مندرجات کا رخ کریں

کوڑے مارنا

ویکی شیعہ سے

کوڑے مارنا اسلامی سزاؤں کی ایک قسم ہے جو حد اور تعزیر کے بعض اقسام پر عملدرآمد کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کی بعض آیات اور شیعہ ائمہؑ سے نقل کی گئی احادیث میں کوڑے مارنے کی سزا اور ہر جرم کے ساتھ اس کی مناسب مقدار بیان ہوئی ہے۔ بعض صورتوں میں خود ائمہ علیہم السلام نے یہ سزا دی ہے؛ مثال کے طور پر، عمر بن خطاب کے بیٹے عبید اللہ کی شراب خواری کے بارے میں عمر نے کوڑے لگانے کا حکم سنا دیا جس پر امام علیؑ نے اسے کوڑے مارے۔

کوڑوں کے مستحق جرائم کی مثالیں اور ان کی حد اور تعزیری سزاؤں کی مقدار فقہی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔ مثلاً جو شخص محصن نہ ہو تو اس کے لیے زنا کی سزا سو کوڑے ہیں۔ قذف اور شراب نوشی کی سزا اسّی کوڑے معین ہوئے ہیں۔ تعزیر ایک ایسی سزا ہے جس کی شریعت میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ تعزیر کے عنوان سے مارے جانے والے کوڑوں کی مقدار کا تعین شرعی حاکم کرتا ہے۔ مشہور فقہاء کے ایک فتویٰ کے مطابق تعزیر کی سزا حد کی سزا سے کم ہونی چاہیے۔

فقہاء کے نزدیک کوڑے مارتے وقت جسم پر تقسیم کر کے مختلف حصوں پر مارنا چاہئے اور ان کو کسی خاص حصے پر مرکوز نہ کرنا واجب ہے۔ اس سزا کو نافذ کرنے والوں کو مجرم کے جسم کے حساس حصوں جیسے سر اور چہرے پر کوڑے مارنے کا حق نہیں ہے اور یہ سزا شدید سردی یا شدید گرمی میں نہیں دی جاتی ہے۔

کوڑے مارنے کو ظالمانہ اور انسانی حقوق سے منافی سزا قرار دینے والوں کے جواب میں مسلم علما کا کہنا ہے کہ کوڑے مارے جانے کا مقصد معاشرے کی اصلاح اور معاشرے میں جرم تکرار ہونے سے روکنا ہے اور ان لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے جن پر تعدی اور زیادتی ہوتی ہے۔

مفہوم شناسی اور اہمیت

کوڑے مارنا (عربی میں: جَلْد) ایک قسم کی سزا اور مجرموں کو تنبیہ کرنے کی ایک شکل ہے، اور فقہاء نے علم فقہ کے بابِ حدود میں اس پر بحث کی ہے۔[1] قرآن مجید کی آیات میں کوڑوں کے مستحق ہونے کی بعض صورتیں اور اس کی مقدار بیان کی گئی ہے؛ مثال کے طور پر زنا کی حد کا ذکر آیت جلد میں اور قذف کی حد کا ذکر سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں ہوا ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 25 میں زنا کرنے والی محصنہ لونڈی کی سزا پچاس کوڑے بتائی گئی ہے۔[2]

شیعہ ائمہؑ نے جرائم کے لیے کوڑوں کا حکم اور اس کی مقدار کو بیان کرنے کے علاوہ،[3] بعض صورتوں میں انہوں نے خود بھی اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کوڑے مارے ہیں۔ امام باقرؑ سے روایت ہے کہ عبید اللہ ابن عمر نے شراب پی لیا۔ پھر اس نے سزا بھگتنے کی تیاری کی۔ ان کے والد عمر بن خطاب نے ان پر حد کی سزا کے نفاذ کا حکم دیا؛ لیکن کسی نے اس حکم کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہیں کی۔ اس وقت امام علیؑ کھڑے ہوئے اور چالیس مرتبہ دو تِہوں والے کوڑے مارے؛[4] نیز، قیس بن عمرو بن مالک، جسے نجاشی (شاعر) کا لقب دیا جاتا ہے، کو رمضان کے مہینے میں شراب پینے کے جرم میں امام علیؑ کے پاس لایا گیا۔ امام علیؑ نے اسے اسّی کوڑے مارے اور ایک رات کے لیے قید کر دیا اور ماہ رمضان کی حرمت پامال کرنے پر اگلے دن اسے مزید بیس کوڑے مارے۔[5] فقہاء نے اپنی کتابوں میں کوڑے مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے اور اس کی حد اور تعزیری سزا کی مقدار بیان کی ہے۔[6]

