شہید ثانی
ذاتی کوائف | |
---|---|
مکمل نام | زین الدین بن نور الدین علی بن احمد عاملی جُبَعی |
لقب | شہید ثانی |
مقام پیدائش | جُبَع (جبل عامل، لبنان) |
نسب/قبیلہ | خاندان سلسلۃ الذہب |
مشہور اقارب | جمال الدین حسن (صاحب معالم) (فرزند)، سید محمد علی عاملی (صاحب مدارک) (نواسے)، سید حسن صدر، سید موسی صدر، سید محمد باقر صدر |
وفات/شہادت | 955 ھ یا 965 ھ |
دینی خدمات | |
وجۂ شہرت | فقیہ، محدث |
تالیفات | روضۃ البہیہ(شرح اللمعۃ الدمشقیہ)، روض الجنان فی شرح ارشاد الاذہان، ... |
زین الدین بن نور الدین علی بن احمد عاملی جُبَعی (911-955 یا 965 ھ) شہید ثانی کے نام سے مشہور دسویں صدی ہجری کے شیعہ علماء و فقہاء میں سے ہیں۔ وہ علامہ حلی کی نسل سے ہیں۔ انہوں نے شیعہ و اہل سنت علماء سے کسب فیض کیا اور دونوں گروہ کے علماء سے سند حاصل کی۔ شہید ثانی پانچوں اسلامی مذاہب کی تدریس کرتے تھے اور ان سب کے مبانی کے اعتبار سے فتوی دیتے تھے۔
کتاب شرح لمعہ ان کی مشہور ترین فقہی کاوش ہے۔ یہ کتاب شیعہ حوزات علمیہ کے نصاب میں شامل ہے۔ انہوں نے سنہ 955 یا 965 ھ میں جام شہادت نوش کیا۔ انھوں نے بہت سے علمی سفر کئے، بہت سے اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔
ولادت اور خاندان
شہید ثانی 13 شوال سنہ 911 ہجری کو لبنان کے شیعہ علاقے جبل عامل کے نواحی گاؤں جُبَع میں پیدا ہوئے۔[1] وہ ابن حاجہ نحاریری اور شہید ثانی کے لقب سے مشہور ہیں۔[2]
شہید ثانی کے خاندان کے تمام افراد شیعہ علماء کے زمرے میں شمار ہوتے تھے حتی کہ ان کا خاندان "سلسلۃ الذہب" کے عنوان سے مشہور ہوا:
- شیخ نور الدین علی، شہید ثانی کے والد، جو اپنے زمانے کے فضلا اور علماء میں سے تھے۔
- ابو منصور جمال الدین حسن المعروف بہ صاحب معالم، شہید ثانی کے فرزند۔
- سید محمد علی عاملی المعروف بہ صاحب مدارک، جو شہید ثانی کے نواسے تھے۔
- شیخ علی اور شیخ زین الدین، جو صاحب معالم کے فرزند اور شہید ثانی کے پوتے تھے۔[3]
خاندان صدر، منجملہ سید حسن صدر صاحب کتاب تأسیس الشیعہ، امام موسی صدر، شہید سید محمد باقر صدر اور ان کی شہیدہ بہن بنت الہدی صدر بھی شہید ثانی کی نسل سے ہیں۔[4]
شہید ثانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی زوجہ ان کے استاد محقق کرکی کی بیٹی تھیں۔[5]
تعلیمی مراحل
شہید ثانی کی خود نوشت سوانح عمری کے مطابق ان کی تعلیم کا آغاز کس عمر میں ہوا انہیں نہیں معلوم۔ البتہ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ 9 سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کیا اور اس کے بعد وہ اپنے والد کے پاس ادبیات عرب و فقہ کی تعلیم میں مصروف ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد سے کتاب مختصر الشرایع اور شہید اول کی کتاب اللمعۃ الدمشقیۃ پڑھی۔[6]
سفر میس، کَرَک و جُبَع
وہ سنہ 925 ہجری میں والد کی وفات کے بعد تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے جبل عامل کے گاؤں "میس" گئے اور محقق کرکی سے جو شہید کے خالو بھی تھے، آٹھ سال تک استفادہ کیا۔ انہوں نے محقق کرکی سے محقق حلی کی کتاب شرائع الاسلام، علامہ حلی کی کتابیں ارشاد الاذہان اور قواعد الاحکام پڑھیں۔[7]
