نماز آیات

ویکی شیعہ سے

نماز آیات واجب نمازوں میں سے ہے جو بعض قدرتی حوادث جیسے زلزلہ، چاند گرہن اور سورج گرہن کے موقع پر واجب ہو جاتی ہے۔ مذکورہ عوامل کے علاوہ بعض دوسرے حوادث جیسے سرخ اور کالی آندھی وغیرہ کی وجہ سے بھی نماز آیات واجب ہوتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ ان سے اکثر لوگوں کو خوف محسوس ہو۔

نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع۔ نماز آیات دو طرح سے پڑھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ کہ ہر رکوع سے پہلے سورہ حمد اور ایک سورت کو کامل طور پڑھی جائے۔ دوسری صورت یہ کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد ایک سورت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے بعد رکوع انجام دیا جائے اسطرح ہر رکعت میں ایک دفعہ سورہ حمد اور ہر رکوع سے پہلے کسی سورت کا ایک حصہ پڑھا جاتا ہے۔

نماز آیات اگر سورج اور چاند گرہن کے علاوہ کسی اور سبب سے واجب ہو تو جب بھی پڑھی جائے ادا کی نیت سے پڑھی جائے گی لیکن اگر سورج گرہن اور چاند گرہن کی وجہ سے واجب ہوئی ہو تو گرہن کے وقت ادا کرنا ضرروی ہے اگر اس وقت ادا نہ کرے تو قضا کی نیت سے ادا کی جائے گی۔

تعریف اور وجہ تسمیہ

نماز آیات واجب نمازوں میں سے ہے جو بعض قدرتی حوادث جیسے زلزلہ، چاند گرہن اور سورج گرہن کے موقع پر واجب ہو جاتی ہے۔[1] اس کے علاوہ ہر اس طریعی حوادیث کی وجہ سے بھی نماز آیات واجب ہوتی ہے جس سے اکثر لوگوں کو خوف محسوس ہو،[2] جیسے سرخ اور زرد آندھی وغیرہ۔[3] آیات "آیہ" یا "آیت" کا جمع ہے جس کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں[4] اور احادیث میں سورج گرہن اور چاند گرہن کو خدا کی نشانی سے تعبیر کی گئی ہے۔[5]

احادیث میں نماز آیات کو اسی عنوان یعنی "صلاۃالآیات" کے نام سے یاد نہیں کیا گیا؛ بلکہ اسے "صلاۃالکسوف" کے نام سے یاد کیا گیا ہے؛[6] لیکن فقہی کتابوں میں اسے ان دونوں عناوین کا استعمال کیا جاتا ہے۔[7] کہا جاتا ہے کہ اس نماز کو نماز آیات کہنے کی علت یہ ہے کہ لوگ ان طبیعی حوادث کو ہر چیز پر خدا کی قدرت اور مالکیت کی نشانی سمجھتے ہیں اس لئے اس نماز کو نماز آیات کہا گیا ہے۔[8]

تاریخ کے آئینے میں

نماز آیات سنہ 10ھ کو مسلمانوں پر واجب ہوئی۔ تاریخی منابع کے مطابق اس سال پیغمبر اکرمؐ کے فرزند ابراہیم کے انتقال کے ساتھ سورج کو گرہن لگ گئی تو لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ واقعہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے پیش آیا ہے؛ لیکن پیغمبر اکرمؐ نے ان دونوں کو خدا کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعہ خدا کے اذن سے پیش آتا ہے نہ کسی کی موت اور حیات سے۔[9] اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقع پر نماز آیات پڑھی جائے اور آپ نے خود مسلمانوں کے ساتھ نماز آیات ادا کیں۔[10]

کیفیت

نماز آیات دو رکعت اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہے جسے دو طریقے سے پڑھی جا سکتی ہے:[11]

  • پہلا طریقہ: اس طریقے میں ہر رکوع سے پہلے سورہ حمد اور ایک اور سورت کو مکمل پڑھی جاتی ہے؛[12] اس طرح کہ تکبیرۃالاحرام کے بعد سورہ حمد اس کے بعد کوئی اور سورت پڑھ کر رکوع میں جائیں گے۔ رکوع کے بعد دوبارہ سورہ حمد اور کوئی اور سورہ پڑھ کر پھر رکوع میں جائیں گے۔ اسی ترتیب کے تحت پانچویں رکوع تک انجام دیں گے۔ اس کے بعد سجدہ میں جائیں گے اور دو سجدے ادا کر کے دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح انجام دیں گے۔ دوسری رکعت کے دو سجدوں کے بعد تشہد اور سلام پھیر کر نما کو ختم کریں گے۔[13]
  • دوسرا طریقہ: اس طریقے میں ہر رکعت میں ایک دفعہ حمد اور کسی اور سورت کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھا جائے گا؛ اس طریقے میں ہر رکعت میں سورہ حمد فقط ایک دفعہ شروع میں پڑھی جائے گی۔[14]

