حد شرعی

ویکی شیعہ سے

حد شرعی اسلام میں بعض گناہوں کے لئے متعین کی گئی سزاؤں کو کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں گناہوں کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے سزاؤں کی نوعیت، مقدار اور نفاذ کا طریقہ کار بھی مختلف معین کی گئی ہیں۔ حد شرعی عموما جسمانی سزاؤں جیسے کوڑا مارنا وغیرہ کو کہا جاتا ہے۔ حد شرعی کھبی کھبار عام معنی میں استعمال ہوتی ہے اس صورت میں تعزیرات کو بھی شامل کرتی ہے لیکن حقیقت میں تعزیر ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جن کی نوعیت، مقدار اور کیفیت شریعت میں نہیں آئی بلکہ اس تعیین حاکم شرع کے صوابدید پر چھوڑا گیا ہے۔ حد شرعی کی عمدہ قسم زنا اور لواط جیسے گناہوں سے متعلق ہیں۔

حد شرعی کی تعداد میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اس بنا پر بعض ان کی تعداد 8 جبکہ بعض 16 تک بتاتے ہیں۔ حد شرعی میں معافی، مصالحت یا تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چوری اور قذف کے علاوہ باقی گناہوں میں حد شرعی حقوق اللہ میں شامل ہیں۔ فقہی کتابوں کا ایک حصہ عموما حد شرعی سے مختص ہوتے ہیں جن میں خاص سزاؤں کی تعداد، شرایط، کیفیت اور ان سے مربوط دیگر مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔

حد شرعی کا نفاذ خاص شرائط پر موقوف ہوتا ہے۔ بعض شیعہ فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ حد شرعی کا نفاذ امام معصومؑ کے مختصات میں سے ہے جبکہ دوسرے اسے معصوم سے مختص نہیں سمجھتے بلکہ امام معصوم کی غیر موجودگی میں بھی اس کے نفاذ کے قائل ہیں۔

تعریف

حد اسلام میں بعض گناہوں کے لئے متعین جسمانی سزا کو کہا جاتا ہے۔ ان سزاؤں کی مقدار اور کیفیت نفاذ بھی شریعت میں بیان کی گئی ہے۔[1] کبھی کبھار حد کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوتا ہے اس صورت میں اس لفظ میں تعزیرات بھی شامل ہوتی ہے۔[2] بعض علماء کے مطابق حد ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو شریعت میں معین اور مشخص ہوں۔[3]

خصوصیات

قصاص اور تعزیزات کے مقابلے میں حد شرعی بعض خصوصیات کی حامل ہوتی ہے:

  • نہ مصالحت کی جا سکتی ہے اور نہ اس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
  • کوئی شخص اسے معاف نہیں کر سکتا۔
  • کسی کی شفاعت یا واسطہ گری بھی قابل قبول نہیں ہوتی(سوائے قذف کے)۔
  • حد کا نفاذ امام معصوم یا ان کے جانشین کے ساتھ مختص ہے۔
  • چوری اور قذف کے علاوہ باقی حدود کا نفاذ شکایت یا دعوا دائر کرنے پر موقوف نہیں ہے۔
  • چوری اور قذ کے علاوہ باقی حدود حق‌ اللہ میں سے ہیں۔
  • نوعیت، مقدار اور نفاذ کی کیفیت شریعت میں معین اور مشخص شدہ ہیں۔[4]

اسی بنا پر اکثر شیعہ فقہاء قصاص کو بھی حدود میں شامل قرار دیتے ہیں۔[5]

حد جاری ہونے والے جرائم

حد جاری ہونے والے جرائم اور گناہوں کی تعداد کے بارے میں شیعہ فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[6] محقق حلی شرایع الاسلام میں حد جاری ہونے والے جرائم کی تعداد 6 بتاتے ہیں۔[7] شہید ثانی مسالک الافہام میں محاربہ[8] اور ارتداد[9] کو بھی ان 6 موارد پر اضافہ کرتے ہوئے ان جرائم کی تعداد 8 ذکر کرتے ہیں۔ بعض دیگر فقہاء جیسے آیت‌ اللہ خویی ان جرائم کی تعداد 16 تک بتاتے ہیں۔[10]

وہ جرائم جن پر اکثر شیعہ فقہاء حد جاری ہونے کے قائل ہیں درج ذیل ہیں:

