عقد نکاح
عقد نکاح ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق عقدِ نکاح کو صحیح عربی میں پڑھنا چاہیے۔ انقطاعی نکاح (متعہ) کا عقد بھی دائمی نکاح کی طرح ہے سوائے اس کے کہ انقطاعی نکاح میں مہر کے علاوہ شادی کی مدت بھی معین کی جاتی ہے۔ بعض اوقات عقدِ نکاح جنسی لذت سے ہٹ کر صرف مَحرم بننے کے لیے پڑھا جاتا ہے جسے صیغہ محرمیت کہا جاتا ہے۔ اس عقد کے صحیح ہونے اور نہ ہونے میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
عقد نکاح
عقد نکاح ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتے ہیں۔[1] عقد نکاح ایجاب اور قبول کے ذریعے منعقد ہوتا ہے طرفین کا صرف راضی ہونا کافی نہیں ہے۔[2] ایجاب، کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے کی تجویز دینے کے معنی میں ہے۔[3] اور قبول اس کام کی تجویز پر رضایت ظاہر کرنے کا نام ہے۔[4] وہ الفاظ جو ایجاب کے لیے عورت ادا کرتی ہے[5] وہ یہ ہیں: «زَوَّجْتُكَ» یا «أنْکَحْتُكَ».[6] بعض فقہاء نے «مَتَّعْتُكَ» کا لفظ بھی صحیح قرار دیا ہے[7] اور قبول کے لیے جو الفاظ مرد ادا کرتا ہے[8]وہ یہ ہیں: «قَبِلْتُ التَزْویج»، «قَبِلْتُ النِّکاح»، «قَبِلْتُ التَزْویج و النِّکاح» یا «تَزَوَّجْتُ».[9]
اقسام
عقد نکاح کی دو قسمیں ہیں: دائمی نکاح اور انقطاعی نکاح۔[10] دائمی عقد نکاح میں صرف مہر ذکر ہوتا ہے جبکہ انقطاعی نکاح میں مہر کے ساتھ شادی کی مدت بھی بیان ہوتی ہے۔[11]
دائمی
عقد دائم اگر مرد اور عورت آپس میں خود پڑھیں تو پہلے عورت کو کہنا چاہئے: «زَوَّجْتُكَ نَفْسِی عَلىَ الصِّداقِ الْمَعْلُومِ» یعنی میں نے اس مہر پر جو معین ہوچکا ہے اپنے آپ کو تمہاری بیوی بنایا اور اس کے فوراً بعد مرد کہے: «قَبِلْتُ التَزْوِیجَ عَلىَ الصِّداقِ المَعْلُوْمِ» یعنی میں نے اس ازدواج کو معین مہر کے مطابق قبول کیا۔ یا صرف «قَبِلْتُ التَّزْوِیجَ» کہے اور اس سے اسی معین مہر کے مقابلے میں شادی کا ارادہ کرے۔[12]
اگر مرد اور عورت کی طرف سے عقد نکاح پڑھنے کے لیے دو اشخاص کو الگ الگ وکیل مقرر کیا ہو تو (مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ) پہلے عورت کا وکیل کہے "زَوَّجتُ مُوِکِّلَکَ اَحمَدَ مُوَکِّلَتیِ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی میں نے اپنی موکلہ فاطمہ کو معین مہر کے مقابلے میں تمہارے موکل احمد کے عقد میں لایا ہے اور اس کے فورا بعد مرد کا وکیل کہے " قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی اَحمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی اس شادی کو معین مہر کے بدلے میں نے اپنے موکل احمد کے لیے قبول کیا۔[13]
غیر دائمی
اگر مرد اور عورت آپس میں خود انقطاعی عقد نکاح پڑھنا چاہیں تو ازدواج کی مدت اور مہر معین کرنے کے بعد عورت کہے: «زَوَّجْتُكَ نَفْسِي فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَی المَهْرِ المَعْلُومِ». یعنی میں نے اپنے آپ کو معین مہر کے بدلے مقررہ مدت کے لیے تمہارے عقد میں لایا ہے۔ اس کے فوراً بعد مرد کہے: «قَبِلْتُ».[14]
اور اگر مرد اور عورت اپنا عقد پڑھنے کے لیے وکیل مقرر کریں تو پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے یوں کہے: «زَوَّجْتُ مُوَكِّلَتِي مُوَكِّلَكَ فِي المُدَّةِ المَعْلُومَةِ عَلَى المَهْرِ المَعْلُومِ» یعنی میں اپنی موکلہ کو معین مہر کے بدلے معین مدت کے لیے تمہارے موکل کے عقد میں لے آیا ہوں پھر مرد کا وکیل فوراً کہے: «قَبِلْتُ التَّزْوِيجَ لِمُوَكِّلِي هكَذا» یعنی جس طرح سے کہا گیا ہے اس شادی کو میں نے قبول کیا۔[15]
خطبہ عقد
