احتکار

ویکی شیعہ سے
(ذخیرہ اندوزی سے رجوع مکرر)

احتکار ضروری چیزوں کو اس امید سے ذخیرہ اندوزی کرنا تاکہ بازار میں نایاب ہونے کے بعد مہنگے داموں بیچ سکے۔ شیعہ مشہور فقہاء نے احتکار کو ضروری چیزیں خاص کر خورد و نوش کے اشیاء میں قرار دیتے ہوئے اسے حرام قرار دیا ہے۔ لیکن بعض فقہاء نے اس کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے معاشرے کے لیے ضروری اشیاء میں سے کسی بھی چیز کو ذخیرہ کر کے رکھنے کو احتکار قرار دیا ہے۔

مفہوم‌شناسی

بازار میں کمیاب اور لوگوں کی ضرورت کی چیزوں کو ان کی قیمت بڑھ جانے کی امید سے ذخیرہ اندوزی کرنے کو احتکار کہا جاتا ہے۔[1] بعض نے احتکار کی تعریف میں خرید کی قید بھی اضافہ کیا ہے یعنی چیزوں کو خرید لے اور پھر بیچنے سے اجتناب کرے جبکہ لوگوں کی ضرورت بھی ہو اور بازار سے ناپید ہو تو اسے احتکار کہتے ہیں۔ جبکہ بعض نے صرف چیزوں کو ذخیرہ اندوزی کر کے رکھنے کو احتکار کہا ہے وہ چیزیں جس طرح سے بھی اس تک پہنچی ہوں (جیسے زراعت یا تجارت سے حاصل کیا ہو) تو اسے احتکار کہتے ہیں۔[2] احتکار کرنے والے شخص کو مُحْتکر کہتے ہیں۔[3]ایک روایت میں پیغمبر اکرمؐ نے محتکر کو ملعون کہا ہے۔[4] فقہ کے باب بیع[5] حقوق اور اقتصاد میں میں احتکار اور اس سے مربوط احکام بیان ہوتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ روائی مصادر میں بھی احتکار سے مربوط ایک باب مخصوص ہے۔[6] شیخ انصاری نے اسے احتکار طعام (کھانے کی ذخیرہ اندوزی) کے عنوان سے بیان کیا ہے۔[7]

حکم

احتکار حرام یا مکروہ ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔[8]شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر چیزیں بازار میں ضرورت سے کم ہوں اور ان کا ذخیرہ کر کے رکھنے سے مسلمان بازار کو ضرر پہنچتا ہو تو ایسا احتکار حرام ہے۔[9] شہید اول نے احتکار طعام کو مکروہ تجارت کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔[10] لیکن اگر لوگوں کو اس کی ضرورت ہونے کی صورت میں شہید ثانی نے شرح لمعہ میں اسے حرام ہونے کو قوی سمجھا ہے اور شہید اول کی طرف نسبت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی کتاب دروس میں احتکار حرام ہونے کا قائل ہوئے ہیں۔[11]بعض فقہا کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوزی شدہ چیزوں کی طرف لوگ اگر محتاج ہوں اور بازار میں ملتی بھی نہ ہوں تو حاکم محتکر کو ان چیزوں کو بیچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔[12]لیکن ان چیزوں کی خود سے کوئی قیمت نہیں لگا سکتا ہے۔[13]

احتکار حرام ہونے کا فلسفہ نظام درہم برہم ہونے اور لوگوں کو عسر و حرج لازم آنے سے روکنا بیان ہوا ہے۔[14]

احتکار کی حرمت یا کراہت کے بارے میں شیعہ فقہا نے شیعہ روائی مصادر میں پیغمبر اکرمؐ اور امام صادقؑ سے منقول روایات[15] اور امام علیؑ کے عہد نامہ مالک اشتر[16] سے استناد کیا ہے جس میں احتکار سے روک تھام کرنے کا کہا گیا ہے۔[17] ایک روایت میں[یادداشت 1] کراہت کا لفظ استعمال ہوا ہے، بعض فقہاء نے اس لفظ سے حرام[18] اور بعض نے کراہت استنباط کیا ہے۔[19]

دائرہ کار

احادیث میں گندم، جو، خرما، کشمش اور تیل کے احتکار کا ذکر آیا ہے۔[20] اسی لیے علامہ مجلسی کے بقول شیعہ مشہور فقہاء نے انہی چیزوں میں احتکار کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور دیگر موارد ان میں شامل نہیں کیا ہے۔[21] بعض نے نمک بھی ان اجناس میں شامل کیا ہے۔[22]البتہ بعض روایات میں کلی طور احتکارِ طعام سے منع ہوا ہے۔[23]اور بعض امامیہ فقہا نے احتکار حرام ہونے کے حکم میں تمام غذائی چیزوں کا احتکار شامل ہونے کو بعید نہیں سمجھا ہے۔[24]جبکہ بعض نے اس میں تمام ضروری چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کو شامل کیا ہے، جیسے غذائی چیزیں، کپڑے اور مکان۔ آخری گروہ نے قاعدہ لاضرر، قاعدہ لاحرج اور احتکار سے مربوط روایت سے استناد ہے۔[25] بعض فقہا نے روایات میں ذکر شدہ موارد کو نمونہ اور مثال لیا ہے اور ان کو قضایاے خارجی قرار دیا ہے قضایاے حقیقی نہیں، لہذا ان کا کہنا ہے کہ احتکار روایت میں مذکورہ موارد سے مختص نہیں ہے بلکہ اس کے موارد کا تعیین حکومتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔[26]

ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا ، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے اور خریدو فروخت صحیح ترازؤوں اور مناسب نرخوں کے ساتھ بسہولت ہونا چاہئے کہ نہ بیچنے والے کو نقصان ہو اور نہ خریدنے والے کو خسارہ ہو ۔اس کے بعد بھی کوئی ذخیرہ اندوزی کے جرم کا مرتکب ہو تو اُسے مناسب حد تک سزا دینا۔

مآخذ، نہج البلاغہ

سزا

آیات اور روایات میں محتکر کی سزا واضح طور پر بیان نہیں ہوئی ہے اسی لیے بعض نے عہدنامہ مالک اشتر سے استناد کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کرنے والی کی سزا تعزیر قرار دیا ہے جس کی کیفیت اور مقدار حاکم شرع معین کرے گا۔[27] اور مختلف ممالک کے قوانین میں بھی احتکار کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[28]

نوٹ

  1. فَإِنَّهُ يُكْرَهُ أَنْ يَحْتَكِرَ الطَّعَام‏

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۰۸.
  2. امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۶۱۱.
  3. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۰۸.
  4. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۶۵.
  5. شیخ انصاری، المکاسب المحرمہ، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹۴؛ امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۶۱۱.
  6. مثال کے طور پر مراجعہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۶۴-۱۶۵؛ طوسی، تهذیب الاحکام، ج۷، ص۱۵۸-۱۶۳.
  7. شیخ انصاری، المکاسب المحرمہ، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹۴.
  8. مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۹، ص۱۵۴.
  9. مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۹، ص۱۵۴-۱۵۵.
  10. شهید اول، المعۃ الدمشقیۃ، ۱۴۱۰ق، ص۱۰۴.
  11. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۲۱۸.
  12. ابن فہد حلی، المہذب، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۷۰.
  13. قطب راوندی، فقہ القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۲.
  14. محقق داماد، «احتکار»، دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۶۴۲.
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۶۴.
  16. نہج البلاغہ، نامہ ۵۳.
  17. حسینی عاملی، مفتاح الکرامه، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۰۷.
  18. بحرانی، الحدائق الناضره، ۱۴۰۵ق، ج۱۷، ص۶۱؛ شیخ انصاری، المکاسب المحرمه، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹۵.
  19. مراجعہ کریں: حسینی عاملی، مفتاح الکرامہ، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۰۷.
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۶۴.
  21. مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۹، ص۱۵۴-۱۵۵.
  22. قطب راوندی، فقہ القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۲.
  23. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۷، ص۱۵۹-۱۶۲.
  24. اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۴۲۲ق، ص۳۲۸-۳۲۹.
  25. محقق داماد، تحلیل و بررسی احتکار از نظرگاه فقه اسلام، ۱۳۶۲ش، ص۵۵.
  26. حائری، ابتغاء الفضیلہ، انتشارات طباطبایی، ج۱، ص۱۹۶، به نقل از محقق داماد، «احتکار»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۶۴۲-۶۴۳.
  27. محقق داماد، «احتکار»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۶۴۳-۶۴۴.
  28. محقق داماد، «احتکار»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۶۴۳-۶۴۴.

مآخذ

  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، المہذب البارع فی شرح المختصر النافع، تصحیح: مجتبی عراقی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دارالفکر-دارصادر، ۱۴۱۴ھ۔
  • اصفہانی، ابوالحسن، وسیلۃ النجاۃ، شارح: امام خمینی، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۲۲ھ۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، کتاب البیع، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۲۱ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرہ فی احکام العترۃ الطاہرہ، تصحیح: محمدتقی ایروانی - سید عبدالرزاق مقرم، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۵ھ۔
  • حائری، مرتضی، ابتغاء الفضیلہ، قم، انتشارات طباطبایی، بی‌تا.
  • حسینی عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح القواعد العلامہ، تصحیح: محمدباقر حسینی شہیدی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیہ فی فقہ الامامیہ، تصحیح: محمدتقی مروارید و علی‌اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث، ۱۴۱۰ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، شارح: سید محمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، ۱۴۱۰ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، المکاسب المحرمہ و البیع و الخیارات، تصحیح: مجمدجواد رحمتی و سید احمد حسینی، قم، منشورا دار الذخائر، ۱۴۱۱ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق: حسن موسوی خرسان، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن عبداللہ، فقہ القرآن، تصحیح: سید احمد حسینی، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی، ۱۴۰۵ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار الرسول، تصحیح: سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۴ھ۔
  • محقق داماد، «احتکار»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۳شمسی ہجری۔
  • محقق داماد، مصطفی، تحلیل و بررسی احتکار از نظرگاہ فقہ اسلام، تہران، ۱۳۶۲شمسی ہجری۔