میس کے بعد شہید نے کرک نوح کا رخ کیا اور وہاں کتاب المحجۃ البیضاء کے مولف سید جعفر کرکی کے پاس کتاب قواعد ابن میثم بحرانی، اصول فقہ میں کتاب تہذیب، سید جعفر کی کتاب العمدة الجلیلة فی الاصول الفقهیة و کتاب الکافیة فی النحو و فقہ اور بعض دیگر علوم کی کتابیں پڑھیں۔[8] شہید نے تقریبا سترہ ماہ تک وہاں قیام کرنے کے بعد جمادی الثانی سنہ 934 ھ میں جبع کا سفر کیا اور سنہ 937 ھ تک وہاں کسب علم میں مشغول رہے۔[9]
دمشق
شہید نے جبع کے بعد دمشق کا قصد کیا اور وہاں شیخ محمد مکی (متوفی 938 ھ) سے علم طب، ہیئت اور فلسفہ اشراق (سہرودی) جیسے موضوعات کی کتابیں پڑھیں، شیخ احمد جابر الشاطبیہ سے علم قرائت و نافع، ابن کثیر، ابی عمرو و عاصم کی قرائت کے موضوعات کی کتابیں پڑھیں۔[10] سنہ 938 ھ میں وہ جبع واپس آ گئے، اسی سال میں ان کے دونوں استاد شمس الدین و شیخ علی کی وفات ذکر ہوئی ہے۔ آپ نے سنہ 941 ھ کے آخر تک جبع میں قیام کیا اور سنہ 942 ھ کے شروع میں دمشق واپس ہوئے۔ اس سفر میں شہید نے شمس الدین طولون دمشقی حنفی کے پاس صحیح مسلم و صحیح بخاری کے کچھ حصے پڑھے اور ان دونوں کتابوں سے نقل روایات کا اجازہ حاصل کیا اور اسی سال ربیع الاول میں شیخ شمس الدین کی تمام روایات کا اجازہ بھی حاصل کیا۔[11]
مصر و حجاز
انھوں نے سنہ 942 ھ میں مصر کی طرف عزیمت کی اور عربی علوم، اصول فقہ، معانی، بیان، عروض، منطق، تفسیر قرآن اور دیگر علوم کے حصول کے لئے وہاں کے 16 علماء سے استفادہ کیا۔ شہید نے شوال 943 ہجری میں مصر میں اٹھارہ ماہ قیام کے بعد حجاز کا سفر کیا اور حج و عمرہ تمتع انجام دیا اور 14 صفر 944 ھ میں اپنے وطن جبع واپس آ گئے۔[12]
اجتہاد
شہید نے 33 برس کی عمر میں سنہ 944 ھ میں اجازہ اجتہاد حاصل کیا اور ان کا اجتہاد سنہ 948 ھ میں سب کے لئے آشکار ہوگیا۔[13]
زیارت و بیت المقدس
17 ربیع الثانی سنہ 946 ھ میں شہید عتبات عالیات کی زیارت کے لئے عراق گئے اور اسی سال 15 شعبان میں اپنے وطن واپس آئے۔[14] سنہ 948 ھ میں انہوں نے بیت المقدس کا سفر اختیار کیا اور شیخ شمس الدین بن ابی اللطیف مقدّسی سے صحیح مسلم و صحیح بخاری کے کچھ حصے پڑھے اور ان سے روایت عام کا اجازت نامہ حاصل کیا اور اپنے وطن پلٹ کر آئے۔ سنہ 951 ھ کے اواخر تک وہ وطن میں ہی عملی کاموں میں مشغول رہے۔[15]
قسطنطنیہ
اس کے بعد شہید ثانی نے روم شرقی کے سفر کا ارادہ کیا اور 12 ذی الحجہ 951 ھ کو اس کے لئے روانہ ہوئے۔ ذی الحجہ کا مہینہ انہوں نے دمشق میں گزارا اور 16 محرم سنہ 952 ھ میں وہ حلب پہچے اور 7 صفر تک وہیں قیام کیا۔ 12 صفر 952 ھ طوقات میں وارد ہوئے، اس کے بعد اماسیہ اور وہاں سے 17 ربیع الاول سنہ 949 ہجری میں قسطنطنیہ پہنچے۔ انہوں نے ساڑھے تین مہینہ وہاں قیام کیا۔[16]
شہید نے اس سفر میں اپنا رسالہ جو دس علوم پر مشتمل تھا، قاضی عسکر محمد بن محمد بن قاضی زادہ رومی کے پاس بھجوایا اور ان سے ملاقات اور علمی مباحثہ کرنے کے بعد، قاضی رومی نے انہیں تجویز دی کہ اپنی پسند کے کسی بھی مدرسے میں تدریس کریں۔ شہید ثانی نے استخارہ کرنے کے بعد بعلبک کے مدرسہ نوریہ کو تدریس کے لئے منتخب کیا اور مذکورہ قاضی کی طرف سے اس مدرسے کا انتظام انہیں سونپ دیا گیا۔[17]
