قذف

ویکی شیعہ سے

قَذْف کسی کی طرف زنا یا لواط کی نسبت دینے کو کہتے ہیں۔ فقہاء نے قذف کے اثبات اور اس پر حد جاری ہونے کے کچھ شرائط ذکر کئے ہیں جیسا کہ بلوغ، عقل اور اسلام۔ قذف کی حد، اسّی کوڑے ہے۔ البتہ یہ حد اس وقت جاری ہوگی جب اس کا مطالبہ وہ کرے جس کے ساتھ قذف ہوا ہے۔ اور اسی طرح اگر جس کے ساتھ قذف واقع ہوا ہے وہ حد کا مطالبہ نہ کرے یا اس کی طرف سے اس تہمت کی تائید نہ ہو اور قاذف اپنی صفائی میں بینہ پیش کردے تو یہ حد ساقط ہو جاتی ہے۔

قذف گناہان کبیرہ میں سے ہے اور اس کے اپنے کچھ مخصوص احکام ہیں جیسا کہ قذف کے سلسلہ میں خود اپنے حق میں قاذف کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور قول مشہور کی بنا پر جس شخص پر تین مرتبہ قذف کی حد جاری ہو چکی ہو اسے چوتھی مرتبہ میں قتل کر دیا جائے گا۔

مفہوم اور اہمیت

کسی پر زنا اور لواط کی تہمت لگانے کو قذف کہتے ہیں۔[1] لغت میں قذف کسی پتھر یا زبان وغیرہ سے حملہ کرنے کو کہتے ہیں۔[2] کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی طرف قذف کی نسبت دیتا ہے گویا وہ اس کی طرف تہمتوں کے تیر چلا رہا ہے۔[3] بعض فقہا نے تحریری شکل میں تہمت لگانے کو بھی قذف شمار کیا ہے۔[4]

فقہ میں دوسرے پر زنا یا لواط کی تہمت لگانے والے کو قاذف اور جس پر تہمت لگائی جارہی ہو اسے مقذوف کہا جاتا ہے۔[5]

قذف گناہ کبیرہ ہے۔[6] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک روایت میں سحر، شرک، قتل نفس، یتیم کا مال کھانے اور اسی طرح رِبا کھانے اور جہاد کے دوران جنگ سے فرار کرنے وغیرہ کو ہلاک کرنے والے گناہوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔[7] قذف کے سلسلہ میں فقہی کتابوں میں باب حدود میں بحث کی جاتی ہے۔[8]

سزا

قذف کی سزا 80 کوڑے ہے[9] جو دو عادل مردوں کی گواہی یا خود قاذف کے دو بار اقرار کر لینے سے ثابت ہو جاتی ہے۔[10] اس حکم کی تین دلیلیں ہیں، پہلی دلیل آیت: وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهدَاءَ فَاجْلِدُوهمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهمْ شَهادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ همُ الْفَاسِقُونَ[؟؟]؛ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ فاسق ہیں۔[11] دوسری دلیل، روایات ہیں[12] اور تیسری دلیل اجماع ہے[13]

اور اسی طرح اس شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی جو دوسرے کی طرف قذف کی نسبت دے لیکن وہ اسے ثابت نہ کر سکے۔[14]

سزا میں شدت

  • بعض فقہا کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے پیغمبر اکرمؐ کی ماں کو قذف کرے تو وہ مرتد ہے اور قتل کا حقدار ہوگا[15] اور اگر مرتد فطری ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔[16] لیکن صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ اس مدعی پر کوئی دلیل نہیں ہے مگر یہ کہ اس قذف کو پیغمبر اکرمؐ پر سَبّ شمار کیا جائے۔[17]
  • مشہور قول کی بنا پر جس شخص پر تین مرتبہ قذف کی حد جاری ہو چکی ہے چوتھی مرتبہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔[18] البتہ ابن ادریس حلی قائل ہیں کہ جس شخص پر پہلے دو مرتبہ قذف کی حد جاری ہو چکی ہو اسے تیسری مرتبہ میں قتل کر دیا جائے گا۔[19]