شیعہ فقہ میں کوڑے مارنے کے مورد اور مقدار

شیعہ فقہاء نے علم فقہ کے حدود و تعزیر والے حصے میں کوڑے مارنے کی صورتیں اور اس کی مقدار بیان کی ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حد کے کوڑے

حد والے جرائم کے لیے کوڑے مارنے کی مقدار درج ذیل ہے:

  • جو زانی مُحصِن نہیں ہے اس پر سو کوڑے مارے جائیں گے؛ یعنی وہ شخص جو حلال طریقے سے جنسی رابطہ قائم نہیں کرسکتا ہے؛[7]
  • مساحقہ کرنے والے شخص کے لئے سو کوڑے؛[8]
  • لواط کا مرتکب شخص کے لئے سو کوڑے، بشرطیکہ لواط کے دوران دخول واقع نہ ہوا ہو (وگرنہ اس کی سزا پھانسی ہے)۔[9] ابو القاسم خوئی جیسے بعض فقہا نے غیر محصن لواط کرنے والے کے لئے بھی سو کوڑے کی سزا قرار دیا ہے اور اگر لواط کرنے والا محصن ہو تو اس صورت میں اسے سزائے موت ہوگی۔[10]
  • شہوت کی وجہ سے نوعمر لڑکے کو چومنے والے مُحرِم کو سو کوڑے مارے جائیں گے؛[11]
  • قذف کے لئے اسّی کوڑے؛[12]
  • دلالی کرنے والے کے لئے پچھتر کوڑے، یعنی دو افراد کے درمیان ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لیے ثالثی کرے؛[13]
  • شراب پینے پر اسّی کوڑے (ہر قسم کی شراب پینا)۔[14] ایسے شخص پر اس وقت حد جاری ہوگی جب وہ شراب پینے کے بعد ہوش میں ہو۔[15]

تعزیر کے کوڑے

تعزیر ایک ایسی سزا ہے جس کی شریعت میں کوئی مقدار متعین نہیں ہوئی ہے۔[16] تعزیری کوڑوں میں مجرم کو جتنی مقدار میں شرعی حاکم مناسب سمجھے اتنے کوڑے مارے جاتے ہیں۔[17] اس سزا کے مستحق جرائم کی مثالیں روایات میں مذکور ہیں؛ مثال کے طور پر ماہ رمضان میں ہمبستری کرنے والے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو پچیس کوڑے مارے جائیں گے۔[18] کہا جاتا ہے کہ فقہاء کے ایک مشہور فتویٰ کے مطابق تعزیر کی سزا حد کی مقدار سے کم ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کسی گناہ کی حد کی سزا سو کوڑے ہو تو تعزیر کی سزا ننانوے یا اس سے کم تعداد کے کوڑے ہونگے۔[19]

کوڑوں کی سزا پر عمل درآمد کا طریقہ

شیعہ فقہاء نے کوڑے مارنے اور حد جاری کرنے کے احکام اور شرائط بیان کیے ہیں۔ مرجع تقلید مکارم شیرازی کے مطابق، حد یا تعزیر کے کوڑے مارنے کے لئے استعمال ہونے والا کوڑا بُنا ہوا، عام اور درمیانی موٹائی کا ہونا چاہیے، اور کوڑے مارنے کے لیے تار، کیبل اور لکڑی کو استعمال نہیں کرسکتے ہیں؛[20] نیز ان کے نزدیک احتیاط واجب کے طور پر کسی شخص کو کوڑے مارنے کے لیے نہیں لیٹانا چاہئے اور کوڑے مارنے والا کوڑے مارتے ہوئے اپنا ہاتھ اتنا اوپر نہ اٹھائے کہ اس کے زیرِ بغل نظر آجائے۔[21]