مرجعیت علمی
شہید ثانی نے شعبان 952 ھ میں عراق کا سفر کیا اور 4 شوال کو سامرا پہچے۔ 8 شوال کو کاظمین میں وارد ہوئے۔ 15 شوال کو کربلا پہچے۔ پھر وہاں حلہ، کوفہ اور نجف گئے۔[18]
ائمہ معصومین (ع) کی زیارتوں کے بعد 15 صفر سنہ 953 ھ کو لبنان واپس ہوئے اور بعلبک میں سکونت کے بعد، اپنی علمی شہرت کے سائے میں، علمی مرجعیت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے اس شہر میں جامع تدریس کا آغاز کیا؛ وہ علمی لحاظ سے پنجگانہ مذاہب جعفری، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی سے پوری طرح آگاہ تھے اور ان پر عبور کامل رکھتے تھے چنانچہ وہ پانچوں مذاہب کے مطابق شاگردوں کی تربیت کرتے تھے اور وہ درحقیقت فقہ مقارن اور تقابلی عقائد کی تدریس کرتے تھے۔ عام لوگ بھی اپنے مذاہب کے مطابق اپنے استفتائات کا جواب ان سے وصول کرتے تھے۔[19] اس کے بعد وہ اپنے وطن جبع واپس آ گئے اور سنہ 955 ھ تک وہیں تدریس و نگارش میں مشغول رہے۔[20]
اساتذہ
شیعہ
- ان کے والد علی بن احمد عاملی جبعی متوفی 925 ھ
- محقق کرکی متوفی 938 ھ
- شیخ محمد بن مکی (حکیم و فیلسوف دمشق)
- سید حسن بن جعفر کرکی (کرک نوح)
- شمس الدین محمد بن مکی دمشقی
- شیخ احمد بن جابر
- شیخ جمال الدین احمد بن شیخ شمس الدین محمد بن خاتون عاملی
اہل سنت
- شمس الدین بن طولون دمشقی حنفی (دمشق)
- شیخ محیی الدین عبد القادر بن ابی الخیر غزی
- شیخ شمس الدین بن ابی اللطف مقدسی (بیت المقدس)
- شیخ شهاب الدین احمد رملی
- ملا حسین جرجانی
- ملا محمد استر آبادی
- ملا محمد علی جیلانی (سید محسن امین لکھتے ہیں: ممکن ہے یہ تینوں (جرجانی، استر آبادی، جیلانی)، شیعہ رہے ہوں۔)
- شهاب الدین بن نجار حنبلی
- شیخ ابو الحسن بکری
- زین الدین جرمی مالکی
- شیخ ناصر الدین ملقانی مالکی
- شیخ ناصر الدین طبلاوی شافعی
- شیخ شمس الدین محمد نحاس
- شیخ عبد الحمید سمنهودی
- شیخ شمس الدین محمد بن عبد القادر فرضی شافعی
- شیخ عمیره
- شیخ شهاب الدین بن عبدالحق
- شیخ شهاب الدین بلقینی
- شیخ شمس الدین دیروطی[21]
شاگرد
- شہید کے داماد، نور الدین علی بن حسین موسوی عاملی؛
- سید علی حسینی جزینی عاملی، المعروف بہ صائغ؛
- شیخ بہائی کے والد حسین بن عبد الصمد عاملی؛
- علی بن زہرہ جبعی؛
- سید نور الدین کرکی عاملی؛
- بہاء الدین محمد بن علی عودی جزینی، المعروف بہ ابن العودی؛
- شیخ محی الدین بن احمد میسی عاملی؛
- سید عز الدین حسین بن ابی الحسن عاملی؛
- شیخ تاج الدین بن ہلال جزائری۔[22]
تألیفات
شہید ثانی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تالیف کی ہیں۔ سید محسن امین عاملی نے شہید کی 79 تالیفات (کتاب، حاشیے و رسالے) کا تذکرہ کیا ہے۔[23] ان کی تمام کتابوں اور رسالوں کو 29 جلدی مجموعہ موسوعۃ الشہید الثانی میں جمع کیا گیا ہے۔[24] ان کی بعض کتابوں کے اسماء یہ ہیں:
- روض الجنان فی شرح ارشاد الاذہان
- مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام
- الفوائد العملیہ فی شرح النفلیہ
- المقاصد العلیہ فی شرح الألفیہ
