خبر مستفیض

ویکی شیعہ سے

خبر مستفیض یا حدیث مستفیض، اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جس کے راویوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو، لیکن حدیث متواتر کے راویوں کی تعداد کے برابر نہیں ہو سکتی۔ خبر مستفیض، خبر واحد اور خبر متواتر کی طرح حدیث کی تین قسموں میں سے ایک ہے اور یہ تقسیم بندی، راویان حدیث کی تعداد کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ علم درایہ کے ماہر بعض علماء اور نیز فقہاء، حدیث مستفیض کو مستقل طور پر حجت نہیں جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس خبر میں، خبر واحد کی طرح راویوں کی چھان بین، حالات اور ان کے اعتبار و وثاقت کے سلسلے میں تحقیق ضروری ہے۔ بعض دوسرے علماء، روایتوں کے تعارض [ٹکراو] کی صورت میں، خبر مستفیض کو خبر واحد پر ترجیح دیتے ہیں۔ نیز بعض نے راویوں کے خصوصیات و صفات کی تحقیق کے بغیر اس کو معتبر جانا ہے۔

تعریف

حدیث مستفیض کی تعریف کے سلسلے میں دور حاضر کے فقیہ اور حدیث شناس محمد آصف محسنی قندہاری کا نظریہ یہ ہے کہ حدیث مستفیض وہ حدیث ہے کہ جس میں نقل کرنے والے راویوں کی تعداد ہر مرتبہ میں تین سے زیادہ ہو۔[1] شیخ بہائی[2] اور محمد جعفر شریعتمدار استر آبادی بھی اسی نظریہ کے قائل ہیں ؛[3] اگرچہ بعض علمائے علم درایہ نے دو راویوں سے زیادہ کی روایت کو بھی کافی جانا ہے۔[4] یہ تعریف، کتاب مقیاس الہدایہ تالیف عبدالله مامقانی میں بھی آئی ہے۔[5] البتہ مامقانی کا کہنا ہے کہ حدیث مستفیض میں راویوں کی تعداد، خبر متواتر کی تعداد سے کم ہوتی ہے۔[6] نیز محمد بن محمدابراهیم کلباسی اپنی کتاب کتاب الرسائل الرجالیہ میں بغیر کسی کا نام ذکر کئے لکھتے ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ جس حدیث کے راویوں کی تعداد، ایک سے زیادہ ہو اسے حدیث مستفیض کہتے ہیں۔[7] اس کے بعد وہ وضاحت کرتے ہیں کہ اس مبحث میں، تعدد راوی سے مراد، وہ راوی ہیں کہ جو براہ راست معصومین علیہم السلام سے نقل حدیث کریں ورنہ اگر سند کا تعدد ایک راوی پر ختم ہوجا ئے تو حدیث کے مستفیض ہو نے کا سبب نہیں ہوگا۔[8]

مستفیض لفظی یا معنوی؟

عبدالله مامقانی کا کہنا ہے کہ اکثر علماء کی عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث مستفیض میں ضروری ہے کہ تمام نقل شدہ الفاظ، ایک جیسے ہوں لیکن بعض دیگر علماء کے نظریات، اور نیز بعض علماء کی تحریروں جیسے سید علی طباطبایی صاحب ریاض اور محمد حسن نجفی صاحب جواہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے روایات کے تمام الفاظ ایک جیسے ہوں بس اتنا کافی ہے کہ الفاظ، معنی کے اعتبار سے ایک ہوں (خواہ الفاظ مختلف ہوں) تو ان جیسی روایات کو مستفیض کہا جا سکتا ہے۔[9] محمد جعفر شریعتمدار استر آبادی بھی اپنی کتاب لب اللباب فی علم الرجال میں بیان کرتے ہیں کہ الفاظ کا ایک جیسا ہونا لازم نہیں ہے۔[10]

مستفیض کا مشہور سے فرق

کبھی کبھی، حدیث مستفیض کو حدیث مشہور (حدیث کی ایک قسم) بھی کہا گیا ہے؛ لیکن بعض علماء نے کہا ہے کہ مستفیض، مشہور سے فرق رکھتی ہے کیونکہ حدیث مستفیض میں ضروری ہے کہ نقل کرنے والوں کی تعداد تمام طبقوں میں استفاضہ (سند اور مفہوم کے لحاظ سے قابل استفادہ) کی حد تک ہو؛ لیکن حدیث مشہور میں ایسی کوئی شرط نہیں پائی جاتی بلکہ کبھی کبھی، حدیث مشہور اس حدیث کو کہا جاتا ہے کہ جس میں صرف ایک سند ہو جیسے یہ حدیث: «انما الاعمال بالنیات».[11] صفوی دور کے مشہور فقیہ محقق کَرَکی کا نظریہ ہے کہ حدیث مشہور، وہی حدیث مستفیض ہے کہ جس میں راوی تین افراد سے زیادہ ہوں۔[12]

