مندرجات کا رخ کریں

قتل غیر عمد

ویکی شیعہ سے

قتل غیر عمد یا قتل خطائی اس غیر ارادی قتل کو کہا جاتا ہے جس میں قاتل نہ تو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فعل انجام دینے کا ارادہ رکھتا ہے جو قتل کا باعث بنتا ہے۔ کسی نابالغ یا پاگل شخص کے ذریعے ہونے والے قتل کو قتل خطائے محض کہا جاتا ہے۔ قتل خطائی میں قصاص نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو دیت دیتا ہے اور کفارہ بھی ادا کرے گا۔ قرآن مجید سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں بھی یہ مسئلہ بیان ہوا ہے۔

فقہاء کی نظر میں قتل خطائی کی دیت قتل عمد کے دیہ کے برابر ہے؛ لیکن اسے تین سال کے اندر ادا کیا جاتا ہے۔ نیز، قتل خطائی کی دیت بعض حالات میں عاقلہ (قاتل کے آبائی رشتہ دار) کے ذمے آتی ہے۔ مزید برآں، اگر قتل حرام مہینوں یا حرم مکی کے اندر واقع ہوجائے تو اس صورت میں دیت کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

مفہوم شناسی

قتل خطائی یا قتل غیر عمد شیعہ فقہ کے مسائل میں سے ایک ہے[1] جو ایسے غیر ارادی قتل کو کہا جاتا ہے جس میں قاتل نہ تو دوسرے کو مارنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔[2] غیر عمدی یا غیر ارادی قتل، قتل کی دیگر دو اقسام؛ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل) اور قتل شبہ عمد (نیم ارادی قتل) کے برخلاف ہے: اگر کوئی بالغ شخص کسی کو قتل کرنے کے ارادے سے مارے یا اس طرح سے مارے جو عام طور پر مہلک ہوتا ہے، تو یہ قتل عمد کہلاتا ہے، اور اگر وہ کسی کو ادب سیکھانے کے غرض سے یا شخصی مذاق کے طور پر مارتا ہے، لیکن وہ شخص اسی سے مر جاتا ہے تو اسے قتل شبہ عمد کہا جاتا ہے۔[3]

سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں غیر ارادی قتل اور اس کا حکم بیان ہوا ہے۔[4] فقہی اور قانونی مآخذ میں، غیر ارادی قتل کو "قتل خطائے محض" کہا جاتا ہے۔[5]

غیر ارادی قتل کے موارد

امام صادقؑ کی ایک روایت میں قتل خطائی (غیر ارادی قتل) کی مثال یوں دی گئی ہے کہ کوئی شخص شکار کی نیت سے تیر چلاتا ہے اور گولی کسی دوسرے شخص کو لگ کر وہ شخص مر جاتا ہے،[6] اس قسم کے قتل کو شبہہ کے بغیر والا قتل اور خطائی قتل بھی کہا جاتا ہے۔[7] کسی نابالغ یا پاگل شخص کے ذریعے کیے جانے والے قتل کو بھی قتلِ خطائی سمجھا جاتا ہے۔[8] بعض اسلامی ممالک میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہونے والے قتل کو غیر ارادی قتل کے موارد میں سے قرار دیا جاتا ہے۔[9]

قتل خطائی کی سزا

فقہاء کے نزدیک اگر کوئی غلطی سے دوسرے کو قتل کر دے تو اس پر کوئی سزا نہیں ہوگی؛ بلکہ اس کی دیت کو تین سالوں کی قسطوں میں ادا کرنا ہوگا،[10] اور اس کے علاوہ کفارہ کے طور پر ایک غلام آزاد کرے گا اور اگر غلام آزاد نہ کر سکے تو دو مہینے روزے رکھے گا، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا۔[11] شیعہ فقیہ، حسین علی منتظری کے مطابق، سورہ نساء کی آیت نمبر 92 اور معصومینؑ کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قتل خطائی کی دیت میں کوئی تعزیری پہلو نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ، یہ صرف نقصانات کی تلافی اور اسی طرح کے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے بنایا گیا۔[12]

قتل خطائی کی دیت دینے کا طریقہ

فقہاء کے مطابق، اگر قتل خطائی قاتل کے اقرار یا اس کے حلف سے انکار، یا قسامہ کے ذریعے ثابت ہو جائے [یادداشت 1] تو خون بہاء اور دیت کی رقم اس کے اپنے ذمے ہے۔[13] تاہم اگر قتل گواہی سے ثابت ہو جائے یا قاتل نابالغ یا پاگل ہو تو مقتول کے خون کی رقم اس کی عاقلہ (قاتل کے آبائی رشتہ دار) کے ذمے ہے۔[14]

دیت کا بڑھ جانا

تَغلیظ دیہ کا مطلب دیت کا بڑھ جانا ہے۔[15] فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق، اگر قتل مقدس مہینوں میں یا حرم مکہ میں انجام پائے تو مقتول کے خون کی رقم میں ایک تہائی اضافہ کیا جاتا ہے۔[16] شیخ صدوق کہتے ہیں کہ قاتل پر حرام مہینوں میں سے دو مہینے روزہ رکھنا بھی واجب ہے۔[17] دوسری طرف، بعض فقہا، جیسے ناصر مکارم شیرازی، کا کہنا ہے کہ دیت کا بڑھ جانا صرف قتل عمد سے مربوط ہے اور یہ حکم قتل خطائی اور قتل شبہ عمد میں جاری نہیں ہوتا ہے۔[18]

