قتل شبہ عمد
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
![]() |
قتل شبہ عمد قتل کی ایک قسم ہے جس میں قاتل قتل کا ارادہ نہیں رکھتا ہے اور جس کام کو انجام دیا ہے وہ بھی عام طور پر وہ مہلک نہیں ہے، لیکن قاتل نے جان بوجھ کر اس فعل کا ارتکاب کیا ہے؛ جیسے طبی اقدامات جو ناخواستہ طور پر مریض کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ قتل شبہ عمد کے مقابلے میں قتل عمد اور قتل غیر عمد ہیں، جن میں سے پہلے والے میں قاتل قتل کا ارادہ رکھتا ہے، اور بعد والے میں، وہ نہ تو قتل کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی قتل کا باعث بننے والے کام کو جان بوجھ کر انجام دیتا ہے۔
فقہاء کے مطابق، قتل شبہ عمد میں کوئی قصاص نہیں ہے؛ لیکن قاتل پر کفارہ اور پوری دیت لازم ہیں۔ اس کا کفارہ دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
فقہ میں اس کی اہمیت
قتل شبہ عمد قتل کی ایک قسم ہے۔[1] فقہاء نے قصاص اور دیات کے باب میں اس موضوع اور اس سے متعلق احکام بیان کیے ہیں۔[2] حدیث کے بعض منابع میں اس عنوان کے بارے میں ایک باب بھی ہے۔[3] سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں قتل عمد کے ساتھ غیر ارادی قتل اور اس کی دیت دینا واجب ہونے کو بھی بیان کیا ہے اور مفسرینِ قرآن نے اس آیت کے ذیل میں قتل شبہ عمد کو بھی بیان کیا ہے۔[4]
مفہوم شناسی
قتل شبہ عمد سے مراد وہ قتل ہے جس میں کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ کئے بغیر قتل کیا جاتا ہے، اور جس فعل کا ارتکاب کیا جاتا ہے عام طور پر وہ بھی مہلک نہیں ہے؛ لیکن اس کام کو جان بوجھ کر انجام دیا جاتا ہے؛[5] جیسے طبی اقدامات جو ناخواستہ طور پر مریض کی موت کا سبب بنتے ہیں،[6] اور بچے کو عام طور پر دی جانے والی سزا جو غیر ارادی طور پر اس کی موت کا سبب بنتی ہے۔[7] فقہی اور قانونی ذرائع میں، نیم ارادی قتل یا قتل شبہ عمد قتل کی باقی دو اقسام یعنی قتل عمد (جان بوجھ کر قتل) اور قتل خطائے محض کے زمرے میں ذکر ہوتا ہے۔[8]
قتل عمد کا معیار یہ ہے کہ قتل میں قاتل کا عمل اور نیت جان بوجھ کر ہونی چاہیے۔ قتل غیر عمد کا معیار یہ ہے کہ قاتل کا عمل اور نیت دونوں خطا اور غلطی کی وجہ سے ہوں؛ جیسے کسی جانور کو گولی مارے اور غلطی سے کسی انسان کو لگ جائے۔[9] قتل شبہ عمد کا معیار یہ ہے کہ قاتل کا عمل عمداً ہو لیکن اس کی نیت قتل کی نہ ہو۔[10]
قتل شبہ عمد میں بعض اوقات کچھ ابہامات پائے جاتے ہیں اور اس کی تشخیص میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ قتل عمد اور قتل غیر عمد کا امتزاج ہے؛ یعنی چونکہ قاتل اس فعل کے ارتکاب کا ارادہ رکھتا ہے، اس لیے یہ قتل عمد کی طرح ہے، اور چونکہ قتل کا ارادہ نہیں رکھتا ہے، اس لیے یہ قتل خطائے محض کے مترادف ہے۔[11] مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ایسان نقصان پہنچائے جو صرف اس کی بیماری کا سبب بنے لیکن مستقبل میں وہی بیماری اس کی موت کا سبب بنتی ہے، تو اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ قتل ارادی ہے یا شبہ عمد ہے۔[12]
قتل شبہ عمد کی سزا
فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق، قتل شبہ عمد قاتل کے قصاص کا باعث نہیں بناتا ہے؛ بلکہ دیت ادا کرنا ہوگا۔[13] قتل شبہ عمد میں دیہ دو سال کی مدت میں واجب الأدا ہے اور قاتل کی اپنی جائیداد سے ہی ادا کی جاتی ہے۔[14] فقہی منابع میں آیا ہے کہ بعض اوقات دیہ اور خون بہاء کو معاف کرنے یا اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاتل کے ذمے سے ختم ہوجاتا ہے؛ مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر مریض کا علاج کرنے سے پہلے مریض کی موت کی صورت میں دیہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول نہ کرے اور مریض یا اس کا سرپرست بھی اسے قبول کر لے اور ڈاکٹر مریض کے علاج میں کوتاہی بھی نہ کرے اور مریض مر جائے تو مشہور رائے کے مطابق ڈاکٹر پر دیہ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔[15]
فقہاء کے مطابق قتل شبہ عمد میں دیہ کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا۔[16] مشہور قول[17] کے مطابق کفارہ کی ادائیگی اس طرح ہے: ایک غلام آزاد کرنا؛ اگر یہ ممکن نہ ہو تو لگاتار دو مہینے روزے رکھنا؛ اگر ان میں سے کچھ بھی ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔[18]
بعض ممالک کے قوانین میں قتل شبہ عمد
ایران کے قانون مجازات اسلامی میں قتل کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں جن میں قتل عمد، خطائے محض اور شبہ عمد شامل ہیں۔[19] فرانس جیسے کچھ غیر اسلامی قانونی نظاموں میں قتل کو ارادی قتل اور غیر ارادی قتل میں تقسیم کیا گیا ہے، اور اس میں قتل شبہ عمد کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔[20]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص414۔
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلّی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج4، ص228؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج42، ص7؛ سبزواری، مہذّب الأحکام، 1413ھ، ج29، ص62۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص278؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج29، ص35۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج5، ص136؛ فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج10، ص176-177؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص71۔
