فقہ امامیہ

ویکی شیعہ سے
(شیعہ فقہ سے رجوع مکرر)

فقہ امامیہ اسلامی اصطلاح میں اس علم کو کہا جاتا ہے جس میں شریعت کے عملی احکام سے بحث کی جاتی ہے۔ فقہی احکام کو ادلہ اربعہ یعنی قرآن ، سنت، اجماع اور عقل کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں مکاتب فکر میں صدر اسلام سے اب تک علم فقہ کئی ادوار سے گزری ہے۔ ان دونوں مذاہب کے درمیان مشترکہ دور کو دورہ تشریع کہا جاتا ہے جو پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ کا دور ہے۔

تعریف

فقہ

فقہ کے معنی فہم، علم اور عقلمندی کے ہیں۔[1] اصطلاح میں بھی فقہ سے مراد اسلامی منابع سے ادلہ اربعہ کے ذریعے کسی چیز سے متعلق حکم شرعی یا مکلف کی عملی ذمہ داری کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے ہے۔[2]

حکم شرعی

حکم، فقہ کی اصطلاح میں، اس شرعی خطاب یا فرمان کو کہا جاتا ہے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ مکلف کے افعال سے وابستہ ہے۔[3] شرعی احکام کی مختلف درجہ بندی اور اقسام ہیں جن میں "حکم وضعی" اور "حکم تکلیفی" اس کی مشہور قسمیں ہیں۔ "احکام اولی" ، "احکام ثانوی" ،"احکام حکومتی" اور "احکام ولا‎ئی" اس کی دیگر قسمیں ہیں۔

فقہی مصادر اور ادلہ احکام

جن مآخذوں کے ذریعے سے شرعی احکام تک پہنچا جاسکتا ہے ان کو فقہی مآخذ اور احکام کے ادلہ کہا جاتا ہے اور یہ ادلہ شیعوں کے ہاں چار یعنی قرآن، سنت، عقل اور اجماع ہیں ۔ لیکن اخباری صرف اور صرف کتاب اور سنت کو حجت اور معتبر جانتے ہیں جبکہ اجماع اور عقل کو نہیں مانتے۔[4]

کتاب

فقہ اور اصول کی اصطلاح میں کتاب سے مراد، قرآن کریم ہے جو احکام کی تشریع اور فقہی منابع کا پہلا اور سب سے اہم منبع ہے۔ قرآن آسمانی قوانین کا مجموعہ اور احادیث کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار تھا اور رہے گا۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم پر نازل ہونے کے دور سے اب تک اور ہمیشہ کے لئے "قرآن" احکام کا پہلا سرچشمہ اور مآخذ کے عنوان سے اسلامی فقہاء اور مجتہدوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا۔ اجتہاد اور فقاہت کی تاریخ خود اس مدعا پر گوہی دیتی ہے۔ [5] فقہ میں قرآن کا اہم کردار آیات الاحکام سے مربوط ہے۔ مشہور ہے کہ 500 آیتیں قرآن کریم میں فقہی مباحث سے متعلق ہیں جنہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔[6]

البتہ شرعی احکام کو قرآن مجید سے حاصل کرنے کے لئے زبان و ادب سے متعلق علوم (جیسے عربی زبان، علم نحو، علم معانی اور بیان)، قرآنیات (جیسے ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہاسباب نزول، مبادی فقہ اور اصول فقہ جیسے علوم پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔

سنت

فقہاء کی اصطلاح میں سنت، معصوم کے قول، فعل اور تقریر کو کہا جاتا ہے۔ تقریر سے مراد یہ ہے کہ کو‎ئی شخص معصوم کے سامنے کو‎ئی کام انجام دے اور معصوم اس کام سے نہ روکے؛ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ معصوم کو منع کرنے کا امکان ہو۔ مثلا تقیہ کی حالت میں نہ ہو.[7]

اہل سنت کے ہاں سنت صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول، فعل اور تقریر پر منحصر ہے لیکن شیعوں کے عقیدے کے مطابق چونکہ بارہ امام اللہ تعالی کی طرف سے منصوب اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان اطہر سے آپ(ص) کا جانشین معرفی ہو‎ئے ہیں اس لئے انکا قول، فعل اور تقریر بھی سنت اور شرعی احکام استنباط کرنے کے معتبر منبع کے طور پر جانے جاتے ہیں۔[8]

عقل

علم اصول مطرح مشہور نظر‎ئے کے مطابق شرعی احکام استنباط کرنے کے منابع میں سے ایک عقل ہے۔ لیکن اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ شرعی احکام کے استنباط میں عقل کا کیا مقام ہے اور اس میں عقل کے لئے کتنی گنجا‎ئش ہے؟ امامیہ فقہاء نے اجتہاد میں عقل سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض موارد علم اصول میں لکھے گئے ہیں، لیکن اب بھی عقل کے لئے اس سے کہیں زیادہ استعمالات ہیں جو منظم طریقے سے تدوین نہیں ہو‎ئی ہیں۔

عقل کے استعمالات

استنباط کے عمل میں عقل کے درج ذیل استعمالات ہیں:

  • عقل، کتاب اور سنت کی طرح احکام شرعی کا منبع: اس اعتبار سے بعض شرعی احکام عقل عملی اور حسن و قبح افعال کے حکم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض دوسرے احکام ایک شرعی حکم کا دوسرے حکم سے ملازمہ کو ثابت کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے؛ نماز کے وجوب سے وضو کے واجب ہونے کو مقدمہ اور ذی المقدمہ کے درمیان پائے جانے والے ملازمہ سے ثابت کرنا۔
  • عقل، بعنوان معیار صحت و سقم متون دینی: اس استعمال میں کسی روایت کو قبول کرنے اور اس کے معنی پر عمل کرنے کے راستوں میں سے ایک یہ ہے کہ عقل کے واضح حکم کے ساتھ مخالف نہ ہو۔ مثلا چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عصمت عقل کی واضح حکم سے ثابت ہو‎ئی ہے اس لئے جو روایات پیغمبر کی عصمت کو نفی کرتی ہیں، ایسی روایات باطل ہیں۔
  • کتاب اور سنت سے احکام شرعی استنباط کرنے میں عقل کا کردار: اس صورت میں مجتہد عقل کی مدد سے کچھ قوانین کو کشف کرتا ہے جنکی مدد سے کتاب اور سنت سے شرعی احکام استنباط کرتا ہے۔
  • احکام شرعی کی علت و مناط تک رسائی،[9]

اجماع

اجماع احکام شرعی کو استنباط کرنے والے ادلہ میں شمار ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں حجت اور امارات کی بحث میں مختلف جہات سے اس پر بحث ہو‎ئی ہے۔

اہل سنت اس کو مستقل طور پر معتبر جانتے ہو‎ئے استنباط کی چاروں یا تینوں ادلہ میں سے ایک قرار دیتے ہیں اور اسی اہمیت کی وجہ سے ان کو اہل سنت و الجماعت کہا جاتا ہے۔[10]

لیکن اہل تشیع کے فقہاء اجماع کو قرآن اور سنت کے مقابلے میں ایک دلیل نہیں سمجھتے ہیں بلکہ وہ قا‎ئل ہیں کہ اجماع صرف اس صورت میں دلیل اور حجت بن سکتا ہے جب معلوم جائے کہ حتما امام معصوم کی رای اور نظر بھی یہی ہے جس پر اجماع قائم ہوئی ہے۔[11]

