حجاب
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
حجاب ایک دینی اصطلاح ہے اور شریعت میں اس کے معنی خواتین کے بدن کے بعض حصوں کو چھپانا ہے۔ اسلام سے پہلے کی اقوام میں بھی حجاب پایا جاتا تھا اور قرآن مجید کی بعض آیات اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی حجاب کی اہمیت اور وجوب کا تذکرہ ہوا ہے۔
فقہ میں حجاب کا حکم، نماز اور نکاح کے باب میں بیان ہوا ہے۔ فقہاء کی نظر میں یہ حکم دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حجاب واجب ہونے کی حکمت اور دلیل، معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پاسداری اور لوگوں کو نفسیاتی اور ذہنی الجہنوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
ایران میں اسلامی تعزیرات کی دفعہ 638 کے ایک بند میں بے حجابی کو جرم قرار دیا ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
عربی زبان میں حجاب کے معنی مانع یعنی ایسی چیز جو دو چیزوں کے درمیان جدائی ڈال دے، چھپانا اور پردہ کرنے(سِتر) کے معنی میں ہے۔ [1] پسلیوں اور پیٹ کے درمیانی حائل پردے کو "حجاب حاجز" کہا جاتا ہے۔[2] آج کل حجاب کا لفظ عرف عام اور فقہی اصطلاح میں خواتین کے شرعی پردے کو کہا جاتا ہے۔
اسلام سے پہلے
اسلام سے پہلے کی اقوام میں بھی خواتین کے پردے کا رواج تھا،[3].عیسائی اور یہودی، خواتین کے سر کے بال چھپانے کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اس کو خواتین کی عفت کی نشانی سمجھتے تھے۔ عیسائی الہیات کا عالم، ترتولیانوس (متوفی ۲۲۵م) حجاب کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی کتاب میں عیسائی عورتوں کو کپڑے پہننے، سر کے بال کو زینت کرنے، چلنے کا طریقہ اور زیورات کے استعمال میں مشرک عورتوں کی طرح نہ ہونے کو لازمی قرار دیتا ہے۔ بیسویں صدی میں آرتھوڈوکس یہودیوں کے ایک گروہ، بھی خواتین کے سر کے بال ڈھانپنے کی تاکید کرتے ہیں[4]۔
قرآن اور حجاب
حجاب کا لفظ قرآن مجیدمیں سات بار (اکثر اوقات مانع اور حائل کے معنی میں) آیا ہے؛ اعراف: ۴۶، اسراء: ۴۵، مریم: ۱۷، احزاب: ۵۳، ص: ۳۲، فصّلت: ۵، اور شوری:۵۱.
سورہ احزاب کی آیت نمبر 53
سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 میں مسلمان مردوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کے سامنے جانے سے منع کیا ہے۔ اس آیت کا نزول گویا نامحرم مردوں کے سامنے عورتوں کیلیے حجاب واجب ہونے کے بیان میں پہلا قدم ہے، جبکہ حجاب کا مفہوم اور اس کے شرعی حدود کو تدریجی طور پر قرآن کی آیتوں کے نازل ہونے کے ساتھ ساتھ بیان کی گئی ہے: وَ إِذَا سَأَلْتُمُوہنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْہرُ لِقُلُوبِكُمْ وَ قُلُوبِہنَّ (ترجمہ: اور جب تمہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو؛ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لئے زیارہ بہتر طریقہ ہے)۔
اس آیت میں مردوں کو ازواج نبی کے ساتھ پردے کے پیچھے سے (مِنْ وَراءِ حجابٍ) بات کرنے اور پیغمبر اکرم کی بیویوں کو نامحرموں کی نظروں کے سامنے ظاہر نہ ہونے کا حکم ہوا ہے۔ اور اس کام کو طرفین کے لئے بہتر اور مناسب جانا گیا ہے۔ اس آیت مجیدہ میں "حجاب" کا لفظ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ آیت، "آیت حجاب" کے نام سے مشہور ہے، اس کا حکم صرف پیغمبر اکرم کی بیویوں کے ساتھ خاص تھا اور دوسری مسلمان عورتیں اس میں شامل نہیں تھیں۔[5].
ابن امّ مکتوم کی حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں کو نابینا مرد کے حضور میں بھی پردے کے پیچھے رہنے کا حکم دیا۔[6] دیگر احادیث بھی اسی معنی میں ہیں[7].
ازواج نبی کا اس حکم پر پابندی سے عمل پیرا ہونا اور صدر اسلام کے مسلمانوں کا اس آیت کو حجاب پر دلیل سمجھنا[8]، اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ شروع میں حجاب واجب ہونے کی حکمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان و منزلت کی حفاظت اور ایک طرح سے ان کی بیویوں کا احترام مقصود تھا۔
خودنمائی کی نفی
ہجرت کے پانچویں سال تک کہ یہ آیت اسی سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب بنت جَحْش سے شادی کے موقعے پر نازل ہوئی تھی،[9] مذکورہ آیت میں ذکر شدہ "حجاب" کسی بھی مسلمان عورت پر واجب نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اس آیت سے پہلے نازل ہونے والی اسی سورہ کی دوسری چند آیتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں اور دوسری مسلمان عورتوں کو جاہلیت کے دور کی طرح تبرّج (زینت) سے منع ہوا ہے لیکن نہ تبرج اور زینت کی نفی سے حجاب کے حدود اور دائرہ کار کا تعیین ہوتا تھا اور نہ زینت اور تبرج سے پرہیز کرنا حجاب سے بے نیازی کا سبب بنتا تھا۔ بہر حال آیت حجاب عورتوں کے حجاب کے بارے میں کوئی مستقل دلیل نہیں بلکہ پردے کا شرعی حکم اور اس کا محدودہ قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔
سورہ احزاب کی آیت نمبر 59
سورہ احزاب کی آیہ نمبر 59 کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں کو حکم دیا گیا کہ دوسروں کی اذیت سے بچنے اور اپنی شناخت کرانے کیلیے جلباب پہن لیں: یا أَیہا النَّبِی قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَ بَنَاتِكَ وَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یدْنِینَ عَلَیہنَّ مِن جَلَابِیبِہنَّ ذَٰلِكَ أَدْنَیٰ أَن یعْرَفْنَ فَلَا یؤْذَینَ وَكَانَ اللَّہ غَفُوراً رَّحیمًا (ترجمہ: اے نبی! اپنی ازواج او راپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجیے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لئے (احتیاط کے) قریب تر ہوگا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔)
عربی زبان کے ماہرین اور مفسروں نے جلباب کے لئے مختلف معانی ذکر کئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
- سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا لباس جیسے بڑی چادر
- وہ ڈھیلا لباس جو عورتیں کپڑوں کے اوپر پہنتی ہیں جو پاوں تک پہنچتا ہے۔
- لحاف، مقنعہ اور سکارف جو عورت کا چہرہ اور سر کو ڈھانپ لیتا ہے۔[10]
بعض روایات[11] سے اخذ ہوتا ہے کہ مردوں کے بعض کپڑوں کو بھی جلباب کہا جاتا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے حکم میں جلباب سے مراد پورا بدن ڈھانپنے والا (جیسے چادر یا لحاف) کپڑا ہونے کا احتمال قوی ہے۔[12]
«ذلک اَدْنی اَن یعْرَفْنَ» یعنی مؤمن عورتیں کن لوگوں سے پہچانی جائیں اس بارے میں مفسروں کے مابین ایک نظریہ نہیں ہے۔ بعض لوگ آیت شریفہ کی شأن نزول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مدینہ کی خواتین کو آوارہ لوگوں کی طرف سے بری حرکات اور آداب و نزاکت کے دائرے سے باہر کی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اعتراض کرنے پر ان کی طرف سے کنیز سمجھ کر مرتکب ہونے کا عذر پیش کرنے کی وجہ سے جلباب، آزاد عورتوں کو کنیزوں سے پہچاننے اور آوارہ لوگوں کی اذیت اور آزار سے بچنے کے لئے وسیلہ قرار دیا گیا۔[13]. اگرچہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کنیزوں کو چھیڑنے سے شارع راضی ہو۔
ان کے مقابلے میں بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ جلباب پہننا دوسری عورتوں کے مقابلے میں پاکدامن اور باعفت خواتین کی نشانی ہے۔[14] جبکہ اہل سنت کے بہت سارے مفسرین اور فقہاء[15] اور بعض شیعہ مفسرین اور فقہاء نے بھی حجاب کے الزامی ہونے کو آیہ جلباب سے تمسک کیا ہے۔[16]، جبکہ بعض اور فقہاء کی نظر میں اس آیہ میں یہ حکم نہ واجب ہے اور نہ ہی عام، بلکہ جلباب عورتوں کو پاکدامن اور «آزاد» دکھانے اور انکی شخصیت محفوظ کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔[17] اور شاید اسی وجہ سے مدینہ کی بعض خواتین نے اس کا استقبال کیا۔[18].
سورہ نور کی آیت نمبر 31
سورہ احزاب کے بعد سورہ نور کی آیت نمبر31 نازل ہونے کے بعد خواتین پر حجاب واجب ہوگیا: وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہنَّ وَ یحْفَظْنَ فُرُوجَہنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَہنَّ إِلَّا مَا ظَہرَ مِنْہا وَ لْیضْرِبْنَ بِخُمُرِہنَّ عَلَیٰ جُیوبِہنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَہنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہنَّ أَوْ آبَائِہنَّ... وَ لَایضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہنَّ لِیعْلَمَ مَا یخْفِینَ مِن زِینَتِہنَّ وَ تُوبُوا إِلَی اللہ جَمِیعًا أَیہ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (ترجمہ: اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں اور آباء... کے۔ اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے۔)
اس آیت میں با ایمان عورتوں کو حکم ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور عام طور پر ظاہر ہونے والی زینتوں کے سوائے دوسری زیتوں کو ظاہر نہ کریں اور اپنی چادر کو اپنے گریباں پر ڈال دیں اور زینت کو بعض معین افراد (جو آیت میں ذکر ہوئے ہیں) کے لئے ظاہر کریں اور اپنے پاوں کو ایسے زمین پر نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے: یہ آیت فقہاء کے لئے حجاب کے وجوب ثابت کرنے اور اس کے حدود اور دائرہ کو معین کرنے کے لئے مہم مستند ہے۔ اور حجاب کی بحث احادیث میں بھی اس آیہ شریفہ بالخصوص اس کلمہ «اِلّا ما ظَہرَ» ( ظاہری زینت) کی تفسیر کے حکم میں ہے اور ان کی طرف نگاہ کرنے کے حکم میں ہے۔ [19]. البتہ کبھی کبھار دوسری آیات سے بھی استناد ہوا ہے۔ جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جس میں تبرج (زینت) سے منع ہوا ہے اور اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 30 اور 31 آیہ جلباب۔[20]. بعض احادیث میں حجاب کے دوسرے پہلو کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جیسے عمر رسیدہ خواتین کا حجاب، بلوغ کے بعد حجاب کا وجوب، یا بعض خاص قسم کے مرد یا نابالغ بچوں سے حجاب[21].