- ↑ گرجی، آیات الاحکام حقوقی و جزایی، 1385شمسی، ص45۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج43، ص46-47؛ منتظری، احکام پزشکی، 1427ھ، ص51؛ فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص187۔
- ↑ گرجی، آیات الاحکام حقوقی و جزایی، 1385شمسی، ص45۔
- ↑ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص414؛ «مادہ 289 قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش ہای مجلس شورای اسلامی؛ احمدی نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص101 و 102۔
- ↑ محقق حلّی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج4، ص228۔
- ↑ محقق حلّی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج4، ص228۔
- ↑ مالمیر و دیگران، «معیارہای قتل شبہ عمد در فقہ امامیہ و حقوق موضوعہ ایران»، ص56۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387شمسی، ج6، ص492۔
- ↑ حلّی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج5، ص527؛ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص415۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص229؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، مجمع الفکر الاسلامی، ج4، ص488؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج2، ص556-557۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج43، ص46-47؛ منتظری، احکام پزشکی، 1427ھ، ص51؛ فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص187۔
- ↑ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص415؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج43، ص407؛ منتظری، الأحکام الشرعیۃ، 1413ھ، ص564۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387شمسی، ج4، ص495۔
- ↑ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص415؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج43، ص407۔
- ↑ حاتمی و دیگران، «تشخیص قتل شبہ عمدی در فقہ امامیہ و نظام ہای حقوقی ایران و فرانسہ»، ص124۔
- ↑ حاتمی و دیگران، «تشخیص قتل شبہ عمدی در فقہ امامیہ و نظام ہای حقوقی ایران و فرانسہ»، ص130۔
مآخذ
- احمدی نژاد، نیما، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، پژوہش ملل، شمارہ 58، آبان 1399ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، چاپ اول، بی تا.
- جزیری، عبد الرحمن، غروی، سید محمد، مازح، یاسر، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ و مذہب أہل البیت وفقاً لمذہب أہل البیت(علیہم السلام)، بیروت، دار الثقلین، چاپ اول، 1419ھ۔
- حاتمی، محمود و دیگران، «تشخیص قتل شبہ عمدی در فقہ امامیہ و نظام ہای حقوقی ایران و فرانسہ»، در فصلنامہ پژوہش تطبیقی حقوق اسلام و غرب، شمارۂ 2، تابستان 1401ہجری شمسی۔
- حسینی شیرازی، سید محمد، فقہ العولمۃ، بیروت، مؤسسۃ الفکر الإسلامی، اول، 1423ھ۔
- حلّی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1420ھ۔
- سبزواری، سید عبدالأعلی، مہذّب الأحکام فی بیان الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، بی تا.
- شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
- فاضل لنکرانی، محمد، احکام پزشکان و بیماران، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
- فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
- «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ اشاعت: 1 اردیبہشت 1392شمسی، تاریخ مشاہدہ، 25 آذر 1403ہجری شمسی۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن عبداللّٰہ، فقہ القرآن، تحقیق: سید احمد حسینی، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃاللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، 1405ھ۔
- کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
- گرجی، ابو القاسم، آیات الاحکام حقوقی و جزایی، تہران، نشر میزان، چاپ سوم، 1385ہجری شمسی۔
- مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- مالمیر، محمود و دیگران، «معیارہای قتل شبہ عمد در فقہ امامیہ و حقوق موضوعہ ایران»، در مجلہ علمی فقہ، حقوق و علوم جزا، شمارۂ 10، زمستان 1397ہجری شمسی۔
- محقق حلّی، نجم الدین جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح: عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- مصباح یزدی، محمدتقی، نظریہ حقوقی اسلام، تحقیق و نگارش: محمدمہدی نادری قمی و محمدمہدی کریمی نیا، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1391ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
- منتظری، حسین علی، احکام پزشکی، قم، نشر سایہ، چاپ، سوم، 1427ھ۔
- منتظری، حسینعلی، الأحکام الشرعیۃ علی مذہب أہل البیت(ع)، قم، نشر تفکر، چاپ اول، 1413ھ۔
- موحدی ساوجی، محمدحسن، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، دین و دنیای معاصر، شمارہ 10، 1398ہجری شمسی۔
- نجفی جواہری، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ھ۔