حجاب
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
حجاب، دینی اصطلاح میں خواتین کے پردے یا پوشش کو کہا جاتا ہے جو وہ نامحرم مردوں کے سامنے اختیار کرتی ہے۔ مسلمان فقہا اور علما کے مطابق حجاب دین اسلام کے مسلّم واجبات اور ضروریات مذہب میں سے ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور اہل بیتؑ سے منقول احادیث میں اس کی وجوب اور اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ نامحرم مردوں کے سامنے خواتین پر حجاب کرنا واجب ہے۔ بعض محققین نے اس حکم کے کئی فوائد بیان کیے ہیں، جن میں ذہنی اور روحانی سکون، خاندانی رشتوں کا استحکام، معاشرتی بنیادوں کا مستحکم ہونا اور خواتین کی عزت و احترام کا تحفظ شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں کشف کے واقعہ کے بعد، حجاب کا مسئلہ ایک خالص مذہبی موضوع سے نکل کر سیاسی اور ثقافتی مسئلہ بن گیا، اور اس موضوع پر سب سے زیادہ علمی آثار اسی دور اور بعد کے ادوار میں تحریر کیے گئے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حجاب اجباری کا مسئلہ زیر بحث آیا، اور سنہ 1360ش (مطابق 1981ء) میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے مطابق بے حجابی کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ ایران کے قومی تقویم میں 21 تیر ماہ (12 جولائی) کو، کشف حجاب کے خلاف مشہد کے عوامی قیام کی یاد میں، یوم عفاف و حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اسلام میں حجاب کی اہمیت
حجاب اور نامحرم مرد کے سامنے خواتین کا پردہ اسلام کے اہم مسائل میں سے ہے اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں اس مسئلے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[1] شیعہ فقہا کا کہنا ہے کہ حجاب دین اسلام کے مسلّمات، واجبات بلکہ ضروریات دین میں سے ہے۔[2] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق موجودہ زمانے میں ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے ساتھ معاشرت رکھتا ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے اہم مسائل میں سے ایک حجاب ہے اور بتدریج یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہم شعار اور نعروں میں تبدیل ہوا ہے، جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور اسے اپنی شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں۔[3]
فقہ میں طلاق[4] اور نکاح جیسے ابواب، خاص طور پر نامحرم پر نظر ڈالنے کے مسئلے کے ضمن میں حجاب پر بحث کی گئی ہے۔[5] فقہی و حدیثی متون میں لفظ حجاب کی جگہ عموماً «سِتر» کا لفظ استعمال ہوتا ہے،[6]اور خواتین کے پردے کے لئے لفظ "حجاب" کا استعمال زیادہ تر عصر حاضر میں رائج ہوا ہے۔[7]
لغوی اعتبار سے، حجاب پوشش اور حائل کو کہا جاتا ہے، یعنی وہ چیز جو دو چیزوں کے درمیان فاصلہ یا رکاوٹ پیدا کرے۔[8]
احکام
مسلمان فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے[9] کہ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنا بدن اور سر کے بال نامحرم مرد سے چھپائے۔[10] بعض فقہا نے اس حکم کو نہ صرف واجبات بلکہ ضروریات دین اور مذہب میں شمار کیا ہے۔[11] عورت کے لیے واجب پردے کی حدود کے بارے میں دو بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں:[12]
- پورے بدن کا چھپانا واجب ہے ماسوائے چہرے کی گردی اور ہاتھوں کی کلائی سے انگلیوں تک: زیادہ تر فقہا اسی نظریے کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق اگر گناہ میں پڑنے کا احتمال نہ ہو تو چہرہ اور ہاتھ کے مذکورہ حصوں کو واجب پردے سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔[13]