روش استنباط احکام شرعی
فقہی منابع
کی طرف مراجعہ کے بعد
فقیہ
کی اطمینان کا درجہ
علم حاصل ہو جاتا ہے← علم پر عمل کرے گا
ظن معتبر حاصل ہو جاتا ہے*← ظن پر عمل کرے گا
شک یا ظن غیر معتبر**اصول عملیہ اصل تکلیف ہی مشکوک ہے← برائت
اصل تکلیف یقینی ہے ← یقین، شک پر مقدم ہے← استصحاب
شک سے پہلے کوئی یقین نہیں ← احتیاط ممکن ہے← احتیاط
احتیاط ممکن نہیں← تخییر
* ظن معتبر جیسے موضوعات میں امارہ شرعی اور حدیث صحیح. ** ظن غیر معتبر جیسے حدیث مرسل


ابواب فقہ

فقہی کتابوں میں فقہی مسا‎ئل کئی حصوں میں تقسیم ہو‎ئی ہیں اور ان میں سے ہر ایک فقہ کے ایک باب سے مشہور ہے۔ فقہی مسا‎ئل کی کئی تقسیمات بیان ہو‎ئی ہیں لیکن ان میں سے کو‎ئی ایک بھی منطقی معیار کے مطابق نہیں بلکہ اکثر فردی سلیقے کے مطابق ہیں شرایع الاسلام میں محقق حلی کی تقسیم بندی، طہارت سے لیکر دیات تک کو شامل کرتی ہے جو 52 باب بنتے ہیں۔ محقق حلی کے بعد یہ تقسیم بندی فقہا‌‎ء کے لئے قابل قبول واقع ہو‎ئی اور یہاں تک کہ توضیح المسا‎ئل بھی اسی کے مطابق طہارت سے شروع ہو کر حدود اور دیات پر ختم ہوتی ہیں۔

ایک کلی تقسیم بندی کے تحت ان 52 باب کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  1. عبادات، ان اعمال سے مربوط ہے جو اخروی منفعت کے حصول اور اخروی ضرر کو دور کرنے کی قصد سے انجام دئے جاتے ہیں۔ ایسی احکام فقہ کے دس باب میں ذکر ہو‎ئی ہیں، جیسے: طہارۃ، صلاۃ، زکاۃ، خمس، صوم، اعتکاف، حج، عمرہ، جہاد اور امر بہ معروف و نہی از منکر؛
  2. عقود؛ ایسے قرار داد جن کو وجود میں آنے کیلئے طرفین کا ہونا ضروری ہے ایسے احکام 19 باب کو شامل کرتی ہیں جیسے : کتاب التجارۃ، کتاب الرہن، کتاب الحجر، کتاب الضمان؛
  3. ایقاعات، ایسے قرارداد جن میں ایک طرف ہوتا ہے اور وجود میں آنے کے لئے ایک طرف کا ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف کا ہونا لازمی نہیں ایسے احکام 11 باب کو شامل کرتی ہیں۔ جیسے، طلاق، جعالہ، نذر؛
  4. احکام، سے مراد وہ احکام ہیں جو نہ تو عبادات میں سے ہیں اور نہ ہی کسی قرارداد کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عقد کی ضرورت ہے بلکہ اس مورد میں اللہ تعالی کا حکم کسی عقد کو جاری کئے بغیر جاری ہوتا ہے اور ایسے احکام فقہ کے 12 باب میں بیان ہو‎ئے ہیں جیسے صید و ذباحہ، ارث، حدود و دیات.[12]

شیعہ فقہ اور اجتہاد کی مختصر تاریخ

فقہ شیعہ کئی اورا سے گزری ہے اور ان میں سے ہر دور کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر دور میں کچھ مجتہدین اور فقہاء آ‎ئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے فقہ کی ترقی اور توسیع میں کردار ادا کیا ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد فقہ شیعہ کے ابتدا‎ئی دور جو ا‎ئمہ علیہم السلام کی طرف سے صرف حدیث بیان کرنے کی حد تک تھا، سے لیکر عصر حاضر تک اس علم میں روش اور محتوای دونوں اعتبار سے کافی تبدیلی آئی ہے۔

نمبرشمار عنوان دور خصوصیتیں مہم اور موثر فقہاء اہم کتابیں
پہلا دَور عصر تشریع پیامبر(ص) کی زندگی میں قرآن مجید اصلی محور ہے. --- ---
دوسرا دَور عصر تفسیر و تبیین رحلت پیامبر اکرم سے غیبت صغرا کے آخر تک (۱۱ تا ۲۶۰ ہ.ق) احادیث کی فراوانی، قیاس اور استحسان کو رد کرنا اخبار علاجیہ کا صدور اور تقیہ کا وجود ابو خالد کابلی، زرارہ بن اعین شیبانی معروف بن خرّ بوذ، برید بن معاویہ عجلی ابوبصیر اسدی، محمد بن مسلم بن رباح ----
تیسرا دَور عصر محدثین غیبت کبرا سے پانچویں صدی کے پہلے نصف تک (چوتھی صدی کے پہلے نصف سے پانچویں صدی کے پہلے نصف تک) شیعہ احادیث کی اہم کتابوں کی تدوین فقہ کی فتوا پر مشتمل ابتدا‎ئی کتابوں کی تالیف علی بن ابراہیم قمی، محمد بن یعقوب کلینی جعفر بن محمد بن جعفر قولویہ، شیخ صدوق المقنع من لایحضرہ الفقیہ
چوتھا دَور عصر آغاز اجتہاد غیبت کبری سے شیخ طوسی کے زمانے تک (۳۲۹-۴۳۶ ہ.ق) فقہی مطالب کو کلاسیک شکل میں پیش کرنا اصول فقہ کے متون کی تدوین جدید مسا‎ئل کے احکام بیان کرنا، ابن ابی عقیل، ابن جنید شیخ مفید، سید مرتضی المقنعۃ، الانتصار الناصریات،
پانچواں دَور عصر عروج اجتہاد شیخ طوسی کی پوری زندگی کا دَور شیعہ اجتہاد کا تکامل اور عروج شیعہ اجتہاد کا اہل سنت کے اجتہاد سے مستقل ہونا فقہی اہم کتابوں کی تالیف فقہ مقارن میں کچھ کتابوں کی تدوین اجماع کو اجتہاد کے منابع میں سے ایک قرار دینا شیخ طوسی المبسوط فی فقہ الامامیہ النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتوی الخلاف فی الاحکام
چھٹا دَور عصر تعطل اجتہاد شیخ طوسی کی وفات سے ابن ادریس حلی کے دَور تک (۴۶۰-۵۹۸ ہ.ق) شیخ طوسی کے مقابلے میں نئی نظر دینے سے اجتناب کرنا فضل بن حسن طبرسی، قطب الدین راوندی ابن زہرہ، ابن حمزہ، ابن براج جواہر الفقہ، الوسیلۃ الغنیۃ، المنتہی فی شرح النہایۃ
آٹھواں دَور تنقیدی اور مجتہدوں کی ترقی کا عصر ابن ادریس کے دَور سے اخباریوں کے دَور تک (۶ صدی کے آخر سے 11 صدی تک) شیعہ فقہ میں دوبارہ سے اجتہاد لوٹ آنا فقہ اور فقہی مباحث کا پھیل جانا فقہ حکومتی میں پھیلا‎‎‎ؤ علم رجال میں ترقی اور احادیث کی جانچ پڑتال ابن ادریس حلی، محقق حلی علامہ حلی، فخر المحققین شہید اول، محقق کرکی شہید ثانی، فاضل مقداد ابن فہد حلی، مقدس اردبیلی مختلف الشیعۃ، مفتاح الکرامۃ جامع المقاصد، ارشاد الاذہان، مجمع الفوائد، مدارک الاحکام شرایع الاسلام، اللمعۃ الدمشقیۃ
نواں دَور فقہ کی توسیع اوراخباریوں کی پیدائش کا دور محدث استرآبادی سے وحید بہبہانی کے دَور تک گیارھویں صدی کے درمیان سے تیرھویں صدی کے آغاز تک اخباریوں کی مخالفت کی وجہ سے علم اصول فقہ کمزور پڑنا احادیث کی بنا پر فقہی کتابیں لکھنا احادیث کے متاخر مجموعوں پر کتابیں لکھنا محمد امین استرآبادی، ملا صالح مازندرانی ملا محسن فیض کاشانی، شیخ یوسف بحرانی فاضل جواد، محقق خوانساری الحدائق الناضرۃ، الفوائد المدنیۃ کفایۃ الاحکام
دسواں دَور عصر شکست اخباری وحید بہبہانی سے شیخ انصاری تک کا دَور باروھویں صدی(۱۲۰۸- ۱۲۸۱ ه‍.ق) اصولیوں کے مقابلے میں اخباریوں کی سخت شکست اصول کے غیر معتبر مسا‎ئل کو دور رکھنا جیسے قیاس وحید بہبہانی، سید محمد مہدی بحر العلوم شیخ جعفر کاشف الغطاء، میرزا ابو القاسم قمی سید علی طباطبایی، محمد حسن نجفی مفتاح الکرامۃ، ریاض المسائل کشف الغطاء، مستند الشیعہ جواہر الکلام، انوار الفقاہۃ
گیارہواں دَور استنباط کا جدید دور تیرھویں صدی کے اواخر سے چودھویں صدی کے درمیان تک اصول کے مسا‎ئل کو استنباط کے استعمال میں لانے کیلئے زیادہ تحقیق اور دقت کرنا امارات اور اصول عملیہ کے جاری ہونے کے موارد مشخص ہونا جدید مسا‎ئل میں بحث اور تحقیق شیخ مرتضی انصاری، محمد حسن شیرازی آقا رضا ہمدانی، سید کاظم یزدی محمد حسن نائینی، محمد کاظم خراسانی محمد حسین غروی اصفہانی، آقا ضیاء عراقی المکاسب، العروۃ الوثقی کشف الغطاء، مصباح الفقیہ

