تعدد ازواج

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

تعدد ازواج کا مطلب يہ ہے کہ ايک مرد کی کئى بيوياں ہوں۔ اسلام سے پہلے تعدد ازواج کا جو رواج تھا اسلام نے اسى کى تائيد کى ہے اور آیات، معتبر روایات اور سیره قطعی متشرعہ کے مطابق اس حکم ميں تمام اسلامى مذاہب متفق ہيں۔ بہت سارے انسانى معاشروں ميں کئى شاديوں کا رواج تھا اور ہے، اسلام سے پہلے تمام آسمانى اديان ميں بھی يہ ايک جائز کام تھا۔ تعدد ازواج کے جواز پر سب سے اہم دليل سورہ نساء کى تيسرى آيت ہے جس ميں زيادہ سے زيادہ 4 شاديوں کى اجازت دى گئی ہے ليکن بیویوں کے درميان عدالت کى رعايت کى شرط کے ساتھ۔

اسلام ميں شرائط کے ساتھ تعدد ازواج کا مباح ہونا انسان کی فردى اور اجتماعى مصلحت، انسان کى فطرت، جسمى اور جنسى حالت اور مرد اور عورت کى خصوصيات اور ضروريات پر مبتنى ہے۔

اس حکم پر بہت سارے اعتراضات ہوئے ہيں اور مسلمان مصنفين نے بھى اس کے جواب ميں بہت ساري کتابيں رقم کى ہيں۔

تعریف

تعدد ازواج (polygamy) یا کثير الازواج، لغت ميں ايک مرد کا ايک ہى وقت ميں کئى شادياں کرنا ہے اور حقوق، عرف اور سنت کى نظر ميں یہ ايک قانونى عمل ہے جو بعض انسانى معاشروں ميں پایا جاتا تھا اور ہے۔[1]

شہید مطہری کا کہنا ہے کہ ايک بيوى شادی شدہ زندگى کى اصلى حالت ہے۔ ايک ہمسرى ميں روح کسى ايک کے ساتھ خاص ہے يعنى فردى مالکيت اور خصوصى مالکيت حاکم ہے۔ اگرچہ مالکيت خصوصى سے کچھ مختلف ہے۔ ايک ہمسرى (monogamy) ميں مياں بيوى ايک دوسرے کے عاطفي احساسات اور جنسى منافع کو اپنا اور صرف اپنے لئے سمجھتے ہيں۔[2]

تاريخى پس منظر

گزشتہ انسانى معاشروں ميں تعدد ازواج کى رسم پائى جاتى تھى۔[3] تعدد ازواج قديم ایران، چین، ہندوستان اور مصر کى تہذيب ميں رائج تھا [4] اور اسلام سے پہلے بھى تمام آسمانى اديان ميں ايک جائز کام شمار ہوتا تھا۔[حوالہ درکار]


بايبل ميں

توریت ميں ايک عبارت ہے جو تعدد ازواج کے جائز ہونے پر دلالت کرتى ہے؛ جيسا کہ بعض پیغمبروں اور شخصيات کى حالات زندگي ميں بھى ان کى کئى بيويوں کا ذکر ہوا ہے۔[5] يہودى آئين ميں بيويوں کى تعداد ميں کسى قسم کى محدوديت کے بغير کئى بيويوں کا رکھنا گيارويں صدى تک مباح تھا اور اس صدي ميں احبار نے اس سے منع کيا اور ابھى تک يہى قانون جارى ہے۔[6]

انجیل، ميں تعدد ازواج کے جائز یا حرام ہونے کے بارے ميں کوئى واضح بيان نہيں ہے، ليکن تاريخى شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مسیحی بادشاہوں کى کئى بيوياں تھيں،[7] اگرچہ آخرى صدى ميں کلیسا نے تعدد ازواج کو حرام قرار ديا ہے اور بعض نے ايک بیوی کے سيسٹم کو مسيحيت کے خصوصيات ميں شمار کيا ہے۔[8]

عصر جديد

آج کل دنيا کے اکثر علاقوں ميں تعدد ازواج ايک اصل اور قاعدہ کے طور پر جانا جاتا ہے اور بعض ماہرين کى تحقيقات کے مطابق 67 فى صد انسانى معاشرے ميں تعدد ازواج رائج ہے۔[9]