فقہ اور حجاب
فقہ میں حجاب کے معنی
خواتین کے پردے سے متعلق جو اصطلاح گزشتہ فقہی کتابوں میں رائج تھی وہ "ستر" ہے جبکہ جدید فقہی منابع اور لغت کی کتابوں میں عورتوں کے پردے کو "حجاب" کہا جاتا ہے جو نسبتا ایک جدید اصطلاح ہے جس کے رائج ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا ہے۔ قرآنی مفہوم کے علاوہ گزشتہ حدیث کی کتابوں اور فقہی منابع میں بھی حجاب کا لفظ اس معنی میں پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔[22] اسی طرح بعض احادیث میں حجاب کا لفظ شادی ترک کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔[23]
ابو ہلال عسکری[24] کے مطابق حجاب کے معنی پردہ اور دوسروں کو آنے سے منع کرنے کی نیت سے چھپنا یا چھپانا ہے اور ستر سے مختلف ہے۔ اسی لئے بعض معاصر مصنفین حجاب کو ستر کے معنی میں استعمال کرنے پر تذبذب کا شکار ہوئے ہیں؛ محمد مہدی شمس الدین[25] نے اس استعمال کو چشم پوشی سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ حجاب جس معنی میں قرآن میں استعمال ہوا ہے وہ پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں کے ساتھ مخصوص احکام میں سے ہے جبکہ دوسری مسلمان عورتوں پر صرف شریعت میں مقرر شدہ شکل میں حجاب کرنا واجب ہے۔
شہید مطہری[26]، اس کی علت کو اسلامی حجاب اور دوسری ملتوں کے شدت پسندانہ حجاب کہ جس میں خواتین پس پردہ اور خانہ نشین ہوتی تھیں، میں اشتباہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی احتمال دیا جاتا ہے کہ بعض مسلمانوں کی جانب سے حجاب کے معاملے میں سختی سے پیش آنا بعض معاشرتی رسومات سے متاثر ہونے کی وجہ سے تھا جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ستر کی جگہ پردہ نشینی نے لے لیا۔[27]
جن فقہی ابواب میں حجاب پر بحث ہوئی ہے
فقہی کتابوں میں حجاب کے بارے میں کوئی مخصوص باب نہیں ہے بلکہ دو جگہوں پر بحث ہوتی ہے:
- نماز کی بحث میں، نماز پڑھنے والے کے لباس اور پردہ کی مناسبت سے حجاب کا تذکرہ ہوتا ہے۔ نماز کی حالت میں حجاب (سَتْرِ صَلاتی) اور نماز کے علاوہ دوسری حالتوں میں حجاب کے درمیان فرق ہے۔ نماز کے دوران تو ہر حال میں واجب ہے خواہ نماز پڑھنے والے کو کوئی دیکھ رہا ہو یا نہیں۔ لیکن عام حالتوں میں حجاب سے مراد دوسروں کی نظروں سے بچے رہنا ہے اگرچہ اس مقصد کیلئے کسی تاریک جگہے میں رہے تو بھی حجاب اور پردہ متحقق ہوگا۔ [28] فقہ جعفری میں مشہور نظریے کے مطابق نماز کی حالت میں پردے کی مقدار اور نامحرم سے واجبی طور پردہ کرنے کی مقدار کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔[29]
- نکاح کی بحث میں منگنی کے دوران لڑکا اور لڑکی کا ایک دوسرے کو نگاہ کرنے کے حکم کی مناسبت سے عام طور پر نگاہ کرنے اور "حجاب" کے احکام کا تذکرہ ہوا ہے۔ جبکہ ستر اور نگاہ کرنا دو الگ مسئلے ہیں۔ ہاں بعض اوقات ان دونوں کا حکم ایک جیسا ہوتا ہے۔ [30]
حجاب کا مصداق
حجاب کا واضح ترین یا بعض کی نظر میں واحد مصداق، مسلمان بالغہ عورت کا نامحرم بالغ مرد یا ممیز بچے سے پردہ کرنا ہے۔ فقہی اعتبار سے لونڈی (کنیز) کا لازمی حجاب دوسری عورتوں سے کم ہے۔ اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 60 (القَواعِدُ مِنَ النِّساء) کے مطابق وہ سن رسیدہ خواتین جن میں شادی کی خواہش ختم ہوئی ہو ان کے حجاب کے بارے میں بھی آسانی پائی جاتی ہے۔[31] اس آیت کی تفسیر سے مربوط[32] احادیث کے مطابق فقہاء نے جلباب ہٹانے اور بعض نے سر سے سکارف ہٹانے اور بعض ایسے اعضاء کو ظاہر کرنا جو معمول کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں، کو ان خواتین کیلئے جائز قرار دیا ہے۔[33]. بہر حال اسلام نے مردوں اور عورتوں کے جنسی اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کی طرف سے پردہ اور حجاب کی رعایت کرنے پر زور دیا ہے جس سے کسی قیمت چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے۔[34].
حجاب کا وجوب
خواتین کے اوپر نامحرم مردوں سے حجاب کرنا واجب ہونے میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے فقہاء متفق ہیں؛[35] لیکن اس کے حدود اور مقدار کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کا منشاء حجاب کے وجوب کے حکم سے استثناء شدہ اعضاء میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔
حجاب کے حدود
پہلا نظریہ
اہل تشیع اور اہل سنّت کے بہت سارے فقہاء نے چہرہ اور ہاتھوں (کَفَّین) کے علاوہ پورے بدن کو چھپانا واجب قرار دیا ہے۔[36] ان کی سب سے اہم دلیل سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں "لایبْدینَ زینَتَہنَّ الّا ماظَہرَ مِنہا" کا جملہ ہے۔ اس آیت میں استثناء شدہ ظاہری زینت کے بہت سارے مصادیق احادیث میں ذکر ہوئے ہیں ان میں سے کپڑے، ہتھیلی کی مہندی، سرمہ، انگوٹھی، کنگن، چہرا اور دونوں ہاتھ ہیں۔[37] بہت سارے فقہاء اور مفسروں کی نظر میں، سرمہ اور انگشتری جیسی زینت کو ظاہر کرنا جائز ہونے کا ملازمہ یہ ہے کہ ان اعضاء یعنی ہاتھ اور چہرہ کو ظاہر کرنا بھی جائز ہے۔[38] جن روایات میں ہاتھ اور چہرہ چھپانے کو استثناء قرار دیا ہے اور اسی طرح جو روایات ان کی طرف (کبھی دونوں پاوں کی طرف بھی) نگاہ کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں[39]، اس بات کی تائید کرتی ہیں۔[40]
فقہاء کے اس گروہ کی دوسری دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
- آیت (وَلْیضْرِبْنَ بِخُمُرِہنَّ علی جُیوبِہنَّ) کا معنی یہ ہے کہ گریبان اور سینہ کو چھپانا واجب ہے۔ خُمُر، خِمار کی جمع ہے جس کا معنی خواتین کا سکارف ہے۔[41]مفسرین کے اقوال اور احادیث کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت شریفہ کے نازل ہونے سے پہلے خواتین اپنی چادر کو کان کے پیچھے سے گزار کر اپنے پشت پر ڈالتی تھیں اور اس طرح سے کان، گردن اور گریبان نظر آتا تھا۔ اس آیت میں انکو حکم ہوا کہ سکارف کو اس طرح سے پہن لیں کہ گریبان اور سینہ چھپ سکے یعنی دائیں بائیں دونوں طرف سے آگے کی طرف لے آئیں تا کہ یہ سارے اعضاء چھپ سکیں۔[42] حقیقت میں خواتین اپنے سر کے بال کو چھپاتی تھیں لیکن اب آیہ شریفہ صرف حجاب کے حدود بیان کرتی ہے کہ گردن اور سینے کو چھپانا لازمی ہے لیکن چہرہ چھپانے کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے۔[43]
- ائمہ معصومین کی بہت ساری احادیث یا ان سے کیے ہوئے بہت سارے سوالات میں بعض عورتوں کے سر کے بال کی طرف نگاہ کرنے کا حکم ذکر ہوا ہے۔[44] لیکن چہرہ جس کی اکثر نگاہ پڑتی تھی اور اس کے بارے میں سوال کرنا زیادہ مناسب بھی تھا اس کے باوجود تذکرہ نہیں ہوا سوائے شادی کا قصد رکھنے کے موقع پر کہ جس کے بارے میں خاص طور پر بیان ہوئی ہے۔ [45] اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ چہرہ چھپانا واجب ہے اور نہ چہرے پر نگاہ کرنا حرام ہے۔[46]
- انسانی طبیعت اور فطرت کے پیش نظر ہر وقت چہرہ اور ہاتھوں کو چھپانا عسر اور حرج اور روزمرہ زندگی کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔[47] لیکن حدیث اور فقہ کی کتابوں میں توضیح دی گئی ہے کہ ہاتھ اور چہرے کو چھپانا واجب نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ان کو چھپانا جائز بھی نہ ہو بلکہ خواتین جس قدر زیادہ پردہ اور نامحرم مردوں کے ساتھ حدود کی رعایت کرے مطلوب اور بہتر ہے۔[48] اس کے علاوہ یہ بات بھی ضروری ہے کہ اجتماعی زندگی کومحفوظ رکھنے اور برائیوں سے روکنے کے لئے اخلاقی نصیحتوں کو فقہ کے واجب اور ضروری احکام سے اشتباہ نہ کیا جائے۔[49]
دوسرا نظریہ
اس کے مقابلے میں شیعہ اور اہل سنّت کے بعض فقہاء خواتین کے لئے پورے بدن یہاں تک کہ ہاتھ اور چہرے کو بھی چھپانا واجب سمجھتے ہیں[50]۔ اس نظریے پر پردہ کے وجوب پر موجود عمومی دلائل یا نگاہ کرنا حرام ہونے کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس توضیح کے ساتھ کہ سورہ سورہ نور کی آیت نمبر 30 جس میں نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنے کو مردوں کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے اس میں چہرہ اور ہاتھ بھی شامل ہیں۔[51] اسی طرح جو روایات نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنے سے منع کرتی ہیں وہ بھی مطلق ہیں اور ان کے علاوہ کچھ دوسری روایت سے بھی التزامی طور پر عورت کے پورے بدن چھپانے پر استدلال کیا جاتا ہے۔[52] اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ روایات خاص کر ان کے سیاق و سباق اور اس میں استعمال ہونے والا لفظ یعنی "عورت" کو مد نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ روایات حجاب اور پردے کی وجوب کا شرعی حکم بیان کرنے کے مقام میں نہیں بلکہ اخلاقی نصیحت اور خواتین کے بدن کو چھپا ہوا ہونے کی مطلوبیت پر دلالت کرتی ہیں۔[53]
