ام ولد
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
ام ولد اس کنیز کو کہا جاتا ہے جو اپنے مالک سے صاحب اولاد ہوئی ہو۔ ام ولد سے پیدا ہونے والا بچہ آزاد شمار ہو گا اور اس کی ماں کی غلامی اس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ شیخ مفید کے مطابق شیعہ ائمہؑ میں سے امام سجادؑ اور امام زمانہؑ سمیت سات اماموں کی والدہ ماجدہ ام ولد تھیں۔
فقہ میں کنیز کے ام ولد ہونے کے لئے کچھ شرائط مقرر کی گئی ہیں من جملہ یہ کہ اس بچے کا باپ غلام نہ ہو اور کنیز بھی خود اس بچے کے باپ کی ملکیت میں حاملہ ہو گئی ہو۔ فقہی منابع میں لفظ استیلاد کے ذریعے بھی ام ولد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کسی کنیز کا اپنے مالک سے صاحب اولاد ہونے سے اس کنیز کی بنسبت مالک کے اختیارات میں محدودیت آجاتی ہے؛ اسی بنا پر مالک ام ولد کو فروخت یا ہبہ نہیں کر سکتا۔ ام ولد مالک کی وفات کے بعد اپنی اولاد کو ارث میں ملے گی جس کے بعد وہ آزاد ہو گی۔
تعریف اور اہمیت
ام ولد اولاد کی ماں کے معنی میں اس کنیز کو کہا جاتا ہے جو اپنے مالک سے صاحب اولاد ہوئی ہو۔[1] فقہی کتابوں میں لفظ استیلاد کے ذریعے بھی ام ولد اور اس کے احکام کی طرف اشاہ کیا جاتا ہے۔[2] استیلاد یعنی صاحب اولاد ہونے کے معنی میں اس کنیز کے لئے استعمال کرتے ہیں جو اپنے مالک سے صاحب اولاد ہوئی ہو۔[3] فقہ کے مختلف ابواب من جملہ تجارت، وصیت، طلاق، ارث اور قصاص میں اس سے بحث ہوتی ہے۔[4] البتہ استیلاد حاملہ ہونے کی صلاحیت رکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے اس وقت اس میں مرد عورت، آزاد اور غلام سب شامل ہونگے اور استیلاد کے احکام باب نکاح میں آیا ہے۔[5]
شیخ مفید کے مطابق شیعہ ائمہؑ میں سے سات ائمہ کی والدہ ماجدہ ام ولد تھیں اور ان کے نام یہ ہیں: شہربانو، امام سجادؑ کی والدہ ماجدہ،[6] حمیدہ، امام کاظمؑ کی والدہ ماجدہ،[7] ام البنین، امام رضاؑ کی والدہ ماجدہ،[8] سبیکہ، امام جوادؑ کی والدہ ماجدہ،[9] سمانہ، امام ہادیؑ کی والدہ ماجدہ[10]، حدیث، امام حسن عسکریؑ کی والدہ ماجدہ[11] اور نرجس، امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ۔[12]
ام ولد کی بحث غلام اور کنیز کی بحث کی طرح موجودہ زمانے میں مورد ابتلاء نہ ہونے کی وجہ سے فقہی کتابوں سے حذف ہو گئی ہے۔[13] مثلا کے طور پر کتاب فقہ الجواہر جو کتاب جواہر الکلام کا اقتباس ہے، سے غلام اور کنیز کی بحث حذف ہو گئی ہے۔[14]
شرائط
ام ولد کا عنوان کسی کنیز پر صدق آنے کے لئے فقہی کتابوں میں کچھ شرائط ذکر کی گئی ہیں:
- بچے کے والد کا آزاد ہونا؛ اس بنا پر اگر کوئی غلام کسی کنیز سے شادی کرے اور اس سے کنیز حاملہ ہو جائے تو ام ولد کا عنوان اس کنیز پر صدق نہیں آئے گا۔[15]
- کنیز بچے کے باپ کی ملکیت میں حاملہ ہو؛ اس بنا پر اگر کوئی شخص کسی اور شخص کی کنیز کے ساتھ شادی کرے اور وه کنیز حاملہ ہو جائے اور حاملہ ہونے کے بعد وہ اس کنیز کا مالک بنے تو اس صورت میں بھی یہ کنیز ام ولد شمار نہیں ہوگی۔[16]
- جنین سالم ہو: اس بنا پر اگر مذکورہ شرائط کے ساتھ کوئی کنیز حاملہ ہو جائے لیکن اس کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے سقط ہو جائے صرف اس صورت میں یہ کنیز ام ولد شمار ہو گی جب ماہرین بچے کی خلقت مکمل ہونے یعنی انسانی شکل اختیار کر جانے کی گواہی دے؛ وگرنہ یہ ام ولد کا عنوان اس پر صدق نہیں آئے گا۔[17]
احکام
ام ولد اور اس کی اولاد کے باری میں فقہی کتابوں میں مخصوص احکام ذکر ہوئے ہیں۔
- کسی کنیز کا صاحب اولاد ہونے سے اس کی نسبت مالک کے اختیارات میں محدودیت آ جاتی ہے؛[18] اس بنا پر ام ولد کو فروخت کرنا یا ہبہ کرنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ مالک کنیز کی قیمت کا مقروض ہو اپنا قرضہ صرف اس کنیز کو فروخت کئے بغیر ادا نہ کر سکتا ہو۔[19]
- ام ولد سے متولد ہونے والا بچہ آزاد ہو گا اور اس کی ماں کی غلامی اس پر اثر انداز نہیں ہو گی۔[20]
- ام ولد مالک کی وفات تک کنیز رہے گی اور مالک کی وفات کے بعد اپنی اولاد کے ارث میں آنے کی وجہ سے آزاد ہو گی؛ لیکن اگر اس کی اولاد کسی مانع کی وجہ سے ارث سے محروم ہو جائے تو یا باپ سے پہلے مر جائے تو ام ولد مالک کی وفات کے بعد بھی کنیز ہی رہے گی۔[21]