- پورے بدن کا پردہ واجب ہے: فاضل مقداد[14] اور سید عبد الاعلی سبزواری[15] جیسے فقہا کے نزدیک عورت کے لیے پورے بدن، حتیٰ کہ چہرے اور ہاتھوں کو بھی کو نامحرم مردوں سے ڈھانپنا واجب ہے ۔[16] مرعشی نجفی کے مطابق خواتین کے لئے چہرہ اور ہاتھ کو نامحرم مردوں سے چھپانا احتیاط کی بنا پر واجب ہے،[17] جبکہ سید محمدکاظم طباطبائی یزدی (صاحب عروۃ الوثقیٰ) اس سلسلے میں احتیاط مستحب کے قائل ہیں۔[18]
وجوب حجاب کے شرعی دلائل
حجاب کے وجوب کو ثابت کرنے کے لیے فقہاء نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
قرآن
سورہ نور آیت نمبر 31 اور سورہ احزاب آیت نمبر 59 قرآن کی ان اہم آیات میں سے ہیں جن پر فقہاء حجاب کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے استدلال کرتے ہیں۔[19] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق قرآن کریم میں کم از کم چھ آیات ایسی ہیں جو عورت پر نامحرم کے سامنے حجاب کے واجب ہونے کی صراحت کرتی ہیں۔[20]
روایات
کہا جاتا ہے کہ نامحرم کے سامنے خواتین پر حجاب کے وجوب پر دلالت کرنے والی روایات تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔[21] آیت اللہ مکارم شیرازی ان روایات کو سات قسموں میں تقسیم کرتے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- سورۂ نور آیت نمبر 31 «وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (ترجمہ: اور (مومن) عورتوں سے کہو کہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔)» کی تبیین اور تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث۔[22]
ان احادیث کے مطابق "آشکار زینت" سے مراد چہرے کی گردی اور ہاتھ (انگلیوں کے سروں سے کلائی تک) ہیں۔ ان کے علاوہ بدن کے دیگر حصوں کو نامحرم مردوں سے چھپانا اور پردہ کرنا واجب ہے۔[23]
- سورۂ نور آیت نمبر 60 کی تفسیر میں وارد ہونے والی احادیث میں بوڑھی خواتین (القواعد من النساء) جن کے ساتھ شادی کرنے میں عموما کوئی دلچسپی نہیں لی جاتی، کے لئے جلباب (چادر یا دوپٹہ) اتارنا جائز قرار دیا گیا ہے۔[24] ان کے علاوہ باقی خواتین پر اپنے بدن اور سر کے بالوں کو نامحرموں سے چھپانا اور پردہ کرنا واجب ہے۔[25]
- کنیزوں (لونڈیوں) کے حجاب سے متعلق وارد ہونے والی روایات میں جب ان کے لیے حجاب اور پردے کی حد کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کے لیے پردے کی حدود میں کچھ نرمی بیان کی گئی ہے۔[26] چونکہ ان روایات میں کنیزوں کے پردے کی استثنائی موارد پر گفتگو کی گئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ یعنی حجاب کا وجوب سب کے نزدیک مسلم اور قطعی تھا۔[27]
- وہ روایات جن میں لڑکیوں پر بالغ ہونے کے بعد حجاب اور اپنے آپ کو نامحرموں سے چھپانے کو واجب قرار دیا گیا ہے۔[28] ان روایات میں لڑکیوں اور خواتین پر حجاب لازم ہونے کے وقت اور زمانے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے یہ بات اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجاب کا اصل حکم دین اسلام میں ایک قطعی اور مسلم اصول کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔[29]
اسلام میں حجاب کا فلسفہ
مرتضیٰ مطہری اور دیگر علما نے پردے اور حجاب کی مختلف حکمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- ذہنی و روحانی سکون: جب عورت اور مرد کے درمیان کوئی حد فاصل یا حریم باقی نہ رہے، اور آزادانہ طور پر بے لگام میل جول عام ہو جائے، تو اس سے جنسی جذبات میں شدت اور ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت رفتہ رفتہ ایک جذباتی پیاس اور ناقابل تسکین جنسی غریضے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف سے اس طرح کی نامحدود خواہشات چونکہ کبھی مکمل طور پر پوری نہیں ہوتی، اس لیے انسان میں احساسِ محرومی بڑھتا ہے، جو نفسیاتی اضطراب اور روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔[30]