خواتین کے حجاب میں چہرہ اور ہاتھ بھی شامل ہونے کی دوسری دلائل جن سے استناد کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
- جن روایات[54] میں سورہ سورہ نور کی اکتیسویں آیت میں "الّا ما ظہر" سے مراد لباس لیا ہے۔[55]
- سیرہ متشرعہ – جو مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی دلیل مانی جاتی ہے[56] - اس کے تحت خواتین کے چہرے کو چھپانا ہے۔[57] بعض فقہاء کے نظریے کے مطابق ہاتھ اور چہرے کو حجاب کے واجب حکم سے استثنی اور ان کی طرف دیکھنا جائز ہونے کے درمیان ملازمہ نہیں پایا جاتا ہے۔[58]
حجاب کے وجوب میں انعطاف اور نرمی
فقہی کتابوں میں حجاب اور ستر سے مربوط مختلف احکام کے مطابق حجاب کے اس لازمی حکم کے مختلف مراحل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس ماحول میں عورت زندگی بسر کرتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب میں کچھ نرمی اور انعطاف پائی جاتی ہے۔ مثلا سورہ نور کی آیہ 60 کے مطابق سن رسیدہ خواتین جن کو اب شادی کرنے کی ضرورت نہیں ان کے لئے متعارف حجاب میں کچھ چھوٹ دی جاتی ہے۔ اسی طرح سورہ نور کی آیہ 31 کے مطابق ان مردوں سے جو جنسی کمزوری یا عقلی کمزوری سے دوچار ہیں [59]، اتنی مقدار میں حجاب کرنا ضروری نہیں جتنا عام مردوں سے کیا جاتا ہے۔[60]
جبکہ دوسری طرف، بعض دوسرے فقہاء اسی آیت میں "او نِسائِہنَّ"[61] کی عبارت سے مستند کرتے ہوئے مسلمان عورتوں کو غیر مسلمان عورتوں کے لئے بھی اپنی زینت ظاہر کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں تاکہ وہ مسلمان عورتوں کی احتمالی خصوصیات دوسرے مردوں کے سامنے بیان نہ کر سکیں۔[62] اسی طرح (شوہر کے علاوہ) دوسرے محرم مردوں اور عورتوں سے کئے جانے والے حجاب کی مقدار بھی بہت کم ہے اور مشہور فقہاء کے مطابق سر، گردن اور سینے کو شامل نہیں کرتا ہے۔[63]
فلسفہ حجاب
حجاب کے حکم کی حکمت - جو قرآن اور احادیث کی تصریح کے مطابق [64] ذہنی سکون، معاشرے میں اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عفت اور حیاء کی قدر قیمت اور اہمیت کو اجاگر کرنا ہے- پر غور و فکر سے حجاب کے احکام کے مختلف مراحل پر تحلیل کی جا سکتی ہے۔ قرآن، احادیث اور فقہی متون کی عفت اور تقوا کے حصول اور انہیں تقویت دینا، نامحرم مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے حیا اور عفت کی رعایت اور بعض دیگر امور (جیسے نامحرم مرد اور عورت کا ایسے جگہے میں خلوت کرنا حرام ہونا جہاں تیسرے شخص کے آنے کا امکان نہ ہو، مردوں کو شہوت ناک نگاہ سے نامحرم کی طرف دیکھنے سے شدید منع کرنا، عورتوں کو نامحرم سے پردہ کرنے اور معاشرے میں ہر قسم کی تحریک آمیز رفتار جیسے تحریک آمیز باتوں اور زینت سے اجتناب کرنے) پر زور دینا عفت اور حیاء کا حجاب کے سے گہرے رابطے کی نشاندہی کرتا ہے۔[65]
مردوں کا حجاب
لہذا حجاب کو مردوں اور عورتوں کے تمام اجتماعی امور میں باقاعدہ ایک ایمانی اور سماجی قانون کی حیثیت سے محفوظ اور مستحکم کرنے کے لئے، اسلامی فقہ میں خواتین کے علاوہ مردوں پر بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ معاشرے میں جس کسی کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنا چاہے خواہ محرم ہو یا نامحرم، اپنا ہم جنس ہو یا غیر ہم جنس سب کے ساتھ ایک حد تک حجاب اور پردے کی رعایت کرے اگرچہ مردوں کے لئے واجب حجاب کی مقدار خواتین کی نسبت بہت کم ہے۔[66]بعض شیعہ اور اہل سنت فقہاء[67] نے مردوں کے لئے بھی وہ اعضاء جو معمول کے مطابق چھپائے جاتے ہیں ان کو نامحروں سے چھپانے کو لازم قرار دیا ہے۔
اسی طرح بعض شیعہ فقہاء کے مطابق، اگر مرد کا بدن شہوانی نگاہوں کی زد میں ہو جیسے ورزش یا عزاداری کرتے وقت معمولا ایسا ہوتا ہے، تو اس وقت بدن کا چھپانا واجب ہے؛ کیونکہ یہ "گناہ پر معاونت" کے زمرے میں آتا ہے۔ [68] حجاب کی مذکورہ حکمت کے تقاضوں کے مطابق عورت کے لئے صرف مردوں سے حجاب کرنا واجب نہیں بلکہ سورہ نور کی آیہ 31 کے پیش نظر بعض فقہاء نابالغ ممیز بچے سے بھی اس حکم کی رعایت ضروری سمجھتے ہیں۔[69]
حکم حجاب کا اسلام کی ایجادات اور ضروری احکام میں سے ہونا
فقہاء جن امور کو زیادہ مورد تاکید قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک حجاب کا حکم اسلام کی ایجادات [70]اور اسلام کے ضروری احکام میں سے ہونا ہے۔[71] اسی بنا پر اگر حجاب کی رعایت کرنے سے ازدواجی زندگی خطرے میں پڑنے کا خوف ہو تو بھی اس خطر کو ٹالنے کے لئے حجاب ہٹانے کو فقہاء جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[72] لیکن اس کے باوجود اضطرار (جیسے بیماری) کی صورت میں ضرورت کے مطابق حجاب ہٹانے کو جائز قرار دیا ہے۔[73] فقہاء کے فتوے اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ خواتین کی اجتماعی فعالیت اور سرگرمیاں حجاب کے ساتھ کوئی منافی نہیں ہیں، خواتین کی ملازمت اور تعلیم کے حصول کو حجاب کی رعایت کے ساتھ جائز ہونے کا فتوای من جملہ ان فتووں میں سے ہے۔[74]
مختلف ثقافتوں میں حجاب کا طریقہ
اسلامی فقہ میں خواتین کے لئے کوئی خاص قسم کا حجاب معین نہیں ہوا ہے اور سوائے بعض استثنا شدہ اعضا کے باقی بدن کو چھپانے کی تصریح ہوئی ہے۔[75] یہانتک کہ بعض فقہاء خود بدن کے حجم کو بھی چھپانا لازم نہیں سمجھتے ہیں۔[76] البتہ نازک، بد نما اور شہوت بھڑکانے والے کپڑوں کے پہنے کو جایز نہیں سمجھتے اور رنگ برنگے تزئین کئے ہوئے کپڑوں کو پہنے کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔[77]
حجاب کی شکل اور اس کا اسلامی حجاب کے معیاورں سے مطابقت مختلف عوامل جیسے کلچر، آداب اور رسومات، عقاید اور عرف، موسمی حالات اور بعض دفعہ ہر علاقے کی اجتماعی محدودیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، مختلف ہوتی ہے۔ جیسے ایران میں رائج اسلامی حجاب چادر ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف جغرافیائی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف شکلوں میں تھی، لیکن اکثر اسلامی ممالک میں مسلمان خواتین کم سے کم حالیہ دہائیوں میں بہت کم چادر کی پابند ہیں اور بہت کم چادر اوڑھتی رہی ہیں۔ عرب ممالک اور مشرق وسطی میں عبا اور مراکش میں جلباب رائج تھی اور ہے. غیر اسلامی ممالک میں مقیم مسلمان خواتین نے اگرچہ بعض اوقات حجاب کی رعایت میں ان کو کچھ محدودیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں سے مناسب اور شرعی نگاہ میں قابل قبول حجاب کو بنانے اور فقہی احکام کے مطابق استفادہ کرنے کی کوشش کی ہیں.[78]
حجاب اور اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری
اگرچہ حجاب اور پردہ کرنا قرآن اور دین کی طرف سے ایک حکم ہے کہ جو بالغ افراد کے اوپر واجب ہے، لیکن اس حکم کی ماہیت معاشرتی ہے اسی لئے اس کی رعایت کرنا اور رعایت نہ کرنا معاشرتی شکل میں ظاہر ہوتا ہے. دوسری طرف فردی اور معاشرتی دینی احکام کے دلائل کی اطلاق اس بات کا اقتضا کرتا ہے کہ معاشرے میں تمام قوانین جاری ہوجائیں اور شارع دین کے احکام کی رعایت نہ کرنے پر راضی نہیں ہے. اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں لوگوں کے اخلاقیات کی پاسداری اور شریعت کے احکام کو معاشرتی زندگی میں جاری کرنے کی ذمہ داری حکومتوں کی بنتی ہے اور معاشرتی قوانین کی رعایت کرنے پر پابند ہوجائیں اور دینی تعلیمات کا احترام کریں.[79] جس طرح سے اسلامی حکومت علنی طور پر دوسرے ادیان کے پیروکاروں کو بھی شراب پینے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے اسی طرح حجاب کی رعایت نہ کرنے کی بھی حمایت نہیں کر سکتی ہے؛ کیونکہ حجاب صرف مومنین کیلئے ایک حکم کے علاوہ اسلامی معاشرے کی اقدارمیں سے بھی شمار ہوتی ہے. حکومت کی طرف سے اس کام میں مداخلت کرنے کے مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ بے حجابی سے روکنا فقہ اور تاریخ میں کہیں نہیں ملتا ہے اور معصومین علیہم السلام بالخصوص پیامبر(ص) اور امام علی(ع) جنہوں نے حکومت تشکیل دی ہے اس دور میں بھی حجاب کی رعایت کرنے کی پابندی نہیں تھی اور وہ صرف نصیحت اور تذکر دینے پر اکتفا کرتے تھے اور کبھی بھی بے حجابی کے لئے سزا دینے کا حکم صادر نہیں کیا ہے.[80] اس بات کے جواب میں کہا گیا ہے کہ عصر جدید سے پہلے خواتین کا حجاب متمدن دنیا میں رائج اور عام تھا. اور مسلمان حکومتیں ماضی میں اس مسئلے میں مشکل سے دوچار نہیں تھیں اور صرف آخری صدی میں غربی دنیا میں بدلتی حالات کی وجہ سے اسلامی ممالک میں حجاب کو ہٹانے کے لئے مختلف تحریکیں چلیں.