وہ مواقع جہاں حد قذف ساقط ہو جاتی ہے

قذف کی حد مندرجہ ذیل مواقع پر ساقط ہو جاتی ہے:

  • خود مقذوف یا اس کے ورثاء (اگر وہ زندہ نہ ہو)، تہمت لگانے والے کو معاف کر دیں۔
  • خود قاذف اپنے مدعیٰ پر شرعی بینہ لے آئے۔
  • خود مقذوف اپنے اوپر لگنے والی تہمت کو قبول کر لے۔
  • جبکہ قذف، لِعان[یادداشت 1] [20] کا سبب قرار پائے۔

حد کے نفاذ کے شرائط

قذف کے ثابت کرنے اور اس کی حد جاری کرنے کے سلسلہ میں قاذف و مقذوف دونوں کے لئے کچھ مخصوص شرائط بیان کئے گئے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو قذف کی حد جاری نہیں ہوگی اور قاذف پر تعزیر (وہ سزا جس کی مقدار خود حاکم شرع مقرر کرتا ہے) جاری ہوگی۔[21] بلوغ، عقل، قصد و اختیار قاذف کے شرائط میں سے ہیں۔[22] اسی بنا پر اگر کوئی بچہ یا دیوانہ کس پر یہ تہمت لگائے اس پر قذف کی حد جاری نہیں ہوگی لیکن اسے ادب سکھانے کے لئے (تعزیر) جاری ہوگی۔[23] اور اسی طرح اگر کوئی بھولے یا مجبوری کی حالت میں کسی پر تہمت لگا دے تو اس پر بھی حد جاری نہیں ہوگی[24] بعض علماء کہتے کہ قاذف جو تہمت لگا رہا ہے وہ اس کے معنی کو بھی جانتا ہو۔[25] فقہاء نے مقذوف کے لئے احصان کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔[26] احصان سے مراد بلوغ، عقل، حریت، اسلام اور عفت ہے؛[27] اگرچہ احصان کے ایک دوسرے معنی شادی بیاہ کے بھی ہیں۔[28]

اسی طرح مقذوف کو چاہیئے کہ وہ حاکم شرع سے حد جاری کرنے کا مطالبہ کرے چونکہ حد قذف حق الناس ہے اور حاکم شرع اسی وقت حق الناس کو دلوا سکتا ہے کہ جب خود صاحب حق اس کا مطالبہ کرے۔[29] حد قذف اسی وقت ثابت ہوتی ہے کہ جب تہمت کے الفاظ عرف عام میں صریحی طور پر زنا یا لواط پر دلالت کرتے ہوں۔[30]

قذف کے دیگر احکام

قذف کے دیگر احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • اگر کوئی شخص کسی ایک گروہ پر تہمت لگائے، اگر وہ سب ایک ساتھ حد کا مطالبہ کریں تو قاذف پر صرف ایک ہی حد جاری ہوگی لیکن اگر ہر ایک الگ الگ حد کا مطالبہ کرے تو ہر ایک فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ طور پر حد جاری کی جائے گی۔[31] اسی طرح اگر کوئی کسی عورت پر کسی مرد کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائے اگر وہ دونوں ایک ساتھ حد کا مطالبہ کریں گے تو قاذف پر صرف ایک مرتبہ حد جاری کی جائے گی لیکن اگر دونوں علیحدہ طور پر مطالبہ کریں تو دو مرتبہ حد جاری ہوگی۔[32]
  • اگر کوئی باپ اپنے بیٹے پر تہمت زنا یا لواط لگائے اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی لیکن اس پر تعزیر جاری ہوگی۔[33]
  • حد قذف کا حق ورثاء میں منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اگر مقدوف مر جائے تو اس کے ورثاء حد کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔[34]
  • اگر دو آدمی ایک دوسرے پر تہمت زنا یا لواط لگائیں ان دونوں پر حد جاری نہیں ہوگی البتہ ان کے لئے تعزیر ثابت ہے۔[35]