اسلام ميں تعدد ازواج

اسلام ميں تعدد ازواج اجتہادى دليل، کتاب، سنّت، اسلامى مذاہب کے فقہاء کے اجماع اور مسلمانوں کى سيرت کى وجہ سے مورد قبول واقع ہوا ہے۔[10] قرآن کریم کى بعض آیتوں ميں تعدد ازواج کى طرف اشارہ ہوا ہے [11] ان ميں سے سب سے اہم سورہ نساء کى تيسرى آيت ہے اور مفسروں کى مشہور نظر کے مطابق اس آيت کا مفہوم تعدد ازواج ميں چار بيويوں تک کو شرائط کى رعايت کے ساتھ جائز ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[12] شیعہ اور سنى منابع ميں متعدد احادیث اس بارے ميں ذکر ہوئى ہيں۔[13]

جواز پر مجتہدوں کى دليليں

فقہاء کے کلام اور فقہ کے ابتدائى منابع ميں پانچويں صدي تک تعدد ازواج کا حکم صرف فتوا کى شکل ميں بيان ہوا ہے اور اس کے جائز ہونے اور چار سے زيادہ بيويوں کا حرام ہونے پر کوئي استدلال ذکر نہيں ہوا ہے۔[14] پہلي مرتبہ شیخ طوسی نے (پانچويں صدي) ميں اپنى کتاب خلاف ميں نکاح کى بحث ميں اس کے استدلال ميں اجماع اور روايات سے استناد کيا ہے اور سورہ نساء کي تيسرى آيت کے اس حکم پر دلالت کرنے کو درست نہيں سمجھا ہے اور ان کے بعد سے علامہ حلی تک کسى بھى فقہى کتاب ميں اس کے علاوہ کوئى اور دليل اس حکم کے استدلال ميں ذکر نہيں ہوئی ہے اور علامہ حلى نے اجماع و سنت کے علاوہ سورہ نساء کى تيسرى آيت سے بھي استناد کيا ہے [15]: فَانکحُوا مَا طَابَ لَکم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَیٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ[نساء؟] یعنی اللہ تعالى مسلمان مردوں سے مخاطب ہے اور انہيں کئى بيويوں کو انتخاب کرنے کى اجازت ديتا ہے ليکن اس شرط کے ساتھ کہ اپنى بيويوں کے درميان عدالت قائم کر سکے۔[16]علامہ حلی کے بعد شہید ثانی، محقق کرکی اور دوسرے فقہاء نے بھى ان دلائل سے استناد کيا ہے۔[17]

فقہاء نے تعدد ازواج کے جواز پر اسى آيت اور ان روایات پر جن ميں چار سے زيادہ بيويوں سے شادى کو ناجائز قرار نہیں ديا ہے، تمسک کرتے ہوئے تعدد ازواج کے جواز کو ثابت کيا ہے۔[18] اس کے علاوہ، فقہاء اور مفسروں نے چار بيويوں سے شادى کرنے کے جواز کے ليے اس آيت کو سب سے اہم دليل قرار ديا ہے۔[19]

فردی اور اجتماعی مصلحت

اسلام ميں شرائط کے ساتھ تعدد ازواج کا جائز ہونا انسان کى فردى اور اجتماعى مصلحت، انسان کى طبيعت، جسمى اور جنسى حالت اور مرد اور عورت کى خصوصيات اور ضروريات پر مبتنى ہے۔ چونکہ تعدد ازواج گزشتہ تمام امتوں ميں پایا جاتا تھا، اکثر مفکرين نے تعدد ازواج کے فلسفے ميں مختلف عوامل؛ جيسے جغرافيايى حالات، آب و ہوا، اقتصادى حالات اور مرد اور عورت کى جسمانى حالات کو شمار کيا ہے اور عورت کى ماہوار بيمارى اور اس حالت ميں مرد کى خواہشات پورى کرنے کے ليے تيار نہ ہونا، عقيم ہونا اور يائسہ ہونے کو دوسرى بيوى انتخاب کرنے کا سبب سمجھتے ہيں۔[20] ليکن مردوں کے لئے کئى بيوياں انتخاب کرنے کى زيادہ تاکيد اس وجہ سے ہے کہ جنگوں اور مختلف حادثات ميں مرد زيادہ مرتے ہيں اور عورتيں مردوں کى نسبت بيماريوں کے مقابلے ميں زيادہ مضبوط ہيں۔[21]