- خاندانی تعلقات کا استحکام: خواتین کا حجاب اختیار کرنا خاندانی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور زوجین کے درمیان تعلقات میں صمیمیت پیدا کرتا ہے۔ چونکہ حجاب کی وجہ سے غیر محرم کے ساتھ جنسی لذت کے مواقع کسی حد تک ختم ہو جاتے ہیں، اور جنسی جذبات کی تسکین صرف ازدواجی زندگی اور گھریلو ماحول تک محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی امر میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور رشتوں کو مضبوط اور پائیدار بناتا ہے۔[31]
- معاشرتی استواری: جب مرد اور عورت کے درمیان پوشش کا لحاظ نہ ہو اور بے لگام تعلقات کو عام کر دیا جائے، تو جنسی لذتوں کا دائرہ گھریلو حدود سے نکل کر سماجی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ خود معاشرے میں محنت اور اجتماعی کارکردگی میں کمزوری کا باعث بنتا ہے یوں سماجی نظم و استحکام متاثر ہوتا ہے۔[32]
- عورت کی قدر و قیمت اور احترام: مرتضیٰ مطہری کے مطابق اسلام کی نظر میں عورت جتنی باوقار، باحیا اور عفیف ہو اور جتنا کم اپنے آپ کو نامحرم کی نگاہوں کے سامنے ظاہر کرے، اتنی ہی زیادہ باعزت، باوقار اور محترم شمار ہوتی ہے۔[33] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق بے حجابی عورت کی شخصیت کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ جب معاشرہ عورت کو صرف عریاں جسم کی بنیاد پر قبول کرے، تو لازمی طور پر آرایش اور خودنمائی کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں عورت کی انسانی حیثیت ختم ہو کر محض بازاری شئ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے جس سے اس کی روحانی و اخلاقی قدریں فراموش ہو جاتی ہیں۔[34]
معاصر ایران میں حجاب کا مسئلہ
رسول جعفریان کے مطابق ایران میں مشروطہ تحریک کے بعد اور جدید مغربی دنیا سے آشنائی کے ساتھ، حجاب ایک بحث انگیز اور متنازعہ مسئلہ بن گیا۔ جبکہ اس سے پہلے اسے محض ایک فقہی اور شرعی فریضہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔[35] تقریباً ساٹھ برس کے عرصے میں، خصوصاً 1950ء تا 1969ء کے دوران ایران میں حجاب کے موضوع پر ایک وسیع علمی تحریک وجود میں آئی۔ اس سے قبل شیعہ علما کے درمیان حجاب پر کوئی مستقل فقہی رسالہ موجود نہیں تھا،[36] لیکن اسی دور میں سب سے زیادہ فقہی و دینی رسائل حجاب کے دفاع میں تحریر کیے گئے۔[37]
رضاشاہ پہلوی نے مغربی افکار اور ترکی میں ہونے والی اصلاحات و تبدیلیوں سے متاثر ہو کر 7 جنوری 1936ء کو کشف حجاب کا فرمان ایک سرکاری قانون کے طور پر جاری کیا۔[38] تاہم، اس کے زوال اور ایران و عراق کے علما و مراجع کی جدوجہد سے سنہ 1943ء میں کشف حجاب کا قانون منسوخ کر دیا گیا اور اس کی جبری حیثیت ختم ہو گئی۔[39]
ایران میں اسلامی انقلاب (1979ء) کے بعد حجاب اجباری کا مسئلہ خاص طور پر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے لباس کے حوالے سے، دوبارہ زیر بحث آیا۔[40] سنہ 1981ء میں قانون کی دفعہ 180، شق 5 میں بے حجابی کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔[41] ایران کے قومی تقویم میں 12 جولائی کو، کشف حجاب کے خلاف مشہد کے عوامی قیام کی یاد میں، یومِ عفاف و حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔[42]
اسلامی ممالک میں حجاب