عقد نکاح کے مستحبات میں سے ایک صیغہ عقد سے پہلے خطبہ پڑھنا ہے[16] اس خطبے میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا، پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ پر درود بھیجا جاتا ہے[17]پیغمبر اکرمؐ کی حضرت خدیجہ سے اور امام علیؑ کی حضرت فاطمہؑ سے اور دیگر ائمہ معصومینؑ کی شادی کے خطبے فقہی اور حدیثی کتابوں مندرج ہیں۔[18]
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کے نکاح سے پہلے مندرجہ ذیل خطبہ پڑھا:
- «الحمدلله الذی رفع السمآء فبناها، وبسط الارض فدحاها، وأثبتها بالجبال فأرسیها، أخرج منها ماءها و مرعیها، الذی تعاظم عن صفات الواصفین...أیها الناس إنما الانبیاء حجج الله فی أرضه، الناطقون بکتابه، العاملون بوحیه، إن الله عزوجل أمرنی أن ازوج کریمتی فاطمة بأخی وابن عمی و أولی الناس بی علی بن أبیطالب، و [أن] قد زوجه فی السماء بشهادة الملائکة، وأمرنی أن ازوجه واشهدکم علی ذلک»
ترجمہ: «حمد و ثنا ہو اس ذات کے لئے جس نے آسمانوں کو خقل کر کے انہیں بلند عطا کی اور زمین کو بچھونا قرار دے کر اسے پہاڑوں کے کیل کے ذریعے مضبوظ کیا اور اس کے اندر سے پانی اور سبزہ نکالا۔ یہ وہی ذات ہے جو حمد کرنے والوں کی توصیف سے بالاتر ہے... اے لوگو انبیاء زمین پر الله کی حجت، کتاب خدا کے ترجمان اور وحی پر عمل کرنے والے ہیں۔ بتحقیق خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی پیاری بیٹی فاطمہؑ کو اپنے چچا زاد بھائی اور لوگوں میں سب سے زیادہ میرے محبوب شخص یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کر دوں۔ خدا نے آسمان پر علی اور فاطمہ کو ایک دوسرے کا شریک حیات بنایا ہے اور اس پر فرشتوں کو گواہ مقرر کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں زمین پر بھی ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دوں اور اس پر تمہیں گواہ مقرر کروں۔»[19]
صیغہ عقد کی شرائط
عقد نکاح کے شرائط درج ذیل ہیں:
- صیغہ عربی میں پڑھا جائے۔[20]اگرچہ بعض فقہاء نے غیر عربی میں عقد پڑھنے کو صحیح قرار دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرے جو «زَوَّجْتُ» اور «قَبِلْتُ» کا معنی دیں۔[21]
- صیغہ قصد انشاء کے ساتھ پڑھا جائے۔[22] یعنی صیغہ پڑھتے ہوئے مرد اور عورت کے درمیان میاں بیوی کا رابطہ ایجاد کرنے کا قصد کرے۔[23]
- صیغہ پڑھنے والا بالغ اور عاقل ہو۔[24]
- صیغہ پڑھتے وقت متعلقہ مرد اور عورت کو معین کرے۔ مثلا ان کا نام لے یا ان کی طرف اشارہ کرے۔[25]
- متعلقہ مرد اور عورت اس عقد پر راضی ہو۔[26]
- ایجاب اور قبول میں فاصلہ نہ ہو۔[27]
- عقد صحیح تلفظ کے سے پڑھا جائے۔[28]اگر عقد میں غلطی سے کوئی کلمہ ادا کیا جائے جو معنی کو بدل دے تو عقد باطل ہے۔[29]
- ایجاب و قبول کے الفاظ میں مطابقت ضروری نہیں؛ یعنی اگر عورت «زَوَّجْتُ» کہے تو مرد بھی «قَبِلْتُ التَزْوِیجَ» کہے[30]
صیغہ محرمیت
ایسا عقد کہ جس کے پڑھنے کا مقصد صرف اور صرف مرد اور عورت کو آپس میں محرم بنانا ہے۔ (جنسی لذت کے بغیر) مثال کے طور پر کسی عورت سے محرم ہونے کے لیے اس کی بیٹی (ایسے مواقع پر کمسن بچی کو چنا جاتا ہے) سے ولی کی اجازت کے ساتھ مختصر مدت (ایک گھنٹہ) کے لیے انقطاعی نکاح پڑھا جاتا ہے تاکہ بچی کی ماں اس شخص کے لیے ساس شمار ہوجائے اور ہمیشہ کے لیے اسے محرم بن جائے۔[31]
ایسے عقد کے صحیح ہونے میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہے۔[32] بعض نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔[33] جبکہ بعض نے ایسے عقد کو یا بالکل صحیح نہیں سمجھا ہے[34] یا بعض شرائط کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔[35]
حوالہ جات
- ↑ مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص578.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص851.