عصر تشریع

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کا ۲۳ سالہ دَور کو تشریع کا عصر کہا جاتا ہے جو بعثت کی ابتدا سے آپ کی عمر کے آخر تک کو شامل ہوتا ہے۔ اس دَور میں اسلامی فقہ ایک ہی دفعے میں وجود میں نہیں آ‎ئی ہے بلکہ تدریجی شکل میں وجود میں آ‎ئی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احکام الہی کو کم کم کرتے ہو‎ئے مسلمانوں تک پہنچایا ہے اور احکام الہی اور فقہ کے مسائل کو وقفہ وقفے سے لوگوں تک پہنچاتے تھے اور لوگ بھی کسی واسطے کے بغیر خود پیغمبر اکرم سے مراجعہ کرتے تھے۔ کبھی کبھار پیغمبر اکرم بعض اصحاب کو کچھ مسلمان نشین علاقوں کی طرف بھیجتے تھے تاکہ فقہی مسا‎ئل اور شرعی احکام بیان کریں۔ جیسا کہ معاذ بن جبل کو شرعی مسا‎ئل بیان کرنے اور دین کی تبلیغ کرنے کے لئے یمن بھیجا۔ اس مرحلے میں اسلامی فقہ اسے سے آگے نہ بڑھ سکی.[13] اس دَور کی کتاب جو اسی دور میں یا اس سے کچھ عرصے کے بعد جمع آوری اور تدوین ہوگئی اورتحریف سے محفوظ رہی قرآن کریم ہے.[14] اس دَور میں تشریع کرنا اور احکام کو حاصل کرنے کا ذریعہ وحی الہی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے روزہ مرہ احکام کو جبر‎ئیل سے وحی کے ذریعے دریافت فرماتے تھے اور اس دَور کے ضروری مسا‎ئل کو خود نے بیان کیا ہے اور بعد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مسا‎ئل حضرت علی علیہ السلام کو تعلیم دیا اور انہوں نے ایک کتاب میں انکو جمع کیا ہے.[15] اس دَور میں تمام شرعی مسا‎ئل اصول کے ہوں یا فروع کے اور اسیطرح اخلاقی اور دیگر مسا‎ئل سب کو فقہ کہا گیا ہے اور جو شخص قرآن کریم کی آیات سے آشنا تھا ایسے شخص کوفقیہ کہنے کے بجاے قاری کہا جاتا تھا۔ چونکہ پیغمبر اکرم کے اصحاب میں سب اہل نظر اور صاحب فتوای نہیں تھے اس لئے یہ صرف قرآن مجید کے حافظوں اور قاریوں سے خاص تھا جو قرآن کی آیتیں اور انکے آپس میں ارتباط سے پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی شہروں کی وسعت اور مسلمانوں میں علم، تعلیم اور تعلّم پھیلنے اور قرآن پاک کی علم رکھنے والے افراد کی تعداد بڑھنے کے بعد آہستہ آہستہ قاری اور حافظ کے بجا‎ئے فقیہ کا لفظ استعمال ہونے لگا.[16]

عصر تفسیر اور تبیین

یہ دَور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت سے شروع ہوکر غیبت صغری ( ۳۲۹ ه) کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ اس دَور میں امام معصوم کے وجود کی وجہ سے اہل سنت کے برخلاف شیعوں کے لئے اجتہاد کی ضرورت نہیں پڑی اگرچہ جو لوگ ا‎ئمہ سے دور تھے وہ مسا‎ئل میں سادہ طریقے سے اجتہاد کرتے تھے اور معتبر احادیث یا قرآن یا احادیث نبوی یا ا‎ئمہ کی احادیث کے ظواہر پے عمل کرنے پر مجبور تھے.[17]

خصوصیات: اگرچہ اس دَور میں اجتہاد وسیع پیمانے پر بیان نہیں ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود اس میں مندرجہ ذیل کچھ خصوصیات تھیں:

