دیت وہ مال ہے جو کسی کو قتل کرنے یا بدن کے کسی عضو کو کاٹنے یا بدن پر زخم لگانے سے کسی فرد یا اس کے وارث پر واجب ہوتی ہے۔ دیت کے احکام فقہی کتابوں کے باب دیات میں بیان ہوئے ہیں۔ مختلف چوٹوں کے لیے اسلام میں مختلف مقدار میں دیت معین ہوئی ہے۔ جہاں پر دیت کی مقدار معین نہیں ہے وہاں پر ارش کے نام سے مجروح شخص کو کچھ مال دیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں دیت عام مقدار سے زیادہ ہوتی ہے جیسے اگر جرم اور جنایت مکہ کے حرم میں واقع ہوئی ہو یا حرام مہینوں میں جرم کا ارتکاب ہوا ہو تو اس کو فقہ کی اصطلاح میں تغلیظ دیہ (دیت کو زیادہ کرنا) کہلاتا ہے۔

اسلامی روایات میں مرد اور عورت، نیز مسلمان اور غیر مسلمان کے کامل دیت کی مقدار میں فرق ہے البتہ بعض فقہاء اس فرق کے مخالف ہیں اور تمام انسانوں کا دیہ مساوی اور برابر ہونے کے قائل ہیں۔ ایرانی فوجداری قانون (قانون مجازات اسلامی) کی آخری ترمیم کے مطابق مرد اور عورت کی دیت میں فرق کو پورا کرنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے گئے ہیں اور بعض ممالک میں ہر سال وہاں کی عدلیہ انسان کے دیت کی مقدار کو معین اور اعلان کرتی ہے۔

تعریف

اسلامی نکتہ نظر میں اگر کسی نے اپنے جیسے انسان کو قتل کیا یا اس کے کسی عضو کو کاٹا یا اسے ناکارہ بنادیا یا مجروح کیا تو وہ خود یا اس کے وارث مال کی ایک خاص مقدار اسے ادا کریں گے اور اس مال کو دیت کہا جاتا ہے۔[1]اسلامی منابع اور فقہی متون میں ہر قسم کے زخم اور چوٹ کے لیے دیت معین ہے اور اگر کہیں دیت کی مقدار بیان نہ ہوئی ہو تو جس شخص پر چوٹ آئی ہے اس کو ارش کے عنوان سے کچھ مال دیا جائے گا۔ [2]

اگر کوئی عضو پر ظاہری طور سے کوئی نقص نہیں آیا ہے لیکن اس کی منفعت اور کارآمدی ختم ہوچکی ہے تو ایسے نقص میں بھی دیت لگ جاتی ہے۔ جیسا کہ اگر کسی کی سونگھنے اور سماعت کی حس ختم ہوجائے۔[3]

دیت حقیقت میں غیر عمدی یا خطایی قتل اور جراحتوں کے تاوان کو پورا کرتی ہے لیکن اگر جرم عمدی ہو تو بھی جس شخص پر یہ جرم واقع ہوئی ہے وہ قصاص‌کرنے (اسی جیسے عمل کا مرتکب ہونا) کے بجائے دیت لے سکتا ہے۔ [4]

دیت کی آیت

قرآن مجید سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں دیت کے بارے میں اشارہ ہوا ہے اور یہ آیت دیت سے بھی مشہور ہے۔ « اور کسی مومن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کردے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر مقتول ایسی قوم سے ہے جو تمہاری دشمن ہے اور(اتفاق سے) خود مومن ہے تو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا اور اگر ایسی قوم کا فرد ہے جس کا تم سے معاہدہ ہے تو اس کے اہل کو دیت دینا پڑے گی اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا اور غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے یہی اللہ کی طرف سے توبہ کا راستہ ہے اور اللہ سب کی نیتوں سے باخبر ہے اور اپنے احکام میں صاحب حکمت بھی ہے۔» [یادداشت 1]

دیت کی اقسام

انسان پر آنے والی چوٹوں کے پیش نظر دیت کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جان کی دیت، اعضاء کی دیت اور منافع کی دیت۔ دوسروں پر وارد کی جانے والی چوٹ اور عمل کی بھی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