تعدد ازواج کے شرائط

تعدد ازواج کے لئے مختلف اديان ميں مختلف شرائط ہيں، جيسے: مرد کے پاس مالى توانائى ہو، پہلى بيوى بانجھ يا پاگل ہو اور يہودى تعليمات ميں بيويوں کے درميان [[عدالت] قائم کرنا۔[22]

مسلمان فقہاء نے بھى آیات اور روایات کے مطابق تعدد ازواج کے لئے کچھ شرائط بيان کی ہیں۔

  • عدالت

عدالت کے بارے ميں تمام اسلامى مذاہب کے فقہاء کا اتفاق نظر ہے اور سورہ نساء کى تيسرى آيت سے اس حکم کو استنباط کيا ہے۔ اور سانچہ:متن قرآن کے مطابق مفسروں اور فقہاء نے اس بات کى تصريح کى ہے کہ شادى کے احکام کى بنياد عدالت اور دوسروں کے حقوق کى رعايت پر قائم ہے۔[23]

شیعہ و سنّی مفسروں نے اس آیت ميں عدالت سے مراد انسان کے اختيارى رفتار سے مربوط امور جيسے ہمبسترى، روز مرہ کى ضروريات فراہم کرنے اور نفقہ دينے ميں عدالت کى رعايت ذکر کئے ہیں۔[24]

  • بيوى کى رضایت

کسى بھى فقہى منبع ميں، دوبارہ سے شادى کرنے کيلئے پہلى بيوى يا بيويوں کى رضايت کى شرط ذکر نہيں ہوئى ہے۔ اور فقہاء نے بھي تعدد ازواج کے جواز پر موجود دليل کے اطلاق کو مدنظر رکھ کر بعض خاص موارد کے علاوہ (جيسے؛ بيوى کي بھانجى يا بھتيجى سے شادى کرنا،) دوسرى شادى کو بيوى کي رضايت سے مشروط نہيں کيا ہے۔ البتہ بعض روايات[25] کے مطابق بيوى کى بھتيجى يا بہنجى سے شادى کرنے کے لئے بيوى کى اجازت شرط ہے۔[26] فقہاء کى نظر کے مطابق اگر بيوى عقد ميں يہ شرط کرے کہ اگر شوہر دوسرى شادى کرے تو بيوى شوہر کى طرف سے وکيل بن کر خود کو طلاق دے سکے، تو اس اختيار سے استفادہ کر سکتى ہے۔[27] اسى طرح اگر دوسرى شادى، پہلى بيوى کے لئے شديد ذہنى اور روحى مشکلات کا باعث بنے اور موجودہ حالت ميں زندگى بسر کرنا عسر و حرج کا سبب بنے اور مشترک زندگى مشقت اور سخت ہو اور قابل تحمل ہو تو ايسى صورت ميں حاکم شرع کى طرف رجوع کر کے طلاق کا مطالبہ کر سکتى ہے۔[28]

  • مرد کى مالى اور جنسى توانائى

دوسرى شادى کے لئے اگرچہ حديثى يا فقہى متون ميں مرد کيلئے نفقہ دينے کى مالى توانائى يا بيويوں کو جنسى طور پر ارضاء کرنے کيلئے جنسى توانائى کى شرط ذکر نہيں ہوئى ہے۔ ليکن اگر مرد دو ميں سے کسى ايک کى نسبت ناتوان ہو اور يہ ناتوانى بيويوں کے لئے عسر و حرج کا باعث بنے تو ايسى صورت ميں دوسرى شادى بعض فقہاء نے مکروہ اور بعض نے حرام قرار دی ہے۔[29]

اور اہل سنت کے بعض معاصر فقہاء نے مرد کى مالى اور جنسى توانائى کو دوسرى شادى کے ليے شرط قرار ديا ہے، ليکن يہ حکم ان کے نزديک ايک حکم تکلیفی ہے اور عقد باطل نہيں ہوتا ہے۔ اگر بيويوں ميں سے کسى ايک کے لئے مرد کى يہ ناتوانى عسر و حرج کا باعث بنے تو وہ کسى صالح عدالت سے طلاق کے لئے رجوع کر سکتى ہے۔[30]

تعدد ازواج کے آثار اور احکام

حقوقى حوالے سے تعدد ازواج کے خاص احکام اور آثار ہيں جن کى وجہ سے مياں بيوى کے حقوق متاثر ہوتے ہيں اور اس بيوى کے حقوق سے مختلف ہيں جو مرد کى اکيلى بيوى ہے۔