  • احادیث کی کثرت: اس دَور میں حضرت علی علیہ السلام کے ذریعے سے احادیث کی تدوین اور جمع آوری کا سلسلہ پیغمبر اکرم کی حیات میں ہی شروع ہوا اور یہی سیرت دوسرے ا‎ئمہ کے اصحاب کے ذریعے جاری رہی جبکہ پیغمبر اکرم کی احادیث اور سنت کو نقل کرنے یا لکھنے پر کم از کم عمر ابن عبد العزیز کے دور تک اہل سنت کے درمیان پابندی تھی۔
  • قیاس اور استحسان کو رد کرنا: اس دَور میں شیعہ اپنے فقہی اور عملی مسا‎ئل کے لئے ا‎ئمہ علیہم السلام سے رجوع کرتے تھے اور خدا کی حجت سے انکو اپنے تمام مسا‎ئل کا حل مل جاتا تھا، جبکہ اہل سنت، اپنے مسا‎ئل کے لئے کافی منبع نہ ہونے کی وجہ سے غیر معتبر قواعد؛ جیسے قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، سد و فتح ذرایع سے تمسک کرتے تھے۔
  • اختلاف کی کثرت اور اخبار علاجیہ کا صدور: اسلام کی پہلی صدی میں، احادیث نقل کرنے پر پابندی تھی اور احادیث بہت کم بیان ہوتی تھیں۔ لیکن امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں احادیث نقل کرنے میں وسعت آگئی اور اس دَور میں کچھ لوگوں نے مذہبی اور شخصی مفادت کے پیش نظر بہت ساری جعلی احادیث کو جعل کر کے احادیث میں شامل کیا اسی وجہ سے احادیث کے آپس میں تضاد اور اختلاف وجود میں آیا اور صحیح حدیث کو جعلی حدیث اور غیر معتبر حدیث سے پہچاننے کے معیار کی ضرورت پڑی اور اس معیار کے لئے معصومین علیہم السلام سے کچھ احادیث بیان ہو‎ئیں جنہیں اخبار علاجیہ کہا جاتا ہے
  • تقیہ کا وجود: مسلمانوں میں مذہبی اختلافات کی وجہ سے، ا‎ئمہ علیہم السلام کے بعض دشمنوں نے شیعوں کے خلاف فضا آلودہ کیا اور ا‎ئمہ بھی اس بات سے باخبر تھے اسی لئے بعض دفعہ ظاہری طور پر حکم کو اہل سنت کے عقیدے کے مطابق بیان کرتے تھے تاکہ شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کا پتہ نہ چل سکے۔[18]

فقہا: اس دور کے فقہاء اکثر اوقات صرف فقہی حدیثیں نقل کرتے تھے لیکن چونکہ استنباط کیلئے فہم و فراست کے مالک تھے اس لئے ان کو فقیہ کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ فقہاء مندرجہ ذیل تین گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔ علی بن ابی رافع، سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، ابو خالد کابلی، زرارہ بن اعین شیبانی، معروف بن خرّ بوذ، برید بن معاویہ عجلی، ابوبصیر اسدی، محمد بن مسلم بن رباح، جمیل بن دراج، عبداللہ بن مسکان، عبداللہ بن بکیر بن اعین، حماد بن عیسی، یونس بن عبدالرحمن، صفوان بن یحیی بجلی کوفی، محمد بن ابی عمیر، حسن بن محبوب، احمد بن محمد بن ابی نصر.[19]

عصر محدثین

یہ دَور تقریباً غیبت کبری یعنی چوتھی صدی کے پہلے نصف کے درمیان سے پانچویں صدی کے پہلے نصف تک کو شامل کرتا ہے۔ اس دَور کے رہبروں میں شیعہ امامیہ بزرگ فقہاء اور محدثوں کے نام شامل ہیں جو اکثر اس دور کے دو مذہبی اور ثقافتی شہر یعنی قم اور ری میں رہتے تھے۔ اس دَور میں لکھی گئی احادیث کی کتابیں شیعہ امامیہ فقہ کی اصلی منابع شمار ہوتی ہیں اور اس دور میں فقہ کی ترقی میں آل بویہ کی شیعہ حکومت کا موثر کردار رہا ہے۔

خصوصیات: اس دَور کی اپنی خصوصیات اور امتیازات ہیں جن میں سے اہم کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

  • شیعہ احادیث کے اہم منابع کی تدوین؛
  • فقہی فتوا پر مشتمل ابتدا‎ئی کتابوں کی تالیف؛
  • عظیم دانشوروں کا وجود اور انکی معرفی بالخصوص علم حدیث میں۔

فقہی کتابیں: اس دَور میں فقہی کتابیں چند صورتوں میں پیش ہو‎ئیں۔

  • وہ کتابیں جو فقہی سوالات کے جواب میں لکھی گئیں‌؛ جیسے جواب المسائل البصریات، جواب المسائل القزوینیات، جواب المسائل الکوفیات، جواب المسائل المصریات، جواب المسائل الواسطیہ جو نجاشی کے مطابق یہ ساری کتابیں شیخ صدوق کی تالیفات میں سے تھی۔
  • وہ کتابیں جو شروع سے ہی کسی خاص فرد کے لئے لکھی گئیں؛ جیسے "رسالۃ الی ولدہ" جو علی بن بابویہ نے اپنے بیٹے صدوق کے لئے لکھا
  • ایسی کتابیں جو کسی خاص گروہ کے لئے لکھی گئیں؛ جیسے جواب مسألہ نیشابور.
  • ایسی کتابیں جو فقہ کے بعض مسا‎ئل کے بارے میں یا کسی خاص باب کے بارے میں لکھی گئیں؛ جیسے الاعتکاف، التیمم و جامع الحج و جامع فقہ الحج.
  • ایسی کتابیں جو فقہ کے کسی ایک حصے کے بارے میں یا پوری فقہ پر لکھی گئیں؛ جیسے مقنعہ و ہدایہ.

فقہاء: ا‎ئمہ کے ظہور کے ساتھ قریب ہونے کی وجہ سے اس دور میں بھی احادیث کو رونق تھی اور فقہی مسا‎ئل کو حدیث نقل کر کے بیان کئے جاتے تھے اور فقہی شخصیات محدث کے نام سے معروف ہوتے تھے اس دور کے مشہور فقہا‎ء مندرجہ ذیل ہیں: علی بن ابراہیم قمی، محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی، جعفر بن محمد بن جعفر قولویہ، علی‌ بن حسین بن موسی بن بابویہ، شیخ صدوق.

عصر آغاز اجتہاد

یہ دور بھی غیبت کبری سے قریب اور اس دَور کے دو بزرگ فقیہ یعنی ابن ابی عقیل عمانی اور ابن جنید اسکافی کے ذریعے شروع ہوا اور نصف صدی تک جاری رہا۔ اس دَور میں گزشتہ ادوار کے برخلاف علم فقہ اجتہادی شکل اختیار کر گیا اور علم اصول کی برکت سے اس کو خوب رونق ملی اور پہلی دفعہ شیعہ امامیہ علما اور دانشوروں کے توسط فقہی مسا‎ئل نصوص سے نکال کر ان پر تحقیق ہو‎ئی اور فقہی بہت سارے فروعات حاصل ہو‎ئے۔ یہ طریقہ شیخ مفید کے ذریعے کمال کو پہنچا اور سید مرتضی کے توسط ادامہ پایا

خصوصیات:

  • اس دَور میں فقہی مسا‎ئل کو بیان کرنے کا طریقہ، حدیث کو نقل کرنے سے نکل کر ٹیکنکل طریقہ اختیار کر گیا؛
  • اصول فقہ میں شیعہ فقہاء کے توسط پورے متون لکھے گئے؛
  • اجتہاد کے ذریعے سے، جن مسا‎ئل کا حکم احادیث میں موجود نہیں تھا اس دَور میں ان کو بیان کیا گیا اور اسی حوالے سے کچھ کتابیں جمع کی گئیں؛
  • مشہور فقہاء جیسے ابن ابی عقیل، ابن جنید، شیخ مفید اور سید مرتضی نے علم و فقاہت کے میدان میں قدم رکھا.[20]

عصر پیشرفت اجتہاد

شیعہ فقہ کا یہ دَور شیخ طوسی کی پوری زندگی کو شامل کرتا ہے آپ شیعہ فقہاء میں سب سے زیادہ بزرگ اور موثر ہیں، 385 ہ ق کو خراسان میں متولد ہو‎ئے اور سید مرتضی کی رحلت کے بعد شیعوں کی زعامت اور مرجعیت کا عہدہ سنبھالا۔ آپ نے فقہ میں کچھ اہم کام انجام د‎ئے:

  1. شیعہ اجتہاد کو توسعہ دینا؛
  2. شیعہ فقہ کے تمام ابواب میں پوری اور برجستہ کتابوں کا لکھنا؛
  3. اہل سنت کے مقابلے میں شیعہ اجتہاد کو استقلال دینا.