کشفِ حجاب اور ایران میں کتابوں کی تالیفات
ایران میں کشفِ حجاب ـ جو مشروطہ کی کامیابی کے ابتدائی سالوں میں اس کی سرگوشیاں، جدید طلبی افکار کی ترویج کے ساتھ شروع ہوئیں اور تقریبا 25 سال کے بعد 1314ش کو رضا شاہ پہلوی کے حکم سے زبردستی جاری ہوا- اس کے خلاف بہت ساری مستقل کتابوں کو لکھنے کا سبب بنا اور اسلام میں حجاب کا حکم قطعی ہونے کو ثابت کیا. [81] 1329 ش سے رسالۃ فی وجوب الحجاب و حرمۃالشراب، تالیف محمد صادق ارومی فخرالاسلام (مسیحی نومسلمان عالم اور اَنیسُ الاَعْلام کے مصنف)، بہت سارے رسالے حجابیہ کے نام سے شروع ہوئے لیکن اکثر حجابیہ رسالے 1306 اور 1307 ش کو لکھے گئے. 1320 کے شہریور(ستمبر) کے مہینے میں رضا شاہ کے سقوط اور 1322 ش کو اجباری کشفِ حجاب کے قانون لغو ہونے کے بعد بھی بہت ساری کتابیں اور مقالے لکھے گئے.[82]یہ رسالے رسول جعفریان کی کوشش سے 1380 ش کو رسائل حجابیہ کے نام سے چھاپ ہوگئے. حجابیہ رسالوں کے موضوع اور مواد کی ساخت عام طور پر اس طرح سے ہیں:
- حجاب کی تاریخ دوسرے ادیان میں اور مختلف اقوام اور ادیان کے ہاں پہلے ہی سے ہونا؛
- حجاب کے بارے میں آیات اور احادیث کی تحقیق اور اس کے حدود کے بارے میں فقہا کے نظریے؛
- فلسفہ حجاب؛
- خواتین کی تعلیم اور تربیت کی اہمیت اور حجاب کا اس سے تعارض نہ ہونا؛
- کشف حجاب کے طرفداروں کے اہداف کا بیان؛
- ان کے انتقادات کو بیان کرنا اور ان کے جوابات؛
- رفع حجاب کے منفی آثار کی تحقیق، جیسے بے عفتی کو رواج دینا، شادیوں کی شرح میں کمی اور طلاقوں کی شرح میں زیادہ ہونا.
حجاب کی مخالفت میں لکھے جانے والے مقالے اور کتابوں کا نقطہ نظر کچھ یوں ہے:
- پردہ کرنے کے حکم والی آیاتوں کے ذیل میں بیان شدہ مسائل کو تحریف کرنا؛
- حجاب کا جدید اور ماڈرن زندگی کے ساتھ تفاوت رکھنا؛
- عورت کی آزادی کی ضرورت؛
- عورت کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کے ساتھ حجاب کی ناسازگاری؛
- حجاب کا دوسری ثقافتوں سے مسلمانوں کے ثقافت میں وارد ہونے کی وجہ سے دینی حیثیت کا فقدان؛
- حجاب کا عفت سے رابطے کا انکار اور غیر اخلاقی اور جنسی احساسات بڑھکنے کی منفی اثر پر تاکید.
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1340 ش کے آخری عشرے میں مرتضی مطہری کی مسئلہ حجاب نامی کتاب، حجاب کے حکم کی دفاع میں لکھی جانے والی کتابوں میں مہم اورموثرتھی. اور اس کی بے نظیر خصوصیات کی وجہ سے اس کتاب کا بڑا استقبال ہوا. انقلاب کی 1357 ش کو کامیابی کے بعد بھی معاشرے میں جہاں دینی تعلیمات کی روشنی میں انقلاب آیا تھا اس میں حجاب کی اہمیت اور مقام اور بڑھ گیا اور اس بارے میں بہت سارے مقالے اور کتابیں چھاپ ہوگئیں. [83]
انقلاب اسلامی ایران اور حجاب
ایران میں رضا شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد علما اور دیندار لوگوں کے اصرار سے خواتین کو اسلامی حجاب کی رعایت کے ساتھ معاشرے میں حاضر ہونا ممکن ہوگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے نزدیک سالوں میں حجاب کی طرف رغبت زیادہ ہوئی تھی[84] انقلاب اسلامی ایران کے ابتدائی مراحل اور تظاہرات میں اپنی ناراضگی کا اظہار اور پہلوی دور میں خواتین پر تحمیلی نمونوں کی مخالفت کے لئے حجاب ایک بنیادی نشانی تھی.[85]
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے کئی بار حجاب اور اس کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کیا ہے جن میں سے بعض سوال اور جواب کی شکل میں ایران میں حجاب کے حکم کو نافذ کرنے کے طریقے کے بارے میں ہے. [86] 1358 کے اسفند میں خواتین کے لئے جمہوری اسلامی ایران میں حجاب کی رعایت لازمی ہونا مطرح ہوا اور اس فقہی نظریے کے مطابق عملی طور پر حجاب کے حکم کی مخالفت میں سزا اور تعزیر ہوگی. [87] قانون مجازات اسلامی کے آرٹیکل 638 کے ایک لاحقے میں[88] اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے سزا معین ہوئی.[89]
عصر حاضر میں حجاب
تمام تر مخالفتوں کے باوجود بہت ساری مسلمان خواتین کے لئے اسلامی دینا پر تحمیل شدہ کلچر کے مقابلے میں حجاب ایک مقاومت کی علامت سمجھا جاتا ہے. اور آج کل مسلمان خواتین کے لیے خاص کر مغربی ممالک کی خواتین کے درمیان حجاب ایک دینداری، اسلام کی طرف تمایل، تعلیمات اسلامی کا ماڈرن دور سے ہم آھنگ اور مغربی کلچر کے نفی کی علامت قرار پائی ہے. [90] اور اب اسلامی سربراہی کانفرنس کی ممالک کے علاوہ 150 ممالک میں ساڑھ چار کروڈ مسلمان بستے ہیں اور اسلامی حجاب کی ممنوعیت کے موضوع کو بین الاقوامی حقوق کے نظریے کے تحت اور اقلیتوں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث و گفتگو ہوتی ہے.[91] اسی طرح اسلامی دنیا کی نظر میں عالَمی ہونے کے عمل کے لئے مسلمانوں کی ثقافتی تشخص کو باقی رکھتے ہوئے ایک مناسب راہ کار کی ضرورت ہے اور اس میں خواتین کے حجاب کا ایک خاص مقام ہے.
