آل اللہ

ویکی شیعہ سے

آلُ الله، احادیث کی رو سے اہل بیتؑ کے اوصاف میں سے ہے، جسے شیعہ شاعر اور خطبا بھی اہل بیتؑ کیلئے بطور کنایہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اطلاق اہل بیتؑ کی خدا کے نزدیک اعلیٰ منزلت کی وجہ سے ہے اور معاذ اللہ ایسی بات نہیں ہے کہ وہ حقیقی طور پر خدا کے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ اسی طرح قریش کو بھی کعبہ کی نگرانی کے فرائض انجام دینے کی وجہ سے آل اللہ کہا جاتا تھا۔

مفہوم کی وضاحت

آل الله سے مراد وہ خاندان ہے جس کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے۔[1] لفظ "آل" اہل سے لیا گیا ہے جس کے معنی خاندان، گھرانہ، پیروکار اور متعلقین کے ہیں۔۔[2] یہ لفظ قرآن میں آیا ہے؛ جیسے آل عمران[3] یعنی خاندان عمران جس میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ شامل ہیں۔[4] اسی طرح آل لوط[5] یعنی خاندانِ لوط [6] اور آل فرعون[7] یعنی فرعون کا لشکر اور پیرکار۔[8]

آل اللہ کی ترکیب میں لفظ "آل" کی اضافت اللہ کی طرف اضافت تشریفی ہے؛ اس رو سے یہ ترکیب ان شخصیات کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتی ہے جن پر آل اللہ صادق آتا ہے، نہ یہ کہ خدا کے ساتھ ان اشخاص کی کوئی خاندانی نسبت ہو۔[9]

مصادیق

بعض احادیث کے مطابق ائمہ اہل بیتؑ کے علم لدنی کے حامل ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ "اہل سر اللہ"، "آل اللہ" اور "انبیاء کے وارث" ہیں۔[10] اسی بنا پر بعض خطباء [11] [یادداشت 1] اور شعرا اہل بیتؑ کیلئے "آل اللہ" کی اصطلاح سے استفادہ کرتے ہیں:

شوید‌ ای دشمنان پاک یزدانبہ دنیای خود، از آزاد مردان
شما را ھست با من، رزم و پیکارچہ می‌جوئید از آل الله اطھار[12]

شیعہ آئمہؑ کی خدا سے نسبت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اطلاق ان کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتا ہے نہ کہ ان کی خدا کے ساتھ رشتہ داری پر۔[13] قرب خداوندی کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہونے کے سبب انہیں خدا سے منسوب کیا جاتا ہے۔[14]

جس طرح قبیلہ قریش کو کعبہ کی حفاظت کے باعث "جیران اللہ" اور "سکان اللہ" کے علاوہ "آل اللہ" بھی کہا جاتا تھا۔[15] پانچویں صدی کے شیعہ عالم منصور بن حسین آبی کے بقول اصحاب فیل کے واقعے نے قریش کو عظمت عطا کی اور اس کی وجہ سے انہیں "اھل اللہ" کے نام سے پکارا جانے لگا۔[16]

متعلّقہ صفحات

نوٹ

  1. مثلا خطبے کے آغاز میں، اس عبارت سے استفادہ کرتے ہیں:الحمدلله و الصلاة علی رسول الله و علی آلہ آل الله.

حوالہ جات

  1. ’’اہل بیتؑ کو آل اللہ کیوں کہا جاتا ہے؟!۔
  2. راغب اصفهانی، المفردات، ۱۴۱۲ق، ص۹۸۔
  3. سوره آل عمران، آیت ۳۳۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۵۱۸۔
  5. سوره نمل، آیت ۵۶؛ سوره حجر، آیت ۶۱۔
  6. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۳۷۶۔
  7. سوره بقره، آیت ۵۰؛ سوره انفال، آیت ۵۴۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۵۱؛ قرشی، تفسیر احسن‌الحدیث، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۱۲۰۔
  9. «چرا به اهل بیت علیهم‌السلام، آل الله می‌گویند؟»۔
  10. ملاحظہ کریں:‌ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۵۹۲ و ج۴۴، ص۱۸۴۔
  11. « آیت‌ الله العظمی وحید کا جواب؛ کیوں پیغمبرؐ کے اہل ‌بیتؑ کو ’’آل الله‘‘ کہتے ہیں۔
  12. ابن طاووس، لهوف، ۱۳۷۷ش، ص۹۷۔
  13. ’’اہل بیتؑ کو آل اللہ کیوں کہتے ہیں؟!‘‘۔
  14. « آیت ‌الله العظمیٰ وحید کا جواب؛ کیوں، پیغمبرؐ کے اہل ‌بیت کو ’’آل الله‘‘ کہا جاتا ہے۔
  15. ابن عبدربه، العقد الفرید، دارالکتب العلمیه، ج۳، ص۲۲۶؛ علامه مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۵، ص۲۵۸؛ شیخ صدوق، الامالی، ۱۴۱۷ق، ص۳۱۷۔
  16. آبی، نثر الدر، ۱۴۲۴ق، ص۲۷۳۔

مآخذ

  • آبی، منصور بن حسین، نثر الدر فی المحاضرات، تحقیق محفوظ خالد عبدالغنی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۴ء۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، لہوف منظوم، ترجمہ علی محلاتی، دفتر نشر نوید اسلام، ۱۳۷۷شمسی۔
  • ابن عبدربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق عبدالمجید ترحینی، بیروت، دارالکتب العلمیہ۔
  • «پاسخ آیت‌اللہ العظمی وحید؛ چرا بہ اہل‌بیت پیامبر «آل اللہ» می‌گویند»، خبرگزاری حوزہ، درج مطلب ۳۰ مہر ۱۳۹۳ش، مشاہدہ ۱۰ آذر ۱۳۹۹شمسی۔
  • «چرا بہ اہل بیت علیہم‌السلام، آل اللہ می‌گویند؟»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، درج مطلب ۸ اسفند ۱۳۹۱ش، مشاہدہ ۱۰ آذر ۱۳۹۹شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، دارالقلم، ۱۴۱۲ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، موسسہ البعثہ، ۱۴۱۷ھ۔
  • علامہ طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، انتشارات مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ھ۔
  • قرشی، علی‌اکبر، تفسیراحسن‌الحدیث، دفتر نشر نوید اسلام‌، ۱۳۹۱شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۷۴شمسی۔