محارم سے زنا

ویکی شیعہ سے
(محارم کے ساتھ زنا سے رجوع مکرر)

محارم سے زنا سے مراد ان لوگوں کے ساتھ مباشرت ہے جن سے رشتہ داری کی وجہ سے نکاح حرام ہے۔ زنا کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس فعل کی بدترین قسم مَحرموں کے ساتھ زنا کرنا ہے۔ قرآن پاک کے علاوہ دیگر آسمانی مذاہب اور مقدس کتابوں میں بھی محارم کے ساتھ شادی اور جنسی تعلقات کی ممانعت ہے۔

شیعہ فقہاء نے اجماع اور معصومینؑ کی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ محارم سے زنا کے مرتکب شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے اور اس حکم میں مجرم بوڑھا ہو یا جوان، شادی شدہ ہو یا کنوارہ، کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ بعض اہل سنت علما سے منقول ہے کہ وہ ایسے جرم کے مرتکب افراد کو تعزیر (حد سے کم سزا) کرتے ہیں۔

شیعہ فقہا میں سے صاحب جواہر (متوفی: 1266ھ) کے مطابق، قتل کی سزا (پھانسی) نسبی رشتہ داروں، جیسے بہن اور ماں کے ساتھ زنا سے متعلق ہے، نیز سببی (باپ کی بیوی کے علاوہ) اور رضاعی مَحرَموں کے ساتھ زنا کی سزا دیگر زنا کے مرتکب افراد کی سزا ہے۔

مفہوم و اہمیت

زنا مرد اور عورت کے درمیان ناجائز جنسی تعلق ہے[1] اور مَحارِم کے معنی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے نکاح حرام ہے۔[2] قرآن میں زنا کو فحشا سے ذکر کیا ہے[یادداشت 1] اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔[3] اس برے عمل میں سب سے بدتر مَحارم سے زنا کرنا ہے۔[4]

دیگر الہی ادیان میں بھی محارم سے زنا کی ممانعت ہے۔[5] یہودیوں کی مقدس کتاب تورات میں بعض مَحارِم کا ذکر کرتے ہوئے ان سے جنسی تعلق سے پرہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے[6] اور ماں کے ساتھ آمیزش کی سزا جرم کرنے والے کو جلانا ہے۔[7] سورہ نساء کی آیت نمبر 23 میں محارم کے مصادیق بیان کیا ہے جن میں ماں، بہن، بیٹی، خالہ اور چچا شامل ہیں اور ان سے نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔[8]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: زنا اور محارم

محارم سے زنا کی سزا

شیعہ فقہاء کا خیال ہے کہ جو کوئی بھی اپنے محارم کے ساتھ زنا کرتا ہے اس کی سزا موت (پھانسی) ہے[9] اور انہوں نے اس معاملے میں اجماع اور بعض احادیث کا حوالہ دیا ہے۔[10] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) کے مطابق اس حکم میں بوڑھے اور جوان میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔[11]

پانچویں صدی ہجری کے فقیہ سید مرتضیٰ (وفات: 436ھ) ایسی سزا کے نفاذ کو شیعہ فقہ کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بعض سنی علماء جیسے ابو حنیفہ (وفات: 150) کا حوالہ دیا ہے کہ وہ ایسے جرم کے مرتکب کو تعزیر (حد سے کم سزا) کا مستحق سمجھتے ہیں۔ .[12] مالک بن انس اور شافعی (متوفی: 179ھ) بھی کہتے ہیں کہ اس پر زنا (جیسے کوڑے) کی حد لگائی جائے گی۔[13]

نسبی اور دیگر محارم میں فرق

شیعہ فقیہ صاحب جواہر (متوفی: 1266ھ) سزائے موت کو نسبی محارم یعنی بہنوں اور ماؤں جیسے رشتہ داروں کے ساتھ زنا کرنے سے مختص قرار دیتے ہیں اور اسے علماء کے اجماع اور معصومین کی احادیث سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔[14] انہوں نے ایک حدیث نقل کی ہے اور صحیح قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی نسَبی رشتہ دار کے ساتھ زنا کرنے والے کو حکومت کی طرف سے سزائے موت دی جائے گی۔[15]