  • عمد: جان بوجھ کر کسی پر کوئی چوٹ لگائے تو اسلامی قوانین میں ستم دیدہ شخص کو قصاص کرنے کا حق پہنچتا ہے لیکن قصاص کئے دیت بھی لے سکتا ہے۔
  • شبہ عمد: مجرم اس کام کا قصد کیا ہے جس سے جنایت واقع ہوئی ہے لیکن جرم اور جنایت کا قصد نہیں کیا ہے۔ مثلا کسی کو ادب سکھانے کی قصد سے مارے اور اسی سبب وہ شخص مر جائے۔ تو یہاں پر مارنے کا قصد کیا تھا لیکن قتل کا قصد نہیں تھا۔
  • خطاء محض: نہ جرم کا قصد کیا ہے اور نہ ہی اس کام کا قصد کیا تھا جس سے جرم واقع ہوئی ہے مثلا شکار کی قصد سے فائر کیا تھا اور وہ گولی کسی انسان کو لگی اور مرگیا۔ [5]

نفس یا جان کی دیت

اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر (عمداً) مارا جائے تو قاتل قصاص ہوگا[6]مگر یہ کہ مقتول کے وارث اور اولیاء دم(خوان خواہان) دیہ پر راضی ہوجائیں۔[7] اس صورت میں اور قتل شبہ عمد یا خطاء محض ہونے کی صورت میں جان کی دیت مندرجہ ذیل موارد میں ایک ہے اور قاتل ان میں سے جو بھی چاہے دیت کے طور پر دے سکتا ہے۔[8]

  • سو ایسے اونٹ جن کی عمر پانچ سال پوری ہو؛
  • دو سو صحیح اور متعارف گائے؛
  • ایک ہزار گوسفند جو صحیح سالم ہو؛
  • دو سو حُلّہ جو بُرد یمانی کے دو کپڑوں پر مشتمل ہے؛
  • ایک ہزار دینار (ایک ہزار مثقال سکہ دار سونا)؛
  • دس ہزار درہم (دس ہزار مثقال سکہ چاندی)۔[9]

قتل عمد میں دیت ادا کرنے کی مدت ایک سال ہے جو قاتل کے مال سے ادا کی جاتی ہے۔[10]قتل شبہ عمد کی دیت بھی مذکورہ امور میں سے ہی ایک ہے صرف فرق اتنا ہے کہ اونٹ کی عمر میں کچھ تخفیف ہے اور ادا کرنے کی مدت بھی دو سال ہے جو قاتل کے مال سے ادا ہوتی ہے۔[11]قتل خطاء محض کی دیت بھی مندرجہ بالا امور میں سے ہی ایک ہے صرف اونٹ کی عمر میں کچھ تخفیف کے ساتھ ساتھ ادا کرنے کی مدت بھی تین سال ہے[12] جسے عاقلہ[13] اپنے مال سے ادا کرے گی اور قاتل سے کوئی چیز نہیں لینگے۔[14]

جنین کو ضایع کرنے کی صورت میں بھی انسان کی دیت واجب ہوتی ہے جو جنین کے جسمی تکاملی حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔[یادداشت 2][15] اور اگر عورت خود بچے کا سقط کرائے تو اس طفل کی دیت اس کے وارث کو ادا کرے۔[16]

اعضا کی دیت

فقہ اسلامی کے ایک کلی قاعدہ کے مطابق انسانی بدن کے اصلی اعضا جو ایک ہیں جیسے زبان، تو ان کی دیت کامل ہے لیکن جو اعضا دو ہیں جیسے کان، آنکھ وغیرہ تو اگر دونوں پر آسیب پہنچے تو دیت کامل ہوگی لیکن اگر ایک عضو پر آسیب آجائے تو نصف دیت ثابت ہوگی۔[17] صرف بیضتین اور دونوں لبوں کی دیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[یادداشت 3][18]

