رضاع

ویکی شیعہ سے

رِضاع، دودھ پلانے کے معنى ميں ہے اور فقہ کے مختلف ابواب ميں اس پر بحث ہوتى ہے۔ دودھ پلانا مَحْرمیت کا سبب بنتا ہے اور جو اس طرح سے محرم ہوتے ہيں انہيں رضاعی محرم کہتے ہيں۔ دودھ پلانے کے لئے حدیث، فقہ اور حقوق کے منابع ميں مخصوص آداب، احکام اور قوانين بيان ہوئے ہيں۔

مفہوم

رضاع پستان سے دودھ پينے کو کہا جاتا ہے۔[1] اور فقہى اصطلاح ميں بچے کو دودھ پلانے کو رضاع کہا جاتا ہے اور رضاع محرم بننے کے اسباب ميں سے ايک ہے۔[2] دودھ پلانے سے جو محرم بنتا ہے اسے رضاعى محرم کہا جاتا ہے۔

منابع ميں رضاع کا مقام

رضاع اور اس کے بعض مسائل آیت رضاع ميں بيان ہوئے ہيں۔[3] قرآن ميں رضاعى محرموں سے شادى کو حرام قرار ديتے ہوئے بعض کو بيان کيا گیا ہے۔[4] احادیث کى کتابوں ميں بھى رضاع کے باب ميں بعض روايات نقل ہوئى ہيں۔[5] فقہاء نے رضاع کے بارے ميں طہارت،[6] روزہ،[7] تجارت،[8] نکاح،[9] شہادات،[10] حدود اور دیات[11] کے ابواب ميں بحث کی ہے۔ اور ايرانى مدنى قانون کے آرٹيکل 1024 و 1176 بھى رضاع سے مختص ہيں۔[12]

رضاعی محرم

رضاعی محرميت ايک قسم کى رشتہ دارى ہے جو خاص شرائط کے مطابق دودھ پلانے سے دو آدمى کے درميان ايجاد ہوتى ہے اور اس کى وجہ سے ان سے شادى حرام ہوتى ہے۔[13] فقہى اصطلاح ميں کسى اور عورت کا دودھ پينے والے بچے کو مرتضع، اور دودھ پلانے والى عورت کو مرضعہ اور دودھ پلانے والى عورت جس مرد سے حاملہ ہوئى ہے اسے فحل یا صاحب لبن (دودھ کا صاحب) کہا جاتا ہے۔[14]

دودھ پلانے کے احکام

صاحب جواہر کے بقول، ماں کا بچے کو دودھ پلانا اکثر شيعہ فقہاء کے مطابق واجب نہيں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اپنے بچے کو دودھ پلانے ميں ماں دوسرى عورتوں سے زيادہ مستحق ہے [15] اور اس کے بدلے ميں بچے کے باپ سے اجرت بھى لے سکتى ہے۔[16] البتہ صاحب جواہر کى طرح بعض فقہاء کے مطابق بچے کو ابتدائى دودھ (لبا Colostrum) پلانا ماں پر واجب ہے۔[17]

دودھ پلانے والى عورت کى نسبت بعض مخصوص شرعى احکام ميں کچھ خاص حالت ايجاد ہوتى ہے اور ان کا اجراء کرنا کسى دوسرے وقت پر موکول کيا جاتا ہے؛ مثلا دودھ پلانے والى عورت پر حد اور قصاص جارى کرنے کيلئے اگر بچے کو دودھ پلانے کے لئے کوئى اور دايہ نہ ملے تو دودھ پلانے کا عرصہ ختم ہونے تک تاخير کيا جائے گا۔[18] اسى طرح روزہ رکھنا اگر بچہ يا ماں ميں سے کسى کے لئے ضرر پہنچانے کا باعث بنتا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہيں ہے۔[19] [یادداشت 1] صاحب جواہر کے مطابق، اکثر شيعہ فقہاء کا نظريہ يہ ہے کہ کوئى چيز بچے کے پيشاب سے نجس ہو جائے تو اسے ايک بار دھونے سے پاک ہوتى ہے۔[20]

دودھ پلانے کى مدت

قرآنى آيات کے مطابق دودھ پلانے کى مدت قمرى دو سال ہے۔[21] ليکن اس مدت سے چند مہينے کم يا زيادہ کو بھى فقہاء نے جائز سمجھا ہے۔[22] امام صادق (ع) کى ايک روايت کے مطابق اگر دودھ پلانے کى مدت 21 مہينوں سے کم ہو تو يہ بچے پر ظلم شمار ہوگا۔[23]

دودھ پلانے کے آداب

احاديث ميں دودھ پلانے کے بعض آداب بيان ہوئے ہيں ان ميں سے بعض روايات ميں ماں کے دودھ کو باقى دودھ پر فوقيت ديتے ہوئے [24] اسے بچے کے لئے سب سے زيادہ مفيد اور موزوں قرار ديا گيا ہے۔[25] امام صادق سے منقول ہے کہ دونوں پستانوں سے دودھ پلايا جائے کيونکہ ايک ميں غذا اور دوسرے ميں پانى ہے۔[26]