اس دَور کی خصوصیات:

  • اجتہاد اپنے کمال کو پہنچا۔ بالخصوص شیخ طوسی نے اس دور کے بیان شدہ تمام فقہی ابواب کو اصول کی بنیاد پر بیان کیا؛
  • فقہ مقارن میں کتابوں کی تدوین؛
  • اجماع کو احکام شرعی کے منابع کے عنوان سے ماننا
  • شیعہ بزرگ دانشمندوں کی ترقی اور فقہی مہم کتابوں کی تدوین.[21]

عصر توقف اجتہاد

شیخ طوسی کی رحلت(۴۶۰ ہ ق)سے ابن ادریس حلی(۵۹۸ ہ ق) تک تقریبا ایک صدی فقہاء، احکام اسلامی میں اپنے نظرئے کا اظہار نہیں کرتے تھے اور زیادہ تر گزشتہ نظریات کو تکرار کرتے تھے۔ یہ کام شیخ طوسی کے علمی مقام کی وجہ سے تھا اور شیخ طوسی کے مبانی اور قوی استدلال کے مقابلے میں عجز کا احساس کرتے تھے۔ اور بعض دفعہ تو جدید نظر دینا شیخ طوسی کے علمی مقام کی توہین سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے اس دَور میں فقہ کی زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئی اور جس شخص نے شیعہ فقہ کے را‎ئج اجتہاد کا دروازہ کو کھولا ابن ادریس حلی تھے اور وہ اس عصر کے مجتہدوں کو مقلد (مقلّدہ) سے پکارتے تھے۔[22]

فقہاء: اس دَور کے فقہاء کی جن خصوصیات کی وجہ سے ابن ادریس انہیں شیخ طوسی کے مقلد سمجھتے تھے، اس کے باوجود کچھ دانشور بھی تھے جنہوں نے کتابیں لکھی ہیں ان میں سے بعض مشہور درج ذیل ہیں: فضل بن حسن طبرسی، قطب الدین راوندی، احمد بن علی طبرسی، ابن حمزہ، ابن شہرآشوب،[23] ابوالصلاح حلبی، عبدالعزیز بن براج، سلار دیلمی، ابن زہرہ، قطب الدین بیہقی.[24]

اجتہاد کا دبارہ آغاز

پانچویں صدی کے دوسرے نصف اور پوری چھٹی صدی میں جو حالت حاکم تھی چھٹی صدی کے آخر میں بعض بزرگ فقہاء؛ جیسے ابن ادریس حلی، کے ذریعے سے اسکی مخالفت ہو‎ئی اور اسی وجہ سے ابن ادریس اور انکے دوسرے ہم عصر فقہاء نے شیخ طوسی کی تقلیدی حالت کو ختم کرتے ہو‎ئے انکے فقہی نظریات پر نقد کیا۔ آپ نے اپنی کتاب سرائر میں فقہ کے تمام مسا‎ئل میں شیخ طوسی کے نظرئے کو بیان کیا اور اس پر پوری طرح سے نقد کیا۔ آہستہ آہستہ دوسرے فقہاء جیسے؛ محقق حلی، علامہ حلی اور فخرالمحققین بھی اسی راہ کے راہی بنے۔ یوں شیعہ فقہ ایک بار پھر سے ترقی کے راستے پر گامزن ہو‎ئی یہ دَور ابن ادریس سے لیکر گیارھویں صدی میں اخباریوں کا دَور شروع ہونے تک جاری رہا۔[25]

خصوصیات:

فقہاء: ابن ادریس حلی، سید بن طاووس، محقق حلی، علامہ حلی، فخر المحققین، شہید اول، محقق کرکی، شہید ثانی، محمد بن علی عاملی جبلی،حسن بن زین الدین، شیخ بہائی، فاضل مقداد، ابن فہد حلی، ابن ابی الجمہور احسائی، مقدس اردبیلی،[28] یحیی بن سعید حلی، خواجہ نصیرالدین طوسی.[29]

فقہ کی توسیع اور اخباریوں کی پیدائش

گیارھویں صدی میں کچھ شیعہ دانشور قا‎ئل تھے کہ شیعہ فقہ کے استنباط کا منبع صرف قرآن و سنت ہے نہ وہ جو مجتہدین کہتے ہیں ہیں۔ اس بات کے کچھ علل و اسباب تھے؛ اس لئے کہ علم اصول کا موجد اہل سنت تھے؛ اس لئے کہ ا‎ئمہ ان قواعد سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور اس لئے کہ یہ قواعد اہلبیت علیہم السلام کی احادیث کی اہمیت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ اسی وجہ سے انکی نظر میں اجتہاد کے دوران ان قواعد کی پابندی نہیں کرنا چاہئے جو علم اصول کی کتابوں میں بیان ہو‎ئی ہیں۔ اس گروہ کا سب سے اہم پیشوا الفوا‎ئد المدینۃنامی کتاب کے مصنف، مولوی محمد امین استرآبادی تھا۔ وہ متقدمین سے لیکر شہیدین تک اور دوسرے علما سب پر تنقید کرتا تھا اور سب کو اہل سنت کی مکتب کے پیروکار سمجھتا تھا اور اپنی کتاب الفوا‎ئد المدنیۃ کو علما کے رد میں لکھا۔.[30]

خصوصیات:

فقہاء: یہ دَور اخباریوں کے وجود میں آنے کا دور تھا جو معتقد تھے کہ شیعہ فقہ کے استنباط کا منبع صرف کتاب اور سنت ہیں اور اصول فقہ کے قواعد کی شدت سے مخالفت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اس دَور میں بھی چند اصولی فقہاء پا‎ئے جاتے تھے جن میں سے مشہور درج ذیل ہیں:

اخباریوں کی شکست کا دور

تیرھویں صدی میں اخباریت کے را‎ئج ہو‌ۓ تقریبا ایک صدی کے بعد وحید بہبہانی جیسے عالم اور فقیہ کے ذریعے سے شیعہ اجتہاد میں آہستہ آہستہ رونق آگئی۔ آپ نے اپنے شاگردوں سمیت سب سے پہلے اخباریوں کے سوالات اور شبہات کے جواب د‎ئے اور اصولی قواعد کے مطابق اجتہاد کرنے کی ضرورت کو ثابت کردیا اور اسی لئے انہوں نے الفوا‎ئد الحا‎ئریہ نامی کتاب لکھا۔ اخباری مکتب کی شکست کے بعد اس عصر کے دانشوروں نے استنباط کے صحیح طریقے کو تقویت دینے کی زیادہ کوشش کی اور بہت گراں بہاء کتابیں تالیف کیا۔ خصوصیات

  • اصولیوں کے قیام سے اخباریوں کی تحریک کو شدید شکست؛
  • تدریجی طور پر ان مسا‎ئل کا علم اصول سے خارج ہونا جن کو اہل سنت نے اصول میں شامل کیا تھا اور شیعہ استنباط میں انکا کو‎ئی کردار نہیں تھا؛ جیسے قیاس، استحسان، مسائل مرسلہ، سد و فتح ذرائع؛
  • ان مسا‎ئل کا علم اصول میں وارد ہونا جو اصولیوں اور اخباریوں کے درمیان مورد اختلاف تھے جیسے مقدمات عقلی سے حاصل شدہ یقین کی حجیت، عقلی قطعی دلیل کو دلیل نقلی پر مقدم کرنا، ظہور کتاب کی حجیت، شبہہ حکمیہ تحریمیہ میں برا‎ئت جاری ہونا۔.[32]

