ذوی القربی

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


ذوی القربی، پیغمبر اکرمؐ کے قریبی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے جن کی محبت کو قرآن میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا صلہ قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہراؑ، امام حسن مجتبی علیہ‌السلام اور امام حسین علیہ‌السلام ذوی‌ القربی کے مصادیق میں سے ہیں۔

تعریف

ذوی‌ القربی قریبی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ قرآن میں لفظ "القربی" ذی،[1] ذوی،[2] اور اولی[3] کے ساتھ اور آیہ قُلْ لا أَسْئَلُکمْ عَلَیہِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبی[؟؟][4] میں بغیر ترکیب کے آیا ہے۔ اہل سنت مفسر اور لغت‌ شناس زمخشری اس آیت میں القربی سے مراد اہل القربی لیتے ہیں۔[5]

القربی قرآن میں اکثر طور پر مسلمانوں کے قریبی رشتہ داروں کے لئے استعمال ہوا ہے۔[6] عربی لغت میں قُرب حسب و نسب اور زمان و مکان کی نسبت قریب اور نزدیک کے معنی میں آتا ہے۔[7] احادیث میں آیہ مودت، آیہ خمس[8] اور آیہ فیء[9] میں القربی سے ائمہ معصومین مراد لیا گیا ہے۔

مصداق‌ شناسی

شیعہ نقطہ نگاہ سے آیہ قُلْ لا أَسْئَلُکمْ عَلَیہِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبی[؟؟][10] کے القربی میں ائمہ معصومینؑ[11] کے ساتھ حضرت فاطمہؑ بھی شامل ہیں۔[12] اسی طرح اہل سنت کے تفسیری اور حدیثی منابع میں نقل ہونے والی احادیث کے مطابق امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ ذوی القربی کے مصادیق میں شمار کئے گئے ہیں۔[13]

بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت میں مخاطب قریش ہیں۔ اللہ اپنے حبیب کو حکم دیتا ہے کہ قریش سے کہیں کہ اگر آپ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم رشتہ درای کے ناطے آپ سے دشمنی چھوڑ دیں۔[14] اسی طرح ایک اور نقل کے مطابق اس آیت میں مخاطب انصار ہیں چونکہ عبد المطلب کی والدہ سلمی بنت زید نجار اور حضرت آمنہ کے ماموں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو کچھ اموال لائے گئے تھے جسے پیغمبر اکرمؐ نے واپس بھیج دیا تھا۔[15]

فقہی احکام

ذوی‌ القربی سے مربوط بعض فقہی احکام درج ذیل ہیں:

  • خمس میں ذوی‌ القربی کا حصہ:شیعہ فقہاء آیہ خمس میں خمس کے چھ مصرف میں سے ذوی القربی کے حصے کو امام معصوم کا حق سمجھتے ہوئے[16] اسے خدا اور پیغمبر کے حصے کے ساتھ ملا کر سہم امام کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات سہم امام کو سہم ذوی القربی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔[17]
  • فیء میں ذوی‌ القربی کا حصہ: فیء(جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں آنے والی غنیمت) کے مصرف میں بھی ذوی‌ القربی کا حصہ ہے۔[18]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سورہ بقرہ آیہ ۸۳۔
  2. سورہ بقرہ آیہ ۱۷۷۔
  3. سورہ توبہ آیہ۱۱۳۔
  4. سورہ شوری، آیہ۲۳۔
  5. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۱۹۔
  6. نمونہ کے لئے رجوع کریں: راغب، المفردات فی غریب القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۶۶۳-۶۶۴۔
  7. راغب، المفردات فی غریب القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۶۶۳-۶۶۴؛ ابن فارس، مقاییس اللغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۸۰۔
  8. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۵۰۹-۵۲۰۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۲۳، ص۵۰۴۔
  10. سورہ شوری، آیہ۲۳۔
  11. قمی، جامع الخلاف و الوفاق، ۱۳۷۹ش، ص۲۳۴؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۶، ص۸۶-۸۷۔
  12. خویی، مستند العروۃ، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۳۰۷-۳۰۸۔
  13. ملاحظہ کریں: ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۸۳۳؛ بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۱۲۹؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۰۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۷؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۲۲۔
  14. ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۲۱؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۳۱-۳۰۔
  15. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۳۱۔
  16. سید مرتضی، رسائل شریف مرتضی، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۲۲۶۔
  17. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۸۴؛ ابن براج، المہذب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۸۰۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۲۳، ص۵۰۲۔

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبداللہ عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق۔
  • ابن براج طرابلسی، عبدالعزیز، المہذب، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۶ق۔
  • ابن حنبل، احمد، فضائل الصحابہ، قاہرہ،‌ دار ابن الجوزی، ۱۴۳۰ق۔
  • ابن فارس، مقاییس اللغۃ، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۰۴ق۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر ابن کثیر، تحقیق یوسف عبدالرحمن مرعشی، بیروت، دارالمعرفہ للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، بیروت، دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۲ق۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، قاہرہ، ‌دار الحرمین للنشر و الطباعہ، ۱۴۱۷ق۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۹ق۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مستند العروۃ، قم، لطفی، ۱۳۶۴ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیروت،‌ دار الشامیۃ، ۱۴۱۲ق۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۰۷ق۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسايل الشریف المرتضی، تصحیح: سید مہدی رجائی، قم، دارالقرآن الکریم، ۱۴۰۵ق۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش۔
  • قمی، علی بن محمد، جامع الخلاف و الوفاق، قم، زمینہ‌سازان ظہور امام زمان، ۱۳۷۹ش۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۳۶۲ق۔