بعض وہ اعضاء جن کی دیت کامل ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • کمر کو اس طرح سے توڑنا کہ شخص بیٹھ نہ سکے؛‌[19]
  • تمام دانتوں کو نابود کرنا؛[20]
  • دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کی ساری انگلیوں کو کاٹنا؛[21]
  • ریڑھ کی ہڈی کا مغز کاٹنا؛[22]
  • ہنسلی کی دونوں ہڈیوں(گردن کے نیچے اور سینے کے اوپر کی دونوں ہڈیاں جو شانے سے ملی ہیں) کو توڑنا؛[23]
  • سر یا داڑھی کے بال کو اس طرح سے نوچنا کہ دوبارہ بال نہ آگ سکیں اور احتیاط واجب کی بنا پر چاروں پلکوں کے بال نوچے اور دوبارہ سے نہ اگیں۔[24]
  • گردن کو اس طرح سے توڑنا کہ خم ہوجائے اور قد کوتاہ ہوجائے۔[25]
  • عورتوں کا سینہ یا پستان: ان دونوں کو نقصان پہنچائے تو عورت کی کامل دیت (مرد کی دیت کا نصف) ثابت ہوگی لیکن ہر ایک کے لیے نصف دیہ۔[26]
  • مرد کی دونوں بیضے:[27]
  • مرد کا آلت تناسل اور عورت کی شرمگاہ کے اطراف کا گوشت۔[28] اگر کسی عورت کا افضاء ہوجائے یعنی خون حیض کی نالی اور پیشاب کی نالی ایک ہوجائے؛ تو اس صورت میں فقہا نے کامل دیت کا حکم دیا ہے۔[29]

منافع کی دیت

اسلامی فقہ میں انسانی جسم کے بعض منافع اور کارآمدی کو نقصان پہنچانے کی بھی دیت معین ہوئی ہے جیسے، سوچنے کی صلاحیت ختم کرنا، یا سماعت، بصارت وغیرہ کو لطمہ پہنچائے اگرچہ عضو سالم ہو تو بھی دیت معین ہوئی ہے۔

شیعہ فقہ کے منابع کے مطابق بعض منافع مندرجہ ذیل ہیں:

  • ذائقہ کی صلاحیت: امامیہ فقہا کے مطابق ذائقہ کی صلاحیت ختم کرنے کی کامل دیت ہے۔[30] بعض نے چبانے کی صلاحیت ختم کرنے پر بھی کامل دیت کا حکم دیا ہے۔[31]لیکن اکثر فقہا ایسی آسیب اور نقصانات کے لیے ارش کے قائل ہوئے ہیں۔[32]
  • آواز: آواز پر لطمہ وارد کرنے کی بھی کامل دیت ہے[33]اور اگر آواز کے علاوہ زبان کی حرکت بھی ختم ہوجائے تو زبان کی دیت کا دو تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔[34]
  • جنسی انزال: اگر کسی کی جنسی رابطہ اور انزال کی طاقت کو ختم کرے تو اس پر بھی کامل دیت ثابت ہوگی۔[35]
  • بول کو کنٹرول نہ کرسکنا: اگر ایسا لطمہ وارد کرے جس سے بول روک نہ سکے تو اس پر بھی کامل دیت ثابت ہوگی۔[36]

دیت زیادہ ہونے کے موارد

فقہ اسلامی کے مطابق اگر قتل بعض خاص شرائط میں واقع ہوجائے تو اس کی دیت اصل مقدار سے زیادہ ہوگی اور اس حکم کو تغلیظ دیہ کہا جاتا ہے۔ اضافہ ہونے والی مقدار کامل دیت کا ایک تہائی حصہ ہے یعنی قاتل ان خاص شرائط میں ایک کامل دیت کے علاوہ کامل دیت کی مقدار کا ایک تہائی حصہ بھی اس پر اضافہ ہوگا۔ یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

عاقلہ

اسلامی منابع کے مطابق خطاء محض کی جنایات میں دیت عاقلہ پر واجب ہوتی ہے۔[38]عاقلہ ایک فقہی اصطلاح ہے جو مندرجہ ذیل افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے:

  • باپ کی طرف سے رشتہ دار مرد جیسے بھائی، چچا اور ان کی اولاد جنہیں فقہ کی اصطلاح میں عصبہ کہا جاتا ہے۔[39]
  • معتِق یا آزاد کرنے والا[40]: معتق اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے کسی غلام کو آزاد کیا ہے۔[41]آزاد شدہ غلام کا اگر کوئی باپ کی طرف سے رشتہ دار نہ ہو تو اس صورت میں آزاد کرنے والا ہی اس کا عاقلہ شمار ہوگا۔[42]
  • ضامن جریرہ:[43]وہ شخص ہے جو فریق دوم سے معاہدہ کرتا ہے کہ فریق دوم سے ارث لینے کے بدلے ان کی جنایات کی خسارت ادا کرے گا۔[44]
  • امام معصوم۔[45]