  1. زنا: مرد اور عورت میں غیر مشروع جنسی رابطہ
  2. لواط: دو مردوں کے درمیان جنسی رابطہ
  3. مساحقہ: دو عورتوں کے درمیان جنسی رابطہ
  4. قیادت: دو اشخاص کے درمیان غیر مشروع جنسی رابطہ برقرار کرانے کے لئے واسطہ‌ بننا
  5. قذف
  6. چوری
  7. شراب‌ خوری
  8. محاربہ
  9. ارتداد
  10. تفخیذ
  11. نبوت کا دعوا کرنا
  12. پیغمبر اکرمؐ، ائمہ معصومینؑ اور حضرت فاطمہ(س) پر سب و شتم کرنا
  13. سحر اور جادو اگر ساحر مسلمان ہو تو۔

بعض جرائم پر حد کے جاری ہونے اور نہ ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور صرف بعض فقہاء ان پر حد جاری ہونے کے قائل ہیں ان جرائم میں سے بعض یہ ہیں:

  • کسی مسلمان کا اپنی آزاد بیوی سے اجازت لئے بغیر کسی كنيز یا ذمی عورت سے شادی کرنا[11]،
  • احرام کی حالت میں کسی جوان لڑکے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لینا،
  • آزاد انسانوں کی خرید و فروخت۔[12]

اقسام

مجازات جرم
قتل لواط،[13] سحر اور جادو اگر ساحر مسلمان ہو،[14] نسبی محارم کے ساتھ زنا،[15] زنا بالجبر،[16] غیر شادی شدہ شخص جس پر 3 دفعہ زنا کی حد جاری ہوئی ہو،[17] پیغمبر اسلامؐ اور اہل‌ بیتؑ پر سب و شتم کرنا،[18] نبوت کا دعوا کرنا،[19] مسلمان مرد کا مرتد ہونا۔[20]
سنگسار زنائے محصنہ[21]
کوڑے ۱۲/۵ کوڑے اس مسلمان شخص پر جس نے اپنی آزاد بیوی کی اجازت کے بغیر کسی کنیز یا ذمی عورت سے شادی کی ہو[22] غلام یا کنیز کا زنا کرنا[23] 100 کوڑے اس مسلمان غیر شادی شده مرد پر جس نے زنا کی ہو، 100 کوڑے تفخیذ [24]، مساحقہ[25] اور احرام کی حالت میں کسی لڑکے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لینا،[26] 75 کوڑے قیادت پر،[27] 80 کوڑے قذف [28] اور مست کرنے والے مشروبات پینے والے پر[29]
قطع اعضا چوری کرنے والے والے کی انگلیوں کو کاٹنا،[30] اور آزاد انسان کی خرید و فروخت[31]
جلاوطنی زنا کے بعض موارد [32] اور قوّادی۔[33]
کوڑے اور سنگسار بوڑے مرد اور عورت پر زنائے محصنہ کی صورت میں۔[34]

محاربہ

شیعہ منابع کے مطابق محارب کی سزا قتل، مصلوب، قطع عضو یا جلاوطنی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک کو معین کرنے نیز ان میں سے ہر ایک کے نفاذ کے معیار کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[35] بعض فقہاء کے مطابق حاکم شرع کو ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق حاصل ہے؛ اگرچہ بہتر ہے اس انتخاب میں حاکم شرع جرم اور سزاء کے درمیان تناسب کا لحاظ رکھا جائے۔ مثال کے طور پر اگر محارب قتل کا مرتکب ہوا ہے تو اس کی سزا بھی قتل ہے اگر صرف چوری کی ہے تو اس کی سزا قطع عضو ہے اسی طرح اگر کسی شہر میں سی رعب اور وحشت پھیلایا ہے تو اس کی سزا جلاوطنی ہے۔[36]

ثابت ہونے کے طریقے

  • اقرار:بغیر کسی مجبوری کے اپنی مرضی سے کسی جرم کے ارتکاب کا اعتراف کرنا اس جرم کے ثابت ہونے کے طریقوں میں سے ایک ہے۔[37] مختلف جرائم میں اعتراف کی کیفیت مختلف ہو سکتی ہے مثلا اکثر شیعہ فقہاء کہتے ہیں کہ زنا[38]، لواط [39] اور مساحقہ[40] کے اثبات کے لئے چار دفعہ جبکہ شراب نوشی ، قذف اور قوّاد کے لئے دو دفعہ اعتراف[41] ضرروی ہے۔
  • دو گواہوں کی گواہی: کسی شخص کے ارتکاب جرم پر دو گواہوں کی گواہی سے بھی وہ جرم متعلق شخص پر ثابت ہو جاتا ہے۔ مختلف جرائم میں گواہوں کی تعداد اور ان کی شرائط مختلف ہو سکتی ہے[42]؛ مثلا لواط اور مساحقہ کے لئے 4 عادل مردوں کی گواہی ضروری ہے [43] لیکن زنا کے اثبات کے کیلئے گواہی کی تعداد اور صنف ان موارد میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے: 4 عادل مرد یا 3 عادل مرد اور 2 خواتین یا بعض موارد میں 2 مرد اور 4 خواتین۔[44]
  • قاضی کا علم: اگر خود قاضی کو کسی جرم کے واقع ہونے کا علم ہو اور اس جرم کے مرتکب شخص کو جانتا ہو تو اس صورت میں بھی یہ جرم ثابت ہو گا اور قاضی اپنے علم کی بنا پر حکم کرے گا۔[45]