مختلف اسلامی ممالک میں حجاب کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں۔[43] مثال کے طور پر ایران میں سادہ سیاہ چادر کو رسمی طور پر حجاب سمجھا جاتا ہے۔[44] بعض خواتین ایران میں عربی چادر یا عبا بھی اوڑھتی ہیں، جو بالعموم عرب علاقوں کی مسلم عورتوں میں زیادہ رائج ہے۔[45] ہندوستان اور پاکستان میں مسلمان خواتین حجاب کے لیے ایک روایتی لباس "چادر" استعمال کرتی ہیں۔[46] یہ چادر عموما لمبی ہوتی ہے جو ٹخنوں تک پہنچتی ہے، اور اس کے ساتھ ایک بڑا سا "دوپٹہ" یا اوڑھنی ہوتی ہے جو سر اور سینوں کو ڈھانپتا ہے۔ یہ لباس عموماً قمیص شلوار کے ساتھ پہنی جاتی ہے۔[47] انڈونیشیا کی مسلمان خواتین میں جلباب عام ہے، جو ایک ڈھیلا ڈھالا لمبا لباس ہے۔ جدید جلباب عام طور پر ہاتھوں کے علاوہ پورے جسم، سر اور گردن کو ڈھانپتا ہے۔ سر اور گردن کو مزید روسری یا شال سے بھی چھپایا جاتا ہے۔[48]
افغانستان میں عورتوں کا سب سے معروف لباس برقع ہے۔ برقع ایک ایسا کپڑا ہوتا ہے جو سر سے لے کر پیروں تک پورے جسم کو ڈھانپتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے جالی دار کپڑا ہوتا ہے تاکہ دیکھنے میں دشواری نہ ہو۔[49] طالبان کے دور حکومت میں برقع عورتوں کا لازمی اور بنیادی لباس رہا ہے۔[50]
لبنان میں بعض مسلمان خواتین سیاہ چادر اور اوڑھنی کے ساتھ حجاب کرتی ہیں، جبکہ کچھ خواتین لمبی مانتو (اوور کوٹ) کے ساتھ اوڑھنی یا مقنعہ پہنتی ہیں۔[51]
کتابیات

حجاب پر مختلف مصنفین نے علمی و تحقیقی آثار تحریر کیے ہیں،[52] جن میں سے چند یہ ہیں:
- الحجاب فی الاسلام — تألیف: محمد قوام وشنوی قمی؛ یہ کتاب سنہ 1959ء میں انتشارات الحکمہ، قم سے شائع ہوئی۔
- مسئلۂ حجاب — تألیف: مرتضیٰ مطہری؛ اس کتاب میں حجاب سے متعلق وہ دروس و بیانات شامل ہیں جو مطہری نے ڈاکٹروں کی اسلامی انجمن میں دیے تھے۔ بعد میں انہیں ترتیب و تدوین کے بعد کتابی شکل دی گئی۔[53]
- رسائلِ حجابیہ — تألیف: رسول جعفریان؛ دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب 33 فقہی و فکری رسائل پر محیط ہے۔ آغاز میں مؤلف نے ایک مقدمہ بعنوان "سابقہ بدعت کشف حجاب" تحریر کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں چھ ضمیمے (پیوستہا) شامل ہیں:
- پہلا ضمیمہ: رسالۂ مدنیہ (1288ش) — جس میں تعدد ازواج، حجاب اور طلاق پر بحث کی گئی ہے۔
- دوسرا و تیسرا ضمیمہ: مجتبیٰ مینوی اور علی دشتی کے دو مقالے، جو کشفِ حجاب کے دفاع میں ہیں۔
- چوتھا ضمیمہ: فارسی شاعری میں حجاب اور ضدِ حجاب پر۔
- پانچواں ضمیمہ: حجاب سے متعلق کتابوں کی فہرست (کتاب شناسی)۔[54]
- حجابِ شرعی در عصر پیامبر (پیغمبر اکرمؐ کے دور میں شرعی حجاب) — تألیف: امیر حسین ترکاشوند۔ یہ کتاب 1017 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہے، جو سنہ 2010ء میں وزارتِ ارشاد کو اشاعت کے لیے پیش کی گئی، لیکن اجازتِ اشاعت نہ ملنے پر مصنف نے اسے ای میل اور ذاتی بلاگ کے ذریعے شائع کیا۔[55]کتاب تین بنیادی حصوں پر مشتمل ہے: اسلام سے قبل کا حجاب اور مسلمانوں کا ردعمل (احادیث و تاریخی روایات کی بنیاد پر) قرآن کے زیرِ سایہ حجاب (قرآنی آیات کی روشنی میں) فقہی مباحث (عصرِ نبوی کے حجاب کے ساتھ فقہی آرا کا تقابل) مصنف کا مقصد نبی اکرمؐ کے زمانے کے شرعی حجاب کی مقدار و نوعیت کا تعین کرنا ہے، تاکہ موجودہ دور کے نظریات کو اس تاریخی معیار سے پرکھا جا سکے۔[56]
- حجابشناسی: چالشہا و کاوشہای جدید — تألیف: حسین مہدیزادہ یہ کتاب 2002ء میں شائع ہوئی۔ اس میں مندرجہ ذیل موضوعات شامل ہیں: عفاف و حجاب کی ترویج و تبلیغ، حجاب کے سماجی اثرات، حجاب کی کمزوریوں اور چیلنجوں کا تجزیہ، احکامِ حجاب، اعتقاد و التزامِ حجاب، حجاب و لباس کی تاریخ، ادیان و اقوام میں حجاب، حجاب اور عورت کی کرامت، خودنمائی و جلباب، حجاب کی ضرورت، فلسفہ اور کیفیت، نظر اور اس کے احکام۔[57]
حوالہ جات