قتل خطائے محض میں قاتل کا ارث لینا

کتاب فرہنگ فقہ کے مطابق بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قاتل اگر مقتول سے ارث لینے والا ہو تو قتل خطائی میں قتل عمد کی طرح قاتل مقتول سے ارث نہیں لے سکتا ہے[19] دوسری طرف، صاحب جواہر جیسے فقہا کا کہنا ہے کہ قتل خطائی کسی بھی صورت میں‌ ارث لینے میں مانع نہیں بن سکتی ہے۔[20]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. خاوری، واژہ‌نامہ تفصیلی فقہ جزا، 1384شمسی، ص217؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج42، ص 18؛ خمینی،‌ تحریرالوسیلہ (چاپ قدیم)، 1379شمسی، ص937۔
  2. نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج42، ص 18. خمینی،‌ تحریرالوسیلہ (چاپ قدیم)، 1379شمسی، ص937۔
  3. مشکینی، نوشتارہای فقہی، 1392شمسی، ص243۔
  4. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج4، ص244؛ مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، 1374شمسی، ج‏4، ص64۔
  5. قطب‌الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص414؛ «مادہ 289 قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی؛ احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص101 و 102۔
  6. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1363شمسی،‌ ج4، ص105۔
  7. خاوری، واژہ‌نامہ تفصیلی فقہ جزا، 1384شمسی، ص217۔
  8. خمینی،‌ تحریرالوسیلہ (چاپ قدیم)، 1379شمسی، ص937۔
  9. «قانون بیمہ اجباری خسارات واردشدہ بہ شخص ثالث در اثر حوادث ناشی از وسایل نقلیہ»، مادہ 15، سایت مرکز پژوہشہای مجلس۔
  10. خمینی،‌ تحریرالوسیلہ (چاپ قدیم)، 1379شمسی، ص939۔
  11. فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1425ھ، ص499؛ رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ بروجری، بخش احکام دیہ، مسئلہ 2810؛ رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ بہجت، بخش احکام دیہ، مسئلہ 2272؛ رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ تبریزی، بخش احکام دیہ، مسئلہ 2809۔
  12. منتظری، پاسخ بہ پرسشہایی پیرامون مجازاتہای اسلامی...، 1387شمسی، ص36-38۔
  13. خاوری، واژہ‌نامہ تفصیلی فقہ جزا، 1384شمسی، ص217۔
  14. مشکینی، نوشتارہای فقہی، 1392شمسی، ص256؛ خمینی،‌ تحریرالوسیلہ (چاپ قدیم)، 1379شمسی، ص972۔
  15. شعبانی، «عدم تغلیظ دیہ‌ی قتل خطایی در ماہ‌ہای حرام»، ص147۔
  16. فقیہی،‌ معرفۃ ابواب الفقہ،‌ 1383شمسی، ص244؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج15، ص320۔
  17. شیخ صدوق، المقنع، 1415ھ، ص515۔
  18. مکارم شیرازی، «حکم تغلیظ شدن دیہ در قتل»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  19. نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج39، ص37۔
  20. نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج39، ص 36۔

نوٹ

  1. جرم ثابت کرنے کے لیے اسلامی فقہ کے قبول کردہ طریقوں میں سے ایک قسامہ ہے۔ دیگر شواہد کی عدم موجودگی میں، مدعی، مخصوص حالات میں، جرم ثابت کرنے کے لیے مختلف افراد کی طرف سے اٹھائے گئے حلف کی ایک مخصوص تعداد کا استعمال کر سکتا ہے۔

مآخذ

  • ابن‌ ادریس، محمد بن منصور، السرائر، قم، جامعہ مدرسین، 1410ھ۔
  • توجہی، عبد العلی و امیر اعتمادی، «عاقلہ، ضامن جریرہ و بیمہ جنایات خطای محض بہ‌مثابہ منابع جبران خسارت» پژوہشنامہ حقوق اسلامی، شمارہ 41، بہار و تابستان 1394ہجری شمسی۔
  • خاوری، یعقوب، واژہ‌نامہ تفصیلی فقہ جزا، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، 1384ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌ اللہ، تحریر الوسیلہ (چاپ قدیم)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1379ہجری شمسی۔
  • داوودی، سعید، نقش فقہای شیعہ در حل مسائل مستحدثہ، قم، انتشارات امام علی بن‌ ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ بروجردی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ بہجت، بی‌جا، بی‌نا، 1386ہجری شمسی۔
  • رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ تبریزی، قم، نشر سرور، بی‌تا.
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • شعبانی، محمد حسین، «عدم تغلیظ دیہ‌ی قتل خطایی در ماہ‌ہای حرام»، فقہ و مبانی حقوق اسلامی، دورہ پنجاہ و سوم، شمارہ 1، بہار و تابستان 1399ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، پیام امام ہادی(ع)، 1415ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن‌ علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، 1363ش/1404ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویہ، 1387ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل، قم، امیر قلم، 1425ھ۔
  • فقیہی، محسن، معرفۃ أبواب الفقہ، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، 1383ش/ 1425ھ۔
  • «قانون بیمہ اجباری خسارات واردشدہ بہ شخص ثالث در اثر حوادث ناشی از وسایل نقلیہ»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس، تاریخ بازید: 24 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 21 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • «کتاب پنجم قانون مجازات اسلامی (تعزیرات و مجازات‌ہای بازدارندہ)»، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازید 24 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • مشکینی اردبیلی، علی، نوشتارہای فقہی، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، «حکم تغلیظ شدن دیہ در قتل»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: 23 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسین علی، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ایران، ارغوان دانش، 1387ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسین علی، پاسخ بہ پرسش‌ہای دینی، قم، دفتر آیت‌ اللہ العظمی منتظری، 1389ہجری شمسی۔
  • نجفی (صاحب جواہر)، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت، 1382ہجری شمسی۔