فقہاء کے مطابق ایک رکعت کو پہلے طریقے کے مطابق اور دوسری رکعت کو دوسرے طریقے کے مطابق یا بالعکس بھی پڑھی جا سکتی ہے۔[15]

مستحبات

نماز آیات کے بعض مستحبات درج ذیل ہیں:

  • دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا۔[16]
  • وہ اعمال جو یومیہ نمازوں میں مستحب ہیں وہ نماز آیات میں بھی مستحب ہیں؛ البتہ نماز آیات میں مستحب ہے اذان و اقامت کی بجائے تین بار "الصلاۃ" کہا جائے۔[17]
  • ہر رکوع کے بعد تکبیر کہنا، سوائے ہر رکعت کے پانچویں رکوع کے بعد۔[18]
  • جماعت کے ساتھ ادا کرنا،[19] جہر کے ساتھ پڑھنا[20] اور طولانی سورتوں کا پڑھنا[21] نماز آيات آیات کے دیگر مستحبا میں سے ہیں۔

نماز آیات کا وقت اور اس کی قضا

سورج اور چاند گرہن میں نماز آیات کا وقت گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر دوبارہ سورج یا چاند کا ظاہر ہونے کی ابتداء[22] یا مکمل ظاہر ہونے[23] تک ہے۔ صاحب‌ جواہر کے مطابق احتیاط اس میں ہے کہ گرہن لگنے سے لے کر مکمل ظاہر ہونے تک انجام دیا جائے اور اس سے موخر نہ کریں۔[24] سورج اور چاند گرہن کے وقت اگر مقررہ وقت کے اندر نماز آیات نہ پڑھی جائے تو اس کی قضا واجب ہے۔[25]

زلزلہ اور دوسرے حوادث سوائے سورج اور چاند گرہن، کی وجہ سے پڑھی جانے والی نماز آیات کی قضا نہیں ہے۔[26] بلکہ جب بھی پڑھی جائے ادا کی نیت سے پڑھی جائے گی۔[27]

غسل کُسوف

علامہ حلی کے مطابق بعض شیعہ فقہاء جیسے سید مرتضی، سلار دیلمی اور ابوصلاح حلبی نے فتوا دیا ہے کہ اگر کوئی شخص سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز آیات ادا نہ کرے تو اس کی قضا کے ساتھ ساتھ غسل کرنا بھی ضرروی ہے؛ لیکن خود علامہ اور بعض دوسرے فقہاء مانند شیخ مفید، ابن براج اور ابن‌ادریس حلی اس غسل کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ البتہ اس غسل کا واجب‌ یا مستحب‌ ہونا اس وقت ہے جب سورچ اور چاند کو مکمل طور پر گرہن لگ گئی ہو اور اس شخص نے عمدا مقررہ وقت میں نماز آیات ادا نہ کی ہو۔[28] احادیث میں اس غسل کو "غسل کُسوف" کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[29]

وقت کی تنگی میں یومیہ نماز کا مقدم ہونا

سورج اور چاند گرہن کی نماز آیات واجب فوری ہے؛[30] لیکن اگر نماز آیات یومیہ نمازوں کے اوقات میں واجب ہو جائے تو پہلے اس نماز کو پڑھنا ضروری ہے جس کا وقت تنگ ہو اور قضا ہونے کا خدشہ ہو۔ اگر دونوں نماز کا وقت تنگ ہو تو یومیہ نماز مقدم ہے۔[31]

