مسودہ:ساب النبی
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
سابُّ النَّبی، ایک فقہی اصطلاح ہے جو رسول اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کی شان میں گستاخی، اہانت یا دشنام کے مرتکب ہونے والے شخص کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ فقہ میں ایسے شخص کے لئے سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم میں شیعہ اور اہل سنت دونوں مکاتب فکر کے فقہاء کا اجماع ہے۔ اس کی بنیاد مستفیض روایات اور فقہاء کا اجماع ہے۔ امام خمینیؒ کا سلمان رشدی کے بارے میں فتویٰ بھی اسی قاعدے کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بعض شیعہ فقہا کے نزدیک، اگر کوئی شخص رسولِ اکرمؐ کی توہین سنے تو وہ حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس گستاخ کو قتل کرسکتا ہے۔ تاہم اگر توہین کا قصد نہ ہو، یا تقیہ کا مورد ہو، یا اکراہ اور مجبوری کی حالت میں بغیر اختیار کے ایسا فعل انجام پایا ہو تو فقہاء ایسے شخص پر ساب النبی کا حکم لاگو نہیں سمجھتے ہیں۔ شیعہ فقہ میں خدا، ائمہ اطہارؑ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی توہین کے مرتکب شخص کو بھی سابّ النبی کے حکم کی مانند حکم دیا گیا ہے۔
مفہومشناسی اور اہمیت
سابُّالنبی اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہؐ کو دشنام دے۔[1] بعض محققین کے مطابق سبّ النبی کا مفہوم محض دشنام یا گالی گلوچ تک محدود نہیں، بلکہ ہر قسم کی اہانت، بدگوئی، طنز اور استہزا کو شامل ہے؛[2] جیسا کہ دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ مقدس اردبیلی نے روایات میں وارد ہونے والے الفاظ سبّ، شَتْم اور نَیْل کو ایک دوسرے کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے ان تمام الفاظ کو توہین اور تحقیر پر حمل کیا ہے۔[3] اس کے مقابلے میں چودہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ حسین علی منتظری سبّ النبی کو صرف دشنام اور گالی گلوچ تک محدود سمجھتے ہیں اور توہین کے دیگر اقسام پر ساب النبی کا حکم لاگو نہیں سمجھتے ہیں۔[4]
شیعہ حدیثی اور فقہی مصادر میں یہ بحث عام طور پر حدود کے ابواب میں حد قذف کے ذیل میں آتی ہے؛[5] جبکہ اہل سنت اس بحث کو زیادہ تر ارتداد کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے سابّ النبی کو مرتد سمجھتے ہیں۔[6] ایران کے قانون مجازات اسلامی (مادّہ 262 اور اس کا تبصرہ) میں بھی سابّ النبی کا حکم بیان ہوا ہے۔[7]
کتاب شیطانی آیات کی تألیف پر امام خمینی کا سلمان رشدی کے قتل کے فتوے کے بعد ساب النبی کے بارے میں اسلامی مجازات بین الاقوامی سطح پر مطرح ہونے لگا۔[8] اس حکم کے خلاف بعض معترضین آزادی بیان سے متصادم ہونے،[9] دین اور مذہب کی کمزوری ظاہر ہونے اور عوام میں دینی بیزاری پیدا ہونے کے خدشات کے پیش نظر اعتراض کرتے ہیں۔[10]
فقہی حکم
پیغمبر اکرمؐ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہونا اور آپ کو دشنام دینا ان گناہوں میں سے ہے جن پر شریعت میں حد یعنی مخصوص سزا معین کی گئی ہے[11] جس کے تحت یہ عمل بذات خود حرام ہونے کے ساتھ ساتھ متعلقہ شخص پر سزائے موت کا حکم بھی لاگو ہوتا ہے۔[12] شیعہ اور اہل سنت دونوں فریق اس حکم پر متفق ہیں۔[13] فقہی منابع میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول خداؐ کو دشنام دے تو اس کا مشاہدہ کرنے والے تمام افراد پر اس شخص کو قتل کرنا واجب ہے۔[14] دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید ثانی لکھتے ہیں کہ یہ حکم حتی توبہ کرنے سے بھی ساقط نہیں ہوگا۔[15]
اس حکم کے فقہی مستندات
