مباح

ویکی شیعہ سے

مباح ایک فقہی اصطلاح ہے ۔ اسکے ذریعے ایسے عمل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جس کی نسبت شارع مقدس کی طرف سے کوئی مخصوص حکم ذکر نہیں ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے عمل کا انجام دینا یا ترک کردینا شرعی لحاظ سے برابر ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کی سزا یا ثواب نہیں ملتا ہے۔ پس جس فعل کے بارے میں واجب، حرام، مستحب یا مکروه کا حکم ذکر نہ ہو اسے مباح کہا جاتا ہے۔

روایات میں مباح کے ایک عام معنی بھی مستعمل ہیں جس کے مطابق جائز اور حلال پر بھی مباح کا لفظ اطلاق آتا ہے۔ فقہ اور قانون میں لفظ اباحہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے مطابق کسی چیز کی ملکیت کے حصول یا کسی چیز سے منفعت حاصل کرنے کے اذن کو اباحہ کہتے ہیں۔ شرعی احکام میں مباح ایک بہت عام اور رائج حکم ہے اور اکثر انسانی افعال اباحے کا حکم رکھتے ہیں۔ اصالۃ الاباحہ مشہور فقہا کے نزدیک ایک رائج شرعی قانون ہے جس کے تحت انسان کا ہر عمل اور معاملہ جائز ہے جب تک اس کے خلاف کوئی شرعی دلیل نہ پائی جائے۔

معنی و مفہوم

اباحہ بَوح اور بُوْوح سے ماخوذ ہے جس کے معنی اجازت دینے کے ہیں۔[1]

فقہی اصطلاح میں شرعی احکام خمسہ میں سے ایک حکم کا نام مباح ہے۔ ایک مباح عمل سے مراد یہ ہے کہ فقہی اعتبار سے اسے انجام دینا یا ترک کرنا ایک ہی حکم رکھتا ہے جس کے کرنے پر ثواب نہیں ملتا اور جس کے ترک کرنے پر سزا نہیں دی جاتی۔[2]

دوسرے الفاظ میں مباح فعل سے مراد ایسا فعل ہے کہ جس کے متعلق واجب،‌ حرام، مستحب یا مکروه میں سے کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو۔ اس کے نتیجے میں بالغ و عاقل شخص اسے انجام دینے میں مختار اور آزاد ہوتا ہے۔ جیسے عام حالات میں کھانے اور پینے کیلئے کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے انسان جیسے چاہے عمل کرسکتا ہے۔ مذکورہ تعریف کے مطابق عبادات میں اباحہ کا کوئی مصداق موجود نہیں ہے۔[3] عبادت سے مربوط تمام اعمال واجب، مستحب، حرام اور مکروه میں سے کسی ایک کے تحت آئیں گے۔

مباح اور حلال

شریعت میں حلال، حرام کے مقابلے میں ہے۔ جو چیز بھی حرام نہیں وہ حلال میں شامل ہو گی۔ اس لحاظ سے حلال مباح سے اعم ہے۔ یعنی ہر مباح حلال ہے لیکن ہر حلال مباح نہیں ہے جیسا کہ مکروہات حلال ہیں لیکن وہ مباح نہیں ہیں۔

اباحہ اور جواز

جواز منع کی ضد ہے اور جائز حلال کی مانند مباح سے اعم ہے ،جیسے ہر مباح جائز ہے لیکن ہر جائز مباح نہیں ہے مثلامستحبات اور مکروہات جائز ہیں لیکن مباح نہیں ہیں۔

قرآن اور سنت نبوی

قرآن میں اباحہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے نیز رسول خداؐ کی زبان مبارک سے بھی یہ لفظ ااستعمال نہیں ہوا ہے۔ لیکن دانشمندوں اور فقہا کے نزدیک قرآن کی متعدد آیات میں اباحہ کا مفہوم بیان ہوا ہے جیسے:یا اَیهَا النّاس کلوا مِمّا فِی الاْرْض حَلالاً طَیباً[4]

اصالت اباحہ

فقہا اور علمائے اصول کے درمیان اس عمل اور فعل سے متعلق بحث کی جاتی ہے کہ جس کے متعلق شریعت میں کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے؛ یعنی اگر کسی مخصوص فعل کے متعلق قرآن و احادیث میں کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو تو اس فعل کو انجام دینا جائز ہے یا نہیں؟

اس مقام پر اصالت اباحہ اور اصالت حَظْر کے نام سے دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ اصالت حظر یعنی کسی فعل کی انجام دہی کے سلسلے میں جب تک جواز کی دلیل نہ پائی جائے اس وقت تک اسے انجام دینا جائز نہیں ہے۔ اصالت اِباحہ اس کے برعکس ہے۔ یعنی شریعت نے اگر کسی فعل کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے تو انسان اسے انجام دینے میں خود مختار ہے اور یہ مباح کے امور میں سے سمجھا جاتا ہے۔