فقہاء کے نزدیک کوڑوں کو جسم کے مختلف حصوں پر تقسیم کر کے مارنا واجب ہے اور سب کو کسی ایک ہی جگہ پر نہیں مارنا چاہئے۔ اس حکم کو نافذ کرنے والے افراد مجرم کے جسم کے حساس حصوں؛ جیسے سر، چہرہ، دل اور شرمگاہ وغیرہ پر مارنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔[22] کوڑے مارنے کی سزا شدید سردی یا شدید گرمی میں نافذ نہیں کی جاتی ہے۔[23] اگر کسی بیمار یا حیض والی عورت کو کوڑوں کی سزا سنائی جائے تو اس کے صحتیاب ہونے اور خون ریزی بند ہونے تک حد پر عمل درآمد نہیں کی جاسکتی ہے۔[24]

سرعام کوڑے مارنے پر تنقید

کچھ لوگوں نے سر عام مجرم کو کوڑے مارنے پر اعتراض کیا ہے اور ان کے مطابق اس کے برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ وہ اس طریقے کو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے اور معاشرے کو ذہنی سکون سے محروم کرنے یا بد بینی کا باعث قرار دیتے ہیں۔ ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ قرآن صرف زنا کے بارے میں سر عام کوڑے مارنے کا حکم دیتا ہے اور دیگر موارد میں اس بات پر کوئی قطعی فقہی دلیل نہیں ہے۔ اس صورت میں بھی دیکھنے والوں کی تعداد کا تعین شرعی حاکم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور تین سچے گواہوں کی موجودگی اس سزا کے اجراء کے لیے کافی ہے اور گلی کوچوں کے لوگوں کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[25]

انسانی حقوق سے عدم مطابقت

کچھ لوگوں نے کوڑے مارنے کو یورپ میں رائج انسانی حقوق کے معیارات سے ناسازگار اور اسے ظالمانہ سزا کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ شیعہ مرجع تقلید حسین علی منتظری نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوڑے مارنا، معاشرے کی اصلاح اور دوبارہ جرائم کے ارتکاب کو روکنے کا باعث بنتا ہے، نیز عصمت دری اور جرائم کا نشانہ بننے والوں کے حقوق کے تحفظ کا باعث بنتا ہے۔[26] بعض نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120 کا حوالہ دیتے ہوئے اسلا کے قوانین کے نفاذ سے دشمنان اسلام کی نارضایتی کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ خدا اور ملت اسلامیہ کی رضامندی کو دشمنوں کی خوشنودی سے زیادہ اعلیٰ اور اہم قرار دیا ہے۔[27]

کوڑوں کے متبادل سزائیں

بعض کا خیال ہے کہ کوڑے مارنا معاشرے کی ترقی اور موجودہ حالات کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں کوڑے مارنا عام تھا اور مجرم کی عزت مجروح نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت کوڑوں کے متبادل کوئی مناسب سزائیں نہیں تھیں؛ جبکہ آج یہ موقع میسر ہے۔ بہت سے ممالک نے کوڑے مارنے کی سزا کو ختم یا تبدیل کر دیا ہے۔ شیعہ فقہ کو بھی چاہئے کہ کوڑے مارنے کی سزا جو ذلت آمیز اور ناقابل برداشت اثر چھوڑتی ہے، کو مناسب سزا میں تبدیل کرے۔[28] اس کے برعکس، ناصر مکارم شیرازی، کوڑوں کی متبادل سزا کو حدی کوڑوں میں صرف اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں کہ حاکم شرع اس کی ضرورت کو تشخیص دے۔[29] ان کا کہنا ہے کہ تعزیری سزائيں صرف کوڑے مارنے میں منحصر نہیں ہیں اس لئے حاکم شرع کی نظر کے مطابق اس میں مختلف قسم کی سرزنشیں شامل ہو سکتی ہیں جیسے مالی جرمانے، قید، اور یہاں تک کہ مجرم کا میڈیا میں اعلان کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔[30] انہوں نے تعزیری سزاؤں کی گیارہ مثالیں درج کی ہیں جن میں کوڑے مارنے کے علاوہ بعض عہدوں سے محرومی اور کاروبار پر عارضی پابندی بھی شامل ہیں۔[31]