سابّ النبی کے قتل کی بنیاد مستفیض احادیث[16] اور فقہاء کا اجماع[17] ہے۔ بعض شیعہ فقہا کے نزدیک، ساب النبی پر سزائے موت کا حکم لاگو ہونے کے لئے صرف سبّ النبی کے عنوان کا صدق آنا کافی ہے، اس کے لئے کسی دوسرے فقہی عنوان مثلاً ارتداد کا صدق آنا بھی ضروری نہیں ہے۔[18] لیکن بعض فقہا سبّ النبی کو ارتداد کا مصداق قرار دیتے ہیں؛[19] کیونکہ بقول مقدس اردبیلی پیغمبر اکرمؐ کا احترام ضروریات دین میں سے ہے اور اس کا انکار ارتداد کے زمرے میں آتا ہے۔[20]
بعض معاصر حوزوی محققین سبّ النبی کو اسلام اور مذہب پر حملہ قرار دیتے ہوئے دین کے دفاع کے عنوان سے ساب النبی کے قتل کو واجب سمجھتے ہیں۔[21]
حکم کا نفاذ اور استثنائات
صاحب جواہر کے مطابق شیعہ فقہ میں مشہور فقہاء کا قول یہ ہے کہ سابّ النبی کے قتل کے لئے امام معصوم یا حاکم شرع کی اجازت ضروری نہیں؛ بلکہ جو شخص بھی اس عمل کا مشاہدہ کرے وہ اس گستاخ شخص کو قتل کر سکتا ہے۔[22] لیکن شیخ مفید اس حکم کے نفاذ کو حاکم اسلامی کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔[23]
بعض فقہا کے مطابق ساب النبی کو قتل کرنا صرف اس شخص پر واجب ہے جو اس حکم کے نفاذ کے بعد اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کے محفوظ ہونے کا یقین رکھتا ہو؛[24] لیکن مقدس اردبیلی اس قید کو بھی ضروری نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ حتی اگر جانی، مالی اور ناموس کے حوالے سے امنیت کا یقین نہ بھی ہو تو بھی یہ حکم نافذ کر سکتا ہے۔[25] درج ذیل موارد میں بعض فقہاء سب النبی کا حکم لاگو نہیں سمجھتے:
- دشنام دینے والا توہین کا قصد نہ رکھتا ہو؛[26]
- شدید غصے کی حالت میں دشنام دے؛[27]
- یہ کام اپنی مرضی اور اختیار سے انجام نہ دیا ہو؛[28]
- تقیہ اور اکراہ کا مورد ہو؛[29]
- جہالت کی بنا پر یہ کام انجام دیا ہو؛[30]
تاریخی مثالیں اور ردِّ عمل
امام محمد باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کے قتل کا حکم دیا جو آپؐ کو سبّ و شتم کیا کرتا تھا اور بعض اصحاب نے اس حکم کو نافذ کیا۔[31] اس کے علاوہ فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے تمام مشرکین کو معاف کر دیا، سوائے چند اشخاص کے جن میں گانا گانے والی دو عورتیں بھی شامل تھیں جو آپؐ کی ہَجْو اور آپ کا مزاق اڑایا کرتی تھیں؛ پیغمبر اکرمؐ نے ان کے قتل کا حکم صادر کیا۔[32]
سنہ 1988ء کو پیغمبر اکرمؐ کی توہین پر مبنی ڈائجسٹ[33] سلمان رشدی کی کتاب آیات شیطانی[34] شائع ہوئی تو اس وقت کے شیعہ مرجع تقلید امام خمینی نے اس کتاب کے مصنف سلمان رشدی کے قتل کا حکم دیا۔[35] اور دنیا کے مختلف ممالک میں سلمان رشدی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔[36]
سلمان رشدی پر سنہ 2019ء کو چاقو کے ذریعے حملہ کیا گیا جس میں اس کی گردن زخمی ہوئی تھی۔[37] اسی طرح 30 ستمبر سنہ 2005ء کو ڈنمارک کے ایک اخبار میں پیغمبر اکرمؐ کی توہین آمیز کارٹون شایع ہوئی،[38] جس پر دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمانوں نے ڈنمارکی اشیاء کا بائیکاٹ کیا۔[39] سنہ 2011ء کو پیغمبر اکرمؐ کی شان میں شارلی ایبدو کے گستاخانہ خاکے کے خلاف مسلمانوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج کیا۔[40]
دیگر مقدسات کی توہین
فقہی کتابوں میں سابّ النبی کا حکم درج ذیل موارد میں بھی زیر بحث آتا ہے:
- خدا اور ملائکہ کی توہین؛[41]
- ائمہ معصومینؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی توہین؛ صاحب جواہر ساب النبی کے حکم کو ائمہ معصومینؑ اور حضرت فاطمہ (س) کی توہین کرنے والے پر بھی لاگو ہونے کو شیعہ فقہاء کا اجماعی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔[42]
- دیگر انبیاءؑ کی توہین؛ صاحب ریاض تمام انبیاء کے دشنام دینے والے کو بھی سابّ النبی کے حکم کے برابر سمجھتے ہیں۔[43] صاحب جواہر اگرچہ دوسرے انبیاء کو دشنام دینے کو متعلقہ شخص کے مرتد ہونے کا باعث سمجھتے ہیں لیکن اس پر ساب النبی کا حکم لاگو ہونے کو کچھ دشواریوں کی بنا پر مشکل سمجھتے ہیں۔[44]