دوسرے احکام

  • نماز آیات کا ہر رکوع رکن ہے پس اگر عمدا یا سہوا کم یا زیادہ ہوا تو نماز باطل ہے۔[32]
  • نماز آیات صرف اس منطقہ کے لوگوں پر واجب ہے جہاں پر مذکورہ قدرتی حوادیث رونما ہوئے ہوں۔[33]
  • بعض فقہاء کے مطابق نماز آیات حائض اور نُفَساء سے ساقط ہے۔[34] البتہ کہتے ہیں کہ پاک ہونے کے بعد احتیاط واجب کے طور پر اس کی قضا بجا لانا ضروری ہے۔[35]
  • سورج اور چاند گرہن صرف اس وقت نماز آیات کا موجب ہے جب عام طور پر نظر آئے بنا براین اگر ٹلسکوپ یا دوربین کے ذریعے دیکھا گیا ہو تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔[36]
  • زلزلے کے بعد آنے والے جھکٹے اگر مستقل زلزلہ شمار ہو تو نماز آیات واجب ہو گا۔[37] اسی طرح زمین کی معمولی لرزش اگر محسوس ہو تو بھی نماز آیات واجب ہے۔[38]
  • اگر مختلف عوامل کی وجہ سے کئی نماز آیات واجب ہوں تو نیت کرتے وقت معین کرنا ضروری ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ص۴۱۰۔
  2. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، ج۱، ص۱۹۱۔
  3. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ص۴۱۰۔
  4. فراہیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۴۴۱(ذیل واژہ ایا)۔
  5. برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۳۱۳، ح۳۱۔
  6. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۸۸؛ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۳۴؛ شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۷۱۔
  7. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تبصرۃالمتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۴۸؛ فیض کاشانی، مفاتیح‌الشرایع، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، ج۱، ص۱۳۷؛ طباطبایی، ریاض‌المسائل، ۱۴۱۸ق، ج۳، ۱۹۳۔
  8. اکبری، نگاہی بہ فلسفہ احکام، ۱۳۹۰، ص۶۷۔
  9. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۵۲۔
  10. برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۳۱۳، ح۳۱؛ حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۱۶ق، ج۷، ص۴۸۵۔
  11. علامہ حلی، نہایۃ الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۷۱۔
  12. علامہ حلی، نہایۃ الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۷۱۔
  13. علامہ حلی، نہایۃ الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۷۲۔
  14. علامہ حلی، نہایۃ الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۷۱-۷۲۔
  15. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۳۶، م۱۵۰۹۔
  16. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۳۷، م۱۵۱۲۔
  17. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۳۶، م۱۵۱۰۔
  18. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۔
  19. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۔
  20. امام خیمنی، تحریرالوسیلہ، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، ج۱، ص۱۹۴۔
  21. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۔
  22. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، ج۱، ص۱۹۲۔
  23. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۴۰۹.
  24. نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ۱۳۷۳ش، ص۴۱۱، م۱۳۰۷۔
  25. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۔
  26. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ۱۳۷۳ش، ص۴۱۱، م۱۳۰۸۔
  27. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۸؛ نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ۱۳۷۳ش، ص۴۱۱، م۱۳۰۸۔
  28. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۱۷۔
  29. ملاحظہ کریں:‌ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۱۵۔
  30. نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ۱۳۷۳ش، ص۴۱۱. م۱۳۰۸۔
  31. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۴۹؛ نجفی، مجمع الرسائل (المحشَّی)، ۱۳۷۳ش، ص۴۱۲، م۱۳۱۲۔
  32. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۲۸۔
  33. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۳۱۔
  34. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۳۱؛ امام خمینی، نجاۃ العباد، ۱۴۲۲ق، ص۱۱۹۔
  35. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۳۴-۱۰۳۵، م۱۵۰۶۔
  36. امام خمینی، نجاۃ العباد، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۰۹
  37. خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۱۴، م۷۱۴۔
  38. خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۱۴، م۷۱۵۔
  39. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۲۸-۱۰۲۷، م۱۴۹۳۔

مآخذ

  • اکبری، محمود، نگاہی بہ فلسفہ احکام، قم، فتیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، قم، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، بی‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، نجاۃ العباد، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۴۲ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۱)، تحقیق محمد حمیداللہ، مصر، دارالتعارف، ۱۹۵۹ء۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، تصحیح جلال‌الدین ارموی، قم، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ھ۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
  • خامنہ‌ای، سید علی بن جواد، اجوبۃ الاستفتاءات، الدار اسلامیہ، بیروت، ۱۴۲۰ھ۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام لاحیاء التراث، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۴۱۶ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی احکام الدین، تصحیح محمدہادی یوسفی غروی، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر وابستہ بہ وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایۃ الاحکام فی معرفۃ الاحکام، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‎السلام، ۱۴۱۹ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائری، قم، ہجرت، ۱۴۱۰ھ۔
  • طباطبایی، سیدعلی، ریاض‌المسائل، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپو اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، مفاتیح‌الشرائع، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، درالاکتاب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، رسالہ شریفہ مجمع الرسائل(المحشَّی)، مشہد، مؤسسہ حضرت صاحب‌الزمان، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، تہران، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