حوالہ جات

  1. سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، 1373شمسی، ج1، ص643 ـ 644.
  2. ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، 1383شمسی، ج7، ص313.
  3. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص23.
  4. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص214.
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص216.
  6. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج3، ص315 ـ 316.
  7. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج4، ص137.
  8. برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص706؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ، جماعۃ المدرسین، ج13، ص120؛ شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص787.
  9. برای نمونہ نگاہ کنید بہ محقق حلّی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص147؛ علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیہ، مؤسسہ آل البیت(ع)، ج2، ص224.
  10. خویی، تکملۃ المنہاج، 1410ھ، ج2، ص38-39.
  11. خوئی، مبانی تکملۃ المنہاج، موسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج1،ص298.
  12. علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج3، ص547؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج9، ص188.
  13. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص149؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج3، ص316.
  14. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج3، ص493.
  15. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج3، ص493.
  16. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج14، ص325.
  17. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج2، ص316.
  18. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج2، ص316.
  19. حق پناہ، «فلسفہ مجازات جلد در فقہ و حقوق بشر»، ص187.
  20. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، 487 ـ 488.
  21. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، 488.
  22. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج9، ص175؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ص488.
  23. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، 488.
  24. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج3، ص316.
  25. «فلسفہ مجازات علنی در اسلام»، سایت آیین رحمت.
  26. منتظری، مجازات ہای اسلامی و حقوق بشر، 1429ھ، ص82 ـ 84.
  27. «فلسفہ مجازات علنی در اسلام»، سایت آیین رحمت.
  28. «اسلام و شلاق»، سایت دین آنلاین.
  29. «شلاق»، سایت آیت اللہ مکارم شیرازی.
  30. «شلاق»، سایت آیت اللہ مکارم شیرازی.
  31. مکارم شیرازی، تعزیر و گسترہ آن، 1425ھ، ص86.

مآخذ

  • «آیین نامہ نحوہ اجرای احکام حدود، سلب حیات، قطع عضو، قصاص نفس و عضو و جرح، دیات، شلاق، تبعید، نفی بلد، اقامت اجباری و منع از اقامت در محل یا محل ہای معین»، سایت اختبار، تاریخ انتشار: 30 خرداد 1398شمسی، تاریخ بازدید: 28 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • «اسلام و شلاق»، سایت دین آنلاین، تاریخ بازدید: 30 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • حق پناہ، محمد علی، «فلسفہ مجازات جلد در فقہ و حقوق بشر»، در مجلہ فقہ و حقوق نوین، شمارہ 3، پاییز 1399ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابو القاسم، مبانی تکملۃ المنہاج، قم، موسسۃ احیاء آثار الامام الخویی، ایران، بی تا.
  • خویی، سید ابو القاسم، تکملۃ المنہاج، قم، نشر مدینۃ العلم، چاپ بیست و ہشتم، 1410ھ۔
  • سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، کومش، 1373ہجری شمسی۔
  • «شلاق»، سایت آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: 2 آبان 1403ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، حاشیہ و شرح کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1410ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام إلی تنقیح شرایع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1400ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، 1410ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیہ علی مذہب الإمامیہ، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ الإمام الصادق(ع)، چاپ اول، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1413ھ۔
  • «فلسفہ مجازات علنی در اسلام»، سایت آیین رحمت، تاریخ بازدید: 3 آبان 1403ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحرام و الحلال، تحقیق: عبدالحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، تحقیق مجتبی عراقی و دیگران، قم، جامعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ فی قم، بی تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، تحقیق: ابو القاسم علیان نژادی، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تعزیر و گسترہ آن، تحقیق: ابو القاسم علیان نژادی، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1425ھ۔
  • منتظری، حسین علی، پاسخ بہ پرسش ہایی پیرامون مجازات ہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ارغوان دانش، چاپ اول، 1429ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، تحقیق: ابراہیم سلطانی نسب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، علی اکبر و دیگران، فرہنگ قرآن، قم، بوستان کتاب، 1383ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ، قم، مؤسسہ دائرۃالمعارف فقہ اسلامی، 1426ھ۔