گواہی میں نقائص

اگر کسی جرم کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کی لازمی تعداد جو شریعت میں بیان کی گئی ہے، پوری نہ ہوں تو متعلقہ جرم ثابت نہیں ہوگا اور مذکورہ تعداد سے کم گواہوں پر قذف کی حد جاری ہو گی۔ فقہی منابع کے مطابق تعداد پورے ہونے کے لئے صبر نہیں کیا جائے گا۔ مثلا زنا کی اثبات کے لئے 4 عادل مردوں کی ضرورت ہوتی ہے اب اگر 3 اشخاص حاضر ہوں اور چوتھا شخص حاضر نہ ہو یا راستے میں ہو تو اس صورت میں متعلقہ شخص پر زنا ثابت نہیں ہو گا بلکہ ان 3 گواہوں پر قذف کی حد جاری ہو گی۔[46]

کیفیت نفاذ

بعض حدود کے اثبات کے مختلف طریقے ذکر کئے گئے ہیں مثلا لواط میں حکم قتل کا نفاذ مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے مثلا تلوار سے سر قلم کرنا، کسی بلند مقام سے نیچے گرانا، آگ میں جلانا، سنگسار یا دیوار گرانے کے ذریعے اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔[47]

ضغث

جن جرائم کی حد کوڑے مارنا ہے، اگر ان میں مجرم بیمار ہو تو اس کے صحت یاب ہونے تک صبر کیا جائے گا۔ اگر حد کے جلدی نفاذ میں کوئی مصلحت ہو مثلا متعلقہ شخص کی صیحت یابی کی کوئی امید نہ ہو تو اس صورت میں "ضغث" کے ذریعے اس پر حد جاری کی جائے گی۔ ضغث چھڑیوں کے گچھے کو کہا جاتا ہے جو ایک سات مجرم کے بدن پر مارا جائے گا۔[48] اس گچھے میں چھڑیوں کی تعداد ان کوڑوں کی تعداد کے برابر ہو گی جو متعلقہ جرم کے لئے شریعت میں ثابت ہیں۔ مثلا اگر اس کی حد 100 کوڑے ہوں تو یہ گچھا 100 چھڑیوں پر مشتمل ہوگا۔ اس گچھے میں موجود تمام چھڑیوں کا مجرم کے بدن پر لگنا ضروری نہیں ہے اسی طرح ان چھڑیوں کی تعداد کو ایک سے زیادہ گچھوں میں تقسیم بھی کی جا سکتی ہے۔[49]

ساقط ہونا

  • توبہ: اگر مجرم جرم ثابت ہونے سے پہلے توبہ کرے تو حد ساقط ہو گی؛ لیکن جرم ثابت ہونے کے بعد توبہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہاں اگر جرم اقرار کے ذریعے ثابت ہو گیا ہو اور بعد میں توبہ کرے تو حاکم شرع کو اختیار ہے اس پر حد جاری کرے یا اس کا توبہ قبول کر کے حد ساقط کرے۔[50] فقہا کے مطابق قذف کی حد توبہ کے ذریعے بھی ساقط نہیں ہو گی۔[51]
  • کم سنی: حد جاری ہونے کے شرائط میں سے ایک مجرم کا بالغ ہونا ہے اس بنا پر اگر کوئی نابالغ بچہ کسی جرم کا مرتکب ہو تو اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔[52]
  • جنون یا دیوانگی:حد جاری ہونے کے شرائط میں سے ایک مجرم کا عاقل ہونا بھی ہے اس بنا پر اگر کوئی پاگل کسی جرم کا مرتکب ہو تو اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔[53]

قاعدہ درء

اسلامی فقہ میں ایک قاعدہ ہے جس کے مطابق جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں شک ہو تو مذکورہ جرم کی سزا منتفی ہو گی۔[54] فقہا کی اصطلاح میں یہ قاعدے کو قاعدہ درء کے نام سے مشہور ہے اور حقوق کی اصطلاح میں اسے متہم کے حق میں تفسير کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ [55] قاعدہ درء کے بارے میں تمام شیعہ اور اہل سنت فقہاء متفق ہیں[56] اور یہ قاعدہ بہت ساری احادیث سے مستند ہے جن میں سب سے مشہور حدیث "ادرؤوا الحدود بالشبہات" ہے جو پیغمبر اسلامؐ سے منقول ہے۔ [57]