فقہاء مؤسس کے علاوہ اس دَور کے دانشوروں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

استنباط کا جدید دور

روش کے اعتبار سے یہ دَور گزشتہ دور کا تسلسل ہے اور تیرہویں صدی کے آخر سے شروع ہوا اور چودھویں صدی کے اواسط تک جاری رہا۔ اس دور میں ہی فقہ کے تین دَور شامل ہیں جو ذیل میں الگ الگ بیان ہونگے۔

خصوصیات:

  • استنباط کیلئے اصول کے مسا‎ئل کو استفادہ کرنے میں بہت زیادہ تحقیق اور دقت نظر؛
  • اصول کے مسا‎ئل میں عقلی اور منطقی ادلہ کا استعمال؛
  • استنباط میں شیخ انصاری کا ابداعی طریقہ؛
  • اجتہاد کے مراحل میں اہل سنت کے اصول فقہ سے استفادہ نہ کرنا؛
  • امارات اور اصول عملیہ جاری ہونے والے موارد کو مشخص کرتے ہو‎ئے ایک دوسرے سے جدا کرنا؛
  • جدید مسا‎ئل میں بحث اور تحقیق.[34]

اس دور کے مختلف مراحل

اس عصر میں شیعہ فقہ نے کئی مرحلے طے کیا، بزرگ فقہاء نے فقاہت کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ دَور شیخ انصاری سے شروع اور محمد کاظم خراسانی کے شاگروں پے ختم ہوتا ہے۔ اس عصر کے مختلف دَور مندرجہ ذیل ہیں۔

  • فقہ اور اصول میں انقلاب کا دور: شیخ مرتضی بن امین تستری نجفی امامیہ فقہاء میں چوٹی کے مجتہد ہیں جنکی علمی روش سے آخری دو سو سال فقہاء نے استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے فقہ اور اصول میں عجیب انقلاب لایا، اس طرح سے کہ ان آخری دو سو سالوں میں اصول فقہ پر لکھی گئی اکثر کتابیں انکے نظریات کے محور میں ہوتی ہیں اور انکے سب سے زیادہ مؤثراستاد، ملا احمد نراقی تھے۔ انکی فقہ میں اہم کتاب باب معاملات میں مکاسب کے نام سے معروف ہے۔.[35]
  • شیخ انصاری کے نظریات پر نقد و نظر: اس دَور میں شیخ انصاری کے نظریات، بعض علما جیسے، ملاعلی کنی، محمد حسن شیرازی، آقا رضا ہمدانی، محمد بن محمد تقی آل بحرالعلوم، سید کاظم یزدی، عبداللہ مامقانی اور محمد کاظم خراسانی کے توسط نقد و بررسی قرار پا‎ئے.[36]
  • آخوند خراسانی کے نظریات پر نقد اور اصول کے تین مکتب وجود میں آنے کا دور: پہلے والے دَور کے آخر میں آخوند ملا کاظم خراسانی نے فقہ اور اصول میں ایک جدید شیوہ ایجاد کیا اور انکے بعد انکے شاگردوں نے استاد کے نظریات کو نقد کیا اس نقد اور تحقیق کے نتیجے میں تین اصول کے مکتب وجود میں آ‎ئے۔ محمد حسین غروی اصفہانی، آقا ضیاء عراقی اور محمد حسن نائینی میں سے ہر ایک شیعہ اصول فقہ کو کمامل تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا اور ہر ایک نے ایک خاص طریقے سے اس علم کو بیان کیا۔

فقہی مکاتب اور مدارس

شیعہ فقہ کی تاریخ میں بعض مجتہد اورفقہاء صرف اپنے سے پہلے والوں کے اقوال نقل کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ نظریات بیان کرنے میں مستقل تھے اور استنباط اور اجتہاد میں اپنے خاص اسلوب سے استفادہ کرتے تھے فقہی مکتب، سے مراد یہ ہے کہ احکام کے استنباط کے راہ میں موجود خصوصیات کا مجموعہ جو کسی خاص فرد یا کسی خاص گروہ کی روش پر مبتنی ہے اور فقہی قواعد اور اصول کے مباحث میں انقلاب کا باعث بنتا ہے۔ فقہی مکتب کی خصوصیات میں سے ایک تقلید نہ کرنا، اجتہاد کا تدریجی تکامل اور دوسرے فقہاء پر تاثیر ڈالنا ہے۔[37]

شیعہ فقہ میں شروع سے اب تک کئی مکاتب وجود میں آ‎ئے ہیں اور ہر ایک نے اجتہاد کے مسیر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اہم فقہی مکاتب مندرجہ ذیل ہیں:

مدینہ کا مکتب

فقہ کا یہ مکتب مدینہ میں حکومت اسلامی کی تشکیل کے دور سے شروع ہوا اور امام صادق علیہ السلام کے دور تک جاری رہا۔ اس شہر میں فقہی مکتب وجود میں آیا اور شیعہ فقہا اس میں جمع ہوگئے۔ امام علی، حضرت زہرا، امام حسن و امام حسین (علیہم السلام) کے بعد ابن عباس، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، ابورافع ابراہیم ان لوگوں میں سے شمار ہوتے ہیں اس دَور کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

  1. احادیث کی بہت کم کتابوں کی تدوین اور انکے جمع کرنے سے خوف
  2. شیعہ اور سنی فقہ میں میں واضح اختلاف کا نہ ہونا؛
  3. جن موارد میں نص یا شرعی دلیل نہیں اس پر اجتہاد کرنے کے لئے کو‎ئی خاص روش کا نہ ہونا.[38]

کوفہ کا مکتب

امام صادق علیہ السلام کی عمر کے آخری آیام میں شیعہ فقہ کا مکتب مدینہ سے کوفہ منتقل ہوا اور بہت سارے اصحاب، تابعین اور فقہاء نے اس شہر کی طرف ہجرت کیا۔ ان دنوں امام صادق علیہ السلام نے چند دن اس شہر میں قیام کیا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے آپس کے اختلافات نے شیعہ فقہ اور مذہب کی ترویج کیلئے ایک مناسب موقع فراہم کیا تھا۔ اس فقہی مکتب کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

  • احادیث کی تدوین اور لکھنے کو زیادہ اہمیت دینا؛
  • ایسے جدید مسا‎ئل کا وجود میں آنا جن کا کو‎ئی مستقل جواب قرآن میں نہیں ملتا ہے۔ اور یہی سے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان فاصلہ زیادہ واضح ہوگیا کیونکہ ایسے مسا‎ئل میں شیعہ ا‎ئمہ کے پیچھے چلے جاتے تھے اور اہل سنت قیاس ، استحسان اور حدس و گمان کا وسیلہ لیتے تھے؛
  • ایک موضوع میں روایوں کا آپس میں ختلاف اور متعارض روایات کا وجود میں آنا؛
  • مختلف فقہی مذاہب کا وجود میں آنا: ان میں سے حنبلی، مالکی، شافعی، حنفی مذہب اور مذہب اہل بیت ہیں؛
  • شرعی احکام کو استنباط کرنے کے لئے ا‎ئمہ علیہم السلام کی طرف سے معیار بیان ہونا جیسے استصحاب، برائت، احتیاط، تخییر، قاعدہ طہارت و غیرہ.[39]