ساتھ سونے کا حق

تفصیلی مضمون: حق قسم

بيوى کے حقوق ميں سے ايک شوہر کے ساتھ سونا ہے۔ اگر مرد کى کئى بيوياں ہوں تو يہ حق سب کے درميان تقسيم ہوتا ہے۔ فقہى اصطلاح ميں اس حق کو حق قَسم کہا جاتا ہے، جس کا معنى يہ ہے کہ شوہر اپنى راتوں کو تمام بيویوں کے لئے تقسيم کرے۔[31]

امامیہ اور اہل سنت فقہاء تقسيم کے وجوب ميں سب کى ايک نظر ہے۔ شیخ مفید وہ پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے کتاب نکاح ميں ايک باب، قسم (تقسيم) ذکر کيا ہے [32] اور اس بارے ميں بہت سارى روایات بھى موجود ہيں۔[33]

بيويوں کا ارث

تفصیلی مضمون: بيوى کا ارث

اگر شوہر کى کوئى اولاد نہ ہو تو دائمى بيوى کے لئے ترکہ کا ايک چوتھائى حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو ترکہ کا آٹھواں حصہ بيوى کو ملے گا اور اگر کئى بيوياں ہوں تو بھى يہى آٹھواں حصہ ہے اور اس سے زيادہ نہيں ہوگا اور وہى آٹھواں حصہ سب کے درميان برابر تقسيم ہوگا۔[34]

پانچويں بيوى کا حرام ہونا

دائمى نکاح ميں ايک ساتھ پانچويں شادى کے حرام ہونے ميں تمام اسلامى مذاہب کا اتفاق ہے۔[35] اس حکم کى اصلى دلیل سورہ نساء کى تيسرى آيہ اور بعض روايات ہيں جو شيعہ اور سنى احاديث کى کتابوں ميں آئى ہيں؛[36] [یادداشت 1]

يہ حکم اماميہ فقہاء کے مشہور نظریے کے مطابق دائمى بيويوں سے خاص ہے ليکن انقطاعى نکاح ميں تعداد کى کوئى محدوديت نہيں ہے۔[39]

ازواج کى کثرت پر اشکال

بيويوں کى کثرت عورت کے حقوق کے منافى

مرد اور عورت انسانيت ميں جب دونوں برابر ہيں تو ازواج کى کثرت مرد اور عورت کے حقوق ميں برابرى کے منافى ہے اور يہ ان اعتراضات ميں سے ايک ہے جو تعدد ازواج کے جواز پر کيا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تعدد ازواج کا جواز مرد کى خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ جبکہ اس اعتراض کے جواب ميں کہا گيا ہے کہ تعدد ازواج کا جائز ہونا فردى اور معاشرتى مصلحتوں کے پيش نظر ہے بلکہ بعض دفعہ تو عورت کے حقوق مرد کے دوسرى شادى کرنے کى صورت ميں ہى حاصل ہوتے ہيں۔[40] اس کے علاوہ، اسلام ميں عورت کے انسانى حقوق کى رعايت اور خاص کر بيويوں کے مابين عدالت کى رعايت پر بھى تاکيد ہوئى ہے۔

ازواج کى کثرت، شہوت پرستى کى ترويج

ان اعتراضات ميں سے اہم اعترااض يہ ہے کہ تعدد ازواج کے لبادے ميں شہوت پرستى کي ترويج ہوتى ہے۔ اور بہت سارے ناقدین نے اس اشکال کے لئے مسلمان خلفاء اور سلاطين کے حرمسراوں کى مثال پيش کى ہے۔ مسلمان محققين نے بھى اس کے جواب ميں کہا ہے کہ جتنى شرائط اسلام نے تعدد ازواج کے لئے بيان کی ہیں ان سے مرد کى ہوسرانى بہت محدود ہوتى ہے۔

اس کے علاوہ کسى ايک شخص کے کام کو اسلام کى طرف نسبت نہيں دی جا سکتی ہے۔[41]