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص15۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص53؛ «توضیح المسائل جامع: نگاہ بہ عکس یا فیلم»، سایت رسمی دفتر آیتاللہ سیدعلی سیستانی۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص53۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ش، ج2، ص282۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص316؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص228۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص73؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص402۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص73؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص402۔
- ↑ جوہری، الصحاح، 1376ھ، ذیل واژہ «حجب»؛ ابن منظور، لسان العرب، 1414ھ، ذیل واژہ «حجب»
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثفی، 1387ھ، ج5، ص239۔
- ↑ علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج2، ص98؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص317۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص229؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثفی، 1387ھ، ج5، ص239۔
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ش، ج2، ص283۔
- ↑ علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج2، ص98؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج29، ص75؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص317؛ خویی، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ج32، ص42۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج2، ص222۔
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص230-238۔
- ↑ وشنوی قمی، الحجاب فی الاسلام، 1379ھ، ص1-2؛ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص13۔
- ↑ مرعشی نجفی، منہاج المؤمنین، 1406ھ، ج1، ص143۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص317۔
- ↑ رجایی، مسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص46؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص53۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص53۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص53۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ھ، ج20، ص201-202۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص55۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ھ، ج20، ص202-204؛ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، 1416ھ، ج1، ص67-68۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص55۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ھ، ج20، ص207۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص55۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ھ، ج20، ص228-229۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج1، ص56۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص77-80؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج14، ص443۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص81۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص81۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص86۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج14، ص445-446۔
- ↑ جعفریان، داستان حجاب در ایران پیش از انقلاب، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص11-12۔
- ↑ جعفریان، رسائل حجابیہ، ج1، ص36۔
- ↑ جعفریان، رسالہ حجابیہ، ج1، ص30-31۔
- ↑ حکمت، سیخاطرہ از عصر فرخندہ پہلوی، 1355ش، ص90؛ حائری، روزشمار شمسی، 1386ش، ص713۔
- ↑ جعفریان، رسائل حجابیہ، ج1، ص36۔
- ↑ «تاریخچہ حجاب در ایران؛ ازپیروزی انقلاب اسلامی تا پایان جنگ تحمیلی»، سایت خبرگزاری فارس۔
- ↑ «سیر تصویب قانون حجاب و عفاف در ایران»، سایت خبرگزاری تسنیم.
