مساحقہ

ویکی شیعہ سے

مُساحَقہ یا طَبَق‌زنی یا چپٹی کھیلنا، ایک عورت کا اپنے اندام نہانی کو دوسری عورت کے اندام سے رگڑنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ جنسی لذت کے حصول کا ایک طریقہ ہے جس کے لئے روایات میں سخت عذاب بیان ہوا ہے۔ شیعہ روایات میں مساحقہ کے لئے بڑے زنا کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اور مساحقہ کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔
شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی رو سے مساحقہ کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کی مرتکب عورتوں کو 100 کوڑے مارے جانے کی سزا بیان کی ہے۔ اکثر فقہاء کے فتوا کے مطابق چار عادل مردوں کی گواہی یا مساحقہ کرنے والی عورت کی طرف سے چار بار اقرار سے مساحقہ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اگر عورت سزا سنانے سے پہلے توبہ کر لے تو وہ سزا سے بَری ہوجائے گی۔ اکثر فقہاء کے فتوا مطابق اگر کسی عورت کو 3 دفعہ مساحقہ کی سزا دی جائے تو چوتھی بار اسے سنگسار کیا جائے گا۔

مفہوم‌

شیعہ فقہاء نے مساحقہ کی تعریف یوں بیان کی ہے: کسی عورت کا اپنے عضو تناسل کو کسی دوسری کے عضو تناسل کے ساتھ رگڑنے کی کیفیت کے ساتھ ملانے کو مساحقہ کہتے ہیں۔[1] مساحقہ جنسی تعلق قائم کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے بعض عورتیں اپنی ہی جنس(ہم جنس پرستی،چپٹی بازی (Lesbianism)) کے ساتھ جنسی تسکین پاتی ہیں۔[2] فارسی میں عمل مساحقہ کو "طَبَق‌زنی" بھی کہتے ہیں[3] اور اردو میں اسے چپٹی لڑنا کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔ [4]

تاریخی پس منظر

بعض شیعہ روایات میں مساحقہ کو "بڑا زنا" قرار دیا گیا ہے؛[5] مساحقہ‌ کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے[6] اور اس کے لیے قیامت کے دن سخت عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔[7] امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق سب سے پہلے قوم لوط کی عورتوں نے مساحقہ کا عمل انجام دیا؛ کیونکہ قوم لوط کے مرد لوگ ہم جنس پرست تھے لہذا عورتیں اپنی جنسی تسکین کے لیے اپنی ہی جنس سے لذت اٹھاتیں تھیں۔[8] کسی دوسری روایت میں آیا ہے کہ سورہ ق کی آیت 12 میں ذکر شدہ اصحاب رس سے مراد وہ قوم ہے جس کی عورتیں مساحقہ کرنے والی تھیں۔[9]

مساحقہ سے متعلق فقہی احکام

شیعہ فقہ میں مساحقہ کا شرعی حکم حرمت، اس کے ثابت ہونے کے طریقے اور اس کی سزا بیان ہوئی ہیں۔

حرمت

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ علامہ حلی کے قول کے مطابق سارے شیعہ فقہاء مساحقہ کو حرام سمجھتے ہیں۔[10] امام رضاؑ کی ایک حدیث کے مطابق ہم جنس پرستی؛ جس میں مساحقہ بھی شامل ہے، حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فطری طور پر عورتوں کی جسمانی ساخت اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ اپنی جنسی تسکین کے لیے مردوں کی طرف رجحان رکھتی ہیں۔[11] اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ ہم جنس پرستی کا عمل عام ہونے سے نسل انسانی کا خاتمہ، معاشرتی نظم و ضبط میں خلل اور پوری دنیا نابودی کی دلدل میں جا گرے گی۔[12]

ثابت ہونے کا طریقہ

اکثر فقہائے شیعہ کے فتوا کے مطابق چار عادل مردوں کی گواہی یا خود مساحقہ کرنے والی عورتوں کے چار بار اقرار سے مساحقہ ثابت ہوجائے گا۔[13] اس کے مقابلے میں دسویں صدی ہجری کے فقیہ مقدس اردبیلی کا کہنا ہے کہ دو عادل مردوں یا خود مساحقہ کرنے والی عورتوں کے دو بار اقرار کرنے سے بھی مساحقہ ثابت ہوسکتا ہے۔[14] جمہوریہ اسلامی ایران کے آئینی دستور کی شق نمبر 172 اور 199 کے عدالتی قانون کے مطابق چار عادل مردوں یا چار بار اقرار سے مساحقہ ثابت ہوجاتا ہے۔[15]

مساحقہ کی سزا

تمام فقہاء کی نظر میں مساحقہ کے لیے شرعی حد ثابت ہے۔[16] فقہاء کے فتوا کے مطابق مساحقہ کرنے والی دونوں عورتوں پر 100 کوڑے مارے جائیں گے، اس سزا کے مستحق ہونے میں فرق نہیں کہ مساحقہ کرنے والی عورتیں مسلمان ہوں یا کافر۔[17] اسی طرح تیرہویں صدی ہجری کے مجتہد صاحبْ‌جواہر کے مطابق اس حکم میں یہ بھی فرق نہیں کہ وہ عورتیں شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔[18] اس کے مقابلے میں شیخ طوسی،[19] ابن‌بَرّاج[20] اور پانچویں صدہ ہجری کے مجتہد ابن‌حمزہ طوسی[21] کے مطابق اگر مساحقہ کرنے والی عورت محصنہ(شادی شدہ) ہوں تو اس کی سزا سنگساری ہے۔ ایران کے آئینی دستور کی شق نمبر239 اور 240 کے مطابق مساحقہ کی سزا 100 کوڑے ہیں چاہے عورت شادہ شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، مسلمان ہو یو کافر۔[22]

شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق اگر عورت سزا پانے سے پہلے اپنے اس گناہ سے توبہ کرے تو وہ سزا کی بری ہوجائے ی۔[23]

بارہویں صدی ہجری کے فقیہ سید علی طباطبایی (صاحبْ‌ریاض) کہتے ہیں کہ اکثر شیعہ فقہاء نے فتوا دیا ہے کہ اگر کسی عورت کا مساحقہ کرنا ثابت ہوجائے اور ہر بار اسے 100 کوڑوں کی سزا ہوجائے تو چوتھی بار میں اسے سنگسار کیا جائے گا۔[24] چھٹیصدی ہجری کے فقیہ ابن‌ادریس حِلّی کا نظریہ ہے کہ تیسری بار کی سزا میں ہی اسے سنگسار کیا جائے گا۔[25]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص333؛ شہید ثانی، الروضة البہیة، 1412ھ، ج2، ص361؛ طباطبایی حائری، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص5.
  2. Kimmel, Gay, Bisexual, and Transgender Aging: Research and Clinical Perspectives, pp. 73–79.
  3. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ذیل واژہ طبق‌زنی.
  4. گناہان کبیرہ
  5. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج11، ص274.
  6. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج11، ص267 و ص274.
  7. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج5، ص257 و ج11، ص273.
  8. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج11، ص273.
  9. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج14، ص83.
  10. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص333.
  11. شیخ صدوھ، علل الشرائع، مکتبة الداوری، ج2، ص547.
  12. شیخ صدوھ، علل الشرائع، مکتبة الداوری، ج2، ص547.
  13. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، النہایة،‌ 1400ھ، ص706؛ شہید اول، اللمعة الدمشقیة، 1410ھ، ص257.
  14. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدة، جامعة المدرسین، ج13، ص127.
  15. «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی ایران.
  16. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، النہایة،‌ 1400ھ، ص706؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدة، جماعة المدرسین، ج13، ص120؛ شیخ مفید، المقنعة، 1410ھ، ص787.
  17. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، النہایة،‌ 1400ھ، ص706؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدة، جماعة المدرسین، ج13، ص120؛ شیخ مفید، المقنعة، 1410ھ، ص787.
  18. صاحب جواہر، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص388.
  19. شیخ طوسی، النہایة، 1400ھ، ص706.
  20. ملاحظہ کریں: ابن براج، المہذب، 1406ھ، ج2، ص531؛ شیخ طوسی، النہایة، 1400ھ، ص706.
  21. ابن حمزہ طوسی، الوسیلة، 1408ھ، ص414.
  22. «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژہش‌ہای مجلس شورای اسلامی ایران.
  23. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، النہایة،‌ 1400ھ، ص708؛ صاحب جواہر، جواہر الکلام، 1432ھ، ج41، ص390.
  24. صاحب ریاض، ریاض المسائل، 1404ھ، ج2، ص477.
  25. ابن ادریس، السرائر، 1410ھ، ج3، ص467.

مآخذ

  • ابن ادریس، حلی، السرائر الحاوی لتحریر التفاوی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، 1410ھ۔
  • ابن براج، عبدالعزیز بن نحریر،‌ المہذب، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1406ھ۔
  • ابن حمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، تحقیق محمد الحسون، قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، 1408ھ۔
  • دہخدا، علی‌اکبر و گروہی از نویسندگان، لغت‌نامہ دہخدا، تہران، روزنہ، 1372-1373ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الامامیۃ، تحقیق محمدتقی مروارید و علی‌اصغر مروارید، بیروت، دار‌التراث، 1410ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی عاملی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، شرح حسن بن محمد سلطان العماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1412ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، علل الشرائع، مقدمہ و شرح محمدصادق بحرالعلوم، قم، مکتبۃ الداوری، بی‌تا.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتب العربی، 1400ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم،‌ 1410ھ۔
  • صاحب جواہر، محمدحسن بن باقر،‌ جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • صاحب ریاض، علی بن محمدعلی، ریاض المسائل، قم، مؤسسۃ آل‌‌البیت(ع) لاحیاء التراث، 1404ھ۔
  • طباطبایی حائری، سید علی، ریاض المسائل، قم، مؤسسۃ آل‌البیت(ع) لاحیاء التراث، 1418ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، 1420ھ۔
  • «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی ایران، تاریخ بازدید: 18 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح دارالحدیث، قم، دارالحدیث، 1429ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، تحقیق مجتبی عراقی، علی اشتہاردی، حسین یزدی، قم، جامعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ فی قم، بی‌تا.
  • ‌ Kimmel, Gay, Bisexual, and Transgender Aging: Research and Clinical Perspectives, Editors Douglas C. Kimmel, Tara Rose, Steven David, Columbia University Press, 2006.