نوٹ

  1. جمیل بن دراج روايت کرتے ہيں کہ امام صادق نے اس مرد کو ايک بيوى طلاق دينے کا حکم ديا جس کى پانچ بيوياں تھيں آپ نے فرمايا کہ ان ميں سے کسى ايک کو طلاق دو اور چار کو عقد ميں رکھو۔[37] اسى طرح ايک اور روايت ميں آيا ہے کہ اصحاب ميں سے ایک صحابى نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت اس کى دس بيوياں تھيں پیغمبر(ص) نے اسے بھى چار بيويوں کے علاوہ باقى بيويوں کو آزاد کرنے کا حکم ديا۔[38]

حوالہ جات

  1. عبدی‌پور، تعدد زوجات، ص۸۔
  2. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷، ج۱۹، ص۲۹۹۔
  3. دورانت، تاریخ تمدن، ۱۳۷۰ش، ص۵۔
  4. منتسکیو، روح القوانین، ۱۳۴۹ش، ص۴۳۴-۴۳۵۔
  5. فرحات، تعددالزوجات فی الادیان، ۱۴۲۲ق، ص۱۱–۱۳؛ زحیلی، وہبہ و مصطفی البغا و حنان لحام، تعدد الزوجات فی الاسلام، ۲۰۰۰م، ص۷۔
  6. لحام، تعدد الزوجات، ۱۴۲۲ق، ص۲۸۔
  7. منتسکیو، روح القوانین، ۱۳۴۹ق، ص۴۳۴؛ لحام، تعدد الزوجات، ۱۴۲۲ق، ص۲۹۔
  8. عبدالفتاح، تعدد الزوجات فی الاسلام، ۱۴۰۸ق، ص۳۵۹؛ لحام، تعدد الزوجات، ۱۴۲۲ق، ص۲۹۔
  9. دیرین، راہی بہ سوی مردم شناسی، ۱۳۶۶ش، ص۷۰۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۳۰، ص۲؛ کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۱ق، ج۱۲، ص۳۷۳؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۱۸ق، ج۵، ص۷، ۳۵؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۱۹، ص۳۰۳، ۳۵۷
  11. مراجعہ کريں: سورہ تحریم، آیہ ۱؛ سورہ احزاب، آیہ ۳۲ و ۵۰
  12. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۵۱۷؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۳ق، ج۴، ص۱۶۶-۱۶۷۔
  13. حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۳۹۸؛ بیہقی، السنن الکبری، ۱۳۷۶ق، ج۱۷، ص۱۸۱-۱۸۲۔
  14. عبدی‌پور، تعدد زوجات، ۱۳۸۸، ص۱۱۔
  15. عبدی‌پور، تعدد زوجات، ۱۳۸۸، ص۱۱۔
  16. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، ۱۴۱۸ق، ج۷، ص۸۲۔
  17. ؛ کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۱ق، ج۱۲، ص۳۷۴؛ طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ۱۴۱۲ق، ج۱۰، ص۲۱۷؛ نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۳۰، ص۳۔
  18. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۷، ص۳۴۷؛ طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ۱۴۱۲ق، ج۱۰: ص۲۱۷۔
  19. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۴۶۔
  20. اسعدی، خانوادہ و حقوق آن، ۱۳۸۷ش، ص۳۱۶–۳۲۳؛ طباطبائی، سید محمدحسین، تعدد زوجات و مقام زن در اسلام، بی‌تا، ص۴۰؛ زحیلی، وہبہ و مصطفی البغا و حنان لحام، تعدد الزوجات فی الاسلام، ۲۰۰۰م، ج۹، ص۶۶۷۰-۶۶۷۳ منقول از عبدی‌پور، ابراہیم، تعدد زوجات، ۱۳۸۸، ص۱۱۔
  21. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۱۹، ص۳۳۳-۳۳۴
  22. مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، ۱۳۷۷ش، ص۳۳۷-۳۴۱۔
  23. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۳ق، ج۴، ص۱۸۲؛ زحیلی و البغا و لحام، تعدد الزوجات فی الاسلام، ۲۰۰۰م، ص۲۵۔
  24. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۳: ص۱۱؛ مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۲۵۵۔
  25. طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۷، ص۳۳۲۔
  26. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۴۱۰ق، ج۷، ص۲۸۹؛ نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۲۹، ص۳۵۷۔
  27. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۰ش، ج۲، ص۳۰۲-۳۰۳۔
  28. مادۀ ۱۳۰ قانون مدنی ایران
  29. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۲۹: ص۳۵–۳۶؛ خویی، مبانی العروۃ الوثقی (کتاب النکاح)، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۲-۱۳۔
  30. زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۱۸ق، ج۹، ص۶۶۷۰۔
  31. محقق حلّی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲: ص۵۶۶؛ نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۳۱: ص۱۴۸۔
  32. مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۵۱۶۔
  33. مراجعہ کريں: بحرانی، الحدائق الناضرۃ، بی‌تا، ج۲۴، ص۵۸۸–۵۸۹؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج۱۵، ص۸۰۔
  34. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۰ش، ج۲، ص۳۹۶-۳۹۷۔
  35. عبدی‌پور، تعدد زوجات، ۱۳۸۸، ص۲۲۔
  36. بیہقی، السنن الکبری، ۱۳۷۶ق، ج۷، ص۱۸۱–۱۸۴؛ ابن قدامہ، عبداللہ، المغنی، ۱۴۱۶ق، ج۷، ص۴۳۶؛ حرّ عاملی، محمد بن حسن، ۱۴۰۳ق، وسائل الشیعۃ، ج۱۴، ص۳۹۹-۴۰۴۔
  37. حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۰۳۔
  38. بیہقی، السنن الکبری، ۱۳۷۶ق، ج۷، ص۱۸۱۔
  39. کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۱ق، ج۱۲، ص۳۷۹؛ شہید ثانی، زین الدین عاملی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ق، ج۷، ص۳۴۸؛ نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ۱۳۶۷ش، ج۳۰، ص۸۔
  40. مراجعہ کريں: طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۴، ص۱۸۹۱۹۰؛ مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، ۱۳۷۷ش، ص۳۴۹
  41. مراجعہ کريں: طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۴، ص۱۸۸۱۹۱؛ طباطبائی، سید محمد حسین، تعدد زوجات، بی‎تا، ص۵۵ ۵۶۔

