قصد قربت

ویکی شیعہ سے

قَصدِ قُربَت، خدا کی مرضی اور قرب کے حصول کی نیت سے عبادت کی انجام دہی کو کہا جاتا ہے۔ قصد قربت صرف واجبات تعبدی (فروع دین) جیسے نماز ، روزہ اور حج میں ضروری ہے جس کے بغیر عبادت صحیح نہیں ہے لیکن واجبات توصلی میں قصد قربت کی شرط نہیں ہے۔ بعض علماء کے مطابق اجر و ثواب کے شرائط میں سے ایک ایمان کے ساتھ قصد قربت کا ہونا ہے۔

معنی ومفهوم‌

قصد قربت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کو حکم خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کی خاطر انجام دیا جائے۔[1] شیعہ فقہاء کے نظریہ کے مطابق، عبادات کو مختلف ارادوں جیسے شکر خدا، رضائے خدا کے حصول، ثواب کو حاصل کرنے اور عذاب سے دوری اور عبادت کی مصلحت ( بندگی کا تقاضا ہے کہ معبود حقیقی کی عبادت کی جائے) کے ساتھ انجام دینا، قصد قربت کے حصول کے ذرائع میں سے ہے۔[2]بعض علماء کا کہنا ہے کہ اجر و ثواب کے لئے، قصد قربت اور ایمان شرط ہے جس کے بغیر، اجر و ثواب حاصل نہیں ہوتا۔[3]

واجب تعبدی اور واجب توصلی کی تقسیم کا معیار

قصد قربت کی بنیاد پر، واجب اعمال دو صورتوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

  • واجبات تعبدی: وہ واجبات ہیں کہ جن میں قصد قربت شرط ہے اور اس کے بغیر حکم الہی پر عمل نہیں ہوسکتا۔ جیسے نماز اور روزہ ۔[4] آیت اللہ مکارم شیرازی دنیائے شیعیت کے مشہور فقیہ اور مرجع تقلید کے نظریہ کے مطابق حسن فعلی اور حسن فاعلی، عبادت کے ارکان میں سے ہیں۔ حسن فاعلی کا مطلب یہ کہ عبادت کرنے والا اس عمل کو قرب الہی حاصل کرنے لئے انجام دے رہا ہے نہ کہ ریاکاری وغیرہ کے لئے۔[5]

البتہ شیعہ فقہاء کے درمیان اس بارے میں نظریاتی اختلاف ہے کہ واجبات تعبدی میں قصد قربت کا وجوب،دلیل عقلی سے ثابت ہے یا دلیل شرعی سے؛[6] اس مسئلہ میں مجموعی طور پر تین اصول پائے جاتے ہیں:

  1. آیت الله خو ئی کا نظریہ: قصد قربت کا واجب ہونا شرعی ہے اور شارع (خداوند عالم) نے حکم عبادت میں، قصد قربت کو بھی شامل کیا ہے۔[7]
  2. علامہ محمد حسین غروی نائینی مرحوم|میرزای نائینی: قصد قربت کا واجب ہونا شرعی ہے اور شارع یعنی خداوند عالم نے عبادت کے حکم کے علاوہ ایک دوسرے حکم میں قصد قربت کے وجوب کو بیان فرمایا ہے۔[8]
  3. علامہ آخوند خراسانی کا نظریہ: قصد قربت کا واجب ہونا، عقلی ہے اور یہ عمل اور اطاعت کی انجام دہی کی کیفیت سے وابستہ ہے (جیسا عمل اور اطاعت الہی ہے اسی اعتبار سے قصد قربت ہوگا واجب تعبدی میں نیت اور قصد قربت خغ اور واجب توصلی میں ایسا نہیں ہے)[9] اگر عمل کی انجام دہی سے شارع کا مقصد، صرف اس عمل کا خارج میں انجام پانا ہے جیسے دفن میت کا واجب ہونا، اس میں عقل قصد قربت کو لازم نہیں جانتی۔ لیکن اگر شارع کا مقصد یہ ہے کہ عمل کی انجام دہی کے ساتھ، اس کی قربت بھی حاصل ہو اس صورت میں عقل، قصد قربت کو لازم جانتی ہے۔[10]
  • واجبات توَصُّلی:
  • وہ واجبات ہیں کہ جن کے انجام دینے میں قصد قربت کی شرط نہیں ہے۔ جیسے: کسی ڈوبتے ہوئے کو بچانا، دفن میت اور قرض ادا کرنا۔[11]

واجب تقربی اور واجب توصلی کی تقسیم کا معیار

امام خمینی نے اپنی کتاب تهذیب الاصول میں واجبات کو واجب تَقَرُّبی اور واجب توَصُّلی میں تقسیم کیا ہے۔[12] واجبات تقربی میں قصد قربت، شرط ہے اور یہ خود دو طرح کے ہیں:

  • وہ واجبات که جن پر عبادت کا عنوان صادق آتا ہے۔ جیسے:نماز، روزه، حج و...[13]
  • وہ واجبات که جن میں اگرچہ قصد قربت شرط ہے؛ لیکن عبادت میں شمارنہیں ہوتے۔ جیسے: زکات کا ادا کرنا۔[14]

حوالہ جات

  1. فرھنگ نامہ اصول فقہ، مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، 1389شمسی،جلد1،صفحه636۔
  2. فرهنگ نامه اصول فقه، مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، جلد1، صفحه636، 1389شمسی۔
  3. موسسہ دائرہ المعارف الفقہ الفارسی،فرھنگ فقه فارسی، 1387شمسی، جلد2، صفحہ 694۔
  4. مظفر، اصول الفقه،1370شمسی، جلد 1، صفحہ65۔
  5. مکارم شیرازی، حیلہ های شرعی وچاره جوئی هائ صحیح، صفحہ58، 1428ھ
  6. فرھنگ نامہ اصول فقہ، مرکز اطلاعات و منابع اسلامی،1389شمسی، جلد1، صفحہ637۔
  7. خوئی، محاضرات فی الاصول، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۲۲۱۔
  8. خویی، اجودالتقریرات، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۱۷۔
  9. مظفر، اصول‌الفقه، ۱۳۷۰ش، ص۶۶۔
  10. آخوند خراسانی، کفایةالاصول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۸۱۔
  11. مظفر، صول‌الفقه، ۱۳۷۰ش، ص۶۶۔
  12. امام خمینی، تهذیب الاصول، ۱۴۰۵ھ، ج۱، ص۱۴۷۔
  13. امام خمینی، تهذیب الاصول، ۱۴۰۵ھ، ج۱، ص۱۴۷۔
  14. امام خمینی، تهذیب الاصول، ۱۴۰۵ھ، ج۱، ص۱۴۷۔

مآخذ

  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایةالاصول، قم، مؤسسه آل البیت (ع)، 1409ھ۔
  • امام خمینی، روح‌الله، تهذیب الاصول، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1405ھ۔
  • پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، فرهنگ‌نامه اصول فقه، قم، پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، 1389ش۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، اجودالتقریرات، قم، کتابفروشی مصطفوی، چاپ دوم، 1368ش۔
  • مؤسسه دایرة المعارف الفقه الفارسی، فرهنگ فقه فارسی، قم، مؤسسه دایرة المعارف الفقه الفارسی، 1387ش۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول‌الفقه، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1370ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، حیله‌های شرعی و چاره‌جویی‌های صحیح، قم، مدرسه الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، 1428ھ۔