- مناسک الحج الکبیر و مناسک الحج الصغیر
- الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ
- رسالۃ فی شرح بسملہ
- حقائق الایمان
- منظومۃ فی النحو اور اس کی شرح
- تمہید القواعد الأصولیہ لتفریع الاحکام الشرعیہ
- غنیۃ القاصدین فی اصطلاحات المحدثین
- رسالۃ فی الأدعیہ
- رسالۃ فی آداب الجمعہ
- البدایۃ فی علم الدرایہ اور اس کی شرح، شہید اولین شیعہ عالم ہیں جنہوں نے درایۃ الحدیث میں اہم کتاب تالیف کی ہے۔[25]
- کتاب فی الأحادیث، یہ کتاب 1000 احادیث پر مشتمل ہے جن کو حسن بن محبوب کی کتاب "مشیخہ" سے منتخب کیا گیا ہے۔[26]
- منیۃ المرید فی ادب المفید و المستفید، یہ کتاب تعلیم و تعلم کے آداب پر مشتمل ہے جو تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔
- مسکّن الفؤاد عند فقد الاحبۃ و الاولاد، یہ کتاب انھوں نے کئی فرزندوں کی وفات کے بعد اپنی اور دوسروں کی تسکین کے لئے تالیف کی ہے۔
- کشف الریبۃ عن احکام الغیبۃ[27]
اشعار
شہید ثانی کے زیادہ اشعار دسترس میں نہیں ہیں۔ یہاں پر ان کے بعض وہ اشعار ذکر کئے جا رہے ہیں جو انہوں نے رسول خدا (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت نظم کئے تھے:
|
شہادت اور شہادت کی کیفیت
آپ کی شہادت کے بارے میں دو روایات نقل ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شہید ثانی نے دو افراد کے درمیان تنازعے میں ایک فریق کے خلاف فیصلہ سنایا تو جس کے ضرر میں فیصلہ ہوا تھا وہ شخص صیدا کے قاضی کے پاس جاتا ہے اور یہ قاضی روم کے سلطان (سلطان سلیمان) سے مطالبہ کرتا ہے کہ شہید کو بدعت ایجاد کرنے اور اہل سنت کے چاروں مذاہب سے خارج ہونے کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔[28] اس روایت کو بعض نے رد کیا ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ بعض اہل سنت سلطان سلیمان کے وزیر اعظم رستم پاشا کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ شیخ زین الدین (شہید ثانی) اجتہاد کا دعویدار ہے اور بہت سارے شیعہ علما آپ کے پاس جاتے ہیں اور امامیہ کتابیں ان کے پاس پڑھتے ہیں اور ان کے اس کام کا مقصد شیعہ مذہب کی ترویج اور تبلیغ ہے۔ اسی لیے رستم پاشا بعض لوگوں کو آپ کی گرفتاری پر مامور کرتا ہے جبکہ اس وقت شہید مکہ میں تھے۔ یوں آپ کو مکہ میں گرفتار کرکے استنبول لے گئے اور سرکاری گماشتوں نے انہیں سلطان کے پاس لے جانے کے بجائے خودسرانہ طور پر ان کا سر تن سے جدا کیا اور آپ کا جسم تین دن تک دفن کئے بغیر رکھا اور بعد از اں سمندر میں پھینک دیا۔ آپ کی تاریخ شہادت 5 ربیع الاول سنہ 965 ھ ذکر کی گئی ہے۔[29]
شہادت کا خواب
شیخ بہائی کے والد شیخ حسین بن عبد الصمد حارثی کہتے ہیں: ایک دن میں شہید ثانی کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنے آپ میں گم پایا۔ جب اس کی وجہ پوچھی تو کہا: برادرا! میرا خیال ہے کہ میں شہید ثانی بنوگا، کیونکہ خواب میں سید مرتضی علم الہدی کو دیکھا انہوں نے ایک مجلس کا اہتمام کیا تھا جس میں شیعہ علما اور دانشور شریک تھے۔ جب میں مجلس میں پہنچا تو سید مرتضی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور مجھے تبریک پیش کی اور حکم دیا کہ میں شہید اول کے ساتھ بیٹھ جاوں۔[30]