- ام ولد کو مالک سے بطور مستقیم ارث نہیں ملے گا۔[22] لیکن مالک ام ولد کے لئے کسی چیز کی وصیت کر سکتا ہے۔[23]
- مالک کی وفات کے بعد ام ولد چار ماہ دس دن عدت گزارے گی۔[24]
حوالہ جات
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۴۲۰، ج۴، ص۲۸۵۔
- ↑ مجلسی، یک دورہ فقہ کامل، ۱۴۰۰ق، ص۱۷۱؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۷۴۔
- ↑ مجلسی، یک دورہ فقہ کامل، ۱۴۰۰ق، ص۱۷۱۔
- ↑ أنصاری، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۶۵؛ ہاشمی شاہرودی، المعجم الفقہی لکتب الشیخ الطوسی، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۸۴؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۷۴-۴۷۵۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۷۵۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۷۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۵۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۷۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳۔
- ↑ مفید، إرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ۳۳۹۔
- ↑ «فقہ الامام الصادق(ع) اثری ارزشمند در فقہ شیعی»، ص۲۹۰۔
- ↑ معرفی کتاب فقہ الجواہر المنتقی من جواہر الکلام سایت دانشگاہ علوم اسلامی رضوی۔
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیہ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۴، ص۳۷۲-۳۷۳؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۷۵۔
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیہ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۶؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۴، ص۳۷۲-۳۷۳؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۷۵۔
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیہ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۶-۲۸۷۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶، ج۱، ص۴۷۵۔
- ↑ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۷؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۳۷۲؛ نجفی، جواہر الكلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۲، ص۳۷۳ و ج۳۴، ص۳۷۸۔
- ↑ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۵۔
- ↑ طوسی، المبسوط، المکتبہ المرتضویہ، ج۶، ص۱۸۶؛ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۲۸۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۴، ص۳۷۷۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۹، ص۶۱۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۴، ص۳۸۲۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناظرہ، ۱۴۰۵ق، ج۲۵، ص۵۱۰-۵۱۴؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۳۱۶-۳۱۸۔
مآخذ
- انصاری، محمد علی، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ، قم، مجمع الفكر الإسلامی، ۱۴۱۵ھ۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحكام العترۃ الطاہرۃ، قم انتشارات اسلامی، ۱۴۰۵ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، کتابفروشی داوری، ۱۴۱۰ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط، بہ تحقیق: محمد باقر بہبودی، تہران، المکتبہ المرتضویہ، بیتا۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحكام الشرعیۃ على مذہب الإمامیۃ، محقق ابراہیم بہادری، قم، موسسہ امام صادق، ۱۴۲۰ھ۔
- «فقہ الامام الصادق(ع) اثری ارزشمند در فقہ شیعی»، فقہ، ش۳، بہار۱۳۷۴ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد تقی، یک دورہ فقہ کامل، تہران، انتشارات فراہانی، ۱۴۰۰ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
- ہاشمی شاہرودی، سید محمود، المعجم الفقہی لکتب الشیخ الطوسی، قم، موسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، موسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی، ۱۴۲۶ھ۔