اسى طرح احاديث ميں بچے کى تربيت ميں دودھ کے کردار کى طرف بھى اشارہ ہوا ہے اسى لئے دايہ کے انتخاب کے بارے ميں معصومین کى طرف سے تاکيد ہوئى ہے اور بے وقوف، آنکھوں سے معيوب، [27] اور اسى طرح جس عورت کا دودھ غير شرعى طريقے سے نکلا ہے[28] ان کو دايہ کے طور پر انتخاب کرنے سے منع کيا ہے۔ دايہ کے بارے ميں امام علی (ع) سے منقول ايک روایت ميں آيا ہے کہ ايسى دايہ کو اپنے بچے کے لئے انتخاب کريں جو صورت ميں سيرت ميں اچھى ہو کيونکہ بچہ صورت اور سيرت ميں دايہ کى طرح ہوتا ہے۔[حوالہ درکار] بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ جمال اور کمال والى عورتيں بچے کو دودھ پلانے ميں دوسرى عورتوں پر فوقيت رکھتى ہيں۔[29]

اور بعض نے تاکيد کى ہے کہ ماں بچوں کو ہميشہ با وضو دودھ پلائے۔[حوالہ درکار]


حقوقی قوانين

ايران کے قانون مدنی کے آرٹيکل 1176 کے مطابق بچے کو دودھ پلانے ميں ماں مجبور نہيں ہے مگر يہ کہ ماں کے علاوہ کوئى اور عورت دودھ پلانے کے لئے موجود نہ ہو۔[30] اسى طرح حقوقى نقطہ نظر سے دودھ پلانا ماں کا حق ہے اور باپ يا کوئى اور شخص اسے دودھ پلانے سے منع نہيں کر سکتا ہے۔[31] ايران کے مدنى قانون ميں رضاعى محرم بننے کے لئے کچھ شرائط بيان ہوئے ہيں۔[32]

نوٹ

  1. اگر ان دونوں ميں سے کسى ايک کے لئے مضر ہو تو روزہ اس خاتون پر واجب نہيں ہے؛ ليکن بعد ميں قضا رکھے گى اور فقہاء کے مشہور نظريے کے مطابق اگر روزہ رکھنا بچے کے لئے مضر ہو تو قضا کے علاوہ ہر دن کے بدلے ايک مد طعام بھى دينا ہوگا ليکن اگر ماں کے لئے مضر ہو تو بنابر مشہور صرف قضا واجب ہے۔

حوالہ جات

  1. فراہیدی، العین، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۱۷، ذیل واژہ رضع
  2. مراجعہ کريں۔ محقق حلی، شرائع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۲۶۔
  3. سورہ بقرہ، آیہ۲۳۳۔
  4. سورہ نساء، آیہ ۲۳۔
  5. مراجعہ کريں۔ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۰-۴۱؛ شیخ صدوق، من لا یحضر الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۳۷۵-۳۸۰؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۳۲۱۔
  6. مراجعہ کريں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۱۶۷۔
  7. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۸۵؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۵۶-۵۷۔
  8. مراجعہ کريں۔ ابن براج، المہذب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۴۸۱۔
  9. مراجعہ کريں۔ شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۰۵؛ ابن براج، المہذب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۴۸۱۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۹، ص۳۴۴۔
  11. مراجعہ کريں۔ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۳، ص۳۱۳۔
  12. منصور، قانون مدنی، ۱۳۸۹ش، ص۱۸۶-۱۸۷، مادہ ۱۰۴۶، ص۲۰۷، مادہ ۱۱۷۶۔
  13. مراجعہ کريں: محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۲۶-۲۲۸؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۹، ص۲۶۴-۳۰۹۔
  14. مراجعہ کريں۔ شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۳۔
  15. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۸۰۔
  16. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۷۲۔
  17. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۷۳۔
  18. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۳۳۷۔
  19. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۸۵؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۵۶-۵۷۔
  20. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۱۶۷۔
  21. سورہ بقرہ، آیہ۲۳۳۔
  22. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۷۷۔
  23. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۰۔
  24. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۰۔
  25. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۳۴۔
  26. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۰۔
  27. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۳۴۔
  28. شیخ صدوق، من لا یحضر الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۴۷۹۔
  29. سیستانی، توضیح المسائل، مسالہ ۲۵۰۶۔
  30. منصور، قانون مدنی، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۷، مادہ ۱۱۷۶۔
  31. کاتوزیان، حقوق مدنی خانوادہ، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۳۸۱
  32. منصور، قانون مدنی، ۱۳۸۹ش، ص۱۸۶-۱۸۷، مادہ ۱۰۴۶۔

مآخذ

  • ابن براج، عبد العزیز، المہذب، تصحیح: جمعی از محققان تحت اشراف آیت اللہ سبحانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۶ق۔
  • سید یزدی، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، تعلیقہ: امام خمینی و دیگران، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌ طالب علیہ السلام، ۱۴۲۸ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، تصحیح: مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، ۱۳۷۸ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضر الفقیہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تصحیح: علی خراسانی و دیگران، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح: سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لاحیاء الآثار الجعفریۃ، ۱۳۸۷ق۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، نشر ہجرت، ۱۴۰۹ق۔
  • کاتوزیان، ناصر، حقوق مدنی خانوادہ، تہران، مؤسسہ نشر یلدا، ۱۳۷۵ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسین، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تصحیح: عبد الحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، ۱۳۸۹ش۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق۔