- ↑ مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، 1384ش، ج3، ص1507.
- ↑ مراجعہ کریں: انصاری و طاہری، دانشنامہ حقوق خصوصی، 1384ش، ج3، ص1507.
- ↑ مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص581.
- ↑ شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، 1369ش، ج8، ص336.
- ↑ شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، 1369ش، ج8، ص336.
- ↑ مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص581.
- ↑ شوشتری، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، 1369ش، ج8، ص336.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص578.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص578.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص581.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص581.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص583.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص583.
- ↑ بابازادہ، مراسم عروسی، 1379ش، ص108.
- ↑ بابازادہ، مراسم عروسی، 1379ش، ص108.
- ↑ مثال کے طور پر مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج103، ص 269؛ کلینی، الفروع من الکافی، 1367ش، ج5، ص370.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج103، ص269-270.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص851.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص585.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص852.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص584.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص853.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص854.
- ↑ یزدی، العروة الوثقی، 1409ق، ج2، ص851.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص853.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص587.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1392ش، ج2، ص587.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص852.
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1392ش، ج5، ص124.
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ،، 1392ش، ج5، ص125.
- ↑ بحرانی، الدرر النجفیۃ، 1423ق، ج3، 205-220؛ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج29، 213-214.
- ↑ میرازی قمی، جامع الشتات، 1371ش، ج4، ص462-468.
- ↑ شیخ انصاری، صراط النجاۃ، 1373ش، ص244.
مآخذ
- امام خمينى، سيد روح اللہ، توضیح المسائل(مُحَشّی)، تحقیق سيد محمد حسين بنى ہاشمى خمينى، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ اول، 1392شمسی ہجری۔
- انصاری، مسعود و طاہری، محمدعلی، دانشنامہ حقوق خصوصی، تہران، انتشارات محراب فکر، چاپ اول، 1384شمسی ہجری۔
- بابازادہ، علی اکبر، مراسم عروسی، قم، مراسم عروسی، چاپ سوم، 1379شمسی ہجری۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الدرر النجفیّۃ من المُلتَقطات الیوسفیّۃ، بیروت، دار المصطفی لإحیاء التراث، 1423ھ۔
- شوشتری، محمد تقی، النجعۃ فی شرح اللمعۃ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1369شمسی ہجری۔
- شیخ انصاری، مرتضی، صراط النجاۃ، تحقیق محمد حسین فلاح زادہ، قم، کنگرہ بزرگداشت دویستمین سالگرد تولد شیخ اعظم انصاری، 1373شمسی ہجری۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الفروع من الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ سوم، 1367شمسی ہجری۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الائمۃ الأطہار، بیروت، موسسۃ الوفاء، چاپ دوم، 1403ھ۔
- میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمدحسن، جامع الشتات، تہران، موسسہ کیہان، 1371شمسی ہجری۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، الطبعۃ السابعۃ، بی تا.
- ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1392شمسی ہجری۔
- یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1409ھ۔