عورت کی دیت

عورت کی دیت مرد کی دیت کے نصف برابر ہونے پر تمام شیعہ فقہاء متفق ہیں اور شیخ طوسی اپنی کتاب الخلاف فی الاحکام میں عورت کی دیت مرد کے نصف دیہ کے برابر ہونے میں تمام شیعہ فقہا اور تمام مذاہب اسلامی کے علما کے درمیان اجماعی قرار دیا ہے اور صرف اہل سنت کے دو علما بنام ابن عُلیۃ اور أَصَم کو اس نظرئے کے مخالف کے طور پر ذکر کیا ہے۔[46]

اعضاء کی دیت مرد اور عورت کی برابر ہے مگر یہ کہ جب مرد کی دیت کے ایک تہائی حصے تک پہنچے تو اس سے زیادہ میں عورت کی دیت پھر سے مرد کے نصف ہوجاتی ہے۔[47]

غیر مسلم کی دیت

شیعہ فقہی منابع کے مطابق غیر مسلمان مرد یہودی، مسیحی یا زرتشتی جنہیں فقہ کی اصطلاح میں اہل ذمہ کہا جاتا ہے ان کی دیت 800 درہم اور ان کی عورت کی دیت 400 درہم ہیں۔[48]فقہاء کی نظر میں وہ غیر مسلم جو اہل ذمہ نہیں ہیں ان کی دیت واجب نہیں ہے۔[49]

جدید نظرئے

بعض نے قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے عورت اور مرد کی دیت کو برابر قرار دیا ہے؛ اور دیت میں فرق ہونے پر اشکال کیا ہے۔[50] اس فرق پر کچھ اشکالات وارد ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ عورت اور مرد کی دیت میں فرق اللہ تعالی کی عدالت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس اشکال کا تفصیلی جواب بھی دیا ہے۔[51]

بعض متاخر فقہا نے مرد اور عورت نیز مسلمان اور کافر کی دیت برابر قرار دیا ہے اور آیہ دیت اور ان روایات سے استناد کرتے ہوئے جو خود دیت اور اس کے وجوب کے بارے میں معصومین سے نقل ہوئی ہیں، کہا ہے کہ ان مستندات میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔[52]

بعض محققوں نے ان اشکالات کا جواب دیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ دیت انسان کی جان کی قیمت نہیں ہے تاکہ کوئی یہ کہہ سکے کہ دیت میں فرق سے عورت کی معنوی اور اجتماعی منزلت میں کوئی فرق آجائے۔ ان کے مطابق دیت مقتول کے اہل و عیال کے لیے نقصان کا ایک تاوان دینا ہے کیونکہ مرد اکثر و بیشتر گھر کا سرپرست ہوتا ہے اور اقتصادی بوجھ اس کے کاندھے پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مرد کے فقدان کا نقصان عورت کے فقدان سے کہیں زیادہ ہے۔[53]

مربوط مطالب

نوٹ

  1. وَ ما کانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ یقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَأً وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ دِیةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی أَهْلِهِ إِلاَّ أَنْ یصَّدَّقُوا فَإِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ إِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ بَینَکُمْ وَ بَینَهُمْ مِیثاقٌ فَدِیةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی أَهْلِهِ وَ تَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ یجِدْ فَصِیامُ شَهْرَینِ مُتَتابِعَینِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَ کانَ اللَّهُ عَلِیماً حَکِیما.
    • نطفہ: ۲۰ دینار (20 مثقال سکہ دار سونا)۔
    • عَلَقہ (جما ہوا خون): 40 دینار۔
    • مُضغہ (گوشت کا لوتھڑا): 60 دینار۔
    • ہڈی: 80 دینار۔
    • روح آنے سے پہلے کی گوشت کے ساتھ ہڈی والا: 100 دینار۔
    • روح آ چکی ہو: بیٹے کے لیے 1000 دینار اور بیٹی کے لیے 500 دینار۔
  2. بعض فقہا کی نظر کے مطابق بایاں بیضہ اور نچلے ہونٹ کی دیت پوری دیت کا ایک تہائی حصہ ہے اور دایاں بیضہ اور اوپر والے ہونٹ کی دیت کامل دیت کا ایک تہائی حصہ ہے۔