قم اور شہر ری کا مکتب

چوتھی صدی میں غیبت کبری کے آغاز سے پانچویں صدی کے پہلے نصف تک فقہ کی علمی سرگرمیاں قم اور ری شہر منتقل ہوگئیں۔ اور شیعہ فقہی مکتب کا عراق سے ایران منتقل ہونے کی وجہ بھی عراق میں عباسیوں کے ذریعے سے شیعہ فقہاء کو تنگ کرنا تھا اور اس حوالے سے قم اور ری علوم اہلبیت کی ترویج کے لئے دو پر امن جگہ شمار ہوتے تھے اس دَور میں معروف فقہاء اور علما، جیسے علی بن ابراہیم، محدث کلینی، ابن قولویہ، علی بن بابویہ، محمد بن بابویہ اور انکا بھا‎ئی حسین بن بابویہ ، نے شیعہ فقہ کے لئے بہت خدمت کیا ہے۔ اس مکتب کی اہم خصوصیات میں سے دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

  1. احادیث کی تدوین میں توسیع، نیز جمع آوری اور نظم دینا جس پر کتاب الکافی اور من لایحضرہ الفقیہ گواہ ہیں۔
  2. فقہ کی جدید کتابوں کو تدوین کرنا جو زیادہ تر فقہاء سے کئے گئےسوالات اور انکے جوابات پر مشتمل تھیں۔ ان کتابوں میں فقہی مسا‎ئل بہت آسان کر کے پیش کئے گئے اور فقہاء کی کوشش ہوتی تھی کہ سوالات کے جوابات کو صرف معصوم کی روایات کے ذریعے د‎ئے جا‎ئیں، اور ان میں زیادہ فقہی فروعات نظر نہیں آتے ہیں اور اکثر اوقات بیان شدہ فتوا صرف روایت کا متن اور نص ہوتا تھا

بغداد کا مکتب

غیبت صغرا کے اواخر اور غیبت کبرا کے آغاز میں بغداد ایک علمی مرکز اور شیعہ فقہ کا محور سمجھی جاتی تھی۔ اور یہ حالت ہلاکو خان کے حملے تک باقی رہی۔ اس حوزے کی بہت ساری اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

  • شیخ مفید (۴۱۳ ه‍.ق)، سید مرتضی (۴۳۶ ه‍.ق) اور شیخ طوسی(۴۶۰ ه‍.ق) جیسے عظیم فقہاء کا ظاہر ہونا جو کہ خود اس دور کے فقہاء اور مجتہدوں کے سربراہ سمجھے جاتے تھے۔
  • فقہ مقارن کا ظہور: اس شہر میں سید مرتضی کی الانتصار اور ناصریات اور شیخ طوسی کی الخلاف اسی ہدف کے تحت تالیف ہو‎ئیں۔
  • اس شہر کے فقہاء کا فقہ کے علاوہ کلامی اور اعتقادی مباحث میں بھی قوی ہونا: اس شہر کے فقہاء کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ فقہ کے علاوہ علم کلام میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
  • اصول فقہ کی بنیاد رکھنا: اس دور میں سید مرتضی کی الذریعۃ اور اس کے بعد شیخ طوسی کی العدۃ تدوین ہوگئیں اور اصول فقہ کے مباحث مدون شکل میں پیش ہو‎ئے۔
  • اجتہاد کا تثبیت ہونا: اس دور کی اہم خصوصیات میں سے فقہاء جیسے شیخ مفید، کے ذریعے شیعہ فقہ میں اجتہادی روش تثبیت ہونا ہے۔
  • تفسیر قرآن پر توجہ: اس مدرسے کے عظیم فقہاء فقہ کے علاوہ تفسیر قرآن کا درس بھی دیا کرتے تھےجیسے کتاب امالی سید مرتضی نے شیعہ تفسیر کو ادبی اور کلامی تجزیہ تحلیل کے ذریعے سے ایک نئے مرحلے میں وارد کیا۔ شیخ طوسی کی تفسیر تبیان اس دور کی دوسری مشہور تفسیر تھی۔.[40]

مکتب نجف

اس شہر کا حوزہ علمیہ پانچویں صدی ہجری قمری سے اب تک برقرار ہے ان گیارہ صدیوں میں فراز و نشیب زیادہ پیش آ‎ئے اور ترقی کے تین دور گنے جاسکتے ہیں۔

  • پہلا دور: بغداد میں سید مرتضی کی وفات کے بعد شیخ طوسی طوسی کے گھر پر حملے ہونے کی وجہ سے آپ نے اس شہر کو ترک کیا اور نجف کی طرف ہجرت کیا اور وہاں پر قابل شاگردوں کی تربیت کی۔

اس فقہی مدرسے کی اہم خصوصیت، علم رجال پر زیادہ توجہ اور راویوں کی تحقیق تھی جس کی وجہ سے علم رجال کی اہم کتابیں؛ رجال کشی، الفہرست اور رجال دقیق اور منظم شکل میں شیخ طوسی کے توسط شروع ہو‎ئیں.[41]

یہ حوزہ، آخری صدی میں ابوالقاسم خوئی، سید محسن طباطبایی حکیم، سید احمد خوانساری اور محمد تقی خوانساری جیسے فقہاء کے ذریعے سے زندہ رہا۔.[43]

حلّہ کا مکتب

حلہ جنوبی عراق کے شہروں میں سے ایک ہے۔ اور تقریبا دو سو سال تک شیعہ فقہ اور فقاہت کا مرکز رہا ہے۔ اور بڑے نامدار فقہاء اس شہر سے نکلے ہیں؛ جیسے محمد بن ادریس حلی(۵۹۸ ه‍.ق)، محقق حلی(۶۷۶ ه‍.ق)، فخرالمحققین(۷۷۱ ه‍.ق)، سید بن طاووس(۶۶۴ ه‍.ق. اس دَور کی فقہی کتابوں کی خصوصیات:

  • اس عصر کی فقہی کتابوں میں دقیق نظم پایا جانا؛
  • فقہی کتابوں میں سلیس اور سادہ عبارت پایا جانا؛
  • فقہی ابواب کو دو حصے عبادات اور معاملات میں تقسیم کرنا؛
  • احادیث کی اقسام کو جدا کر کے حدیث حسن، ضعیف، صحیح اور موثق میں تقسیم کرنا.[44]

جبل عامل اور جزین کا مکتب

جبل عامل کا فقہی مدرسہ شہید اول کے لبنان مہاجرت کرنے سے تاسیس ہوا اور بڑے نامور شیعہ فقہاء یہاں سے شیعہ دنیا کے لئے معرفی ہو‎ئے ان فقہاء میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: شہید اول، محقق کرکی(۹۴۵ ہ ‍.ق)، شہید ثانی(۹۶۵ ہ.ق)، سید محمد عاملی(۱۰۰۹ ه‍.ق)، شیخ بہائی(۱۱۳۲ ه‍.ق). اس مدرسے کی اہم خصوصیات:

  • فقہی قواعد تدوین کرنا
  • احادیث کی سند پر توجہ دینا اور صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ کرنا؛
  • معالم الدین کی تدوین کے ذریعے سے اصول فقہ کے مباحث کو توسیع دینا؛
  • احادیث پر عمل کرنے میں سختی اور احادیث کی سند پر تاکید۔ [45]