- حضرت آمنہ بنت وہب، (والدہ ماجدہ رسول خداؐ) کی توہین؛ بعض فقہا پیغمبر اکرمؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی توہین کو بھی سابّ النبی کے حکم میں شامل قرار دیتے ہیں۔[45] علامہ حلی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی والدہ ماجدہ کی توہین اس وقت سب النبی کے حکم میں شامل ہوگی جب یہ توہین قذف کی صورت میں ہو اس صورت میں متعلقہ شخص مرتد شمار ہوگا۔[46] اسی طرح صاحب جواہر اس مورد کو صرف اس وقت ساب النبی کے ساتھ ملحق سمجھتے ہیں کہ یہ چیز خود رسول اکرمؐ کی توہین تک منتہی ہو بصورت دیگر اس حکم کے جاری ہونے کو مشکل سمجھتے ہیں۔[47]
- دیگر سادات اور امامزادگان کی توہین؛ صاحب جواہر کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی دیگر ذریہ کو دشنام دینا صرف اس صورت میں سب النی کے حکم میں شامل ہوگا جب یہ عمل سب النی یا پیغمبر اکرمؐ کی توہین تک منتہی ہو بصورت دیگر اس حکم میں شامل ہونا مشکل ہے۔[48]
کتابیات
- تحلیل جرم سبّ النبی در فقہ اسلامی و قوانین کیفری، عبداللّٰہ بہمنپوری و حسن حقانیخواہ، 1397ش[49]
- شرح مبسوط قانون مجازات اسلامی حدود، عباس زراعت، 1393ش[50]
- رسالۃ في مسائل الصوم والسبّ، حیدر علی بن المیرزا محمد بن الحسن الشیروانی۔[51]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ زراعت، «بررسی فقہی و حقوقی جرم سب النبی»، ص83۔
- ↑ زراعت، «بررسی فقہی و حقوقی جرم سب النبی»، ص86؛ مروجی طبسی، «حکم فقہی دشنامدہندہ بہ پیامبر»، ص43۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدۃ والبرہان، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج13، ص171۔
- ↑ منتظری، پاسخ بہ پرسشہای دینی، 1389ش، ص492۔
- ↑ نمونہ کے لئے مراجعہ کریں: محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص154؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج28، ص211؛ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص54؛ بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، 1386ش، ج30، ص784۔
- ↑ آقابابایی، «قتل نفس بہ اعتقاد مہدورالدم بودن مقتول»، ص174۔
- ↑ «قانون مجازات اسلامی»، پایگاہ اطلاعرسانی قوانین و مقررات کشور۔
- ↑ جواہری، «استنباط حکم ساب النبی(ص) از ابعاد سہگانہ سنت اسلامی»، ص26۔
- ↑ حسینی پاسندی، و دیگران، «واکاوی اجرای مجازات ساب النبی با نگاہی بر چالشہا»، ص35۔
- ↑ حاجیدہآبادی و نوری، «بازپژوہی مجازات سابّ الامام»، 1393ش، ص44۔
- ↑ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، 1419ھ، ج4، ص301۔
- ↑ علامہ حلی، ارشاد الاذہان، 1410ھ، ج2، ص179؛ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج21، ص268۔
- ↑ جواہری، «استنباط حکم ساب النبی(ص) از ابعاد سہگانہ سنت اسلامی»، ص29؛ خوانساری، جامع المدارک، 1405، ج7، ص109۔
- ↑ خوانساری، جامع المدارک، 1405، ج7، ص112۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، 1410ھ، ج9، ص196۔
- ↑ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص55۔
- ↑ سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص482؛ ابنزہرہ، غنیۃ النزوع، 1417ھ، ص428۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص154۔
- ↑ سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص482؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج4، ص454۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدۃ والبرہان، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج13، ص170۔
- ↑ حاجیدہآبادی و نوری، «بازپژوہشی در مجازات سابّ الامام»، 1393ش، ص65-66۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص438۔