- ↑ «بہ مناسبت بیست و یکم تیرماہ سالروز قیام مردم مشہد علیہ کشف حجاب»، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی۔
- ↑ «انواع حجاب در کشورہای مسلمان»، سایت مشرق نیوز۔
- ↑ «چادر در فرہنگ اسلامی»، سایت مؤسسہ فرہنگی و ہنری مشعر۔
- ↑ «انواع حجاب در کشورہای مسلمان»، سایت مشرق نیوز۔
- ↑ «انواع حجاب در کشورہای مسلمان»، سایت مشرق نیوز۔
- ↑ For Pakistani women, dupattas are more than a fashion statement", Los Angeles Times
- ↑ «انواع حجاب در کشورہای مسلمان»، سایت مشرق نیوز۔
- ↑ «برقع» پوشش سنتی زنان افغان با دوامی 10 سالہ»، سایت خبرگزاری فارس۔
- ↑ «طالبان استفادہ از "برقع" را برای زنان اجباری کرد.»، سایت خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
- ↑ «حجاب لبنانی (ہمہ چیز دربارہ حجاب در کشور لبنان)»، سایت مقنعہ خورشید۔
- ↑ سعیدزادہ، کتابشناسی حجاب۔
- ↑ مطہری، مسئلہ حجاب، 1386ش، ص13۔
- ↑ جعفریان، رسائل حجابیہ، 1380ش، ج1، ص20۔
- ↑ «کتاب «حجاب شرعی در عصر پیامبر» اثر امیرحسین ترکاشوند»، سایت صدانت۔
- ↑ ترکاشوند، حجاب در عصر پیامبر، 1389ش، ص7-8۔
- ↑ «توليد نرمافزار «حجابشناسی، چالشہا و كاوشہای جديد»»، خبرگزاری ایکنا۔
مآخذ
- ابنمنظور، جمال الدین، لسان العرب، بیروت، دار صادر، 1414ھ۔
- «انواع حجاب در کشورہای مسلمان»، سایت مشرق نیوز، تاریخ درج مطلب: 21 تیر 1395ش، تاریخ بازدید: 2 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- «برقع» پوشش سنتی زنان افغان با دوامی 10 سالہ»، سایت خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: 13 شہریور 1392ش، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- ترکاشوند، امیرحسین، حجاب شرعی در عصر پیامبر، تہران، بینا، 1389ہجری شمسی۔
- «توليد نرمافزار «حجابشناسی، چالشہا و كاوشہای جديد»»، خبرگزاری ایکنا، تاریخ درج مطلب: 26 مہر 13990ش، تاریخ بازدید: 4 مہر 1402ہجری شمسی۔
- جوہری، ابونصر، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، تحقیق احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- «حجاب لبنانی (ہمہ چیز دربارہ حجاب در کشور لبنان)»، سایت مقنعہ خورشید، تاریخ درج مطلب: 21 آبان 1400ش، تاریخ بازدید: 4 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1412ھ۔
- حکیم، سیدمحسن، مستمسک عروۃ الوثقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ چہارم، 1391ھ۔
- خویی، سیدابوالقاسم، موسوعۃ الامام خویی، نجف، مؤسسۃ الخویی الامامیۃ، بیتا.
- «چادر در فرہنگ اسلامی»، سایت مؤسسہ فرہنگی و ہنری مشعر، تاریخ درج مطلب: 9 مہر 1399ش، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- رجایی، سیدمحمد، المسائل الفقہیۃ، قم، انتشارات مہر، 1421ھ۔
- سبحانی، جعفر، نظام النکاح فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1416ھ۔
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بیتا.
- سعیدزادہ، محسن، کتابشناسی حجاب، پیام زن، شمارہ8، آبان 1371ہجری شمسی۔
- «طالبان استفادہ از "برقع" را برای زنان اجباری کرد»، سایت خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج مطلب: 17 اردیبہشت 1401ش، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلفالشیعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1413ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
- «کتاب «حجاب شرعی در عصر پیامبر» اثر امیرحسین ترکاشوند»، سایت صدانت، تاریخ بازدید: 10 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- مرعشی نجفی، سید شہابالدین، منہاج المؤمنین، قم، کتابخانہ عمومی آیتاللہ مرعشی نجفی، 1406ھ۔
- مطہری، مرتضی، مسئلہ حجاب، قم، انتشارات صدرا، چاپ ہفتاد و سوم، 1386ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1424ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
- وشنوی قمی، محمدقوام، الحجاب فی الاسلام، قم، مطبعۃ الحکمۃ، 1379ھ۔
- For Pakistani women, dupattas are more than a fashion statement", Los Angeles Times", data: 23 February 2010، Visited in 16 July 2023