احکام حجاب
مشترک احکام
میاں بیوی اور مولا اور اس کی کنیز کے علاوہ شرمگاہ کو ایک دوسروں سے چھپانا مَحرم بلکہ پاگل اور ممیز بچہ ( جو اچھائی اور برائی کی پہچان کر سکے) ہی کیوں نہ ہو واجب ہے.[92] لیکن ایسے ممیز بچے جس میں ابھی تک شہوت اور جنسی خواہشات نہیں ابھری ہیں، اس سے شرمگاہ کا چھپانا واجب ہونے میں اختلاف ہے. [93]
فقہا کے مشہور نظریے کے مطابق بلکہ اس میں اجماع کا دعوای بھی کیا گیا ہے کہ شرمگاہ سے مراد مرد میں آلہ تناسل، دونوں خصیے اور دبر (مقعد) کا سوراخ ہے اور عورت میں شرمگاہ اور مقعد ہیں. اور بعض نے ناف اور زانوں کے درمیانی حصے کو مرد اور عورت دونوں کے لئے شرمگاہ قرار دیا ہے اور اس حصے کو چھپانا واجب سمجھا ہے. [94] لیکن مشہور نظریے کے مطابق، ناف اور زانو کے درمیانی حصے کو چھپانا مستحب ہے. [95]
شرمگاہ کے چھپانے کی واجب مقدار کو خود شرمگاہ قرار دیا ہے اس کا حجم نہیں؛ البتہ پردہ اتنا نازک نہ ہو کہ شرمگاہ کی خدوخال باہر سے نظر آئے.[96] پردے کے لئے بھی کوئی خاص قسم کا ہونا شرط نہیں ہے بلکہ کسی بھی چیز سے چھپایا جائے بلکہ ہاتھ سے بھی ہو تو کافی ہے.[97]
خواتین کے مخصوص احکام
خواتین کو پردے کا جو حکم آیا ہے وہ یا نامحرم مردوں سے پردہ کرنے یا عبادت میں بدن چھپانے کے بارے میں ہے.
نامحرم سے حجاب کا حکم
عورت پر واجب ہے کہ اپنا چہرہ اور ہاتھ جو انگلیوں کے نوک سے کلائی تک اور پاوں کی انگلیوں سے ٹخنے تک کے علاوہ اپنا پورا بدن نامحرم سے چھپائے لیکن چہرہ اور ہاتھوں کو انگلیوں سے کلائی تک چھپانے اور اسی طرح پاوں کو چھپانا واجب ہونے میں اختلاف ہے. قرآن کریم[98]کے نص کے مطابق «غیر اولی الإرْبَہ» مردوں سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے اور «غیر اولی الإرْبَہ» میں اختلاف ہے علامہ طباطبایی اس کو پاگل اور وہ مرد مراد لیتا ہے جس میں کوئی شہوت نہیں اور اس کا اپنا سرپرست ہوتا ہے.[99] بعض نے اس کو بوڑھے مردوں سے تفسیر کیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان میں ہمبستری کی طرف رغبت نہیں رہتی ہے.[100] نامحرم سے اصل بال چھپانا واجب ہے لیکن مصنوعی بال، بال کے کلیپس، اور وہ زیورات جو بال سے ملے ہوئے ہیں ان کو چھپانا واجب ہونے میں اختلاف ہے[101] اور وہ سن رسیدہ خواتین جو بڑھاپے کی وجہ سے شادی کی کوئی امید ان میں نہیں پائی جاتی ہے قرآن مجید کی نص کے مطابق جو حجاب کا حکم ہوا ہے اس سے یہ مستثنا ہیں. اور اتنی مقدار میں بال کا نہ چھپانا جو اس عمر کی خواتین کے لئے عادی ہیں جیسے بعض بال اور بازو- ان کے لئے جائز ہے. لیکن شرط یہ ہے کہ اس کام کا مقصد اپنی نمایش کرنا نہ ہو اگرچہ اسی مقدار کو بھی ان کے لئے چھپانا افضل ہے. [102]
عبادتوں میں حجاب
نماز: بالغ آزاد خواتین کے لئے واجب ہے کہ وہ نماز میں اپنا تمام بدن چھپالے خواہ اسے دیکھنے والا کوئی ہو یا نہ ہو؛ لیکن چہرہ، ہاتھ انگلیوں کے نوک سے کلائی تک اور پاوں بھی انگلیوں سے ٹخنوں تک چھپانا واجب نہیں ہے. البتہ ایک قول کے مطابق نامحرم سے چھپانا اگر نامحرم ان کو دیکھ رہا ہو تو بھی واجب ہے.[103]بعض نے جو بال منہ یا پشت پر بکھرے ہوں اور اسی طرح سے گردن کو چھپانے میں بھی تردید کی ہے[104] بلکہ اضافی بالوں کو چھپانا واجب نہ ہونے کو اکثر فقہا کی طرف نسبت دی ہے.[105] بعض قدما سے بھی سر چھپانا واجب نہ ہونے کو نقل کیا گیا ہے.[106] نماز میں بالغ کنیز اور نابالغ لڑکی پر سر چھپانا واجب نہیں ہے.[107]
حج: چہرے کو حج میں پوشیہ سے چھپانا یا ایسے کپڑے سے چھپانا جو چہرے سے متصل ہو تواحرام کی حالت میں حرام ہے.[108]پاوں کا اوپر کا حصہ چھپانا بھی حرام ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے.[109]
مرد کے پردے کے احکام
نماز میں شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے خواہ کوئی دیکھ رہا ہو یا نہیں- دیکھنے والا محرم ہو یا نامحرم-.[110] اور صرف شرمگاہ چھپا کر نماز پڑھنا جائز ہے اگرچہ مکروہ ہے.[111]
سر کا چھپانا[112] اور اسی طرح ـ بنابر مشہور ـ پاوں کا اوپر والا حصہ چھپانا[113] احرام کی حالت میں حرام ہے.
نماز میں پردے کی خصوصیات
نماز میں پردہ اور نماز کے علاوہ دوسری حالت میں پردہ کرنے میں فرق ہے. جیسے
- نماز میں پردہ کرنا واجب ہے اگرچہ دیکھنے والا کوئی نہ ہو لیکن نماز کے علاوہ نامحرم سے چھپانا واجب ہے.
- نماز کے بغیر پردہ ہر اس چیز سے ہوجاتا ہے جس کے ذریعے دوسروں کی نظروں سے بچ بجائے لیکن نماز میں مجبوری کی حالت کے علاوہ پردہ کپڑے کا ہو. اور گھاس یا درخت کے پتے کا پردہ یا کیچڑ سے پردہ کرنا مجبوری کے علاوہ بھی صحیح ہے یا صرف مجبوری کی حالت میں ہے؛ اگر صرف مجبوری کی حالت میں ہو تو عام حالت میں ایسا شخص بے پردہ کہلائے گا. اور اس میں اختلاف ہے.[114]
لباس کے آداب
نئے کپڑے پہنتے ہوئے بدن کے دائیں طرف سے شروع کرنا اور ماثور دعاوں کا پڑھنا مستحب ہے. شلوار کو بیٹھ کر پہننا مستحب اور شلوار اور جوتوں کو کھڑے ہو کر پہنا مکروہ ہے. [115] لباس اس کی صفات اور جنس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے کچھ احکام ہیں جن میں سے بعض میں مرد اور عورت میں فرق بھی پایا جاتا ہے اور بعض احکام خاص وقت کے ساتھ مختص ہیں جیسے نماز اور احرام کی حالت کے ساتھ.
- واجبات:احرام کی واجبات میں سے مرد کے لئے دو احرام کا پہنا واجب ہے.[116]
- مستحبات: صاف، سفید اور کاٹن کا احرام پہنا مستحب ہے.[117]
- محرّمات:خالص ابریشم کے کپڑا یا خالص ابریشم کا استر ہو ایسے کپڑے پہننا حرام ہے.[118] اور اسی طرح سونے کی کڑھائی کیا ہوا کپڑا مرد کیلئے حرام ہے اور اس میں نماز بھی باطل ہے.[119] لباس شہرت کا پہننا حرام یا مکروہ ہونے کے بارے میں اس قول کے مطابق کہ یہ لباس حرام ہو تو ایسے کپڑوں میں نماز باطل ہونے میں اختلاف ہے.[120]
- مرد اور عورت کے ایک دوسرے کے مخصوص کپڑوں کو پہننا اس صورت میں حرام ہے کہ ایک دوسرے جیسا بننا صدق کرے لیکن ایسے کپڑوں میں نماز باطل ہونے میں اختلاف ہے. [121]
- مرد کے لئے سلا ہوا کپڑا[122]اور عورت کے قفّازین (ایک قسم کا دستانہ) [123] احرام کی حالت میں حرام ہے اور عدّہ وفات میں زینت کے کپڑے پہنا عورت کے لئے حرام ہے.[124]