مآخذ

  • ابن ادریس حلّی، محمد، کتاب السرائر، قم: مؤسسۀ نشر اسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • ابن براج، عبدالعزیز، المہذب، قم: نشر اسلامی، ۱۴۰۶ق۔
  • ابن حمزہ، محمد بن علی، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، قم، مکتبۃ آیت اللہ نجفی، ۱۴۰۸ق۔
  • ابن زہرہ، سید حمزہ بن علی، غنیۃ النزوع، قم: مؤسسہ امام صادق، ۱۴۱۷ق۔
  • ابن عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت: دارالفکر، [بی تا]۔
  • ابن قدامہ، عبداللہ، المغنی، بیروت: دارلکتب العربی، ۱۴۱۶ق۔
  • اسعدی، سید حسن، خانوادہ و حقوق آن، مشہد: بہ نشر، ۱۳۸۷ش۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، نجف، دارالکتب العلمیہ، ۱۳۹۰ق۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم: المؤتمر العالمی، ۱۴۱۵ق۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، [بی تا]۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، ۱۳۷۶ق۔
  • جزیری، عبدالرحمن، «السنۃ تعدد الزوجات»، مجلہ الازہر، ش۹، ۱۳۶۰ق۔
  • جزیری، عبدالرحمن، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، تحقیق: ابراہیم محمد رمضان، بیروت: شرکۃ دارالارقم بن ابی الارقم، ۱۴۲۰ق۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، تحقیق: احمد عبدالغفور العطار، بیروت: دارالعلم للملایین، ۱۴۰۷ق۔
  • حامد، ابوزید نصر، دوائر الخوف، بیروت: المرکز الثقافی العربی، [بی تا]۔
  • حبابی، محمدعزیز، «وضع المرأۃ»، مجلہ دعوۃ الحق، ش۶- ۷، ۱۳۸۸ق۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، تحقیق: ربانی شیرازی، بیروت:‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مبانی العروۃ الوثقی (کتاب النکاح)، النجف الاشرف: مدرسہ دارالعلم، ۱۴۰۴ق۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم: نشر مدینۃ العلم، ۱۴۱۰ق۔
  • دورانت ویل، تاریخ تمدن، تہران: انتشارات آموزش انقلاب اسلامی، چاپ سوم، ۱۳۷۰ش۔
  • دیرین خلیل، راہی بہ سوی مردم شناسی، شیراز:[بی نا]، چاپ اول، ۱۳۶۶ش۔
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۰ق۔
  • روحانی، سید محمد، منہاج الصالحین، کویت: مکتبۃ الالفین، ۱۴۱۴ق۔
  • زحیلی، وہبہ و مصطفی البغا و حنان لحام، تعدد الزوجات فی الاسلام، تحقیق: محمد الجش، دمشق: دارالحافظ، ۲۰۰۰م۔
  • زحیلی، وہبہ، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دمشق: دارالفکر، ۱۴۱۸ق۔
  • زیدان، جرجی، تاریخ تمدن اسلام، مترجم: علی جواہرکلام، تہران: امیرکبیر، ۱۳۸۲ش۔
  • سابق، سید، فقہ السنۃ، بیروت: دارالکتب العربی، [بی تا]۔
  • سلار بن عبدالعزیز، المراسم العلویۃ، قم:مطبعۃ امیر، ۱۴۱۴ق۔
  • سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، قم: مکتب آیت اللہ العظمی السید السیستانی، ۱۴۱۴ق۔
  • شایان مہر، علیرضا، دایرۃ المعارف تطبیقی علوم اجتماعی، انتشارات کیہان، ۱۳۷۷ش۔
  • شبیری، سید موسی، نکاح (تقریرات درس)، قم: مؤسسہ پژوہشی رأی پرداز، ۱۳۷۸ش۔
  • شہید ثانی، زین الدین عاملی، الروضۃ البہیۃ، قم، انتشارات داوری، ۱۴۱۰ق۔
  • شہید ثانی، زین الدین عاملی، مسالک الافہام، قم: مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۳ق۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم: نشر اسلامی، ۱۴۱۷ق۔
  • طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۲ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم: نشر اسلامی، ۱۳۹۳ق۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، تعدد زوجات و مقام زن در اسلام، قم: انتشارات آزادی زن، [بی تا]۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: عدہ‌ای از محققان، بیروت: مؤسسۃ الاعلمی، ۱۴۱۵ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط، تہران: المطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۷۸ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ – فی مجرد الفقہ و الفتاوی، قم: انتشارت قدس محمدی، [بی تا]۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق: سید حسن موسوی خرسان، تہران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۶۵ش۔
  • عبدالفتاح، عبدالمصنف محمود، «تعدد الزوجات فی الاسلام»، مجلہ الاسلام، ش۴، ۱۴۰۸ق۔
  • عبدہ، محمد، الاعمال الکاملۃ، تحقیق: محمد عمادہ، بیروت: دارالشروق، ۱۴۱۴ق۔
  • عبدی‌پور، ابراہیم، «تعدد زوجات»، فقہ و حقوق، سال پنجم، شمارہ ۲۰، بہار ۱۳۸۸۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام، قم: مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۹ق۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ، قم: مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۸ق۔
  • علوی نژاد، حیدر، «رویکردہای روشنفکری بہ مسئلہ زن در قرآن»، مجلہ پژوہش‌ہای قرآنی، ش۲۵، ۱۳۸۰ش۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تحقیق: مہدی مخزومی، قم: مؤسسہ دارالہجرہ، ۱۴۰۹ق۔
  • فرحات، کرم حلمی، تعددالزوجات فی الادیان،دارالآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر، ۱۴۲۲ق۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، «اسلام، زن و کنکاشی نوین»، مجلہ پیام زن، مترجم: مجید مرادی، ش۹، ۱۳۷۴ش۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت: دارالملاک للطباعۃ و النشر، ۱۴۱۹ق۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، فقہ القرآن، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی، ۱۴۰۵ق۔
  • کتاب مقدس، مترجم: فاضل خان ہمدانی، تہران: انتشارات اساطیر، ۱۳۸۰۔
  • کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم: مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۱۱ق۔
  • لحام، شاکر، تعدد الزوجات، دمشق: دارالتوفیق، ۱۴۲۲ق۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تہران: انتشارات استقلال، ۱۴۰۹ق۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، تہران: صدرا، ۱۳۷۷ش۔
  • مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم: مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، تفسیر نمونہ، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • منتسکیو، روح القوانین، مترجم: علی اکبر مہتدی، تہران: انتشارات امیر کبیر، ۱۳۴۹ش۔
  • مہریزی، مہدی، شخصیت و حقوق زن در اسلام، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۸۶۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، تحقیق: قوچانی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۷ش۔

بیرونى لينک