حوالہ جات
- ↑ امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص143. الاعلام، ج3، ص64۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۳؛ چنان کہ در اعیان الشیعہ آمده است برخی ابن حاجہ را عنوانی معروف برای پدرش دانستہ اند.
- ↑ اعیان الشیعہ، ج7، ص144۔
- ↑ مفاخر اسلام، ج4، ص484۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۷.
- ↑ شکوری، «زندگی نامہ خود نوشت شهید ثانی»، ص ۱۱۴و۱۱۵
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۷.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۷.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۷.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۷-۱۴۸.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۸.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۹.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۴۹.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۰.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۰.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۰-۱۵۱.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۱.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۲.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۳.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۳.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۳، ۱۵۴.
- ↑ امین العاملی وہی ماخذ، ج7، ص154۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۴-۱۵۶.
- ↑ موسوعة الشهید الثانی، سایت مرکز احیای آثار اسلامی.
- ↑ امین العاملی، وہی ماخذ، ج7، ص145۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص87۔
- ↑ حرم عاملی، امل الآمل، ج1، ص87. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج1، ص193، ج2، ص296، ج3،ص 58، ج4، ص433 و 452، ج5، ص278، ج11، ص126 و 275، ج20، ص378۔
- ↑ الحر العاملی، امل الآمل، مکتبة الاندلس، ج۱، ص۹۰و۹۱.
- ↑ امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص143
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۷.
مآخذ
- تهرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ ھ
- امین، سید محسن، اعیان الشیعة، بیروت، دار التعارف، ۱۴۰۶ھ-۱۹۸۶ء
- زرکلی، خیر الدین بن محمود، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ پانزدهم، ۲۰۰۲ء
- شکوری، ابو الفضل، زندگی نامہ خود نوشت شهید ثانی، یاد، پاییز ۱۳۶۵، ش۴، ص ۱۰۷ تا ۱۴۴
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة، قم، کتاب فروشی داوری، ۱۴۱۰ھ
- شهید ثانی، زین الدین بن علی، منیة المرید، تحقیق رضا مختاری، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، ۱۴۰۹ھ
- تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، ۱۴۱۸ھ
- الحر العاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بغداد، مکتبة الاندلس، بی تا.
- دوانی، علی، مفاخر اسلام، تهران، امیر کبیر، چاپ اول، ۱۳۶۴ش.