- مکروہات: کالے کپڑے، لباس شہرت، -البتہ اس قول کے مطابق کہ یہ اگر حرام نہ ہوں تو- کفار اور دین کے دشمنوں کے کپڑے، اور اسیطرح نماز میں نازک، بدن نما، گندا اور جانداروں جیسے حیوان اور انسان کی تصاویر والے کپڑوں کا پہنا مکروہ ہے.[125]
حوالہ جات
- ↑ جوہری، ابن منظور، زبیدی، ذیل واژہ
- ↑ مراجعہ کریں: تہانوی، ذیل واژہ
- ↑ مراجعہ کریں: سفر پیدائش،:۲۴ ۶۴ـ۶۵؛ کتاب اشعیاء نبی،:۳ ۱۶ـ۲۴؛ نامہ اول پولس بہ قرنطیان،:۱۱ ۴ـ ۱۵؛ د. ایرانیکا، ذیل "Cador.l-II"؛ دایرۃالمعارف جہان اسلام آکسفورد، ذیل واژہ؛ اس ستر کے اسباب کےلیے رجوع کریں: مطہری، ص۳۱ـ ۳۳
- ↑ مراجعہ کریں: د. جودائیکا، ذیل "Head, covering of the"؛ >دایرۃالمعارف دین<، ذیل "Clothing", "Tertullian"
- ↑ طبرسی؛ ابن کثیر؛ شوکانی؛ محمدحسین طباطبائی، ذیل آیہ؛ قس مقدّم، ص۲۵۱ـ۲۶۹، پر حجاب کے اس حکم کا دوسری عورتوں کو بھی شامل کرنے کے بارے میں اہل سنت کے مفسرین اور عالموں کی کہ آراء کو جمع کیا ہے۔
- ↑ مراجعہ کریں: کلینی، ج۵، ص۵۳۴؛ بیہقی، ج۷، ص۹۱ـ۹۲؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۲۳۲ـ۲۳۳
- ↑ برای سند حدیث مراجعہ کریں: محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۳۹؛ اس حدیث سے عمومیت استفادہ کرنے کے لئے رجوع کریں: جوادی آملی، ص۵۲ـ ۵۳
- ↑ مراجعہ کریں: ابن سعد، ج۸، ص۱۴۳ـ۱۴۴، ۱۴۶ـ ۱۴۷؛ بخاری، ج۳، ص۱۵۴ـ۱۵۵، ج۵، ص۷۷ـ۷۸، ج۶، ص۴۲، ۲۳۹؛ مسلم بن حجاج، ج۳، ص۱۱۸ـ۱۱۹، ج۴، ص۱۴۷، ۱۶۳ـ۱۶۴، ۱۷۱، ج۷، ص۱۱؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۵۴
- ↑ مراجعہ کریں: ابن حنبل، ج۳، ص۲۲۶؛ بخاری، ج۶، ص۲۴ـ۲۶؛ ابن بابویہ، ج۱، ص۶۵؛ ابن کثیر، آیت کے ذیل میں اور بھی شان نزول کا ذکر ہوا ہے۔ مراجعہ کریں: سیوطی، ذیل آیہ
- ↑ مراجعہ کریں: ابن منظور، ہمانجا؛ قرطبی؛ ابن کثیر، ذیل آیہ
- ↑ رجوع کریں: برقی، ج۱، ص۲۷۲ـ۲۷۳؛ کلینی، ج ۸، ص ۳۸۴ـ ۳۸۵
- ↑ سیفی مازندرانی، ج۶، ص۲۹ـ ۳۰؛ نیز مراجعہ کریں: محمدتقی مجلسی، ج۸، ص۳۵۳
- ↑ مراجعہ کریں: قمی؛ طبرسی؛ قرطبی؛ سیوطی، ذیل آیہ
- ↑ مراجعہ کریں: طبرسی؛ فخررازی؛ محمدحسین طباطبائی، ذیل آیہ
- ↑ مراجعہ کریں: مقدّم، ص۱۹۱ـ۲۳۷
- ↑ براے نمونہ مراجعہ کریں: سبزواری، ج۵، ص۲۳۰ـ۲۳۱؛ سیفی مازندرانی، ج۶، ص۳۰
- ↑ بطور نمونہ مراجعہ کریں: جوادی آملی، ص۵۱ـ۵۲؛ مؤمن قمی، ص۳۵۳
- ↑ مراجعہ کریں: جصاص، ج۳، ص۳۷۲؛ سیوطی، ذیل آیہ؛ قس ابن کثیر، ذیل نور: ۳۱
- ↑ مراجعہ کریں: بیہقی، ج۲، ص۲۲۵ـ۲۲۶، ج۷، ص۸۵ـ ۸۶؛ سیوطی، ذیل آیہ؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۲۰۰ـ۲۰۲
- ↑ مراجعہ کریں: شبیری زنجانی، درس خارج فقہ، مورخ ۴/۱۱/۱۳۷۷ش؛ فاضل، ص۳۳، ۳۷ـ۳۸
- ↑ مراجعہ کریں: بیہقی، ج۲، ص۲۲۶، ج۷، ص۹۶؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۲۰۲ـ۲۰۵، ۲۲۸ـ۲۲۹
- ↑ برای منابع حدیثی مراجعہ کریں: ابن حنبل، ج۳، ص۳۷۹، ج۶، ص۲۱۹ـ۲۲۰؛ محمدباقر مجلسی، ج۳۰، ص۱۹۷ـ۱۹۸؛ برای منابع فقہی مراجعہ کریں: ابن قدامہ، ج۷، ص۴۵۶ـ۴۵۷، ۴۶۴ـ۴۶۵؛ علامہ حلّی، ج۲، ص۵۷۳؛ فخرالمحققین، ج۳، ص۷
- ↑ مراجعہ کریں: اشعری قمی، ص۱۰۳؛ فیض کاشانی، ج۲۱، ص۱۶۴ـ۱۶۵
- ↑ عسکری، ص۱۷۶
- ↑ شمس الدین، کتاب ۱، ص۶۴
- ↑ مطہری، ص۸۱
- ↑ دنیا کے بعض اسلامی علاقوں میں خواتین کی پردہ نشینی کے رسومات سے آشنائی کے لئے مراجعہ کریں: دایرۃالمعارف زنان و فرہنگہای اسلامی، ج۱، ص۲۷۴ـ۲۷۵، ج۲، ص۵۰۳ـ ۵۰۴، ۶۴۴ـ۶۴۶
- ↑ طباطبائی یزدی، ج۲، ص۳۱۶ـ۳۱۹؛ جوادی آملی، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ جزیری، ج۱، ص۱۸۸ـ۱۹۲
- ↑ کاظمی خراسانی، ج۱، ص۳۸۳؛ جوادی آملی، ص۱۰۶
- ↑ رجوع کریں: جوادی آملی، ص۲۳، ۴۵؛ مؤمن قمی، ص۳۳۴، پانویس ۲
- ↑ مراجعہ کریں: ابن کثیر، ذیل نور: ۶۰؛ شمس الدین، کتاب ۱، ص۶۶؛ جوادی آملی، ص۱۳۰ـ۱۳۶؛ کلانتری، ص۸۱ـ۸۷
- ↑ مراجعہ کریں: کلینی، ج۵، ص۵۲۲؛ بیہقی، ج۷، ص۹۳ـ۹۴
- ↑ مراجعہ کریں: قرطبی، ذیل آیہ؛ نجفی، ج۲۹، ص۸۵ـ۸۶
- ↑ مراجعہ کریں: مطہری، ص۸۸، ۱۴۴ـ۱۴۵
- ↑ مراجعہ کریں: طباطبائی یزدی، ج۵، ص۴۹۴ـ۴۹۵؛ جزیری، ج۱، ص۱۹۱ـ۱۹۲؛ زحیلی، ج۷، ص۳۳۶
- ↑ امامیہ فقہاء کے نظریات جاننے کے لئے مراجعہ کریں: طوسی، ج۴، ص۱۶۰؛ بحرانی، ج۲۳، ص۵۵ـ۵۶؛ نراقی، ج۱۶، ص۴۶؛ اہل سنت فقہاء کے نظریات جاننے کے لئے مراجعہ کریں: ابن حزم، ج۱۰، ص۳۲؛ شمس الائمہ سرخسی، ج۱۰، ص۱۵۲ـ ۱۵۴؛ ابن قدامہ، ج۷، ص۴۶۰؛ ابوالبرکات، ج۱، ص۲۱۴؛ جزیری، ج۱، ص۱۹۲
- ↑ مراجعہ کریں: قرطبی؛ سیوطی، ذیل نور: ۳۱؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۲۰۰ـ۲۰۲؛ نوری، ج۱۴، ص۲۷۵ـ۲۷۶
- ↑ مراجعہ کریں: جصاص، ج۳، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ طبرسی؛ محمدحسین طباطبائی، ذیل آیہ؛ مقدس اردبیلی، ص۵۴۵
- ↑ مراجعہ کریں: سیوطی، ہمانجا؛ حرّعاملی، ج۲، ص۵۲۲ـ ۵۲۳، ج۲۰، ص۲۰۱ـ۲۰۲، ۲۱۵ـ۲۱۶
- ↑ مراجعہ کریں: شمس الائمہ سرخسی؛ ابن قدامہ، ہمانجاہا؛ نجفی، ج۲۹، ص۷۵ـ۷۷؛ پاوں پر نگاہ کے حکم کے بارے میں مراجعہ کریں: ابن قدامہ، ج۷، ص۴۵۴؛ علی طباطبائی، ج۱۰، ص۶۸ـ۶۹
- ↑ طبرسی، ذیل آیہ؛ ابن منظور، ذیل «خمر»
- ↑ مراجعہ کریں: طبری؛ طبرسی؛ قرطبی؛ محمدحسین طباطبائی، ذیل آیہ
- ↑ مراجعہ کریں: ابن حزم، ج۳، ص۲۱۶؛ حکیم، ج۵، ص۲۴۳، ج۱۴، ص۲۸
- ↑ مراجعہ کریں: حرّعاملی، ج۲۰، ص۱۹۹، ۲۰۵ـ۲۰۶، ۲۲۳ـ۲۲۵، ۲۲۹
- ↑ مراجعہ کریں: انصاری، ص۳۸ـ ۴۳؛ محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۲۱ـ ۲۲
- ↑ مراجعہ کریں: علی طباطبائی، ج۱۰، ص۶۹ـ ۷۰؛ نراقی، ج۱۶، ص۴۹
- ↑ ابن قدامہ، ج۱، ص۶۳۷؛ نجفی، ج۲۹، ص۷۷؛ اسی طرح ان ادلہ کو نقد کرنے کے لئے مراجعہ کریں: ہمان، ج۲۹، ص۷۸ـ۸۰
- ↑ مثال کے طور پر مراجعہ کریں: کلینی، ج۵، ص۵۳۵؛ ہیثمی، ج۴، ص۲۵۵؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۶۵ـ۶۷
- ↑ مطہری، ص۲۳۵ـ۲۳۹
- ↑ مراجعہ کریں: بحرانی، ج۷، ص۷؛ حکیم، ج۱۴، ص۲۸؛ الموسوعۃ الفقہیۃ، ج۴۱، ص۱۳۴
- ↑ مراجعہ کریں: نجفی، ج۲۹، ص۷۷؛ محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۴۱ـ۴۲؛ قس مؤمن قمی، ہمانجا
- ↑ مراجعہ کریں: کلینی، ہمانجا؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۱۹۰ـ۱۹۵؛ نجفی، ج۲۹، ص۷۷؛ نیز مراجعہ کریں: محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۴۹