- ↑ شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص743۔
- ↑ خوانساری، جامع المدارک، 1405، ج7، ص112۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدۃ والبرہان، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج13، ص171۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص439؛ گلپایگانی، الدر المنضود، 1414ھ، ج2، ص266۔
- ↑ گلپایگانی، الدر المنضود، 1414ھ، ج2، ص267-268؛ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1425ش، ج1، ص501۔
- ↑ گلپایگانی، الدر المنضود، 1414ھ، ج2، ص267۔
- ↑ گلپایگانی، الدر المنضود، 1414ھ، ج2، ص253-254۔
- ↑ گلپایگانی، الدر المنضود، 1414ھ، ج2، ص256۔
- ↑ کلینی، فروع کافی، 1367ش، ج7، ص267۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 1413ھ، ج1، ص378۔
- ↑ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، 1388ش، ص124۔
- ↑ .«The Satanic Verses»
- ↑ موسوی خمینی، صحیفہ نور، 1389ش، ج21، ص263۔
- ↑ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، 1388ش، ص125-127۔
- ↑ «حملہ با چاقو بہ سلمان رشدی»، خبرگزاری یورونیوز۔
- ↑ فاضلی، «مرگ کاریکاتوریست جنجالی دانمارک»، در سایت روزنامہ اعتماد۔
- ↑ «دانمارک از کاریکاتورہای موہن میلیونہا یورو زیان دید»، سایت ہمشہری آنلاین۔
- ↑ «Satire-Zeitung darf nicht mehr online gehen»، در سایت روزنامہ اشپیگل۔
- ↑ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہا، 1414ھ، ج9، ص433؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، 1419ھ، ج4، ص301.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص435۔
- ↑ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص56۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص436-437۔
- ↑ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص56؛ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص437۔
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص410۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص438۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج41، ص438۔
- ↑ «تحلیل جرم سبالنبی در فقہ اسلامی و قوانین کیفری»، سایت خانہ کتاب و ادبیات ایران۔
- ↑ «شرح مبسوط قانون مجازات اسلامی حدود شامل: سبالنبی، مصرف مسکر، سرقت، محاربہ، بغی و افساد فی الارض»، سایت خانہ کتاب و ادبیات ایران۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج20، ص355۔
مآخذ
- آقابابایی، حسین، «قتل نفس بہ اعتقاد مہدور الدم بودن مقتول»، در مجلہ فقہ اہلبیت، ج12، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، جولائی-ستمبر 2000۔
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، چاپ سوم، 1983ء۔
- ابنزہرہ، حمزۃ بن علی، غُنیَۃ النُزوع الی عِلمَیِ الاُصول والفُروع، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، 1996-1997ء۔
- اردبیلی، احمد بن محمد، مَجمَع الفائدۃِ والبُرہان فی شرح اِرشادِ الاَذہان، تحقیق مجتبی العراقی، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، بیتا۔
- بروجردی، سید حسین، جامع احادیث الشیعہ، تہران، انتشارات فرہنگ سبز، 2007ء۔
- «تحلیل جرم سبالنبی در فقہ اسلامی و قوانین کیفری»، سایت خانہ کتاب و ادبیات ایران، تاریخ اخذ: 15 نومبر 2025۔
- جزیری، عبدالرحمن، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، دار الثقلین، 1998-1999ء۔
- جواہری، محمدرضا، «استنباط حکم ساب النبی(ص) از ابعاد سہگانہ سنت اسلامی»، در دوفصلنامہ مطالعات فقہ اسلامی و مبانی حقوھ شمارہ 29، اپریل-ستمبر 2014۔