حوالہ جات

  1. ہاشمی‌شاہرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۱
  2. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۴۴؛ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۱۶۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۷۰
  3. هاشمی‌شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۱-۶۷۲
  4. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیله، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴
  5. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۴ش، ص۶۷۲
  6. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۷۶۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۲، ص۱۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۰۸.
  7. محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴.ِ
  8. شہید ثانی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۸۷؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۴.
  9. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۸؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۴؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۷۷-۴۸۸؛امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۴.ِ
  10. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۷۷-۴۸۸؛ محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۲۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۵.
  11. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۹؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۸۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۶-۵۵۷.
  12. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.
  13. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۲۹.
  14. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۲۵.
  15. شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۰۹؛ حر عاملی، الفصول‌المہمۃ فی‌ الاصول‌الائمۃ، ۱۳۷۶ق، ج۲، ص۵۳۴-۵۳۵؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۷.
  16. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۸.
  17. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۷۵۴.
  18. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۷۵۵؛ ہاشمی‌شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۶۷۴.
  19. شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۱۱.
  20. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۴۹.
  21. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۸۰.
  22. محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ۱۴۰۸، ج۴، ص۲۵۱.
  23. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۸۶.
  24. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۷۰.
  25. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۲۴۳.
  26. شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۵۱۱؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۵۱.
  27. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۱۴.
  28. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۲۵۲.
  29. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۱۴۹.
  30. علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
  31. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۶۸۹؛ علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
  32. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۳۱۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۲.
  33. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۳.
  34. علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۶۱۲.
  35. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع‌الفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۲۷.
  36. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع‌الفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۲۷.
  37. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۷۴۳-۷۴۴؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۹۱؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۷.
  38. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۸.
  39. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۹.
  40. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۹.
  41. مروج، اصطلاحات فقہی، ۱۳۷۹ش، ص۳۲۰.
  42. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۵۴۶.
  43. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۹.
  44. مروج، اصطلاحات فقہی، ۱۳۷۹ش، ص۳۲۰.
  45. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۹۹.
  46. طوسی، الخلاف، موسسہ نشر اسلامی، ج۵، ص۲۵۴.
  47. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۳، ص۳۵۲؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۹.
  48. شہید ثانی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج۴، ص۴۹۳.
  49. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۵۵۹.
  50. صانعی،مساواۃ الدیۃ بین الرجل والمرأۃ و المسلم و الکافر، ۱۴۲۷ق، ص۲۹-۳۲.
  51. مراجعہ کریں: سبحانی تبریزی، رسائل و مقالات، موسسہ امام صادق، ج۴، ص۳۱-۳۵.
  52. صانعی،مساواۃ الدیۃ بین الرجل والمرأۃ والمسلم و الکافر، ۱۴۲۷ق، ص۲۱-۲۹.
  53. سبحانی تبریزی، رسائل و مقالات، موسسہ امام صادق، ج۴، ص۳۵.

مآخذ

  • امام خمینی، روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، قم، دارالعلم، ۱۳۷۹ش.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، الفصول‌المہمۃ فی‌ الاصول‌الائمۃ، محقق: محمد قائنی، قم، موسسہ معارف اسلامی امام رضا(ع)، ۱۳۷۶ق.
  • سبحانی تبریزی، جعفر، رسایل و مقالات، قم، موسسہ امام صادق، بی‌تا.
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، بی‌تا.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، پیام امام ہادی(ع)، ۱۴۱۵ق.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۰ق.
  • صانعی، یوسف، مساواۃ الدیۃ بین الرجل و المرأۃ والمسلم و الکافر، قم، میثم تمار، ۱۴۲۷ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، موسسہ نشر اسلامی، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیۃ، محقق: محمدباقر بہبودی، تہران، مکتبۃ المرتضویہ، ۱۳۸۷ق.
  • عباسی، عاطفہ، «نقد و بررسی نابرابری دیہ زن و مرد در نظام حقوقی جمہوری اسلامی ایران»، در: پژوہش‌نامہ زنان، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، سال ہشتم، شمارہ دوم، تابستان ۱۳۹۶ش.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، محقق: ابراہیم بہادری، مصحح: جعفر سبحانی، قم، موسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۷۸ق.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۹ق.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، محقق: عبدالحسین بقال، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق.
  • مروج، حسین، اصطلاحات فقہی، قم، نشر بخشایش، ۱۳۷۹ش.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، محقق: ابراہیم سلطانی‌نسب، بیروت، دار الاحیاءالتراث‌العربی، ۱۳۶۲ق.
  • ہاشمی‌شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ، قم، موسسہ دایرۃ‌المعارف اسلامی، ۱۳۹۴ش.