- ↑ مراجعہ کریں: شمس الدین، ص۱۸۶ـ۱۹۰؛ شبیری زنجانی، درس خارج فقہ، مورخ ۱۶/۹/۱۳۷۷ش، ۱/۱۲/۱۳۷۷ش
- ↑ مراجعہ کریں: سیوطی، ذیل نور: ۳۱؛ نوری، ج۱۴، ص۲۷۵ـ۲۷۶
- ↑ نجفی، ج۲۹، ص۷۸؛ مقدّم، ص۲۸۳ـ۳۲۷: جوادی آملی، ص۴۱
- ↑ مراجعہ کریں: مظفر، ج۲، ص۱۵۵ـ۱۵۷
- ↑ نجفی، ج۲۹، ص۷۷؛ اس بات کی رد کے لئے مراجعہ کریں: شہیدثانی، ج۷، ص۴۷ـ۴۸؛ علی طباطبائی، ج۱۰، ص۷۱؛ استدلال کی رد اور تفصیلی بحث کے لئے مراجعہ کریں: حکیم، ج۱۴، ص۲۸ـ۲۹؛ قرضاوی، ص۴۱ـ۵۵
- ↑ نگاہ کرنے کی تفصیلی حکم کے بارے میں مراجعہ کریں: نجفی، ج۲۹، ص۷۵ـ۸۱؛ محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۴۰ـ۵۱
- ↑ التّابِعینَ غَیرِ اُولی الاِرْبَۃ مِنَ الرِّجال، اس مطلب کو احادیث میں دیکھنے کے لئے مراجعہ کریں: ابن قدامہ، ج۷، ص۴۶۲ـ۴۶۳؛ محمدباقر مجلسی، ج۱۰۱، ص۳۳ـ۳۵
- ↑ مراجعہ کریں: ابن کثیر، ذیل آیہ؛ محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۷۵ـ۷۸
- ↑ اس سے مراد غیر کنیز مسلمان عورتیں لیتے ہیں
- ↑ مراجعہ کریں: ابن قدامہ، ج۷، ص۴۶۴؛ نجفی، ج۲۹، ص۷۱ـ۷۲
- ↑ جزیری، وہی کتاب؛ محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۵۱ـ۵۵
- ↑ مراجعہ کریں: احزاب: ۳۳، ۵۳، ۵۹؛ نور: ۶۰؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۱۹۳ـ۱۹۴، ۲۳۵ـ۲۳۶
- ↑ مراجعہ کریں: احزاب: ۳۲ـ۳۳؛ نور: ۳۰ـ۳۱؛ حرّعاملی، ج۲۰، ص۱۸۵ـ۱۸۶، ۱۹۰ـ۱۹۵، ۲۰۷ـ۲۰۹، ۲۱۱ـ ۲۱۲؛ محمدباقر مجلسی، ج۶۸، ص۲۶۸ـ۲۷۲؛ طباطبائی یزدی، ج۵، ص۴۹۰؛ زحیلی، ج۷، ص۳۳۶ـ۳۳۷
- ↑ طباطبائی یزدی، ج۵، ص۴۹۵؛ جزیری، وہی کتاب
- ↑ مراجعہ کریں: جزیری، ہمانجا؛ مکارم شیرازی، ج۲، ص۳۴۸
- ↑ شبیری زنجانی؛ درس خارج فقہ، مورخ ۱۵/۹/۱۳۷۷ش؛ قس محمدتقی خوئی، ج۳۲، ص۱۰۴ـ۱۰۵
- ↑ نجفی، ج۲۹، ص۸۲؛ زحیلی، ج۷، ص۱۹
- ↑ شبیری زنجانی، درس خارج فقہ مورخ ۱۰/۹/۱۳۷۷ش
- ↑ منتظری، ص۴۵۷؛ مکارم شیرازی، ج۲، ص۳۴۹؛ سیستانی، ص۴۱۴
- ↑ مراجعہ کریں: ابوالقاسم خوئی، ج۲، ص۱۹۷، ۱۹۹؛ خوئی و تبریزی، ج۱، ص۵۰۵؛ گلپایگانی، ج۲، ص۱۸۷ـ۱۸۸
- ↑ ابوالقاسم خوئی، ج۲، ص۱۹۷؛ مکارم شیرازی، ج۳، ص۲۵۶؛ خامنہای، ج۲، ص۷۹
- ↑ مراجعہ کریں: ابوالقاسم خوئی، ج۲، ص۲۰۴، ۲۰۶ـ ۲۰۸؛ منتظری، وہی کتاب؛ خامنہای، ج۲، ص۸۵
- ↑ مراجعہ کریں: خوئی و تبریزی، ج۵، فتاوی تبریزی، ص۴۲۹؛ سیستانی، ص۴۸۶، ۵۴۲؛ مکارم شیرازی، ج۲، ص۳۴۹ـ۳۵۰، ج۳، ص۲۴۹
- ↑ مراجعہ کریں: ابوالقاسم خوئی، ج۲، ص۱۹۶؛ شبیری زنجانی، درس خارج فقہ، مورخ ۴/۱۱/۱۳۷۷ش
- ↑ مراجعہ کریں: ابوالقاسم خوئی، ج۲، ص۲۱۱؛ خوئی و تبریزی، ج۲، ص۳۷۲؛ منتظری، وہی کتاب
- ↑ نمونے کے طور پرمراجعہ کریں: سیستانی، ص۵۴۲
- ↑ مراجعہ کریں: سروش، ص۱۷۴ـ۱۷۵، ۴۹۹ـ۵۰۳، ۵۰۶ ـ۵۰۷
- ↑ مراجعہ کریں: فقیہ شیرازی، ص۲۷۱؛ نیز مراجعہ کریں: ابن حنبل، ج۱، ص۲۵۱؛ کلینی، ج۵، ص۵۳۷؛ بیہقی، ج۲، ص۲۲۶
- ↑ مراجعہ کریں: آقابزرگ طہرانی، ج۶، ص۲۵۴، پانویس؛ جعفریان، ۱۳۸۰ش الف، ص۲۹ـ۳۱، ۳۵
- ↑ جعفریان، ۱۳۸۰ش الف، ص۳۵ـ۳۶
- ↑ برای کتاب شناسی حجاب مراجعہ کریں: جعفریان، ۱۳۸۰ش ب، ص۱۳۳۷ـ۱۳۴۸؛ نیز برای برخی آثار مراجعہ کریں: آقابزرگ طہرانی، ج۶، ص۲۵۴، ج۷، ص۵۷، ج۱۱، ص۹، ۶۳، ج۱۲، ص۹۰، ۱۵۴، ۱۶۴ـ۱۶۵، ۱۹۲، ج۱۵، ص۱۸۳، ۲۷۲، ج۱۷، ص۲۳۵
- ↑ مراجعہ کریں: انقلاب اسلامی بہ روایت اسناد ساواک، کتاب ۱، ص۲۶۸، کتاب ۲، ص۱۲۶، ۱۲۹
- ↑ حافظیان، ص۱۶۹ـ۱۷۸
- ↑ نمونے کے طور پرمراجعہ کریں: امام خمینی، ج۲، ص۲۵۹، ج۹، ص۹۵ـ۹۶، ج۱۹، ص۱۲۱
- ↑ نمونے کے طور پرمراجعہ کریں: گلپایگانی، ج۳، ص۲۱۰ـ۲۱۱
- ↑ جو عورتیں حجاب کے بغیر عمومی رفت و آمد کی جگہوں میں نکلیں تو ان کو دس دن سے دو ماہ تک جیل یا پچاس ہزار سے پانچ لاکھ ریال تک کی سزا ہوسکتی ہے
- ↑ اس آرٹیکل اور اس پر کی جانے والی نقد کے لئے مراجعہ کریں: ہاشمی، ص۱۵۲ـ۱۵۵
- ↑ دایرۃالمعارف زنان فرہنگہای اسلامی، ج۱، ص۳۰۱ـ ۳۰۲، ۴۴۰ـ۴۴۱، ج۲، ص۲۹۰، ج۳، ص۳۹۸ـ ۳۹۹، ج۴، ص۴۰
- ↑ مراجعہ کریں: میرمحمدی، ص۵۰
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۲، ص۱۸۵ ـ ۱۸۶ و ۱۸۹
- ↑ جواہر الکلام، ج۲۹، ص۸۲
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۲، ص۱۸۷
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۲، ص۱۹۰
- ↑ التنقیح (الطہارۃ)، ج۳، ص۳۵۷؛ جواہر الکلام، ج۲، ص۲
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۲، ص۱۹۰ ـ ۱۹۱
- ↑ نور، ۳۱
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۱۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۲۹، ص۹۴ ـ ۹۶
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۵، ص۲۴۸ ـ ۲۴۹؛ کتاب الصلاۃ (محقق داماد)، ص۸۷ ـ ۹۰
- ↑ جواہر الکلام، ج۲۹، ص۸۵
- ↑ جواہرالکلام، ج۸، ص۱۶۲ ـ ۱۷۵
- ↑ کفایۃ الاحکام، ص۸۱؛ مستند الشیعۃ، ج۴، ص۲۴۶ ـ ۲۴۷
- ↑ مدارک الاحکام، ج۳، ص۱۸۹ ـ ۱۹۰
- ↑ مختلف الشیعۃ، ج۲، ص۹۶
- ↑ جواہر الکلام، ج۸، ص۲۲۱
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۸۹
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۵۱
- ↑ مستمسک العروۃ، ج۵، ص۲۵۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۸، ص۱۷۵
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۸۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۴۹ ـ ۳۵۰
- ↑ جواہر الکلام، ج۸، ص۱۸۶ ـ ۱۹۲؛ مستمسک العروۃ ۵/ ۲۷۴ ـ ۲۷۷
- ↑ مہذب الاحکام، ج۵، ص۳۷۱ ـ ۳۷۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۲۳۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۲۷؛ مہذب الاحکام، ج۵، ص۳۶۸ ـ ۳۶۹
- ↑ جواہر الکلام ۸/ ۱۱۴؛ توضیح المسائل مراجع ۱/ ۴۶۳ ـ ۴۶۴ م ۸۳۴ و ۸۳۵
- ↑ جواہر الکلام، ج۸، ص۱۰۹ ـ ۱۱۰
- ↑ جواہر الکلام، ج۸، ص۱۴۷؛ وسائل الشیعۃ ۵/ ۲۴
- ↑ العروۃ الوثقی، ج۲، ص۳۵۱ ـ ۳۵۲
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۳۵
- ↑ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۳۴۱
- ↑ جواہر الکلام، ج۳۲، ص۲۷۶ ـ ۲۸۰
- ↑ مہذب الاحکام، ج۵، ص۳۴۷، ۳۴۹ و ۳۵۶ ـ ۳۵۸
مآخذ
- قرآن کریم
- کتاب مقدّس
- آقا بزرگ طہرانی
- ابن بابویہ، علل الشرایع، نجف ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶، چاپ افست قم، بی تا.