صاحب جوہر کا خیال ہے کہ ایسی روایات سے تبادر (سب سے پہلی چیز جو ذہن میں آتی ہے) یہ ہوتا ہے کہ یہ سزا نسبی رشتہ داروں کے ساتھ زنا سے مخصوص ہے۔ لہٰذا، اسلام میں انسانی زندگی کے تحفظ کی اہمیت کے پیش نظر، اس سزا کا اطلاق سببی اور رضاعی محارم پر نافذ نہیں ہوتا ہے؛ [بلکہ ان کی سزا وہی ہے جو زنا کے دوسرے مرتکب لوگ کو دی جاتی ہے] سوائے باپ کی بیوی کے، جس کے بارے میں ایک خاص حدیث نقل ہوئی ہے[16] اور اس کے ساتھ زنا کرنے والے کو سنگسار کرنے کے لائق سمجھا گیا ہے۔[17] ان کے مطابق پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے فقہا ابن ادریس، ابن زہرہ اور ابن حمزہ اس رائے سے متفق ہیں۔[18] بعض اسلامی ممالک کے قوانین میں بھی نَسبی محارم سے زنا کی سزا پھانسی قرار دی گئی ہے[19] جبکہ بعض غیر اسلامی ممالک کے قوانین میں بھی مَحرم کے ساتھ جنسی تعلقات کے لئے شدید سزا معین کی گئی ہے۔[20] فرانسیسی پینل کوڈ کے آرٹیکل 24 کے تحت عصمت دری کے لیے 15 سال قید اور اگر یہ رابطہ مَحرم کے ساتھ ہو تو 20 سال قید کی سزا معین کی گئی ہے۔[21]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص136؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص475۔
  2. فراہیدی، العین، ذیل واژہ «حرم»۔
  3. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص258؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص475؛ خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1408ھ، ج1، ص274۔
  4. دارابی و رضوی اصل، «واکاوی حد قتل در زنا با محارم بہ نسب نامشروع»، ص104۔
  5. دارابی و رضوی اصل، «واکاوی حد قتل در زنا با محارم بہ نسب نامشروع»، ص104۔
  6. کتاب مقدس، کتاب لاویان، فصل 18، آیات 6-18۔
  7. کتاب مقدس، کتاب لاویان، فصل 20، آیہ14۔
  8. سورہ نساء، آیہ23۔
  9. حسینی و حیدری، «تأثیر خویشاوندی در جرم زنا»، ص103؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج3، ص365؛ تبریزی، استفتاءات جدید، دفتر آیت اللہ تبریزی، ج1، ص425۔
  10. حسینی و حیدری، «تأثیر خویشاوندی در جرم زنا»، ص103۔
  11. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص693۔
  12. سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص524؛ ابن قدامہ، المغنی، 1388ھ، ج9، ص55۔
  13. سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص524؛ ابن قدامہ، المغنی، 1388ھ، ج9، ص55۔
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص309۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص190، حدیث 1؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص309۔
  16. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص311-312۔
  17. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج10، ج48، حدیث 180؛ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج28، ص115، حدیث 9۔
  18. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص311۔
  19. حسینی و حیدری، «تأثیر خویشاوندی در جرم زنا»، ص116۔
  20. حسینی و حیدری، «تأثیر خویشاوندی در جرم زنا»، ص116۔
  21. حسینی و حیدری، «تأثیر خویشاوندی در جرم زنا»، ص116۔

نوٹ

  1. وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَاءَ سَبِیلًا. (سورۂ اسراء، آیہ32)

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، تحقیق: عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتب العربی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ابن حمدون، محمد بن الحسن، التذکرۃ الحمدونیہ، بیروت، دار صادر، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ابن سعد، محمد، طبقات الکبری، تحقیق: علی محمد عمر، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، چاپ اول، 1421ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، تحقیق: عبداللہ ترکی، جیزہ، دار ہجر، چاپ اول، 1418ھ۔
  • ابوالفرج صفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق: احمد صقر، بیروت، دار المعرفہ، بی تا.
  • الجد، حیدر، لیلی بنت معسود النہشلیہ زوج امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، نجف، مؤسسۃ مسجد السہلہ المعظمہ، چاپ اول، 1435ھ۔
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، قم، دار الکتاب، چاپ اول، 1410ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق: مؤسسہ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • قبادیانی، ناصرخسرو، سفرنامہ ناصرخسرو، قم، مکتبۃ اہل البیت، بی تا.