اجبار و اکراہ

اگر کوئی شخص مجبوری یا زبردستی کی بنا پر کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہو گی۔[58]

مرد کو جنسی رابطہ پر مجبور کرنا

اگر کسی مرد کو زبردستی غیر مشروع جنسی رابطہ برقرار کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو اس پر حد جاری نہیں ہو گی۔ تمام فقہا مرد کی طرف سے عورت کو زنا پر مجبور کئے جانے کو نیز اکثر فقہا عورت کی جانب سے مرد کو زنا پر مجبور کئے جانے کو ممکن قرار دیتے ہیں۔[59]۔ لیکن بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ کسی مرد کو اس کی مرضی کے خلاف جنسی رابطے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ [60]

زمانہ غیبت میں حدود کا نفاذ

شیعہ فقہ کے مطابق حدود کا نفاذ امام معصومؑ کے مختصات میں سے ہے اس بنا پر امام کی غیر موجودگی میں یہ وظیفہ کس کے ذمہ ہے؟ فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں زمانہ غیبت میں حد شرعی کے نفاذ کے بارے میں چار نظریات موجود ہیں:

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. شرعی طور پر جرم ثابت ہونے کے طریقے:۱- اپنی مرضی سے چار مرتبہ اقرار کرنے سے؛۲- چار عادل مردوں کی گواہی سے خاص شرائط کے ساتھ۔(صانعی، استفتاآت قضایی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۹۲۔)

حوالہ جات

  1. طباطبائی، ریاض المسائل، ۱۴۱۲ق، ج۱۳، ص۴۱۵۔
  2. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش،ج۳، ص۲۵۱۔
  3. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۳۶۔
  4. حسینی وردجانی، اجرای حدود در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۷-۲۸۔
  5. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج ۴، ص ۹۳۲؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳-۱۴۱۹ق، ج ۱۴، ص ۳۲۵
  6. محمدی، مشروعیت اقامہ حدود و تعزیرات در عصر غیبت، ص45۔
  7. محقق حلی، شرایع الاسلام، ج4، ص136۔
  8. شہید ثانی، مسالک الافہام، ج15، ص5۔
  9. شہید ثانی، مسالک الافہام، ج15، ص22۔
  10. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱، ص۲۰۳۔
  11. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۳۷۲۔
  12. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱، ص۲۰۳-۳۹۱۔
  13. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۶۔
  14. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۹۵۔
  15. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۸۔
  16. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱۔
  17. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۱۔
  18. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۹۴۔
  19. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱، ص۳۲۲۔
  20. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۔
  21. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۲؛محقق حلی، شرائع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱؛خمینی، تحریر‌الوسیلہ، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۴۶۳۔
  22. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۵۰۔
  23. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۱۔
  24. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۵۰۔
  25. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۳۸۸۔
  26. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱،ص۲۹۸۔
  27. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۹۔
  28. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۸۸۔
  29. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۴۵۶۔
  30. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۵۲۸۔
  31. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱، ص۳۸۴۔
  32. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۰۹-۱۱۰۔
  33. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۶۴۔
  34. محقق حلی، شرائع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۱-۱۴۲؛ امام خمینی، تحریر‌الوسیلہ، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۴۶۳-۴۶۴۔
  35. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۵۷۳۔
  36. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۹۳۔
  37. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۹۔
  38. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۴۔
  39. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۶۔
  40. شہید اول، اللمعۃ‌الدمشقیۃ،۱۴۱۰ق، ص۲۵۷۔
  41. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۸۔
  42. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۴۶۔
  43. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۴۳و ص۱۵۸۔
  44. طوسی، الخلاف، موسسہ نشر اسلامی، ج۶، ص۲۵۱؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۲۵؛
  45. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۰، ص۸۸۔
  46. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۵۳۔
  47. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۴۴۔
  48. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ،۱۳۸۶-۱۳۹۸ق، ج۹، ص۱۱۳-۱۱۴۔
  49. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۶۵۔
  50. محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۸۔
  51. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۴۲۸۔
  52. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۵۶۔
  53. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۲، ص۴۵۶۔
  54. محقق‌داماد، قواعد فقہ، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۴۳۔
  55. محقق‌داماد، قواعد فقہ، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۴۳۔
  56. محقق‌داماد، قواعد فقہ، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۴۸۔
  57. محقق‌داماد، قواعد فقہ، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۴۴-۴۷۔
  58. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۲۶۵۔
  59. شہید ثانی، الروضہ البہیہ، ١٣٨٦-١٣٩٨، ج۹، ص۳۱۔
  60. فاضل ہندی، کشف‌اللثام، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۹۳۔
  61. شیخ طوسی، النہایۃ في مجرد الفقہ و الفتاوی، دارالکتاب، ص۳۰۰-۳۰۱۔
  62. ابن ادریس حلی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۴۔
  63. خوانساری، جامع المدارک، ۱۳۶۴ش، ج۵، ص۴۱۱۔
  64. ر۔ک: علامہ حلی، تبصرہ المتعلمین فی احکام دین، ۱۳۶۸ش، ص۱۱۴-۱۱۵؛ علامہ حلی، مختلف الشیعہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۴۶۳؛ علامہ حلی، تذکرہ الفقہا، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۴۴۵۔
  65. شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۰ق، ص۸۱۰۔
  66. خوئی، مبانی تکملۃ‌المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۱، ص ۲۷۳۔
  67. شہید الاول، الدروس الشرعيۃ في فقہ الإماميۃ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۴۷؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقيۃ، ۱۴۱۰ق، ص۸۴۔
  68. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۸۲-۴۸۳۔
  69. ابن فہد حلی، المہذب البارع في شرح المختصر النافع، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۲۸۔
  70. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۲۱، ص۳۹۶۔
  71. میرزای قمی، جامع الشتات فی اجوبہ سوالات، ۱۳۷۱، ج۱، ص۳۹۵۔
  72. صانعی، استفتاآت قضایی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۹۲و۹۴۔