- ابن حزم، المُحلّی، چاپ احمد محمد شاکر، بیروت: دار الآفاق الجدیدۃ، بی تا.
- ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دار صادر، بی تا.
- ابن سعد (لیدن).
- ابن قدامہ، المغنی، بیروت: دار الکتاب العربی، بیتا.
- ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت ۱۴۱۲.
- ابن منظور.
- احمد دردیر ابو البرکات، الشرح الکبیر، بیروت: داراحیاء الکتب العربیۃ، بیتا.
- احمد بن محمد اشعری قمی، کتاب النوادر، قم ۱۴۰۸.
- امام خمینی، صحیفہ نور، تہران، ج۲، ۱۳۶۱ش، ج۹، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ۱۳۶۸ش.
- مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب النّکاح، قم ۱۴۱۵.
- انقلاب اسلامی بہ روایت اسناد ساواک، تہران: سروش، کتاب ۱، ۱۳۷۶ش، کتاب ۲، ۱۳۷۷ش.
- یوسف بن احمد بحرانی، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم ۱۳۶۳ـ۱۳۶۷ش.
- محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، چاپ محمد ذہنی افندی، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، چاپ افست بیروت بیتا.
- احمد بن محمد برقی، المحاسن، چاپ مہدی رجائی، قم ۱۴۱۳.
- احمد بن حسین بیہقی، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، بیتا.
- محمداعلی بن علی تہانوی، موسوعۃ کشّاف الفنون و العلوم، چاپ رفیق العجم و علی دحروج، بیروت ۱۹۹۶.
- عبدالرحمان جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰؛ احمدبن علی جصاص، کتاب احکام القرآن، ]استانبول[ ۱۳۳۵ـ ۱۳۳۸، چاپ افست بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
- رسول جعفریان، «بدعت کشف حجاب در ایران »، در رسائل حجابیہ: شصت سال تلاش علمی در برابر بدعت کشف حجاب، چاپ رسول جعفریان، دفتر۱، قم: دلیل ما، ۱۳۸۰ش الف.
- ہمو، «کتاب شناسی حجاب »، در ہمان، دفتر۲، قم: دلیل ما، ۱۳۸۰ش ب.
- عبداللّہ جوادی آملی، کتاب الصلاۃ، تقریرات درس آیۃاللّہ محقق داماد، قم ۱۴۰۵.
- اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاہرہ ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷.
- محمد حسین حافظیان، زنان و انقلاب: داستان ناگفتہ، تہران ۱۳۸۰ش.
- محمد بن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۰۶.
- حرّ عاملی؛ محسن حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، چاپ افست قم ۱۴۰۴.
- علی خامنہای، اجوبۃ الاستفتاءات، ج۱، کویت ۱۴۱۵/۱۹۹۵، ج۲، بیروت ۱۴۲۰/۱۹۹۹.
- ابوالقاسم خوئی، المسائل الشرعیۃ: استفتاءات، ج:۲ المعاملات، قم ۱۴۲۱/۲۰۰۰.
- ابوالقاسم خوئی و جواد تبریزی، صراۃ النجاۃ: استفتاءات لآیۃاللّہ العظمی الخوئی مع تعلیقۃ و ملحق لآیۃاللّہ العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸.
- محمد تقی خوئی، المبانی فی شرح العروۃ الوثقی: النکاح، تقریرات درس آیۃاللّہ خوئی، در موسوعۃ الامام خوئی، ج۳۲، قم: مؤسسۃ احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۲۶/۲۰۰۵.
- محمد بن محمد زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۲، چاپ علی ہلالی، کویت ۱۳۸۶/۱۹۶۶، چاپ افست بیروت، بیتا.
- وہبہ مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
- محمد بن بہادر زرکشی، البرہان فی علوم القرآن، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
- عبدالاعلی سبزواری، مہذّب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، قم ۱۴۱۳ـ۱۴۱۶.
- محمد سروش، دین و دولت در اندیشہ اسلامی، قم ۱۳۷۸ش.
- علی سیستانی، استفتاءات المرجع الدینی الأعلی السید السیستانی مدظلہ، قم ۲۰۰۰.
- علی اکبر سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، تہران: مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الامام الخمینی، بیتا.
- سیوطی.
- محمد بن احمد شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
- محمد مہدی شمس الدین، مسائل حرجۃ فی فقہ المرأۃ، کتاب:۱ الستر و النظر، بیروت ۲۰۰۱.
- محمد شوکانی، فتح القدیر، بیروت: داراحیاء التراث العربی، بیتا.
- زین الدین بن علی شہیدثانی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹.
- ابوالحسن طالقانی طہرانی، «محاکمہ در موضوع حجاب »، در رسائل حجابیہ، ہمان منبع، دفتر۱.
- علی بن محمد علی طباطبائی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، قم ۱۴۱۲ـ۱۴۲۰.
- محمد حسین طباطبائی.
- محمد کاظم بن عبدالعظیم طباطبائی یزدی، العروۃالوثقی، قم ۱۴۱۷ـ۱۴۲۰.
- طبرسی.
- طبری، جامع.
- محمد بن حسن طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۴، چاپ محمد باقر بہبودی، تہران ۱۳۸۸.
- حسن بن عبداللّہ عسکری، معجم الفروق اللغویۃ، الحاوی لکتاب ابی ہلال العسکری و جزءآ من کتاب السید نورالدین الجزائری، قم ۱۴۱۲.
- حسن بن یوسف علامہ حلّی، تذکرۃالفقہاء، چاپ سنگی، بیجا، بیتا، چاپ افست تہران ۱۳۸۸.
- محمد ہادی فاضل، «بررسی لزوم و حدود حجاب در فقہ اہل تسنن »، کتاب زنان، ش ۳۷ (پاییز ۱۳۸۶).
- محمد بن حسن فخر المحققین، ایضاح الفوائد فی شرح اشکالات القواعد، چاپ حسین موسوی کرمانی، علی پناہ اشتہاردی، و عبدالرحیم بروجردی، قم ۱۳۸۷ـ۱۳۸۹، چاپ افست ۱۳۶۳ش.
- محمد بن عمر فخر رازی، التفسیر الکبیر، أو، مفاتیح الغیب، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰.
- محسن فقیہ شیرازی، «نقد مقالہ حبل المتین »، در رسائل حجابیہ، ہمان منبع، دفتر۱.
- محمد بن شاہ مرتضی فیض کاشانی، کتاب الوافی، چاپ ضیاءالدین علامہ اصفہانی، اصفہان ۱۳۶۵ـ۱۳۷۴ش.
- یوسف قرضاوی، النقاب للمرأۃ: بین القول ببدعیتہ... و القول بوجوبہ، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۱.
- محمد بن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵.
- علی بن ابراہیم قمی، تفسیر القمی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۱.
- محمد علی کاظمی خراسانی، کتاب الصلاۃ، تقریرات درس آیۃاللّہ نائینی، قم ۱۴۱۱.
- کلینی.
- محمد رضا گلپایگانی، مجمع المسائل، قم، ج۲، ۱۳۶۴ش، ج۳، بیتا.
- محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- ہمان، ج۳۰، چاپ عبدالزہراء علوی، بیروت: دارالرضا، بیتا.
- مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، بیتا.
- مرتضی مطہری، مسئلہ حجاب، تہران ۱۳۷۰ش؛ محمد رضا مظفر، اصول الفقہ، قم ۱۳۷۰ش.
- احمد بن محمد مقدس اردبیلی، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، چاپ محمد باقر بہبودی، تہران، بیتا.
- ناصر مکارم شیرازی، استفتائات جدید، گردآوری ابوالقاسم علیان نژادی، قم ۱۳۸۵ش.
- حسین علی منتظری، رسالہ توضیح المسائل، تہران ۱۳۷۷ش.
- الموسوعۃ الفقہیۃ، ج۴۱، کویت: وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ، ۱۴۲۳/۲۰۰۲.
- محمد مؤمن قمی، کتاب الصلاۃ، تقریرات درس آیۃاللّہ محقق داماد، قم ۱۴۰۵.
- مصطفی میر محمدی، «عدم ممنوعیت حجاب اسلامی از منظر حقوق بین الملل اقلیتہا »، کتاب زنان، ش ۳۷ (پاییز ۱۳۸۶).
- محمد حسن بن باقر نجفی، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محقق: قوچانی، عباس، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۸۱.
- احمد بن محمد مہدی نراقی، مستند الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج۱۶، قم ۱۴۱۹.
- حسین بن محمد تقی نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم ۱۴۰۷ـ۱۴۰۸.
- حسین ہاشمی، «نقدی بر مادہ ۶۳۸ ق.م.ا. در جرم انگاری بد حجابی »، کتاب زنان، ش ۳۷ (پاییز ۱۳۸۶).
- علی بن ابوبکر ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
- سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، موسسہ المنار، قم، ۱۴۱۳ق.
- Leila Ahmed, Women and gender in Islam: historical roots of a modern debate, New Haven 1992.
- Encyclopedia Judaica, Jerusalem 1978-1982.
- s.v. "Head, covering of the" (by Meir Ydit).
- EIr. s.vv. "Cador. I: in early literary sources" (by Bijan Gheiby) , "Cador. II: among Zoroastrians" (by James R. Russell).
- The encyclopedia of religion, ed. Mircea Eliade, New York 1987.
- s.vv. "Clothing. religious clothing in the west" (by Deborah B. Kraak) , "Tertullian" (by E. Glenn Hinson).
- Encyclopedia of the women & Islamic cultures, ed. Suad Joseph, Leiden: Brill, 2003-2007.
- The Oxford encyclopedia of the modern Islamic world, ed. John L. Esposito, New York 1995.
- s.v. "Hijab" (by Fadwa el Guindi).
بیرونی لینک
- منبع مقالہ:دانشنامہ جہان اسلام