- حاجیدہآبادی، احمد؛ و عباس نوری، «بازپژوہی مجازات سابّ الامام»، در نشریہ حقوق اسلامی، شمارہ 40، اپریل-جون 2014۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، آلالیبت(ع)، 1988-1989ء۔
- حسینی پاسندی، سید صدرالدین، و سیدہ بہارہ ارجمندیان و سید مہدی احمدی، «واکاوی اجرای مجازات ساب النبی با نگاہی بر چالشہا»، در مجلہ حقوق و مطالعات نوین، شمارہ 14، اپریل-جون 2024۔
- «حملہ با چاقو بہ سلمان رشدی»، خبرگزاری یورونیوز، تاریخ درج مطلب: 12 اگست 2022ء، تاریخ اخذ: 13 اگست 2022ء۔
- خوانساری، جامع المدارک فی شرح المختصر النافع، تہران، مکتبۃ الصدوھ 1984-1985ء۔
- «دانمارک از کاریکاتورہای موہن میلیونہا یورو زیان دید»، در سایت ہمشہری آنلاین، تاریخ درج مطلب: 9 ستمبر 2006ء، تاریخ اخذ: 6 اگست 2025ء۔
- رضوانی، علیاصغر، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، قم، مسجد مقدس جمکران، 2009ء۔
- زراعت، عباس، «بررسی فقہی و حقوقی جرم سب النبی»، در نشریہ دانشکدہ الہیات مشہد، شمارہ 57، ستمبر-نومبر 2002۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1994-1995ء۔
- «شرح مبسوط قانون مجازات اسلامی حدود شامل: سبالنبی، مصرف مسکر، سرقت، محاربہ، بغی و افساد فی الارض»، سایت خانہ کتاب و ادبیات ایران، تاریخ اخذ: 15 نومبر 2025۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی العاملی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، تحقیق سید محمد کلانتر، قم، مکتبۃ الداوری، 1989-1990ء۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی العاملی، مسالک الافہام الی تنقیح شرایع الاسلام، قم، مؤسسہ معارف اسلامی، 1992-1993ء۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1989-1990ء۔
- طباطبایی، علی بن محمد، ریاض المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، قم، مؤسسۃ آلالبیت(ع) لاحیاء التراث، 1997-1998ء۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، ارشاد الاذہان الی احکام الایمان، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1989-1990ء۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیہ، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، 1999-2000ء۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہا، قم، مؤسسۃ آلالبیت(ع) لاحیاء التراث، 1993-1994ء۔
- فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل، قم، امیر القلم، 2006ء۔
- فاضلی، محمود، «مرگ کاریکاتوریست جنجالی دانمارک»، سایت روزنامہ اعتماد، تاریخ درج مطلب: 24 جولائی 2021ء، تاریخ اخذ: 6 اگست 2025ء۔
- «قانون مجازات اسلامی»، پایگاہ اطلاعرسانی قوانین و مقررات کشور، تاریخ اخذ: 9 اگست 2025ء۔
- کلینی، محمدبن یعقوب، الفروع من الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ سوم، 1988ء۔
- گلپایگانی، سید محمدرضا، الدر المنضود، قم، دار القرآن الکریم، 1993-1994ء۔
- محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، 1987-1988ء۔
- مروجی طبسی، محمدجواد، «حکم فقہی دشنام دہندہ بہ پیامبر(ص)»، در نشریہ فرہنگ کوثر، قم، شمارہ 78، جون-اگست 2009۔
- منتظری، حسینعلی، پاسخ بہ پرسشہای دینی، قم، دفتر آیتاللہ منتظری، 2010ء۔
- موسوی خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ نور، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 2010ء۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بیتا.
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخ الیعقوبی، تحقیق عبد الامیر مہنا، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1993ء۔
- .«The Satanic Verses»، در سایت goodreads، تاریخ اخذ: 6 اگست 2025ء۔
- «Satire-Zeitung darf nicht mehr online gehen»، در سایت روزنامہ اشپیگل، تاریخ درج مطلب: 3 نومبر 2011ء، تاریخ اخذ: 6 اگست 2025ء۔