ارکان نماز

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

ارکان نماز، نماز کے ان واجب اجزاء کو کہا جاتا ہے جن کی کمی یا زیادتی حتی فراموشی کی صورت میں بھی ہو نماز کے بطلان کا سبب ہے۔ مشہور شیعہ فقہاء کی نظر میں نیت، قیام، تکبیرۃ الاحرام، رکوع اور دونوں سجدے نماز کے رکن ہیں۔

رکن کی تعریف

رکن کا معنی ہر چیز کی اصل اور اس کا ستون اور شرعی عبادات میں وہ جزء جس کا کم یا زیادہ کرنا (جان بوجھ کر یا بھول کر) ہر صورت میں نماز کے باطل ہونے کا باعث بنتا ہے۔ نماز، حج اور عمرے کے بعض اجزاء ان کے رکن ہیں۔

نماز کے ارکان

مشہور قول کے مطابق نماز کے ارکان پانچ ہیں: نیت، قیام، تکبیرۃ الاحرام، رکوع اور دو سجدے۔ [1]

قیام سے مراد، تکبیرۃ الاحرام اور رکوع سے متصل قیام ہے۔ یعنی رکوع میں جانے سے پہلے کھڑا ہونا چاہیے۔ [2]

بعض نے اختیار کی حالت میں قبلہ کی جانب ہونے کو بھی نماز کے رکن میں شامل کیا ہے۔ [3]کیونکہ بعض قدماء کی نگاہ میں قرائت کو بھی رکن کہا گیا ہے۔ [4]

رکن کا کم یا زیادہ ہونا

مشہور فقہاء کی نظر میں بھول کر یا جان بوجھ کر نماز کے ارکان کو کم یا زیادہ کرنا نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔ [5]لیکن بعض کی نظر میں اگر بھول کر نماز کا رکن زیادہ ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی۔ [6]

بعض ارکان میں زیادہ کا تصور ممکن نہیں جیسے نیت، لیکن بعض دوسرے ارکان میں ممکن ہے جیسے کہ قیام، تکبیرۃ الاحرام یا رکوع وغیرہ۔

نماز جماعت میں رکوع اور سجدے کا زیادہ کرنا

مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق اگر ماموم بھول کر امام جماعت سے پہلے اپنے سر کو رکوع یا سجدے سے اٹھا لے، تو واجب ہے کہ دوبارہ واپس جائے اور امام جماعت کی تابعت کرے اور اس کے مقابلے میں ایک اور قول یہ ہے کہ، واپس جانا مستحب ہے اور یہ رکوع یا سجدے کا زیادہ ہونا نماز کے باطل ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ اور یہ سر اٹھانا بھول جانے کے بارے میں ہے اور اگر جان بوجھ کر امام جماعت سے پہلے سر اٹھائے تو کیا یہی مسئلہ ہو گا یا نہیں اس بارے میں نظر مختلف ہیں۔ [7]

بھول کر رکن ترک کرنا

اگر نماز گزار بھول کر کسی رکن کو ترک کرے، تو جب تک جبران کرنے کا امکان ہو، تو اس کو انجام دے اور اس کی نماز صحیح ہے۔ جبران سے مراد، یہ کہ ابھی دوسرے رکن میں داخل نہ ہوا ہو، تکبیرۃ الاحرام کے علاوہ کیونکہ اس کے بغیر حمد کی قرائت شروع نہیں ہو سکتی۔ [8]

حوالہ جات

  1. حلی (علامہ)، مختلف الشیعۃ، ج۲، ص۱۳۹-۱۴۰۔
  2. یزدی، العروۃ الوثقی، ج۲، ص۴۷۳۔
  3. ابن حمزہ طوسی، الوسیلۃ، ص۹۳۔
  4. طوسی، المبسوط، ج۱، ص۱۰۵۔
  5. شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ج۱، ص۶۴۴۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، ج۹، ص۲۳۹-۲۴۱۔
  7. حکیم، مستمسک العروۃ، ج۷، ص۲۶۹-۲۷۱۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، ج۱۲، ص۲۳۸-۲۳۹۔

مآخذ

  • ابن حمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ الی نیل الفضیلہ، بہ کوشش محمد الحسون، اول، قم، مکتبۃ المرعشی النجفی، ۱۴۰۸ ق۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، بہ کوشش علی آخوندی، قم، نشر اسلامی، ۱۳۶۳ ش۔
  • حکیم، سید محسن،‌ مستمسک العروۃ الوثقی، اول، قم، مؤسسہ ‌دار التفسیر، ۱۴۱۶ ق۔
  • حلی (علامہ)، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، اول، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۲ ق۔
  • شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، تہران، انتشارات علمیہ اسلامیہ، [بی تا]۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، بہ کوشش محمد باقر بہبودی، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ،[بی تا]۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ہفتم، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی۔
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، پنجم، قم،‌ دار التفسیر، اسماعیلیان، ۱۴۱۹ ق۔