نوٹ

  1. لعان اس جگہ ہوتا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے کوئی گواہ یا دلیل نہ ہو چنانچہ وہ قاضی کے سامنے عدالت میں جاکر چار مرتبہ اپنے دعوے کو دہرائے گا اور پھر اس آیت کریمہ کو زبان پر جاری کرے گا:‌ لَعْنَةُ اللّه عَلیَّ إنْ کُنْتُ مِن الْكاذِبينَ[؟؟]؛ اگر میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ (مشکینی، مصطلاحات الفقہ، ص۴۵۴۔)

حوالہ جات

  1. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ ، ج۹، ص۱۶۶؛ عبدالرحمان،‌ معجم المصطلاحات و الالفاظ الفقہیۃ، ج۳، ص۷۴۔
  2. فراہیدی، العین، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۱۳۵(لفظ قذف کے ذیل میں)۔
  3. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ء، ج۴۱، ص۴۰۲۔
  4. بهجت، استفتائات، ۱۴۲۸ق، ج۴، ص۴۶۱؛ تبریزی، استفتائات جدید، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۴۲۶.
  5. ملاحظہ کریں: موسوعۃ الامام الخوئی،ج۴۱، ص۳۱۴۔
  6. امام خمینی،‌ تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ مطبوعات دار العلم‌، ج۱، ص۲۷۴۔
  7. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۶۴۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۴۰۲۔
  9. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ ص۵۴۷؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۸۸۔
  10. طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ھ، ص۷۲۶؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۷۔
  11. سورہ نور، آیہ ۴۔
  12. رجوع کیجئے:‌ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۲۰۵-۲۰۹؛ حر عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۸، ص۱۷۳-۲۰۸۔
  13. بطور مثال رجوع کیجئے::‌ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۸۸؛ نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۴۰۲۔
  14. نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۳۷۔
  15. ملاحظہ کریں:‌ شهید ثانی، الروضة البهية، ۱۴۱۰ق، ج۹، ص۱۹۶.
  16. شهید ثانی، الروضة البهية، ۱۴۱۰ق، ج۹، ص۱۹۶.
  17. نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۴۳۸.
  18. رجوع کیجئے:‌ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۷؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۹۰۔
  19. ابن ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج۳،‌ ص۵۱۹۔
  20. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳،‌ ص۵۴۷؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۹۱؛ نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۴۲۔
  21. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۵؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۷۹ و ۱۸۰۔
  22. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۴۔
  23. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص؛ ۵۴۴؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۷۵۔
  24. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۴۔
  25. طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ق، ص۷۲۸؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۶۶ و ۱۷۲۔
  26. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۵؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۷۹۔
  27. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۵؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۷۹۔
  28. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۷۸۔
  29. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۷؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۹۰۔
  30. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۶۶-۱۶۸۔
  31. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۶؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۸۳ و ۱۸۴۔
  32. نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۴، ص۷۴۔
  33. طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ھ، ص۷۲۷؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۶۔
  34. طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ھ، ص۷۲۷؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ ص۵۴۷۔
  35. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳،‌ص۵۴۶؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۹، ص۱۸۳۔

مآخذ

  • ابن ادریس، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی،‌ قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ ۔
  • امام خمینی، سید روح ‌اللہ،‌ تحریر الوسیلہ،‌ قم، مؤسسہ مطبوعات دار العلم‌، چاپ اول، بے ‌تا۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مٰؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ ۔
  • شہید ثانی، زین ‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، حاشیہ و شرح کلانتر، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ ہجری شمسی
  • طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ ۔
  • عبد الرحمان،‌ معجم المصطلاحات و الالفاظ الفقہیۃ، بے ‌جا‌، بے ‌نا، بے ‌تا۔
  • علامہ حلی،‌ حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول،‌ ۱۴۱۳ھ ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، نشر ہجرت، ۱۴۱۰ھ ۔
  • قانون مجازات اسلامی، سائٹ مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، رجوع کرنے کی تاریخ: ۲۹ تیر ۱۳۹۸ہجری شمسی۔ ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیة، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ ۔
  • مشکینی،‌ میرزا علی، مصطلاحات الفقہ،‌ بے جا،‌ بے ‌نا، بے ‌تا۔
  • نجفی،‌ محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