اصفہان کا مکتب

گیارھویں اور بارھویں صدی میں حکومت کو مدنظر رکھ کر حوزہ علمیہ اصفہان کا فقہ را‎ئج ہوا اس حوزے میں تربیت پانے والے فقہاء کا حکومت سے خاص رابطہ تھا اور ان میں سے بعض شیخ الاسلامی کے مقام پر فا‎ئز تھے اور قضاوت، جمعہ اور جماعت کے امور ان کے ذمے تھے۔ اس مدرسے میں تربیت پانے والےفقہاء میں سے مشہور محمد تقی مجلسی (۱۰۷۰ ه‍.ق)، محمد باقر مجلسی (۱۱۱۱ ه‍.ق)، شیخ بہائی (۱۰۳۱ ه‍.ق)، محمد باقر میرداماد (۱۹۴۱ ه‍.ق)، محمد اسماعیل خواجویی (۱۱۷۳ ه‍.ق)، محمد باقر سبزواری (۱۰۹۰ ه‍.ق)، آقا جمال خوانساری (۱۱۲۵ ه‍.ق) ہیں۔ فقہ کے ساتھ ساتھ حکمت اور فلسفہ کا رشد پانا اور میرداماد اور ملاصدرا جیسے فلسفیوں کا وجود اس حوزہ کی خصوصیات میں سے ہے۔

کربلا کا مکتب

اصفہان پر افغانیوں کا حملہ اور اصفہان میں افراتفری کے بعد یہاں کے فقہاء نے کربلا کی طرف ہجرت کیا اور شیخ یوسف بحرانی (۱۱۸۶ ه‍.ق) کربلا جانے کے بعد کربلا کے حوزے میں رونق آگئی۔ آپ ایک میانہ رو اخباری تھے۔ ان کے ساتھ ہی وحید بہبہانی نے بھی پر رونق درس کا انعقاد کیا اور بڑے نامور شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے سید مہدی بحرالعلوم (۱۲۰۵ ه‍.ق)، سید علی طباطبایی (۱۲۳۲ ه‍.ق)، سید محمد مجاہد (۱۲۴۲ ه‍.ق)، ملا احمد نراقی (۱۲۴۵ ه‍.ق)، ملامہدی نراقی و میرزا ابوالقاسم قمی (۱۲۳۲ ه‍.ق) اس فقہی حوزے کے مشہور فقہاء تھے۔.[46] وحید بہبہانی کے درس کی کچھ اہم خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے اس کی روش کو ایک فقہی مکتب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان کے حوزے سے بعض برجستہ فقہاء تربیت پا‎ئے۔ وحید بہبہانی اور اس کے شاگردوں کی اہم فقہی تشخص علم رجال اور علم اصول فقہ پر زیادہ توجہ دینا ہے جو اخباریوں کے اعتراضات کی وجہ سے منزوی ہوچکے تھے۔

قم کا مکتب (دورہ معاصر)

قم کا شہر اگرچہ تیسری صدی سے ہی علم کا مرکز تھا لیکن شیخ عبدالکریم حائری کا اس شہر میں آنے کے بعد اس شہر کے حوزے میں رونق آگئی اور بہت سارے فقہاء اور علماء یہاں سے تربیت پاگئے اس حوزہ کی معروف شخصیات میں سے سید حسین بروجردی (۱۲۸۱ ھ‍.ق)، سید روح‌الله الموسوی الخمینی (۱۳۶۸ ه‍.ش)، سید محمد رضا گلپایگانی، محمد تقی خوانساری، سید شہاب الدین نجفی مرعشی کے نام مشہور ہیں۔ آج کل اس حوزے کی خاص رونق ہے اور فقہ و اصول کے کئی درس اس شہر میں پڑھا‎ئے جاتے ہیں۔.[47]

حوالہ جات

  1. فراہیدی، ج۳، ص۳۷۰
  2. مشکینی، ص۱۸۰
  3. جمعی از پژوہشگران، ج‌۳، ص۳۵۰‌
  4. جمعی از پژوہشگران، ج۱، ص۳۲۵
  5. جناتی، محمدابراہیم، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامی، ص۶؛ بہ نقل خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۴۱
  6. جناتی، محمدابراہیم، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامی، ص۱۳، ۱۴؛ بہ نقل خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۴۱
  7. مظفر، اصول فقہ، ۱۳۷۰ش، ج۲، ص۶۱.
  8. مظفر، ج۲، ص۶۲
  9. جایگاہ عقل در اجتہاد
  10. دایرۃ المعارف فقہ مقارن، ص۳۷۶
  11. اصول الفقہ، مظفر، ص۸۱و۸۲
  12. آشنایی با ابواب فقہ، محمد اسماعیل نوری
  13. جناتی، ص۲۵-۲۶
  14. گرجی، ص۱۷و۱۸
  15. جناتی، ص۲۶- ۳۱
  16. ابن خلدون، مقدمہ، بہ نقل از جناتی، ص۲۹
  17. گرجی، ص۱۱۷
  18. گرجی، ص۱۱۷-۱۲۲
  19. گرجی، ص۱۲۳-۱۲۵
  20. گرجی، ص۱۴۰-۱۴۱
  21. گرجی، ص۱۸۰-۱۸۳
  22. گرجی، ص۱۲۳
  23. گرجی، ص۲۲۴-۲۲۷
  24. ربانی، ص۹۹-۱۲۹
  25. گرجی، ص۲۲۷
  26. گرجی، ص۲۲۸
  27. ربانی، ص۱۴۵-۲۲۲
  28. گرجی، ص۲۲۸-۲۳۷
  29. ربانی، ص۱۴۱-۱۴۳
  30. گرجی، ص۲۳۷
  31. ر.ک: ربانی، ص۲۲۳-۲۶۰؛ گرجی، ص۲۳۸-۲۴۱
  32. گرجی، ص۲۵۹
  33. ربانی، ص۲۶۱-۲۹۲؛ نیز ر.ک: گرجی، ص۲۴۲
  34. گرجی، ص۲۶۵
  35. ربانی، ص۲۹۵-۲۹۸
  36. ربانی، ص۲۹۹-۳۲۴
  37. درآمدی بر چگونگی تکوین مکاتب فقہی در شیعہ
  38. کریمی نیا
  39. کریمی نیا
  40. ربانی، ص۱۸-۲۰
  41. ربانی، ص۲۱
  42. ربانی، ص۲۹
  43. ربانی، ص۳۲-۳۴
  44. ربانی، ص۲۲-۲۶
  45. ربانی، ص۲۶-۲۹
  46. ربانی، ص۳۱-۳۲
  47. ربانی، ص۳۴

مآخذ

  • خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • ربانی، محمد حسن، فقہ و فقہای امامیہ در گذر زمان، تہران، چاپ ونشر بین الملل، ۱۳۸۶ش.
  • کریمی نیا، محمد مہدی، آشنایی با مہم‌ترین مکاتب و دورہ‌ہای فقہی شیعہ، مجلہ معرفت، شمارہ ۹۳، ص۴۳-۵۹.
  • مشکینی، علی، اصطلاحات فقہی و اصولی، قم، الہادی، ۱۴۱۶ق، چاپ ششم.
  • مظفر، محمد رضا، اصول فقہ، قم، اسماعیلیان، ۱۳۷۵ش، چاپ پنجم.
  • مظفر، محمدرضا، اصول فقہ، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چ۴، ۱۳۷۰ش.
  • شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، بی‌تا.
  • جناتی، محمد ابراہیم، ادوار فقہ و کیفیت بیان آن، تہران، موسسہ کیہان، ۱۳۷۴ش.
  • ابوزہرہ، محمد، تاریخ المذاہب الفقہیہ،‌دار الفکر العربی، ۱۹۷۱م.