛ محمدیان، دایرہالمعارف کتاب مقدس، 1381ہجری شمسی، ص259؛ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص170۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیل و رسالہہای یوحنّا، ص451۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص146؛ سلیمانی اردستانی، سیری در ادیان زندہ جہان، 1387ہجری شمسی، ص214 و 215۔
- ↑ لاجوردی، «انجیل»، ص318۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص45۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص42۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص45۔
- ↑ محمدیان، دائرہ المعارف کتاب مقدس، 1381ہجری شمسی، ص261۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص4؛ رضوی، «انجیل»، ص80۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص139۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص139۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص42۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص46؛ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص171؛ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص146۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص43۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص44؛ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص102۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص44۔
- ↑ سلیمانی اردستانی، سیری در ادیان زندہ جہان، 1387ہجری شمسی، ص217؛ رضوی، «انجیل»، ص80۔
- ↑ محمدیان، دائرہ المعارف کتاب مقدس، 1381ہجری شمسی، ص264۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص46۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیلہای نظیر، ص103 و 104۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص46۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص140۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، انجیل مرقس، ص259۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص140۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص148؛ رضوی، «انجیل»، ص80ـ81۔
- ↑ محمدیان، دائرہ المعارف کتاب مقدس، 1381ہجری شمسی، ص268۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص140۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص140۔
- ↑ ملاحظہ کریں: انجیل لوقا، باب 11، آیہ 1۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص141۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص46۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص140۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص171۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص141؛ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص45۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیل و رسالہہای یوحنّا، ص463-465۔
- ↑ محمدیان، دائرہ المعارف کتاب مقدس، 1381ہجری شمسی، ص270و271۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص48۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص49۔
- ↑ انجیل یوحنّا، باب 29، آیہ 31۔
- ↑ ملاحظہ کریں: انجیل یوحنّا، باب 1، آیہ 49 و باب 5، آیہ 19-27۔
- ↑ ملاحظہ کریں: انجیل یوحنا، باب 1، آیہ 1-3۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص141۔
- ↑ انجیل یوحنّا، باب 1، آیہ 1 و باب 20، آیہ 28۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیل و رسالہہای یوحنّا، ص460۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص141۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عہد جدید، 1394ہجری شمسی، مقدمہ انجیل و رسالہہای یوحنّا، ص459- 462۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص51۔
- ↑ عہد جدید، 1394ہجری شمسی، درآمدی بر عہد جدید، ص63؛ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص51 و 52۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1389ہجری شمسی، ص170۔
- ↑ الہامی و نادری، «برنابا»، ص213۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص162 و 163۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص164۔
- ↑ انجیل برنابا، باب 52، آیہ 12ـ15 و باب 53، آیہ 35۔
- ↑ ملاحظہ کریں: انجیل برنابا، باب 43، آیہ 30 و باب 82، آیہ 9ـ19۔
- ↑ معتمدی، «برنابا»، ص19؛ الہامی و نادری، «برنابا»، ص214۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حیدری و دیگران، «انجیل برنابا در تعارض با قرآن کریم»، ص7ـ28۔
- ↑ معتمدی، «برنابا»، ص19۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381، ص53۔
- ↑ ملاحظہ کریں: انجیل برنابا، مقدمہ سردار کابلی، ص 297ـ313۔
- ↑ معتمدی، «برنابا»، ص17۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص161۔
- ↑ زیبایینژاد، مسیحیتشناسی مقایسہای، 1389ہجری شمسی، ص161۔
- ↑ عہد جدید، اعمال رسولان، باب 11، آیہ 22-25۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381، ص53۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص103-109۔
- ↑ میشل، کلام مسیحی، 1381ہجری شمسی، ص27۔
- ↑ نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص119۔
- ↑ انجیل متی، باب 1، آیہ 1 و باب 20، آیہ 30۔
- ↑ انجیل لوقا، باب 1، آیہ 27 و باب 3، آیہ 31۔
- ↑ انجیل مرقس، باب 12، آیہ 36 و 37۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص119-140۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص140-149۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نیکزاد، نقد و بررسی کتاب مقدس، 1380ہجری شمسی، ص149-160۔
- ↑ توفیقی، سیر تاریخی انجیل برنابا، 1361ہجری شمسی، ص5۔
مآخذ
قرآن
- ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، قم، جامعہ مدرسین، 1404ھ۔
- سلیمانی اردستانی، عبدالرحیم، سیری در ادیان زندہ جہان (غیر از اسلام)، قم، آیت عشھ، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
- اسدی، علی، «انجیلِ قرآن»، نشریہ معرفت، شمارہ 120، آذر 1386ہجری شمسی۔
- الہامی، داود و نگار نادری، «برنابا»، در دانشنامہ جہان اسلام (ج3)، زیرنظر غلامعلی حداد عادل، تہران،بنیاد دایرہالمعارف اسلامی، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
- انجیل برنابا، ترجمہ حیدرقلی سردار کابلی، تہران، نشر نیایہجری شمسی، 1380ہجری شمسی۔
- توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، تہران، سمت؛ قم، مؤسسہ فرہنگی طہ و جامعۃ المصطفی العالمیہ، چاپ سیزدہم، 1389ہجری شمسی۔
- حیدری، حسین و رضوان خسروی، «درون مایہ انجیل در روایات شیعی»، دوفصلنامہ حدیث پژوہی، شمارہ 17، بہار و تابستان 1396ہجری شمسی۔
- حیدری، حسین و دیگران، «انجیل برنابا در تعارض با قرآن کریم»، معرفت ادیان، شمارہ21، زمستان 1393ہجری شمسی۔
- رضوی، رسول، «انجیل»، در فصلنامہ کلام اسلامی، شمارہ49، بہار1383ہجری شمسی۔
- زیبایینژاد، محمدرضا، مسیحیتشناسی مقایسہای، تہران، سروہجری شمسی، چاپ سوم، 1389ہجری شمسی۔
- شیخ صدوھ، محمد بن علی بن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد(ص)، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
- عہد جدید، ترجمہ پیروز سیار، تہران، نشر نی، 1394ہجری شمسی۔
- قدیمیترین انجیل جہان در تبریز»، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 10 اسفند 1394ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 20 اسفند 1401ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- لاجوردی، فاطمہ، «انجیل» در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج10، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- نیکزاد، عباس، نقد و بررسی کتاب مقدس، قم، مرکز پژوہشہای اسلامی صدا و سیما، 1380ہجری شمسی۔
- محمدیان، بہرام، دایرہالمعارف کتاب مقدس، تہران،سرخدار، 1381ہجری شمسی۔
- معتمدی، منصور، «برنابا» در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج12، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، صیانۃ القرآن من التحریف، قم، التمہید، چاپ اول، 1428ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
- مؤدب، سید رضا و میثم خبازیان، «بررسی فرہنگی تاریخی کاربرد انجیل در قرآن»، فصلنامہ مطالعات قرآنی و فرہنگ اسلامی، شمارہ 3، پاییز 1396ہجری شمسی۔
- میشل، توماس، کلام مسیحی، ترجمہ حسین توفیقی، قم، مرکز مطالعات و تحقیقات ادیان و مذاہب، 1381ہجری شمسی۔
- نقوی، حسین، «تدوین تورات و انجیل از دیدگاہ آیات قرآن»، فصلنامہ معرفت ادیان، شمارہ 9، زمستان 1390ہجری شمسی۔