اعتبار حدیث مستفیض

مامقانی فرماتے ہیں کہ حدیث مستفیض، خبر واحد کی اقسام میں سے ہے اور اسی نظریہ کو شہید ثانی سے بھی نقل کرتے ہیں۔ [13] ان کی نظر کے مطابق چونکہ علماء شیعہ، خبر مستفیض کو حدیث متواتر کے مقابل قرار دیتے ہیں یہ خود، اس بات کی دلیل ہے کہ خبر مستفیض کو خبر واحد کی طرح معتبر جانتے ہیں [14] حدیث کی یہ قسم، انسان کے لئے علم (احکام و مسائل شرعی کا صحیح علم) کا سبب نہیں بنتی اور نیز اعتبار کے لئے ضروری ہے کہ راویوں کے صفات و خصوصیات کی تحقیق کی جائے اور ان کا اعتبار و وثوق ثابت کیا جائے۔ مامقانی نے اس نظریہ کی نسبت میرزای قمی سے بھی دی ہے۔[15] اس سلسلے میں «الشیخ المفید و علوم الحدیث» کے موضوع پر لکھے جانے والے مضمون میں، مقالہ نگار نے شیخ مفید کے علمی آثار میں خبر مستفیض کے استعمالات و توضیحات سے یہ نتیجہ نکالا ہے ہے کہ شیخ مفید خبر مستفیض کو خبر واحد سے زیادہ معتبر جانتے ہیں اور اسی بنا پر، روایات کے تعارض (ٹکراو) کی صورت میں خبر مستفیض کو، خبر واحد پر ترجیح دیتے ہیں۔[16] اس سلسلے میں تیرہویں صدی ھجری کے علم رجال کے عالم، کلباسی اس بارے میں، بغیر کسی شخص کا نام لئے اس نظریہ کو بیان کرتے ہیں کہ بعض علماء، خبر مستفیض کو معتبر جانتے ہیں۔[17] اور دور حاضر کے مجتہد اور محقق محمد سند، بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ خبر مستفیض، جو اطمینان بخش علم و آگاہی، پیدا کرے وہ خبر واحد صحیح، سے زیادہ قوی ہے۔[18] اور بلکہ اس کو دینی مطالعات و معلومات کے قطعی منابع و مآخذ کا حصہ جانتے ہیں۔[19] ان کا یہ بھی نظریہ ہے کہ اگر بعض اخبار ضعیف، کو تمام احادیث میں ضمیمہ کردیا جائے تو ممکن ہے خبر مستفیض میں تبدیل ہوجائیں۔[20] نیز آیت‌ الله سبحانی کا نظریہ، یہ ہے کہ خبر مستفیض کے معتبر ہونے میں راویوں کا موثق ہونا لازم نہیں ہے۔[21] نیز اس کے علاوہ محقق کرکی کا کہنا ہے کہ خبر مستفیض، خبر متواتر کی طرح معتبر ہے۔[22] الفوائد الرجالیہ، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۵۳۸.</ref>

حوالہ جات

  1. محسنی، بحوث فی علم الرجال، ۱۴۳۲ق، ص۳۹۹۔ ان کے علاوہ
  2. شیخ بہائی، الوجیزه، ۱۳۹۰ق، ص۴.
  3. استر آبادی، لب اللباب، ۱۳۸۸ش، ص۷۳۔
  4. محسنی، بحوث فی علم الرجال، ۱۴۳۲ق، ص۳۹۹.
  5. مامقانی، مقباس الہدایة، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۲۸.
  6. مامقانی، مقباس الهدایة، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۱.
  7. کلباسی، الرسائل الرجالیه، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۴۷ و ج۳، ص۵۶۶.
  8. کلباسی، الرسائل الرجالیہ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۲۱.
  9. مامقانی، مقباس الہدایہ، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۲۹.
  10. استر آبادی، لب اللباب، ۱۳۸۸ش، ص۷۳.
  11. مامقانی، مقباس الہدایة، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۰.
  12. محقق کرکی، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۵۳۸.
  13. مامقانی، مقباس الہدایہ، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۱.
  14. مامقانی، مقباس الہدایہ، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۱.
  15. مامقانی، مقباس الہدایہ، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۳.
  16. الغرباوی، «الشیخ المفید و علوم الحدیث»، ص۴۰-۴۲.
  17. کلباسی، الرسائل الرجالیہ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۴۷ و ج۳، ص۵۶۶.
  18. سند، بحوث فی مبانی علم الرجال، ۱۴۲۹ق، ص۲۶۰.
  19. سند، بحوث فی مبانی علم الرجال، ۱۴۲۹ق، ص۴۲.
  20. سند، بحوث فی مبانی علم الرجال، ۱۴۲۹ق، ص۴۱ و ۲۶۰.
  21. سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ۱۴۱۰ق، ص۱۹۲.
  22. محقق کرکی، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۵۳۸.

مآخذ

  • استرآبادی، محمد جعفر، لب اللباب فی علم الرجال، تصحیح: محمد باقر ملکیان، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ش.
  • الغرباوی، ماجد، الشیخ المفید و علوم الحدیث، در مجموع المقالات و الرسالات، قم، کنگرہ جہانی ہزاره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، قم، مرکز مدیریت حوزه علمیہ، ۱۴۱۰ق.
  • سند، محمد، بحوث فی مبانی علم الرجال، به قلم محمد صالح تبریزی، قم، انتشارات مدین، ۱۴۲۹ق.
  • شیخ بہائی، محمد بن عزالدین، الوجیزہ فی علم الدرایة، قم، انتشارات بصیرتی، ۱۳۹۰ق.
  • کلباسی، محمد بن محمد ابراہیم، الرسائل الرجالیہ، تحقیق: محمد حسین درایتی، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۲ق.
  • مامقانی، عبدالله، مقباس الہدایة فی علم الدرایة، تحقیق: محمد رضا مامقانی، قم، مؤسسة آل البیت، ۱۴۱۱ق.
  • محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، قم، مرکز المصطفی، ۱۴۳۲ق.
  • محقق کرکی، علی بن حسین، الفوائد الرجالیہ، در میراث حدیث شیعہ، بہ کوشش مہدی مہریزی و علی صدرایی خوئی، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۰ش.