امامیہ کا مشہور نظریہ

فقہائے امامیہ کے درمیان مشہور ہے کہ عقل اور شرع کا حکم اصالت اباحہ پر قائم ہے ۔[5] امامیہ کا مستند شرعی آیات اور ائمہ طاہرین سے منقول احادیث ہیں جن میں سے یہ بعض یہ ہیں:

  • آیات
  1. هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً؛ سورہ بقرہ، آیت29۔
  2. يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً؛ سورہ بقرہ، آیت168۔
  3. قُلْ لاَ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ؛ سورہ انعام، آیت ۱۴۵۔
  4. وَالاَْرْضَ وَضَعَهَا لِلأَنَامِ؛ سورہ رحمن، آیت۱۰؛[6]
  • احادیث
  1. امام صادق(ع) سے منقول ہے :کل شَی ء مُطْلَق حَتّی یرِد فیه نَهْی: تمام اشیاء مباح ہیں جب تک ان کے متعلق نہی نہ آ جائے ۔[7]

فقہ اور مدنی قانون مالکیت یا منفعت کے حصول کے طریقے

فقہ میں اباحہ ایک خاص معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسی مال کا کوئی مخصوص مالک نہ ہو اور اس سے منفعت لینا چاہے تو اباحہ تملک یا اباحہ انتفاع کی صورت میں انسان اس مال کا مالک بن سکتا یا اس سے منفعت حاصل کرسکتا ہے۔ اول الذکر کو اباحہ تملک اور موخر الذکر کو اباحہ انتفاع کہتے ہیں:

  • منفعت حاصل کرنے کی قابلیت رکھنے والے مباحات: اس سے مراد وہ مباح ہیں جس سے تمام مسلمان فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور اس استفادے کو کسی میں منحصر کرنے کی ممانعت ہوئی ہو، جیسے عمومی راستے اور سڑکیں وغیرہ۔
  • تملک کے قابل مباحات: ایسے مباحات ہیں جو مسلمانوں کے امام اور شرعی معیارات کے مطابق مالک ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ جیسے بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے اقدام کرنا یا مباح پانیوں سے مچھلی کا شکار کے ذریعے مالک ہونا۔

حوالہ جات

  1. فراہیدی، ازہری
  2. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، ج ‌۱، ص ۲۰۴
  3. شہید اول، ج۱، ص۳۱
  4. سورۂ بقرہ: آیت ۱۶۸
  5. انصاری، ۱۹۹
  6. https://makarem.ir/compilation/Reader.aspx?pid=61979&lid=0&mid=50707&catid=0 تقریرات درس اصول آیت الله مکارم شیرازی
  7. حر عاملی، ۱۸/۱۲۷- ۱۲۸

مآخذ

  • آمدی علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء۔
  • ابن حزم، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء۔
  • ابن قدامه، عبداللہ، روضۃ الناظر و جنۃ المناظر، بیروت، ۱۴۰۱ھ /۱۹۸۱ء۔
  • ازہری، محمد، تہذیب اللغہ، قاہرہ، ۱۹۶۶ء۔
  • بدخشی، محمد، مناہج العقول فی شرح منہاج الوصول...، بیروت، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۴ء۔
  • تہانوی، علی، کشاف اصطلاحات الفنون، تحقیق آلویس شپرنگر، کلکتہ، ۱۸۴۸-۱۸۶۱ء۔
  • حر عاملی، محمد، وسائل الشیعہ، بیروت، ۱۳۸۳، ۱۳۸۷ھ /۱۹۶۳، ۱۹۶۷ء۔
  • حکیم، محمدتقی، الاصول العامہ للفقہ المقارن، قم، ۱۹۷۹ء۔
  • شہید اول، محمد، القواعد و الفوائد فی الفقہ و الاصول و العربیہ، قم، ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ء۔
  • شہید ثانی، زین الدین، معالم الاصول، ترجمہ آقا ہادی مازندرانی، تہران، ۱۳۷۷ھ /۱۹۵۷ء۔
  • علم الہدی، مرتضی، الذریعہ الی اصول الشریعہ، تہران، ۱۳۴۶ہجری شمسی۔
  • غزالی، محمد، المستصفی، قاہره، ۱۳۲۲ھ /۱۹۰۴ء۔
  • فراہیدی، خلیل، العین، قم، ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء۔
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت (ع)، جمعی از پژوہشگران زیر نظر ہاشمی شاہرودی، سید محمود، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، قم، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
  • قانون مدنی ایران.
  • قرآن کریم۔
  • موسوعہ جمال عبدالناصر الفقہیہ، قاہره، ۱۳۸۶ھ /۱۹۶۶ء۔