مآخذ

  • ابن ادریس حلی، محمد بن‌ احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، جا‌معہ‌ مدرسین‌ حوزہ‌ علمیہ‌ قم‌ دفتر انتشا‌رات‌ اسلامی‌، ایران، 1414ھ۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، المہذب البارع في شرح المختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، ایران، ۱۴۰۷ھ۔
  • امام خمینی، روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، قم، دارالعلم، ۱۳۷۹ش۔
  • حسینی وردجانی، حسین، اجرای حدود در اسلام، قم، مرکز پژوہش‌ہا‌ی اسلامی‌ صدا و سیما، ‌ ۱۳۸۳ش۔
  • خوانساری، سید احمد، جامع المدارک، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، جلد پنجم، تہران، مکتبۃ‌الصدوق، ایران، 1364ش۔
  • خوئی، سیدابوالقاسم، مبانی تکملۃ‌المنہاج، قم، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ایران، بی‌تا۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعيۃ في فقہ الإماميۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، ۱۴۱۷ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ‌الدمشقیۃ، محقق:علی اصغر مروارید و محمدتقی مروارید، بیروت، دارالتراث الاسلامیہ، ۱۴۱۰ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، تحقيق: سيد محمد كلانتر، قم، انتشارات داوری، ۱۳۸۶-۱۳۹۸ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • صانعی، یوسف، استفتاآت قضایی، قم، انتشارات پرتو خورشید، ۱۳۸۸ش۔
  • طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، قم، موسسہ نشر اسلامی جامعہ مدرسین قم، ۱۴۱۲ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ في مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دارالکتاب العربی، لبنان۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، موسسہ نشر اسلامی، بی‌تا۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیۃ، محقق: محمدباقر بہبودی، تہران، مکتبۃ المرتضویہ، ۱۳۸۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرہ المتعلمین فی احکام دین، تہران، انتشارات فقيہ، ۱۳۶۸ش۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرہ الفقہا، قم، موسسہ آل‌البیت لاحیاءالتراث، ۱۴۱۹ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، ۱۴۱۳ھ۔
  • فاضل ہندی، محمد بن حسن اصفہانی، کشف‌اللثام، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آيت اللہ العظمی مرعشی نجفی (رہ)، ایران، ۱۴۰۵ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، محقق: عبدالحسین بقال، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ھ۔
  • محقق‌داماد، مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، ۱۳۸۳ش۔
  • میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمد، جامع الشتات فی اجوبہ سوالات، محقق: مرتضی رضوی، تہران، کیہان، ایران، ۱۳۷۱ش۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، محقق: ابراہیم سلطانی‌نسب، بیروت،‌ دار الاحیاءالتراث‌العربی، ۱۳۶۲ھ۔
  • ہاشمی‌شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ، قم، موسسہ دایرۃ‌المعارف اسلامی، ۱۳۸۷ش۔